مجھے زندگی میں دو عیدالاضحی پردیس میں منانے کا موقع ملا، ایک تو سن 2016میں حج کے موقع پر، وہ ایک عظیم سعادت تھی۔ جس پر ساری عمر فخر رہے گا۔ دوسری اس سے گیارہ سال پہلے انڈونیشیا میں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ سن 2004کے اواخرمیں انڈونیشیا سمیت مشرق بعید کے ملکوں میں سونامی نے تباہی مچا دی تھی،اُس خوفناک زلزلے ا ور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے تین لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ مجھے اس کی نیوز کوریج کا نادر موقع ملا، اگرممکن ہوا تو اس کا احوال پھر کبھی سناؤں گا۔
اپنی پاکستان ٹیلی ویژن کی نیوز ٹیم کے ساتھ میں نے 10 جنوری سے 26جنوری 2005تک انڈونیشیا میں سونامی کی کوریج کی تھی۔ یوں تو انڈونیشیا تین ہزار سے زائد چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ایک خوبصورت ملک ہے، لیکن اس کے دو بڑے جزیرے جاوا اور سماٹرا ہیں۔ سونامی نے سماٹرا کے وسیع علاقوں میں تباہی و بربادی پھیلائی تھی۔ وہاں کے مناظر دیکھ کر دل ہول گیا تھا اور خوف کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔
ہمارا سفر پاک فوج کے سی ون تھرٹی (C-130) طیارے میں پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ ہوا تھا۔سفر کے دوران پاک فوج کے افسروں خاص طورپر ونگ کمانڈر سہیل نعیم نے بہت عزت دی، کیونکہ وہ پی ٹی وی پر میری نیوز رپورٹس دیکھتے رہنے کی وجہ سے مجھ سے واقف تھے۔ وہی کیا پاک فوج کے بہت سے اعلیٰ افسران اورسپاہی پی ٹی وی کی نیوز رپورٹس کی وجہ سے مجھ سے واقف تھے اور میں اسے اپنے لئے بڑا اعزاز تصور کرتا ہوں۔
انڈونیشیا میں ہمارا قیام بنداآچے میں ہوا، وہ بندرگاہ ہے، اگرچہ غیرمعروف ہے لیکن بہت ترقی یافتہ شہر ہے۔نصف سے زائد شہر سونامی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا۔ پاک فوج کے تعاون سے ہم وہاں سونامی کی کوریج کرتے رہے کیونکہ پاک فوج ہی وہاں امدادی کام انجام دے رہی تھی۔ وہ ایک الگ کہانی ہے، اپنے قیام کے آخری دنوں میں ہم وہاں اپنے وطن کی امدادی ٹیم کے سربراہ کرنل مشتاق کے ساتھ ایک اور بندرگاہ لوک سماوے گئے جہاں پاک بحریہ کے جہاز معاون اور خیبر امدادی سامان لے کر آرہے تھے۔کراچی میں پہلے بھی پاک بحریہ کے جہاز معاون کے اندر جانے کا اتفاق ہوا ٗ مگر اتنی تفصیل سے پہلی بار دیکھا۔
شام تک اپنے کاموں سے فارغ ہوئے تو کرنل مشتاق نے انڈونیشی فوج کے ایک کرنل سے ملوایا، تھوڑی دیر بعد ہی ہم ان کے ساتھ انڈونیشی فوج کی شاندار گاڑیوں میں بیٹھے۔ تقریباً چالیس پچاس منٹ کے سفر کے بعد ہم ایک ہوٹل نما شاندار عمارت میں پہنچے ٗ معلوم ہواکہ وہ انڈونیشی فوج کی Messہے،اندر گئے تو وہ کسی اعلیٰ معیار کے ہوٹل جیسی عمارت تھی، ہم اس کے کمروں میں پہنچے تو بے حد مزا آیا ٗ وی آئی پی اسٹائل کے اتنے خوبصورت کمرے تھے کہ دل خوش ہوگیا۔ ہم اتنے دن سے زمین پر سورہے تھے ٗ چنانچہ بیڈ پر بہت مزا آیا۔
وہاں پاکستان کے ڈیفنس اتاشی کرنل انوار بھی آئے تھے، پی ٹی وی کے حوالے سے وہ بھی مجھ سے واقف تھے، مجھ سے کہنے لگے کہ آپ ایک بار اور انڈونیشیا آئیں گے، میں نے کہا کہ یہ پیشگوئی آپ نے کیسے کی اور یہ کہ کیا آپ علم نجوم سے واقف ہیں؟ یہ سن کر وہ تھوڑی دیر ہنستے رہے اور پھر کہا کہ جو ایک بار انڈونیشیا آتا ہے ٗ دوبارہ ضرور آتا ہے،اُن کی اس پیشگوئی پر میں بے اختیار ہنس پڑا اور وہ شرمندہ ہوکر رہ گئے۔اُس رات آرام دہ بستر اور خوابناک ماحول میں بہت مزے کی نیند آئی،میں نے دعا کی کاش اس آرام دہ ماحول میں ایک رات سونے کو او رمل جائے۔
اگلی صبح سویرے پی این ایس معاون پہنچے۔ وہاں سے لوک سماوے شہر گھومنے نکل کھڑے ہوئے ٗ بہت خوبصورت شہر ہے ٗ اس کی اصل خوبصورتی اس کا فطری حسن ہے۔ وہاں کی مساجد سے تکبیر تشریق کی صدائیں مسلسل بلند ہورہی تھیں۔ انڈونیشیا کی مساجد میں 9 ذی الحجہ سے تکبیر تشریق شروع ہوتی ہے اور چار دن جاری رہتی ہے، تقریبا ً ہر وقت مساجد سے تکبیر تشریق کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں،جو بہت بھلی لگتی ہیں۔
اس دن لنچ کے بعد واپسی کا پروگرام بنا ٗ میں بوجھل قدموں اور اداسی کے ساتھ روانہ ہوا، ہم لوگ مختلف مقامات پر ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے گئے، مگر ہیلی کاپٹر نہیں آیا،حالانکہ ہیلی کاپٹر ہمارے ہی تھے ٗ مگر کوئی کنفیوژن ہوگیا تھا۔ میں نے اپنے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اُس نے میری دعا قبول کرلی اور ہمیں وہاں ایک رات اور قیام کا موقع مل گیا۔دعا تو قبول ہوگئی ٗ لیکن ایک نیا مسئلہ یہ ہوا کہ اگلے روز عید الاضحی تھی اور میرے کپڑے وغیرہ بندا آچے میں تھے۔ رات کو بازار سے شرٹ خرید کرلائے۔ اُس رات بہت دیر سے نیند آئی ٗ ذہن مختلف خیالات میں الجھ گیا،ہم لوگ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور دنیا کے اُس خطے میں عید الاضحی منارہے تھے، جہاں عام طور کوئی جانے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ گھر میں کیا ہورہا ہوگا؟ اور وہاں عید کی تیاریاں کیسی ہورہی ہوں گی؟ عید اگلے روز ہوگی یا ہوچکی ہوگی؟ غرض اسی طرح کے دیگر خیالات آتے رہے۔
اگلے روز یعنی21 جنوری کو عیدالاضحی تھی،اور وہ بھی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور انڈونیشیا کے دور افتادہ شہر میں،صبح ہی صبح اٹھ کر عید الاضحی کی نماز اپنی میس کے قریب واقع عیدگا میں ادا کی، انڈونیشیا جیسے دور دراز مسلم ملک اور خاص طور پر اُس کی بندرگاہ لوک سماوے میں عید الاضحی منانے کا یہ پہلا اور آخری موقع تھا،بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔
وہاں کے پیش امام کی وضع قطع مختلف تھی ٗ انہوں نے خا ص انڈونیشی طرز کی بش شرٹ پہنی ہوئی تھی،اس پر تہہ بند باندھ رکھا تھا اور سر پر سیاہ انڈونیشی ٹوپی تھی۔ اُنہوں نے ہمارے مولویوں کی طرح پہلے تومقامی زبان میں وعظ دیا ٗ پھر نمازپڑھائی، وہاں پیچھے کی جانب خواتین کی بھی صفیں تھی۔عام افراد نے بھی تہہ بند پر بش شرٹ پہن رکھی تھی، مجھے ان کا یہ انوکھا اور نرالا لباس دیکھ کر دل میں ہنسی آگئی۔
نمازعید کے بعدہم نے شاہانہ ناشتہ کیااور واپسی کے لئے نکل کھڑے ہوئے،ہیلی کاپٹر آیا اور ہمیں فوراً ہی لے کر نکل گیا۔ کرنل مشتاق جلد سے جلد وہاں پہنچنے کے لئے بے چین تھے، ہم بنداآچے کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو کئی آرمی افسروں نے ہمارا استقبال کیا۔ اپنے آرمی کیمپ میں ہم نے لنچ کیا،اُس دن عید کی مناسبت سے بریانی اور زردہ بنایا گیا تھا، اسلئے مزا آگیا۔یوں لگا کہ جیسے اپنے وطن میں عید منارہے ہوں،تقریباً تمام ہی فوجی افسروں اور جوانوں سے گلے ملے اور عید کی مبارکباد دی۔
چند روز بعد ایک خوبصورت صبح تیار ہوکر اپنے سامان سمیت ائرپورٹ پر اپنے آرمی کیمپ میں پہنچ گئے،دوپہر تک کرنل مشتاق اور دیگرفوجی افسروں سے گپیں لگاتے رہے،وہ اتنے طویل قیام کی وجہ سے دوست بن گئے تھے۔
لنچ کے بعد ہمارا C-130 طیارہ آگیا، خوش قسمتی سے اس مرتبہ بھی ونگ کمانڈر سہیل ہی ہمیں لینے آئے تھے، ہمارے ساتھ میجر مراد بھی واپس جارہے تھے،شام چار بجے ہمارے طیارے نے بنداآچے سے پرواز کی اور میں دل ہی دل میں اُس سرزمین کو الوداع کہہ رہا تھا،جہاں شاید دوبارہ آنا پھر کبھی نصیب نہ ہو۔اُس اداسی کے ساتھ ایک خوشی بھی تھی ٗ وہ یہ کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد خیریت کے ساتھ وطن واپس جارہے تھے۔ اسلئے کہ انڈونیشیا میں قیام کے دوران دن میں کئی کئی مرتبہ زلزلے کے زوردار جھٹکے آتے تھے۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ جس علاقے میں بڑا زلزلہ آئے ٗ وہاں کئی ماہ تک زلزلے کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے آتے رہتے ہیں۔ جنہیں آفٹر شاکس کہا جاتا ہے۔
ہم نے ایک رات سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ایک رات قیام کیا اور اگلے روز یعنی 26جنوری 2005کو ہمارے سی ون تھرٹی طیارے نے دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے پرواز کی اور چھ گھنٹے کے فضائی سفر کے بعد شام ساڑھے چھ بجے اسلام آباد پہنچے۔ بے حد یادگار سفر تھا ٗ ونگ کمانڈر سہیل اور عملے کے دیگر ارکان نے میرے ساتھ وی آئی پی سلوک کیا، ہرتھوڑی دیر بعد کیپٹن سہیل مجھے کاک پٹ میں بلواتے رہے۔ کبھی وہ مجھے جوس پلاتے اور کبھی باہر کے نظارے دکھاتے،مغرب کے وقت انہوں نے بڑا سہانا منظر دکھایا انہوں نے کہا کہ دیکھیں ٗ نیچے مغرب ہوچکی اور اندھیرا ہوگیا۔ مگر افق پر ابھی تک روشنی ہے۔ میں نے پوچھا کہ دن ہو یا رات جہاز رن وے پر ہمیشہ اُسی جگہ اترتا ہے،ایک انچ آگے پیچھے نہیں ہوتا ٗ اتنی accuracyکیسے ممکن ہے؟ انہوں نے بتایا کہ سب کچھ کمپیوٹرائز ہوتاہے،اس کے علاوہ اور بھی کام کی باتیں معلوم ہوئیں، مختصر یہ کہ بہت یادگار سفر تھا۔ انڈونیشیا میں گرم موسم کی وجہ سے میں نے صرف شرٹ پہن رکھی تھی ٗ سوئٹر سامان کے اندر تھا۔ جبکہ اسلام آباد میں شدید سردی پڑرہی تھی اور ہم نے جب لینڈنگ کی تو تیز پھوار پڑرہی تھی۔ اسلئے سردی کی وجہ سے کپکپی سوار ہوگئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور آفس کی گاڑی بھیج دی۔ حالانکہ آرمی افسروں نے مجھے جیکٹ دینے کی پیشکش کی تھی ٗوہ اپنے ساتھیوں کے لئے بہت سے جیکٹ لائے تھے۔ مگر میں نے غیرضروری تکلف کی وجہ سے منع کردیا تھا۔ خیر تھوڑی دیر میں آفس کی گاڑی آگئی اورہم لوگ ہوٹل پہنچ گئے۔ گرم گرم کافی پی، کمرے میں لحاف اوڑھ کر آرام کیا۔
چند روز اسلام آباد قیام کیا،اس دوران پی ٹی وی بھی گئے اور اپنے محسن اور ڈائریکٹر نیوز شکور طاہر سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ ایک روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (ISPR) کے دفاترگئے اور میجر مراداوردیگر دوستوں سے ملے۔کراچی روانگی سے ایک دن قبل اسلام آباد میں بہت بارش ہوئی۔جس سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا، وہ اسلام آباد کی سرد ترین رات تھی، لیکن رات کی خوبی یہ ہے کہ چاہے کتنی ہی تاریک ہو، کتنی ہی سرد اور کتنی ہی تکلیف دہ ہو ٗ گزر ہی جاتی ہے۔
29 جنوری کو دوگھنٹے کے آرام دہ سفر کے بعد رات ایک بجے گھر پہنچے،گھر کے تمام افراد خاص طور پر امی بہت ہی محبت سے ملیں،اُس سفر کے دوران میں اپنی امی سے دور نہیں رہا تھا انہیں روز فون کرتا رہا۔
تاہم انڈونیشیا کی اس عید کو کبھی نہیں بھول سکوں گا، جس میں ایک انفرادیت تھی، عید کی نماز تو اسی طرح ہوئی۔ ان کے لباس مختلف تھے، زبان مختلف تھی، نسل مختلف تھی، لیکن دین ایک ہی تھا، وہی جو ہمارا ہے۔ ایک اور خاص بات یہ کہ ان کی عید میں کسی گلی، محلے یا میدان میں قربانی کے جانور نظر نہیں آئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں قربانی کی رقم جمع کرادی جاتی ہے اور آپ چاہیں تو رسید دکھاکر اپنی قربانی کے جانور کا گوشت وصول کرسکتے ہیں۔ قربانی کا انتظام حکومت کے تحت مختلف کمپاؤنڈز میں ہوتا ہے۔ تاکہ شہروں اور قصبوں کو گندگی سے پاک وصاف رکھا جاسکے۔ عجب عید تھی، وہ بھی پردیس میں اپنوں سے دور، لیکن اس کا بھی اپنا ایک الگ مزا تھا اور کبھی کبھی اُس عید کو بھی یاد کرتا ہوں تو عجب سی مسرت اور سرور کا احساس رگ وپے میں اترتا چلا جاتا ہے۔