اجتماعی زندگی بخیر و عافیت اور سلامتی و دانش مندی سے گزارنا مشکل ترین کام ہے لیکن بغیر اجتماعی ذھنیت اور روش اختیار کئے ہوئے زندگی بسر بھی نہیں ہوپاتی ہے فرد اور خاندان کا تعلق و جوڑ اسی معاشرتی و تمدنی ذھنیت سے ہی ممکن العمل ہوسکتا ہے اور ماھرین عمرانیات و سماجیات کے مطابق دور جدید کے معاشروں اور ریاستوں کی تنظیم نو و تعمیر نو کی بنیاد گری اسی اجتماعی رویے اور قیادتوں کی گراں قدر خدمات انجام دینے کے باعث ہی بنتی ہیں۔ تیسری دنیا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں و فکری مکالمے کے اندر تازگی اور فرحت نہ ہونے کے باعث عوام اور خواص دونوں علمی و فکری افلاس و دانش مندی سے استفادہ کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ جماعت اسلامی پاکستان سے بھی پہلے برصغیر میں 1941ء میں بننے والی سیاسی و مذہبی تحریک ہے اس کی 80 سالہ طویل عرصے سیاست و اجتماعیت میں رہنے کے باوجود سیاسی و جمہوری روایات کو قبول نہ کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔ 13 مئی 2013ء اور 25 جولائی 2018ء کے دو قومی انتخابات میں پے در پے عبرتناک شکست کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے قیادت و اداروں نے جمہوری روایات و اقدار کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
25 جولائی 2021ء کو آزاد کشمیر کے ریاستی انتخابات میں جماعت اسلامی بڑے تلخ تجربات و احساسات کے بعد پاکستان جماعت اسلامی کی اپروچ اختیار کرتے ہوئے اپنے پلیٹ فارم اور نشان و جھنڈے تلے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ وسطی باغ آزاد کشمیر کے ریاستی حلقے میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے بنیادی لیڈرشپ میں سے جناب عبدالرشید ترابی صاحب نے ضلعی مجلس شوریٰ کے مشاورت سے تحریکِ انصاف کے امیدوار سردار تنویر الیاس کے حق میں ایک معاہدے کے تحت دستبردار ہو گئے ہیں جس کی تصدیق ضلع باغ آزاد کشمیر کے امیر جناب عثمان انور صاحب کے ویڈیو پیغام میں موجود ہے۔ ہمیں بحثیت مجموعی تفصیلات سے نہیں اس روئیے و فکری افلاس کی شکار تنظیم و قیادت سے ہے جنھوں نے بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخراج و توھین آمیز روئیے اختیار کرنے تک رسائی حاصل کی ہے جس پر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر ڈاکٹر خالد محمود احمد صاحب نے عیدالاضحی کے مبارک دن کے موقع پر ایک دن میں ہی آن لائن مشاورت کرنے کے بعد جناب عبدالرشید ترابی صاحب کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔
پریس کانفرنس کے دوران جناب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی زبان لڑکھڑاتے ہوئے ترابی صاحب کو امیر جماعت اسلامی کہا گیا اور پھر بڑے گھبراہٹ و خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر مشکل سے اپنی نیم ماندہ پریس کانفرنس اور ویڈیو پیغام پورا کیا یہ وہ نفسیاتی اور اخلاقی دباؤ ہوتا ہے جو ایک فطری و فکری لیڈر شپ کے مجموعی ماحول پر ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عبدالرشید ترابی صاحب سے مقامی تنظیم ازاد کشمیر جماعت اسلامی کی پرخاش اور چپقلش کب سے ہے مگر جناب لیاقت بلوچ صاحب جو جماعت اسلامی کے سنئیر ترین لیڈر شپ میں شامل ہیں اور اپنے میانہ روی و دانش مندی سے عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں اس واقعے پر اپنے خوبصورت ترین مقدمے میں جناب ترابی صاحب کے وسیع تر ورکنگ و خدمات اور عملی زندگی میں مسائل و مباحث کے باوجود رواداری و بلند پروازی کے لئے راستے کھلے رکھنے کی ضرورت بہت خوب صورت اسلوب میں لکھی گئی ہے اور اندرون خانہ بہت سے رازوں و نفسیاتی کیفیات و مسائل سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے وہ لکھتے ہیں:
ترابی صاحب یہ کیا ہوگیا!!!
عبدالرشید ترابی بھائی!
یہ آپ نے کیا فیصلہ کیا؟
کیا ایسا ہونا چاہیے تھا؟
آپ نے طویل مدت دعوتی، دینی، تربیتی، جہادی اور سیاسی محاذ پر کامیاب اور پُرعزم، قابلِ فخر زندگی گذاری، جس کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ اخلاص، محنت، دانش اور امانت و دیانت سے خالصتاً لِلّٰہ کام کیا۔
آپ نے اسلامی جمعیت طلبہ، جماعتِ اسلامی ٓزاد جموں و کشمیر کی تشکیل میں بنیادی اور جوہری کردار ادا کیا۔ جماعتِ اسلامی کے پیغام، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر کو قریہ قریہ، چپہ چپہ، جہاں جہاں انسان بستے آزاد جموں و کشمیر میں بنانے کا کام کیا۔ پھر آزادی، جہادی مراحل میں آپ کی حکمت، تجزیے، استقامت نے آپ کے قد کاٹھ میں بڑا اضافہ کردیا۔ قیادت، کارکنان اور بیرونِ جماعت آپ نے اپنی محنت؛، محبت، اطاعت سے دِلوں کو دوہ لیا، دلوں میں گھر بنالیا۔
جماعتِ اسلامی نے آپ پر ہر طرح سے اعتماد کیا۔ سر آنکھوں پر بٹھایا۔ آپ نے بھی اس اعتماد کو اپنی جدوجہد سے جلابخشی۔ قانون ساز اسمبلی میں آپ کی محنت کا زمانہ معترف ہے۔ حریت کشمیر، حق خودارادیت، مقبوضہ کشمیریوں کی جدوجہد کے لیے دن رات ایک کیا۔ آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان، پاکستان کے ہر فورم پر آواز اٹھائی اور اِسی نعرہ حق کو عالمی فورمز پر بھی بڑی محنت اور حکمت سے نائندگی کا حق ادا کیا۔
یہ حقائق بھی ہونگے اور یقینا مضبوط دلائل ہونگے کہ آپ کو امارت کی ذمہ داریوں کے بعد جماعتِ اسلامی کے اندر کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اِسے بھی آپ نے صبر و استقامت سے برداشت کیا۔ گذشتہ انتخابات میں آزاد جموں و کشمیر انتخابا ت میں ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ آپ کا ذاتی نہیں، مرکزی شوریٰ کشمیر کا فیصلہ تھا۔ اِس میں بھی جماعتِ اسلامی کے اندر بعض احباب کے رویوں نے آپ کے دل، اعصاب، جذبات پر بہت گہرے اثرات پیدا کئے۔ آپ نے قانون ساز اسمبلی کے حالیہ دور میں اپنی محنت سے اپنے لیے اور جماعتِ کے لیے اطمینان کا ماحول پیدا کیا۔ جماعتِ اسلامی ہی نہیں دینی، سیاسی، سماجی جماعتوں میں آپ کو بے پناہ احترام اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ ہی تو ہم سب کے لیے فخر اور شکر کا مقام بنا ہے۔
لیکن جناب ترابی صاحب، اجتماعی زندگی، سیاسی اور انتخابی محاذ پر آسانیاں بھی ہیں، آزمائش اور مشکلات بھی ہیں۔ تربیت، اخلاص، محنت، للہیت کا امتحان، آزمائش تو یہی ہے کہ اس مرحلہ پر استقامت دکھائی جائے۔ سیاسی اور انتخابی محاذ پر جیت اور نمائندگی بہت اہم ہے، لیکن ایسی جیت اور ممبری کا کیا حاصل جس میں اجتماعیت کا اعتماد نہ رہے اور معمول کی سیاسی کامیابی نظریاتی، اصولی، اللہ کی رضا اور جنت کے طلب گاروں کے لیے بے معنی، بے مقصد ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں انتخابات آسان فیلڈ نہیں۔ سیاسی، عسکری مداخلت، سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لیے دباؤ، لالچ اور خصوصاً مال و دولت کا عمل دخل اصولی، نظریاتی، بامقصد سیاست میں بڑی رُکاوٹ ہے۔ پھر جہاں خود اپنی جماعت میں بھی کئی مشکلات کا سامنا ہو تو بدیہی مرحلہ صبر، استقامت اور نظریہ تحریک کے ساتھ جڑے رہنے کا ہے۔عبدالرشید ترابی صاحب آپ سے نصف صدی کا تعلق ہے، یہ تعلق اللہ کے دین کے لیے ہے، غلبہ دین کی جدوجہد میں ہر مرحلہ کا ساتھ ہے۔ یقین مانیں آپ نے اور ضلع باغ شوریٰ اور مقامی قیادت نے جو فیصلہ کیا ہے اس نے میرے جذبات، احساسات اور محبت و عقیدت کو بری طرح متأثر کیا ہے۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ آپ جیسا پُرعزم، استقامت کا کوہِ گراں یوں اندرونی حالات کے سامنے اپنے اعصاب توڑ دیں گے اور سپر ڈال دیں گے…………۔ یقین مانیں ہر فیصلہ اور ہر اقدام کے ہزار دلائل ہونگے لیکن آپ کے اس فیصلہ کی کوئی دلیل کارآمد نہیں ہے اور نہ ہوگی۔ یہ آپ کی ذات، آپ کی جماعت اور مجموعی تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے کسی صورت میں بھی مفید نہیں۔ ممبر شپ مل جائے، کشمیر کمیٹی اور حکومتی عہدہ مل بھی جائے لیکن جو بے تاج بادشاہی آپ کو حاصل رہی اُس کے مقابلہ میں اِن دنیاوی عہدوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
خبر سُنی، یقین نہ آّیا، رفتہ رفتہ ہر پہلو کھلتا چلا گیا۔ زندگی بھر کسی غلط فیصلے پر اتنا صدمہ اور دھچکا نہیں لگا جس قدر آپ کے اِس اقدام سے ہوا۔ عبدالرشید ترابی صاحب آپ نے فیصلہ کرلیا، اعلانات ہوگئے، امیر ضلع نے وضاحت کردی۔ جماعتِ اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے بھی فیصلہ کردیا، جس نے صورتِ حال کو اور گھمبیر بنادیا۔ لیکن اب اِس کا حاصل کیا ہے؟ کوئی کمیٹی بنے یا کوئی کمیشن بنے، فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنے، کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
بس عبدالرشید ترابی صاحب آپ ہی ہمت کریں۔ حکمت و استقامت سے کام لیں، باغ کی ایک نشست پر فیصلہ سے خود رجوع کرلیں۔ غلطی کے اعتراف کا اعلان کردیں، ایسے میں آپ سرخرو ہونگے اور جماعتِ اسلامی آزاد جموں و کشمیر اور جماعتِ اسلامی پاکستان کے لیے آزمائش اور امتحان بڑھ جائے گا۔عبدالرشید ترابی صاحب اجتماعیت میں خیر ہے، خیر سے جڑے رہنے میں ہی خیر اور کامیابی ہے۔ یقینا جماعتِ اسلامی کی قیادت اور دستوری فورمز حق پر مبنی ہی راستہ اختیار کریں گے۔ترابی صاحب یہ ہماری خوش بختی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق اللہ ہم پر راضی ہوا اور اپنے دین کے لیے ہمیں چُن لیا۔ کیا دُنیا کے چناؤ کی وجہ سے، کچھ لوگوں کی عدم حکمت کی وجہ سے اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے دین کے چناؤ سے اپنے آپ کو باہر کردیا جائے؟ یہ بڑا گھاٹے کا سودا ہے!!!نہ جانے مجھے کیوں یہ گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت، حکمت، استقامت اور صبر دیں گے اور آپ ہی اِسی اُلٹی بازی کو پلٹا دیں گے اور راہِ حق پر استقامت سے کھڑے رہیں گے۔ (اِن شاء اللہ!)،،،
جناب لیاقت بلوچ صاحب کے تحریر و تجزیہ میں حالات کی عکاسی و نزاکت موجود ہے۔ رب العالمین آسانی فرمائیں اور اپنے نادان دوستوں کی راہنمائی و معاونت فرمائیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ اخراج جیسے فضول ترین مقدمے و فیصلے پر نادان قیادتوں سے عملدرآمد کراتے ہیں اور پھر حالات کی درستگی و سدھار کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر جماعت اسلامی نے وقتی ابھار میں پھنس کر اپنے چھوٹے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس ایک حلقے کے افسانے کے متعلق نفسیاتی اور جذباتی انداز سے ہٹ کر الیکشن کے بعد حقائق کی روشنی میں تحقیق و تفتیش کے بعد زیادہ بہتر فیصلہ ممکن تھا۔ نتیجہ خیزی کیسے ممکن ہے؟ اب جماعت اسلامی کشمیر کے امیر نے جناب عبدالرشید ترابی صاحب کے ساتھ خود اپنے آپ کو بھی کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا۔
25 جولائی کے رزلٹ آنے کے بعد جماعت اسلامی آزاد کشمیر کہاں کھڑی ہوگی؟ یہ نقشہ گری و پہلوانی ہم پہلے بھی کرسکتے ہیں کیونکہ جماعت اسلامی جمہوری روایات سے کوسوں دور تحریک ہے۔ پاکستان کے 22 کروڑ انسانوں کے امیدوں کا مرکز بننے کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی آزادی اور انقلاب کے لئے اپنے ریت کے ٹیلوں پر مشتمل آراء اور بے سروپا تجزیے و دلائل کا زمانہ گزر چکا ہے جناب!!! یہ اکسیویں صدی عیسوی کا اکسیویں سال ہے جناب!!! نتائج حاصل کرنے کے لئے درست سمت اور فکری و نظریاتی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کی ضرورت ہے۔ ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور اپنے مخلص و پاک باز کارکنان و ہمدردوں کے جذبات و احساسات اور وسائل و اوقات بار بار مجروح نہ کیجئے اور زندگی و سیاست میں حصہ داری کے لئے نئے زمانے کے بدلتے رجحانات اور زندہ سوالات کا جواب تلاش کرنے میں سنجیدگی و فکری مکالمے کا احیاء و تجدید کیجیے ورنہ کشمیر کے دلخراش واقعات کے بعد بلوچستان کراچی و سندھ اور پنجاب و خیبر پختونخوا کے ضلع و صوبے بھی آتش فشاں بنے بیٹھے ہیں اور 2021ء و 2023 ء کے لئے آئندہ قومی انتخابات اور جماعت اسلامی کے اندرونی صوبائی و مرکزی انتخابات بحثیت مجموعی جماعت اسلامی کی بقاء و جواز کا آخری سوال اٹھانے والا ہے اس لئے ہر سطح کی قیادت و سیادت پر فائز افراد پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہوش کے نتیجے میں روایتی و علاقائی ذہنیت سے اوپر اٹھ کر مالک ارض و سماء سے بدست دعاء ہو کر زمانے کے بدلتے رنگ و حالات میں نئی جہتیں تلاش کریں ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں