نامور اسلامی اسکالر، محقق، محدث، فقیہہ اوراسلامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا 17دسمبر کو یوم وفات ہے۔ جنہوں نے اسلام کے مختلف پہلوؤں کومغربی دنیا کے سامنے دلائل کے ساتھ اور جدید انداز میں پیش کیا اور 164کتابیں تحریر کیں جبکہ ایک ہزار مقالے لکھے۔
ڈاکٹر حمید اللہ 14محرم 1326ھ مطابق 19 فروری 1908کو ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی، وہ نظام حیدرآباد کی حکومت میں معتمد مال گزاری تھے۔ بچپن ہی میں آپ نے قرآن پاک حفظ کرلیا اور حیدرآباد دکن کی مشہور درس گاہ دارالعلوم میں چھ سال تعلیم حاصل کرکے درس نظامی مکمل کیا۔ جامعہ عثمانیہ سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا اور وہیں شعبہ تحقیقات میں تعینات ہوئے۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آپ 1931ء میں جرمنی تشریف لے گئے اور بون یونیورسٹی سے ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ پھر فرانس گئے اور وہاں سوربون یونیورسٹی میں عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارتکاری کا مقالہ تحریر کیا اور ڈی لِٹ کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے پی ایچ ڈی کیا۔
دورِ طالبعلمی ہی سے لکھنے کا سلسلہ جاری تھا، آپ کا پہلا مضمون جولائی 1928ء میں ہفت روزہ نونہال لاہور میں مدراس کی سیر شائع ہوا۔ اس کے علاوہ آپ کے مضامین ہندوستان کے مشہور علمی وادبی جرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ آپ کا ذہن تحقیقی رجحان کا حامل تھا اور نئے موضوعات پر قلم اٹھانے کا شوق ابتداء ہی سے تھا۔
تقسیم ہند کے موقع پر آپ فرانس میں تھے کہ حیدرآباد دکن کا سقوط ہوگیا۔ جس کے بعد آپ ساری عمر پیرس ہی میں مقیم رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ یورپ میں گزارا، وہاں کے کتب خانے اور جرائد سے بخوبی واقف تھا،جہاں آپ کو علم ہوا کہ اسلام پر موجود زیادہ تر مواد مستشرقین کا تحریر کردہ ہے۔مستشرقین دراصل مسلمانوں کی غلامی کے دور کی پیداوار تھے۔ سیاسی اغراض ومقاصد کے تحت مغر ب میں مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تحقیق اور مطالعہ کی جستجو پیدا ہوئی۔ ان کاوشوں کا مقصد اسلام کی ایسی تصویر کشی کرنا تھا کہ مسلمان مسلمان نہ رہ سکے اور غیر مسلم کبھی اسلام کو لائق توجہ نہ سمجھے۔ وہ بہت حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہے۔ کیونکہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کو ان ہی کی کتابیں میسر تھیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اردو، عربی اور فارسی پرمہارت کے علاوہ آپ نے انگریزی، جرمن، فرنچ، اٹالین، روسی اور تھائی زبانوں پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ آپ نے مستشرقین کے طریقہئ واردات کا مطالعہ کیا، ان کے حربوں کو پہچانا اور پھر ان ہی کے انداز میں انتہائی معیاری کتابوں، مضامین اور مقالات کا ڈھیر لگا دیا۔ڈاکٹر حمیداللہ نے ان تمام سوالات کے جواب دئیے جنہیں مستشرقین نے دراصل لوگوں کو کنفیوز کرنے کے لئے پیدا کیا تھا۔
انہوں نے 164سے زائد کتب اور ایک ہزار مقالات تحریر کئے۔ آپ کے اسلوب کی خاص بات آپ کا تحقیقی انداز تھا۔ قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔
آپ نے تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ اسلام کی تبلیغ کا کام بھی کیا، پیرس میں آپ کا گھر اسلام کی تعلیم و تبلیغ کا اہم ترین مرکز تھا۔ پیرس کی جامع مسجد میں ہر اتوار کو قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کا درس دیتے تھے۔
1980میں اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور کے وائس چانسلر عبدالقیوم قریشی کی دعوت پر وہ پاکستان تشریف لائے اور بارہ خطبات پر مشتمل لیکچرز سے مسلمانوں کی علمی، فکری، سیاسی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جو خطبات بہاول پور کے نام سے معروف ہوئے۔ان خطبات نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں علمی تحقیق کے علاوہ ان کی سادگی، قناعت، طبعی انکسازی اور سادہ طرزہ زندگی
تھا۔انہوں نے امام ابن تیمیہ ؒ کی طرح زندگی بھر شادی نہ کی۔ اپنی تمام ضروریات اور اپنے سب کام خود ہی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ساری عمر ہم سب کے آقا حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان کو سامنے رکھا کہ مجھ کو دنیا سے کیا واسطہ ؟ میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی سوار چلتے چلتے کسی درخت کے نیچے سستانے کو ٹھیر جائے، پھر اس کو چھوڑ کر اپنی راہ لے۔ ان کے ہاتھوں پر سیکڑوں لوگ مسلمان ہوئے۔
آخری عمر میں پیرس سے امریکی ریاست فلوریڈا میں جیکسن ویل میں اپنی بھتیجی کے گھر منتقل ہوگئے تھے۔ وہیں 17/دسمبر 2002ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ پورے عالم اسلام میں اس خبر کو انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ سنا گیا۔