سینیٹ آف پاکستان کی 11 مارچ 2021ء کی شب 12 بجے خالی ہونے والی نصف نشستوں کو پر کرنے کے حوالے سے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے ، گرچہ اس بحث کا آغاز حکومتی جانب سے کیاگیا ہے، مگر اپوزیشن جماعتیں بھی پیچھے نہیں ہیں اور ہر دو جانب سے اپنے موقف کے حق میں عقلی و قانونی دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر ارکان کے ووٹ کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور خفیہ رائے شماری ہونے کی وجہ سے ملوث ممبران کو پکڑنا یا ان کی گرفت کرنا تقریباً ناممکن ہے، اس لئے خفیہ رائے شماری کی بجائے ’’ شوآف ہینڈ (ہاتھ اٹھاکر)‘‘ یا ’’اعلانیہ ووٹ ‘‘کا سٹ کرنے کا کوئی اور طریقہ نکالا جائے ۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ یہ بات تو درست ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ کی خرید ووٹ فروخت کا سلسلہ بڑے پیمانے پر ہے، مگر اس بنیاد پر آئین کو پامال کرنا آئین کی شکنی ہوگی ، تاہم شکایات کے ازالے کا کوئی اور راستہ تلاش کیا جاسکتاہے۔
ووٹ کی خریدو فروخت!
حکومت اور اپوزیشن کا سینیٹ انتخاب میں ووٹ کی خریدوفروخت کی بات درست ہے بلکہ دعووں کے مطابق ماضی میں فاٹا، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ میں ایک نشست کے لئے درکار ووٹ کے حساب سے پر نشست بولی 20 کروڑ تک بھی پہنچی ہے۔ اس لئے یہ بات درست ہے کہ اس کے تدارک اور حوصلہ شکنی کے لئے کوئی نہ کوئی حل ہونا چاہئے ، مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ہر طاقت ور اپنے مفاد میں حل چاہتا ہے۔
اخلاقیات کا جنازہ
آج حکومت اخلاقی پوزیشن کی بات کرتی ہے، مگر تقریباً ڈیڑھ سال سے36 رکنی اقلیتی حکومتی گروپ کا سینیٹ میں چئیرمین ہے اور 104 رکنی ایوان میں 64 رکنی اپوزیشن جماعتیں اس عہدے سے محروم ہیں۔ پاکستانی پارلیمانی تاریخ میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یکم اگست 2019ء کو جب اپوزیشن جماعتوں نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد پیش کی تو ایوان میں 100 ارکان موجود تھے اور 64 ارکان نے کھڑے ہوکر عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت اور تائید کی ،مگر خفیہ رائے شماری میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50 ووٹ کاسٹ ہوئے اور 14 ارکان نے اپنا ووٹ ضائع کردیا ، یو ں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد تین ووٹ سے ناکام رہی ، یعنی 14 ارکان نے کھڑے ہوکر عدم اعتماد تو کیا ،مگر خفیہ رائے شماری میں اپنی پارٹیوں سے بغاوت کی اور آج بھی یہ تمام ارکان اپوزیشن جماعتوں کا حصہ ہیں ۔ 36 نشستوں کے ساتھ حکومتی اتحاد کا چئیرمین موجود ہے ، اخلاقیات کا معاملہ ہوتا تو چئیرمین سینیٹ خود عہدے الگ ہوجاتے ، مگر اخلاقیات کا جنازہ خود حکومت نے نکالا ہوا ہے ۔ اس لئے اخلاقیات کی باتیں حکومتی حلقوں کی جانب سے ہوائی اور عملاً فضول ہیں۔
باتیں آئین کی !
اب ہم آتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے دلائل کے حوالے سے آئینی اور قانونی پوزیشن کی جانب ۔ سینیٹ انتخاب کے حوالے سے آئین پاکستان کے کم سے کم بھی 6 آرٹیکلز کا بلا واسطہ اور متعدد آرٹیکلز کا بالواسطہ عمل دخل ہے۔
(1)۔ آئین کا آرٹیکل 59(۲)، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ ’’ سینیٹ میں ہر صوبے کے لئے متعین نشستوں کو پر کرنے کے لئے انتخاب ، واحد قابل انتقال ووٹ کے ذریعے متناسب نمائندگی کے نظام کے مطابق منعقد کیا جائے گا۔‘‘ یعنی ہر ووٹرکو ایک ووٹ کا حق حاصل ہوگا ،مگر اس کا ووٹ قابل انتقال ہوگا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹ کاسٹ کرتے ووٹر متعلقہ نشستوں کی تعداد کی حدتک اپنی پسند کے امیدواروں کے حق میں ’’انگریزی عدد میں ’’1‘‘، ’’2‘‘، ’’3‘‘ اور۔۔۔۔کے حساب سے ترجیحات لکھے گا ۔ اس کا یہ فائدہ ہے کہ مثلاً گروپ ’’A‘‘ کو ایک نشست کے لئے 10 ووٹ درکار تھے اور مگر ووٹ 12پڑے ، اب 2 اضافی ووٹ 200پوائنٹ کھلائیں گے اور یہ پوائنٹ ان امیدواروں کو منتقل ہونگے ، جن کا گروپ’’A‘‘ میں ’’2‘‘ لکھا ہے اور ’’2‘‘ کے پاس بھی مطلوبہ ووٹ پورے ہونگے تو یہ پوائنٹ ’’3‘‘ والوں کو منتقل ہونگے۔ ایک واضح مثال موجودہ وفاقی قانون فروغ نسیم ہیں ، 2018ء کے سینیٹ انتخاب میں نمبر’’1‘‘ کی پوزیشن پر غالباً دو ووٹ سے ہار گئے تھے ، مگر دیگر گروپس سے ملنے والے پوائنٹس کے بعد ان کے مجموعی پوائنٹ بڑھ گئے اور کامیاب قرار پائے ۔ اس طریقہ انتخاب میں ایک موقع پر مخالف امیدواروں کا ووٹ بھی از خود منتقل ہو کر مخالف امیدوار کی کامیابی کا باعث بنتاہے۔ دراصل سینیٹ انتخاب کے طریقہ کا ر کو سمجھنا ہی ایک فن ہے۔ آئین پاکستان میں واحد قابل انتقال ووٹ کا ذکر وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ آئین میں ترمیم کے بغیر اس طریقے کو حکومت کیسے تبدیل کرتی ہے ، اس بارے میں حکمران ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ آئین میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کے ہر دو ایوان میں دو تہائی اکثریت چاہئے ، جو حکومت چند ووٹوں کے سہارے کھڑی وہ آئین میں کس طرح اپنی مرضی کی ترمیم کرے گی سمجھ سے بالاتر ہے۔
(2)۔ آئین کا آرٹیکل 218(۱)، یہ آرٹیکل الیکشن کمیشن کے قیام کا مقصد بتاتا ہے اور کہتاہے کہ ’’ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں، صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کی غرض کے لئے اور اسے دیگر عوامی عہدوں کے انتخاب کے لیے جیساکہ قانون کے ذریعے صراحت کردی جائے ، اس آرٹیکل کے مطابق مستقل الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔]‘‘ آئین کا یہ آرٹیکل واضح کرتاہے کہ سینیٹ کے انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور اس میں حکومت یا کابینہ کا کوئی کردار نہیں ہے ، اب وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کس حیثیت میں وقت سے سینیٹ انتخابات قبل از وقت کرانے کی بات کرتے ہیں ، یہ وہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے مطابق حکومت انتخابی عمل میں مداخلت کررہی ہے اور یہ آئین کی خلاف ورزی اور قابل تعزیر جرم ہے۔
(3)۔ آئین کا آرٹیکل 219(ب)، یہ آرٹیکل سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہونے والی نشستوں سے متعلق ہے۔
(4)۔ آئین کا آرٹیکل 222، یہ آرٹیکل ، انتخابی تیاریوں سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 222(و) کہتا ہے کہ ’’ دونوں ایوانوں ، صوبائی سمبلیوں [اور مقامی حکومتوں ] کی باقاعدہ تشکیل کے لیے ضروری تمام دیگر امور
لیکن کوئی مذکورہ قانون اور اس کے حصے کے تحت کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات میں سے کسی اختیار کو سلب کرنے یا کم کرنے کے اثر کا حامل نہ ہوگا۔‘‘ اس آرٹیکل کا مذکورہ حکومتی اعلانات اور دعووں کے لیے انتباہ ہے۔
(5)۔ آئین کا آرٹیکل 224(۳)، یہ آرٹیکل سینیٹ پولنگ ڈے سے متعلق ہے۔ یہ ارٹیکل کہتاہے کہ ’’ سینیٹ کی ان نشستوں کو پر کرنے کی غرض سے جو سینیٹ کے ارکان کی میعاد کے اختتام پر خالی ہونے والی ہوں، انتخاب عین اس دن سے جس پر نشستیں خالی ہونے والی ہوں زیادہ سے زیادہ 30 دن پہلے منعقد ہوگا۔‘‘ اس آرٹیکل میں ان لوگوں کے لئے واضح پیغام ہے ، جو کہتے ہیں کہ سینیٹ انتخاب فروری یا اس سے پہلے ہو سکتے ہیں،اس بار سینیٹ کی نصف نشستیں 11 مارچ 2021ء کو رات 12 بجے خالی ہونگی ۔ آئین کے آرٹیکل 224(۳)کے مطابق اگر ’’منعقدکرنے ‘‘ سے مراد پولنگ ڈے ہے تو پھر 10 فروری 2021ء تک الیکشن ہوسکتے ہیں ، مگر پبلک نوٹس سے پولنگ ڈے سے پہلے تمام کام یا تیاریاں 9 فروری سے پہلے کرنی ہونی اور اس حساب سے انتخابی شیڈول کا اجراء کم سے کم بھی 20 جنوری 2021ء تک ہونا چاہئے ۔ اگر یہاں ’’منعقد کرنے‘‘ سے مراد پبلک نوٹس سے پولنگ ڈے تک ہے تو پھر 26 فروری 2021ء سے قبل سینیٹ انتخابات کسی صورت ممکن نہیں ہیں۔
(6)۔ آئین کا آرٹیکل226، یہ آرٹیکل کہتاہے کہ ’’ دستور کے تابع تمام انتخابات ماسوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہونگے۔‘‘ یہ آرٹیکل ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے خفیہ رائے دہی کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر ان کی بات کو درست تسلیم کیا جائے تو پھر سینیٹ انتخابات دستور یعنی آئین پاکستان کے تابع نہیں ہیں اور دستور کے تابع ہیں تو پھر خفیہ رائے دہی سے سینیٹ انتخاب کو الگ کیسے کیا جاسکتاہے۔
(7)۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 122(6)، یہ سیکشن کہتاہے کہ
’’ The poll for election of Members of the Senate shall be held by secret ballot.‘‘
یعنی ممبران سینیٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔
(8)۔ ماضی کی روایات بھی یہی کہتی ہیں کہ آئین پاکستان اور الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کئے بغیر سینیٹ انتخابات میں ’’شو آف ہینڈ‘‘ یا کسی اور اعلانیہ طریقے سے پولنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
(9)۔ کچھ حکومتی حامیوں کا خیال ہے کہ اس پر آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق عدالت عظمیٰ سے رائے یا ہدایت لی جائے ، ماہرین کا کہناہے کہ اس واضح آْئینی پوزیشن کے بعد حکومت کے لئے عدالت سے مرضی کا ریلیف ملنا بہت ہی مشکل ہوگا۔