اسامہ کی گریجویشن تقریب آن پہنچی، یقینا دیگر گریجویٹس کی طرح اُس کی خواہش بھی تھی کہ اس اہم تقریب میں اماں اور ابا دونوں شریک ہوں۔ اِدھر ابا بھی مچلے جارہے تھے کہ منتوں مرادوں اور دعاؤں کے بعد جو یہ شُبھ گھڑی آئی ہے تواس موقع کو ضائع نہ کیا جائے۔ کون سے ماں باپ ایسے ہوں گے جو اپنے ارمانوں کی تکمیل کے اس دن کا انتظار بے چینی سے نہ کرتے ہوں۔ سو امریکا جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ اہلیہ نے ویزہ ملنے کے باوجو امریکا جانے سے انکار کردیا شیاٹیکا کا درد سفر کی راہ میں حائل ہو گیا، البتہ میں طے شدہ پروگرام کے مطابق امریکا جا پہنچا۔ انجم بھائی ان کے بچگان اور میرے عزیز دوست نوید باقی مجھے لینے کے لیے جوہن ایف کینڈی ایئر پورٹ نیو یارک آئے ہوئے تھے۔ میں انجم بھائی کے ساتھ نیو جرسی چل دیا۔ دوسرے روز مجھے کینی ٹکٹ Connecticut اپنے بیٹے کے پاس پہنچنا تھا۔
کینی ٹکٹ (Connecticut)اٹلانٹک اوشن کے کنارے آباد، نیو یارک سے جڑی ہوئی اور مغربی ورجینا سے ملی ہوئی ساحلی ریاست ہے۔ یہ ریاست اپنے ساحلی عجائب گھر (National Coast Guard Museum) کی وجہ سے بھی شہرت رکھتی ہے۔ یہ وہ میوزیم ہے جہاں سینکڑوں سال پرانے جہاز محفوظ کردئیے گئے ہیں۔ اس عجائب گھر کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کسی مہارت اور خوب صورتی سے یہاں سمندر پہ انسانی سفر اور معرکہ آرائیوں کی تاریخ کو محفوظ کردیا گیا ہے۔
کینی ٹکٹ کے علاقے نیو ہیون New Heavenکو Home of Yaleبھی کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ Yaleامریکا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ Yaleامریکی دھرتی پر قائم قدیم ترین نو درس گاہوں میں سے تیسرے نمبر پر ہے جسے امریکا کی جنگ آزادی سے قبل 1701میں کالونیل نظام کے تحت کالج کا چارٹر عطا کیا گیا۔
اُسامہ اس اعتبار سے بہت خوش قسمت ہے کہ اُسے لمس یونی ورسٹی(LUMS)پاکستان اور کوچ (KOC)یونیورسٹی استنبول کے بعد دنیا کی اس معروف ترین یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملا۔ ترکی سے فائنانس میں ایم بی اے کرنے کے بعد اب Yale سے ایڈوانس مینجمنٹ میں ماسٹرز کرنے کا موقع ملنا یقینا کسی طالب علم کے لیے خوش قسمتی ہی تصّور کیاجاسکتا ہے۔
ابھی گریجویشن کی تقریب میں دو روز باقی ہیں، ہم نے مناسب سمجھا کہ ان دو ونوں میں یونیورسٹی کو گھوم پھر کر دیکھنے، سمجھنے اور اس کی عظمت کے اسباب جاننے کے علاوہ یہاں کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی جائیں۔
اس سے قبل کہ ہم Yaleکی دہلیز پہ قدم رکھیں،میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اسے آئی وی لیگ Ivy league یونیورسٹی کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ Yaleامریکا کی نو قدیم ترین درس گاہوں میں سے ایک ہے۔ امریکا کے شمال مشرق میں قائم ان نو اداروں میں رگبی سے ملتے جلتے کھیل امریکی فٹ بال کے مقابلوں کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ ان مقابلوں میں حصہ لینے والی ٹیمیں اسپورٹس لیگ یا آئی وی لیگ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان یونیورسٹیز نے اپنے معیار تعلیم، تحقیقی کاموں اور تعلیمی سہولتوں میں اضافے کے علاوہ قابل قدر فیکلٹی کومستحکم کرتے ہوئے اپنی یونیورسٹیز کو حصول علم کی مثالی درس گاہ بنایا اور نہ صرف امریکا بلکہ پورے دنیا میں نیک نامی کمائی۔ ہارورڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پنسلوینیا، پرنسٹن یونیورسٹی اور براؤن یونیورسٹی ان یونیورسٹیز میں سے چند نمایاں ترین ہیں۔گذشتہ تین صدیوں کا کوئی بھی عہد ہو تعلیم اور تحقیق کے اُفق پر ان کے نام ہمیشہ جگمگاتے رہے۔
کسی بھی درس گاہ کے معیار کی سب سے بڑی کسوٹی اُس کی فیکلٹی یا اساتذہ ہوتے ہیں۔ حیرت سے میری آنکھیں اس وقت پھٹی رہ گئیں جب اندازہ ہوا کہ دنیا کی کیسی کیسی معروف شخصیات یہاں پڑھاچکی ہیں یا پڑھا رہی ہیں۔
نوبل لوریٹ ڈاکٹر رابرٹ شلر اُسامہ کے استاد رہے، ہارورڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے معروف استاد اور اسکالرنوبل لوریٹ امریتا سین سے فیض یاب ہونے کا موقع بھی اُسامہ کو ملا۔ یہی صورت دوسرے شعبوں کی بھی ہے۔ مجھے اُسامہ کے کچھ اساتذہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا اور میں ان سب سے مل کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
اسٹرلنگ میموریل لائبریری کا ذکر نہ کرنا بھیی اس یونیورسٹی کے تعارف کو ادھورا چھوڑنے کے مترادف ہوگا۔ یہ امریکا سمیت دنیا بھر کی مشہور لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ زندگی کے ان گنت موضوعات پر لاکھوں کتابیں یہاں ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ لائبریری کا ماحول عبادت گاہوں کی سی تقدیس اور روحانی پہلو لیے ہوئے ہے۔
یونیورسٹی کی مین لائبریری سے ملحق Benickly Library کی خوب صورتی یہ ہے کہ یہاں دنیا کی نادر، نایاب اور قدیم ترین کتابوں کو جدیدسائنسی طریقوں کے مطابق دائمی حفاطٹ کے لئے محفوظ کیا گیا ہے۔
امریکا کی معروف شخصیات جتنی بڑی تعداد میں Yale ییل یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلیں شایدہی کوئی اور یونیورسٹی اتنی بڑی تعداد کا دعویٰ کرسکے۔ سیاست ہی کے شعبے میں دیکھ لیجیے بڑے بُش، چھوٹے بُش کلنٹن، ہیلری اور جوہن کیری جیسے لوگ یہیں کے فارغ التحصیل ہیں۔
میں law ,Yale کالج بھی گیا اور اس جگہ کو چشم تصور سے بہ طور خاص دیکھا جہاں ہیلری اور کلنٹن بیٹھے ہوئے عشق کے اسباق پڑھا کرتے تھے۔ ان دونوں کے معاشقے کا آغاز اسی یونیورسٹی سے ہوا تھا۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ دنیا کی قدیم ترین سیکرٹ سوسائٹی Skulls & Bonesکا قیام بھی اسی یونیورسٹی میں عمل میں آیا تھا اور مخفی اداروں کے لیے نوجوانوں کی مخفی بھرتیاں آج بھی زیادہ تر اسی یونیورسٹی سے ہوتی ہیں۔دنیا کا پہلا تربیت یافتہ جاسوس نیتھن بیل بھی اسی یونیورسٹی سے تعلق رکھتا تھا۔
ہمارے دوستوں کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ دنیا کی کوئی بھی یونیورسٹی ایک ہی وقت میں اپنے تمام شعبوں میں دنیا کی بہترین یونیورسٹی نہ کبھی ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے۔ البتہ ہر اچھی یونیورسٹی کسی ایک یا کچھ مخصوص شعبوں میں دنیا بھر کی جامعات کے مقابلے میں آگے کھڑی ہوئی ضرور نظر آتی ہے۔
میڈیکل اور قانون کے شعبوں میں بلاشبہ Yale دنیا کی راہ نمائی کرتی ہے۔ اس کا مینجمنٹ اسکول بھی دنیا کے بہترین اسکولوں میں سے ایک ہے۔ Yaleپر لکھنے کے لیے میرے پاس بہت کچھ ہے مگر میں فیس بک کوکسی بھی مفصّل مضمون کے لیے ادھورا اور ناقص میڈیم سمجھتا ہوں۔
اسامہ کی گریجویشن کا دن آن پہنچا۔ امریکا کے نائب صدر اور ممکنہ طور پر آئندہ کے صدر جو بائیڈن تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ مجھے ان کو بہت ہی قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ ان کی خوب صورت تقریر کے الفاظ ابھی تک کانوں میں گونجتے ہیں۔
دنیا بھرسے آئے ہوئے طالب علموں کو اتنی بڑی تعداد میں یکجا دیکھ کر اچھا لگا۔ ان سے مل کر اچھا لگا۔ ان کے خیالات جان کر اور عزائم کی بابت سن کر بہت اچھا لگا۔
اسامہ کے کلاس فیلوز میں اسرائیل سے آئے ہوئے ڈیوڈاور ایلان، سوئیٹزر لینڈ کی Murriel، چائنا کی ربیکا، بھارت کے ساگر، کینیڈا کے کیمرون، میکسیکو کے روڈریگو اور دیگر بہت سے ملکوں سے آئے ہوئے دوستوں کو نہیں بھول سکتا۔ یہ سب نہایت محبت اور گرم جوشی سے پیش آئے اور تابعداری اور وضع داری میں اسامہ کی دوستی کا حق ادا کردیا۔ اسامہ کے قریب ترین پاکستانی دوستوں میں حسن، ولید اور کامران کیسے باکمال دوست اور کیسی اچھی شخصیت کے مالک ہیں اس کا اندازہ ان سے مل کرہی ہوسکتا ہے۔ماشاء اللہ سب کے سب اس وقت اہم ترین عہدوں یا ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔
گریجویشن تقریب کے دوران ہزار ہا طلبا و طالبات کے چہروں پر خوشی رقصاں تھی۔ آج انہیں زندگی بھر کی محنت کا صلہ ایک سنّد کی صورت میں مل رہا تھا۔ میں بھی ان خوش قسمت والدین میں سے ایک تھا جو آج پھولے نہیں سما رہے تھے۔ میرے لیے خوشی صرف یہی نہیں تھی کہ اسامہ آج Yaleگریجویٹ ہوگیا بلکہ اس سے زیادہ خوشی اُسامہ کے اس فیصلے پر تھی جس کی رو سے اُس نے امریکا سے ملنے والی ملازمت کی تمام آفرز یا امکانات کو ردّ کیا اور فیصلہ کیا کہ امریکا میں نہیں رہنا بلکہ پاکستان یا اس کے قریب ترین کسی ملک میں رہناہے تاکہ اماں ابا سمیت فیملی کے تمام افراد ایک دوسرے سے جڑے رہیں اوراس چھ رکنی کنبے کا باہمی تعلق کبھی کمزور نہ پڑے۔
میرے نزدیک فیملی کے خوب صورت تصّور کو قائم رکھنے کے لیے اسامہ کا یہ بروقت فیصلہ Yaleکی ڈگری سے زیادہ اہمیت کی حامل تھا۔
خدا کرے یہ بچے یوں ہی ان محبتوں بھرے رشتوں سے جڑے رہیں، خوشیاں ان کا مقدر ہوں اور ان کی زندگی میں کبھی خلاء نہ آنے پائے۔