ADVERTISEMENT
آوازہ چینل پر طلبہ یونین کی یادوں پر مشتمل گفتگو سنی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی، لاہور، پشاور کے حالات واقعی اسی طرح کےتھے لیکن ترقی پسند اور تنگ نظر قوم پرست طلبہ تنظیموں نے پورے بلوچستان اور اندرون سندھ کو دوسری طلبہ تنظیموں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا تھا اور انھیں پاکستان کے خلاف سرگرمیوں اور پراپیگنڈے کے سٹرانگ ہولڈ بنا دیا تھا۔ جس کا تعلق طلبہ مسائل سے ہر گز نہ تھا۔
اساتذہ و امتحانی سسٹم ان کے یر غمال تھے۔ حتیٰ کہ کراچی کی این ایس ایف تک ، اندرون سندھ و بلوچستان میں قدم نہیں رکھ سکتی تھی، اسلامی جمعیت طلبہ تو دور کی بات ہے۔ ضیا الحق مارشل لا نے 1977ء سے1983ء یعنی سات سال تک یونین الیکشن کرائے مگر آخر کار بہت بھونڈے طریقے سے چودہ فروری 198ء کو پابندی لگا دی۔( جب کہ انتخابات 22 دسمبر 1983ء کو کرائے گئے تھے) اس کے بعد بے نظیر حکومت نے 1989ء میں ایک بار الیکشن کرائے، اور بعد ازاں بر سر اقتدار آنے والے سیاست دانوں نے بھی کبھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ اس کی ایک وجہ تو عالمی مالیاتی غلامی ہے کہ تعلیم پر پیسہ نہ لگاؤ اور دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ اس طرح ابھرنے والی قیادت : نواز شریف ، بے نظیر بھٹو، ولی خان، الطاف حسین اور عمران خان وغیرہ کی تنظیمی غلامی برداشت نہیں کرے گی، اور وہ بے دھڑک سوال اٹھائیں گے۔ (ان لیڈروں کو بھی دولے شاہ کے چوہے جیسے الیکٹ ایبل چاہئیں۔)
تیسرا یہ کہ سیکورٹی ادارے بھی متردد ہو سکتے ہیں۔ اور چوتھے یہ کہ تعلیمی سیٹھ ہر گز طلبہ یونین برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ نجی یونی ورسٹیوں کی ڈاکا زنی اور پرایویٹ کالجوں اسکولون لوٹ کھسوٹ اس طرح نہیں چل سکے گی، اس لیے یہ “ تعلیمی رسہ گیروں” کے لیے بد مزگی کا سبب ہوں گی۔ یہ سب مراکز اسٹوڈنٹس یونین کے وجود سے نالاں اور خوف زدہ ہیں۔