پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایل اے )کالج اساتذہ کی فلاح و بہبود کا ایک تنظیمی پلیٹ فارم ہے اور کالج اساتذہ کے حقوق کا ترجمان بھی ہے۔
پنجاب بھر کے سات سو بیس کالجز اور چودہ ہزار سے زائد اساتذہ اس کے ممبرز ہیں۔حکومت کی جانب سے وقتا” فوقتا” کالج اساتذہ کے لئے جاری ہونی والی پالیسز پہ غور کرنا اور ان کا ردعمل دینا اس تنظیم کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
آئین پاکستان کے مطابق ہر ذمہ دار شہری کی طرح کالج اساتذہ بھی ایک مقررہ حدود کے اندر اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانے میں حق بجانب ہیں۔نیز اقوام متحدہ کا چارٹر بھی اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ کسی بھی گروہ کے ساتھ ناانصافی اس کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
پی پی ایل اے پنجاب بھر کے کالج اساتذہ کی واحد ترجمان ہے اور یہ اس کا منفرد اعزاز بھی ہے کہ جہاں دوسرے تمام محکمہ جات میں ملازمین کی ترجمانی کے لئے ایک سے زیادہ تنظمیں دعویدار ہیں۔وہاں پی پی ایل اے فقط تنہا یہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں جو اس پہ پنجاب بھر کے کالج اساتذہ کا بھر پور اعتماد ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اس تنظیم کو چند عاقبت نااندیش افراد کی بدولت انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔اور اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ تنظیم دن بدن اپنا وقار کھو رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ موجودہ الیکشن 2020 رہاہے۔
پی پی ایل کے الیکشنز میں پنجاب بھر کے نو ڈویژنل پینل اور ایک مرکزی پینل حصہ دار ہوتے ہیں۔آسانی کے لئے یوں سمجھ لیا جائے جیسے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخاب کا طریقہ ہے وہی ضابطہ یہاں بھی لاگو ہے۔
مرکزی پینل پورے پنجاب میں اپنے تشکیل کردہ الیکٹورل کالج سے ووٹ حاصل کرتا ہے جبکہ ڈویژنل پینل فقط اپنے ڈویژن کے مقرر کردہ الیکٹورل کالج سے ووٹ حاصل کرتا ہے۔اس طرح پی پی ایل اے مرکز اور ڈویژنز میں اپنی باڈی تشکیل دیتا ہے اورمروجہ جمہوری اصولوں کے مطابق مرکزی صدر اور ڈویژنل صدر بھرپور اعتماد کے ساتھ حکومتی نمائندوں کے سامنے کالج اساتذہ کا مقدمہ رکھتے ہیں۔
حالیہ الیکشن 2020 کو کالج تاریخ کابدترین الیکشن شمار کیا جاتا ہے جس میں تشکیل سے لے کر نتائج تک بد دیانتی کی انوکھی مثال قائم کی گئی۔پپلاالیکشن کمشنر اور پپلا الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر الیکشن میں حصہ لینے والی تمام اساتذہ جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جانا تھا جو کہ دنیا بھر کے انتخابات کی ایک کڑی ہے۔مگر یہاں اس عالمی مسلمہ اصول کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے فقط ایک جماعت سے مشاورت کی گئی اور اسی جماعت کے حمایت کنندگان پر مشتمل یکطرفہ پپلا الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
اس پپلا الیکشن کمیشن نے مسلسل تاخیری حربے اختیار کئے رکھے اور بالآخر کالج اساتذہ کےبھرپور دباؤ کے بعد تقریبا” آٹھ ماہ بعد الیکشن کا عمل شروع کیا۔
گیارہ نومبر 2020 کو پورے پنجاب میں ووٹ کاسٹنگ ہوئی متعلقہ کالجز پولنگ اسٹیشن قرار پائے اور متعلقہ کالجز کے پرنسپل صاحبان پریذائیڈنگ آفیسرز مقرر کیے گئے۔ان پریذائیڈنگ آفیسرز نے اپنا کام انتہائی جانفشانی اور مستعدی سے سرانجام دیا۔پولنگ صبح نو بجے سے چار بجے تک جاری رہی اور کسی ایک کالج سے بھی کسی قسم کی انتخابی بے قاعدگی مو صول نہ ہوئی۔پریذائیڈنگ آفیسرز نے انتخابی نتائج مکمل کر کے پپلاالیکشن کمیشن آفس جو کہ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں بنایا گیا تھا۔اسے بذریعہ ڈاک اور بذریعہ وٹس ایپ بھجوا دیا۔
پپلا الیکشن کمیشن کو رزلٹس موصول ہونے شروع ہوئے مگر اس نے اپنا کام جو کہ ٹیبولیشن اور کاؤنٹنگ تھی وہ شروع نہ کیا۔اور لیت و لعل سے کام لیاگیا۔آج کے جدید زمانے میں ڈاک و ذرائع رسل انتہائی تیز رفتار ہیں مگر اس پپلا الیکشن کمیشن کے بقول ایک ہفتے بعد بھی رزلٹس موصول نہ ہوئے ہیں۔جبکہ امریکہ سے انٹارکٹیکا تک کوئی بھی ڈاک پہنچنے میں سیکنڈز لگتے ہیں۔لیکن یہ شاید کسی سترھویں یا اٹھارویں صدی کی ڈاک تھی جسے پیادوں کے ہاتھوں سرائے تک اور پھر گھوڑوں کے ذریعے صدر مقام تک پہنچنا تھا۔
کالج اساتذہ میں بے چینی بڑھنے لگی اور دباؤ کے نتیجے میں پپلا الیکشن کمیشن نے گنتی کا عمل شروع کیا جو کہ چیونٹی کی رفتار سے بھی کم تھا۔الیکشن آفس دن دو بجے کھلتا اور شام سات بجے بند کر دیا جاتا۔جبکہ ووٹوں کی کل تعداد چودہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔
یوں لگتا تھا کہ شاید گنتی کے عمل میں دشواری ہے جو پپلا الیکشن کمیشن پہ بھاری ہے۔بات گنتی تک رہتی تو ٹھیک تھی مگر یہاں تو معاملہ ٹیمپرڈ ووٹوں تک جا پہنچا۔ہوا یوں کہ بہاولپور ڈویژن کے ایک کالج کے نتائج دیکھنے کے لئے جب لفافہ کھولا گیا تو اس میں صدارتی امیدواران کے سامنے والی جگہ پہ دونوں امیدواران کے ناموں پہ کراس کے نشانات موجود تھے۔جو ٹمپرنگ کے الزامات کو تقویت دے رہے تھے جبکہ پرنسپل صاحب کی طرف سے جاری کردہ رزلٹ شیٹ کا نتیجہ مختلف تھا۔اب پپلا الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ اس نتیجے کی تصدیق متعلقہ پرنسپل صاحب سے کرتے مگر پپلا الیکشن کمیشن نے اپنے حامیوں کو تاثر دیا کہ ہار آپ کا مقدر بن رہی ہے اور فریق بن کر نہیں بلکہ میرے دست و بازو بن کر انتخابات کی گنتی کے عمل کو اپنی مرضی و منشا سے مکمل کرو۔لہٰذا یہی کچھ کیا گیا۔
جو نتیجہ دو دن میں مکمل کیا جا سکتا تھا اسے اکیس دن تک لٹکائے رکھا۔اساتذہ تنظیموں کے ساتھ تحریری معاہدے پہ بھی عملدرآمد نہ کیا گیا۔فریق اول جو پپلا الیکشن کمیشن کی حمایتی تھی اس نے بھی اس معاملے پہ کوئی آواز اٹھائی نہ ہی نتائج حاصل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ دکھائی دی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے تاخیری حربوں کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہے۔
دو دسمبر 2020 کو گنتی کے عمل کو جو کہ متنازعہ ہو چکا تھا اس کے ابہام اور تنازع کو حل کیے بغیر پپلا الیکشن کمیشن نے یکطرفہ طور پر نتائج کا اعلان کر دیا جو کہ غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج سے بالکل مختلف تھے۔الیکشن نتائج کا حتمی اعلان فریقین کی موجودگی اور کیے گئے معاہدے کے مطابق ہونا ضروری تھا مگر پپلاالیکشن کمیشن نے اس سے رو گردانی کی۔اس پہ مستزاد یہ کہ اسی وقت اپنی پسندیدہ جماعت کے امیدواران کو بلا کر ان سے حلف لے لیا جو کہ پپلا آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔اور اس الیکشن کے جیتنے والے دوسرے امیدواران جو کہ پپلاالیکشن کمیشن کی جماعت سے تعلق نہ رکھتے تھے۔انھیں حلف لینے کی دعوت تک نہ دی گئی۔بلکہ حیران کن امر یہ ہے کہ راولپنڈی ڈویژن کے نتائج کو تاحال جاری نہیں کیا گیا ۔
یہ دنیا کا واحد الیکشن ہے جہاں الیکشن کمیشن نتائج پبلک کرنے سے انکاری ہے وہیں نتائج کی آفیشل کمپیوٹرائزڈ کاپی بھی دینے سے عاری ہے۔
اب کالج اساتذہ کے مینڈیٹ کو پامال کرنے کے بعد پپلا الیکشن کمیشن نئے تشکیل شدہ پپلا الیکشن ٹریبیونل کو انتخابی مواد اور جمع شدہ انتخابی رقم دینے سے انکاری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے اس ٹریبیونل کی تحقیق کی روشنی میں سچ سامنے آجائے گا اور پپلاالیکشن کمیشن بے نقاب ہو جائے گا۔
اب پوری کالج کمیونٹی کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ الیکشنز2020 کے نتائج کو پبلک کیا جائے تاکہ پنجاب کا ہر کالج اپنے دئیے گئے ووٹوں کا حساب لے سکے کیونکہ ہر کالج کے الیکشن نتائج کی ایک کاپی اب بھی پریذائڈنگ آفیسرز اور پولنگ ایجنٹس کے پاس موجود ہے۔
اب پی پی ایل اے پنجاب کی ساکھ اسی مطالبے کے ساتھ جڑی ہے کہ نتائج کو پبلک کیا جائےکیونکہ پنجاب بھر کے چودہ ہزار سے زائد پروفیسرز اور لیکچررز کا مقدمہ حکومتی ایوانوں میں بے معنی اور بے وقعت ہو رہا ہے۔نیز یہ پی پی ایل کی تقسیم کا موجب بھی بن رہا ہے۔جس کےسب سے بڑےکردار پپلاالیکشن کمیشن اور اس کے تشکیل کنندگان شمار کیے جا رہے ہیں۔
اب اگر اس کا مسئلے کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو کالج کمیونٹی کو پہنچنے والے ہر نقصان کا ذمہ دار بھی یہی گروہ ہوگاجنھوں نے یکطرفہ اور جانبدار پپلا الیکشن کمیشن بنایا اور من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے ہر اصول اور ضابطے کو پامال کیا۔اور اب نتائج پبلک کرنے جیسے اہم مطالبے کو بھی رد کر رہے ہیں۔