گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے ۔۔۔۔ پنوعاقل میں جنونی شخص نے بیوی، بیٹیوں، بیٹوں، بہو اور پوتے، پوتی سمیت گھر کے 11 افراد کو قتل کردیا، کہا جا رہا ہے کہ ملزم کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ صرف ایک خبر ہے؟؟؟ نہیں! یہ ایک قیامت ہے جو ایک خاندان پر گذر چکی ہے اور جس کے ذمے دار ہم سب ہیں۔ ہم بحیثیت ایک قوم اور معاشرہ ایسے جنونی اور ذہنی مریض افراد کو اس وقت تک راستہ دیتے ہیں جب تک کہ وہ اس طرح کے اندوہناک سانحے کا باعث نہ بن جائے۔ وہ شخص ایک رات میں ذہنی مریض نہیں بنا ہوگا ہر روز اس کا عمل یہ ظاہر کرتا ہو گا کہ وہ ایک جنونی شخص ہے۔۔۔۔ لیکن روایتوں میں جکڑا ہوا ہمارا معاشرہ خواتین کو مجبور کرتا ہے کہ ایسے افراد کے ساتھ زندگی گذاریں اور کسی بھی لمحے کسی ذہنی مریض کی درندگی اور وحشت کا شکار ہو جائیں کہ بس یہ ہی ان کی قسمت میں تھا۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں زندگی گذارنے کے اصول کیوں نہیں مرتب کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی گھر سے روزانہ کی بنیاد پر چیخنے اور لڑائی جھگڑے کی بلند آواز آتی ہو تو اسکا فوری نوٹس کوئی کیوں نہیں لیتا۔۔۔ کیونکہ ہم اک بےحس معاشرے میں زندگی گذار رہے ہیں جہاں آپ کا پڑوسی آپ کے غیر معمولی وحشی رویے کی رپورٹ کرنے کی بجائے آپ کی پیٹھ تھپکتا نظر آئے گا۔۔۔ جہاں نہ کوئی محلہ کمیٹی ہے اور نہ ہی کمیونٹی کی بنیاد پر کوئی سنوائی۔۔۔ اگر معاشرے میں کچھ بہتر سدھار چاہیں تو صرف ایک موبائل وین کسی ایک علاقے کے لیے کافی ہو جن کا کام ایب نارمل انسانی رویے جانچنا ہو۔۔۔ کسی شکایت کی بنیاد پر یا گھروں سے آتے شور شرابے پر فوری نوٹس لینا ہی ان کام ہو ۔۔۔ جنہیں کونسل کی سطح پر مونیٹر کیا جانا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مردوں کے بنائے ہوئے معاشرے میں ہر مرد دوسرے جنونی مرد کو سپورٹ کرتا نظر آتا ہے تو پھر ایسی ہولناک خبروں پر چونکیں کیوں ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ جائیں۔