Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
بھئی والله کمال۔
کیا کمال کا کام کرتے ہو۔
کمال نے تو کمال ہی کردیا۔
اس طرح کے جملے سننے کی انہیں عادت تھی۔
مگر جب سے نوکری کے سلسے میں لاہور میں مقیم ہوئے انہیں یہ بھی سننے کو ملا۔
بھئی ککو کراچی والے تونوکری چھوڑ دیتےہیں۔
شہر نہیں چھوڑتے اور تم پچھلے سات سال سے لاہور میں اکیلے گزر بسر کر رہے ہو۔۔۔ کیسے۔؟
بیوی بچوں کو لاہور کیوں نہیں لے جاتے۔؟
اکثر اُنہیں ایسے فضول سوالات کا سامنا رہتا تھا۔
وہ کبھی مسکرا کر کبھی خاموش رہ کر جوابات ٹال دیا کرتا تھا۔
بس ایک بار عمر میں بڑے کزن جن کی وه بہت عزت کرتے تھے انہوں نے یہ سوال دہرائےتوانہوں نے کچھ یوں جواب دیا۔
بھیا بچے کراچی سے ہی مانوس ہیں۔
یہاں پڑھ رہے ہیں اور اچھا پڑھ رہے ہیں۔ تو میں انہیں کیوں دوسرے شہر لے جا کر پریشان کروں۔ اور بیوی کا بھی بچوں کے ساتھ ہونا زیادہ ضروری ہے نہ کہ میرے۔ یقیناً میرے لئے کچھ پریشانی ہوتی ہے مگر خیر ہے اتنا تو میں مینج کر لیتا ہوں۔
نام ہی کی طرح کمال کی شخصیت تھی۔ نامساعد حالات کے باوجود تعلیمی سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا۔ جس وقت عمومی طور پر لوگ کمپیوٹر سے واقف بھی نہ تھے۔ اس وقت سے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا لوہا منوایا۔ جواں سال بھائی کی حادثاتی موت نے جذباتی طور پر بہت متاثر کیا مگر اسے کبھی اپنے پیشہ ورانہ امور پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اخباری صنعت سے بطور صحافی منسلک ہونے کے بجائے اپنے شعبے میں رہتے ہوئے اپنا مقام بنایا۔ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے لئےبھی ضرر رساں۔ ساٹھ کے پیٹے میں ہونے کے باوجود حس مزاح برقرارتھی جسمانی طور پر بھی فٹ ہی تھے۔ حالانکہ دل کے آپریشن کے بعد لوگ پلنگ سے لگ جاتے ہیں مگر وه اسی طرح چلتے پھرتے ہشاش بشاش ہی نظر آتے۔ دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے۔ بیٹیاں خیر سے اپنے گھروں کی ہو گئیں تھیں لڑکوں کی شادی کرنا ابھی باقی تھا۔ اصل نام تو سیّد کمال فضل زیدی تھا۔
مگرکراچی میں خاندان بھر میں ککو کے نام سے ہی پکارے جاتے تھے۔کراچی میں کسی کے ککو چاچا تھے تو کسی کے ککو ماما
لاہور میں آکر پکارے جانے والے ناموں میں “شاہ جی” کا اضافہ ضرور ہوا۔ مگر اس نام کی بیخ کنی نہیں کی تو انہوں نے بڑھاوا بھی نہیں دیا۔
کمال صاحب عید والے دن دوپہر کا کھانا میرے گھر۔
ایک دفتری ساتھی نے حکم آمیز دعوت دی۔
ارے نہیں بھائی عید پر اپنے گھر ہوں گے ہم تو۔
کمال صاحب نے خوشی سے بتایا۔
آپ کی کب روانگی ہے۔سر
ایک اور ساتھی نے پوچھا۔
بس کل دوپہر کی فلائٹ ہے۔
شام میں کراچی میں ہوں گے
اپنے بچوں اور اُنکی ماں کے ساتھ
کمال صاحب نے خوشی خوشی بتایا۔
اور سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔
دوسرے دن اپارٹمنٹ سے بیگ لیا وقت مقررہ سے کافی پہلے ہی ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ بے تابی تھی۔ بے چینی تھی۔ جو انہیں چین نہیں لینے دے رہی تھی۔ پورے تین مہینے کے بعد گھر جانے کی سبیل ہوئی تھی ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُڑ کر کراچی پہنچ جائیں۔
خیر جہاز روانہ ہوا، کمال صاحب نے اپنا سر جہاز کی سیٹ سے لگایا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اور سوچنے لگے کافی نوکری ہو گئی دوسرے شہر میں اب تو بچیوں کے فرض سے بھی سبک دوش ہو چکے ہیں۔بڑے بیٹے کی شادی ہو جائے تو بس اب پکا پکا کراچی واپس آجائیں گے۔ دوسرے شہر میں نوکری ویسے ہی مشکل ہوتی ہے اوپر سے کرونا اور لاک ڈاؤن کی قباحتیں۔ انہیں اس بات کا بھی قلق تھا کہ اپنے والد کے آخری ایام دوسرے شہر میں ہونے کی بناء پر وہ خدمت نہ کر پائے۔
عموماً وه فلائٹ میں سو جایا کرتے تھے۔ آج خوشی کے مارے نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وقت گزاری کے لئے جیب سے موبائل نکالا۔ تصویریں دیکھنے لگے گھر والوں کی بچوں کی نواسی کی نواسے کی خود ہی خیال آیا یہ تو اب اور بڑے ہو گئے ہوں گے۔ آج وقت تھا کہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے موبائل رکھ دیا۔
پھر خیال آیا۔ بیٹے نے بھی ویڈیوز بھیجی تھی۔ وه دوبارہ موبائل میں سیو ویڈیوز دیکھنے لگے۔ کچھ گھر کی بنی ویڈیوز تھی جس میں سب انہیں اپنے پاس بلا رہے تھے۔ اور کچھ نوحے اور منقبتیں تھیں۔ ایسے میں میر حسن میر کی پڑھی ہوئی نعت کی ویڈیو آگئی۔
یا محمّد، ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
میر حسن کی آواز اور آغا سروش کی شاعری نے انہیں مسحور کر دیا۔ اور کمال صاحب زیر لب میر کی آواز سے آواز ملانے لگے۔
یا محمّد ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
دوسرے ہی پل انہوں نے سوچا نجف و کربلا کی زیارتیں تو کر لیں ہیں۔ بس بیٹے کی شادی کے بعد دونوں میاں بیوی درِ رسول ؐ پر حاضری دیں گے اور عمرہ کریں گے۔ اور اور……
ابھی یہ سوچ جاری ہی تھی کہ اناؤنسمنٹ ہوئی کہ پی کے 8303 کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والی ہے۔ تمام مسافر اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ انہوں نے موبائل جیب میں رکھا اور سیٹ بیلٹ باندھ لی۔
مگر جہاز لینڈ کرنے کے بجاۓ دوبارہ فضا میں بلند ہونے لگا۔
تمام مسافر پریشان ہو گئے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ دوسرے ہی لمحے جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ جہاز میں چیخ و پکار ہونی لگی۔ لوگ آیات کریمہ کا ورد کرنے لگے۔ کوئی آیت الكرسی پڑھنے لگا۔ تو کہیں سے درود ابراہیمی کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
کمال صاحب نے کمال کے سرعت کے ساتھ آیت الكرسی بھی پوری پڑھی نادِعلی اور کلمہ طیبہ بھی، اس کے بعد پھر وه دوبارہ وہی نعت زیر لب دوہرانے لگے
یا محمّد
اور آنکھیں بند کر لیں۔
اب جب آنکھیں کھولیں تو خود کو گنبد خضری کے سامنے پایا۔ انکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ سب کچھ آناً فاناً کیسے ہو گیا۔
خود سے ہی سوال کیا
میں نے تو کراچی ائیر پورٹ پر اترنا تھا
میں یہاں کیسے۔؟
مجھ سا گنہگار دربار مصطفیٰ میں کیسے ۔۔؟
اپنے اندر سے ہی ندا آئی۔
وہ جو تیری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔
وه جو غفور و رحیم ہے۔
وه جو کن فیکون پر قادر ہے۔
وه تو نیتوں کااحوال جاننے والا ہے۔
وہ نیتوں پر اجر دینے پر بھی قادر ہے۔
اُسے
کب،
کس کی،
کونسی،
ادا پسند آ جائے۔
وه ہی جانتا ہے۔
بس پھر کیا تھا۔
مولا میں بہت گہنگار مجھے بخش دیجیے۔
روتے روتے کمال صاحب نے سنہری جالی تھام کر دعائیں مانگنی شروع کردیں۔
اور اِدھر کراچی میں ان کا جسدِ خاکی جہاز کے ملبے میں تلاش کیا جا رہا تھا۔
بھئی والله کمال۔
کیا کمال کا کام کرتے ہو۔
کمال نے تو کمال ہی کردیا۔
اس طرح کے جملے سننے کی انہیں عادت تھی۔
مگر جب سے نوکری کے سلسے میں لاہور میں مقیم ہوئے انہیں یہ بھی سننے کو ملا۔
بھئی ککو کراچی والے تونوکری چھوڑ دیتےہیں۔
شہر نہیں چھوڑتے اور تم پچھلے سات سال سے لاہور میں اکیلے گزر بسر کر رہے ہو۔۔۔ کیسے۔؟
بیوی بچوں کو لاہور کیوں نہیں لے جاتے۔؟
اکثر اُنہیں ایسے فضول سوالات کا سامنا رہتا تھا۔
وہ کبھی مسکرا کر کبھی خاموش رہ کر جوابات ٹال دیا کرتا تھا۔
بس ایک بار عمر میں بڑے کزن جن کی وه بہت عزت کرتے تھے انہوں نے یہ سوال دہرائےتوانہوں نے کچھ یوں جواب دیا۔
بھیا بچے کراچی سے ہی مانوس ہیں۔
یہاں پڑھ رہے ہیں اور اچھا پڑھ رہے ہیں۔ تو میں انہیں کیوں دوسرے شہر لے جا کر پریشان کروں۔ اور بیوی کا بھی بچوں کے ساتھ ہونا زیادہ ضروری ہے نہ کہ میرے۔ یقیناً میرے لئے کچھ پریشانی ہوتی ہے مگر خیر ہے اتنا تو میں مینج کر لیتا ہوں۔
نام ہی کی طرح کمال کی شخصیت تھی۔ نامساعد حالات کے باوجود تعلیمی سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا۔ جس وقت عمومی طور پر لوگ کمپیوٹر سے واقف بھی نہ تھے۔ اس وقت سے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا لوہا منوایا۔ جواں سال بھائی کی حادثاتی موت نے جذباتی طور پر بہت متاثر کیا مگر اسے کبھی اپنے پیشہ ورانہ امور پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اخباری صنعت سے بطور صحافی منسلک ہونے کے بجائے اپنے شعبے میں رہتے ہوئے اپنا مقام بنایا۔ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے لئےبھی ضرر رساں۔ ساٹھ کے پیٹے میں ہونے کے باوجود حس مزاح برقرارتھی جسمانی طور پر بھی فٹ ہی تھے۔ حالانکہ دل کے آپریشن کے بعد لوگ پلنگ سے لگ جاتے ہیں مگر وه اسی طرح چلتے پھرتے ہشاش بشاش ہی نظر آتے۔ دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے۔ بیٹیاں خیر سے اپنے گھروں کی ہو گئیں تھیں لڑکوں کی شادی کرنا ابھی باقی تھا۔ اصل نام تو سیّد کمال فضل زیدی تھا۔
مگرکراچی میں خاندان بھر میں ککو کے نام سے ہی پکارے جاتے تھے۔کراچی میں کسی کے ککو چاچا تھے تو کسی کے ککو ماما
لاہور میں آکر پکارے جانے والے ناموں میں “شاہ جی” کا اضافہ ضرور ہوا۔ مگر اس نام کی بیخ کنی نہیں کی تو انہوں نے بڑھاوا بھی نہیں دیا۔
کمال صاحب عید والے دن دوپہر کا کھانا میرے گھر۔
ایک دفتری ساتھی نے حکم آمیز دعوت دی۔
ارے نہیں بھائی عید پر اپنے گھر ہوں گے ہم تو۔
کمال صاحب نے خوشی سے بتایا۔
آپ کی کب روانگی ہے۔سر
ایک اور ساتھی نے پوچھا۔
بس کل دوپہر کی فلائٹ ہے۔
شام میں کراچی میں ہوں گے
اپنے بچوں اور اُنکی ماں کے ساتھ
کمال صاحب نے خوشی خوشی بتایا۔
اور سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔
دوسرے دن اپارٹمنٹ سے بیگ لیا وقت مقررہ سے کافی پہلے ہی ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ بے تابی تھی۔ بے چینی تھی۔ جو انہیں چین نہیں لینے دے رہی تھی۔ پورے تین مہینے کے بعد گھر جانے کی سبیل ہوئی تھی ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُڑ کر کراچی پہنچ جائیں۔
خیر جہاز روانہ ہوا، کمال صاحب نے اپنا سر جہاز کی سیٹ سے لگایا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اور سوچنے لگے کافی نوکری ہو گئی دوسرے شہر میں اب تو بچیوں کے فرض سے بھی سبک دوش ہو چکے ہیں۔بڑے بیٹے کی شادی ہو جائے تو بس اب پکا پکا کراچی واپس آجائیں گے۔ دوسرے شہر میں نوکری ویسے ہی مشکل ہوتی ہے اوپر سے کرونا اور لاک ڈاؤن کی قباحتیں۔ انہیں اس بات کا بھی قلق تھا کہ اپنے والد کے آخری ایام دوسرے شہر میں ہونے کی بناء پر وہ خدمت نہ کر پائے۔
عموماً وه فلائٹ میں سو جایا کرتے تھے۔ آج خوشی کے مارے نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وقت گزاری کے لئے جیب سے موبائل نکالا۔ تصویریں دیکھنے لگے گھر والوں کی بچوں کی نواسی کی نواسے کی خود ہی خیال آیا یہ تو اب اور بڑے ہو گئے ہوں گے۔ آج وقت تھا کہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے موبائل رکھ دیا۔
پھر خیال آیا۔ بیٹے نے بھی ویڈیوز بھیجی تھی۔ وه دوبارہ موبائل میں سیو ویڈیوز دیکھنے لگے۔ کچھ گھر کی بنی ویڈیوز تھی جس میں سب انہیں اپنے پاس بلا رہے تھے۔ اور کچھ نوحے اور منقبتیں تھیں۔ ایسے میں میر حسن میر کی پڑھی ہوئی نعت کی ویڈیو آگئی۔
یا محمّد، ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
میر حسن کی آواز اور آغا سروش کی شاعری نے انہیں مسحور کر دیا۔ اور کمال صاحب زیر لب میر کی آواز سے آواز ملانے لگے۔
یا محمّد ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
دوسرے ہی پل انہوں نے سوچا نجف و کربلا کی زیارتیں تو کر لیں ہیں۔ بس بیٹے کی شادی کے بعد دونوں میاں بیوی درِ رسول ؐ پر حاضری دیں گے اور عمرہ کریں گے۔ اور اور……
ابھی یہ سوچ جاری ہی تھی کہ اناؤنسمنٹ ہوئی کہ پی کے 8303 کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والی ہے۔ تمام مسافر اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ انہوں نے موبائل جیب میں رکھا اور سیٹ بیلٹ باندھ لی۔
مگر جہاز لینڈ کرنے کے بجاۓ دوبارہ فضا میں بلند ہونے لگا۔
تمام مسافر پریشان ہو گئے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ دوسرے ہی لمحے جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ جہاز میں چیخ و پکار ہونی لگی۔ لوگ آیات کریمہ کا ورد کرنے لگے۔ کوئی آیت الكرسی پڑھنے لگا۔ تو کہیں سے درود ابراہیمی کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
کمال صاحب نے کمال کے سرعت کے ساتھ آیت الكرسی بھی پوری پڑھی نادِعلی اور کلمہ طیبہ بھی، اس کے بعد پھر وه دوبارہ وہی نعت زیر لب دوہرانے لگے
یا محمّد
اور آنکھیں بند کر لیں۔
اب جب آنکھیں کھولیں تو خود کو گنبد خضری کے سامنے پایا۔ انکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ سب کچھ آناً فاناً کیسے ہو گیا۔
خود سے ہی سوال کیا
میں نے تو کراچی ائیر پورٹ پر اترنا تھا
میں یہاں کیسے۔؟
مجھ سا گنہگار دربار مصطفیٰ میں کیسے ۔۔؟
اپنے اندر سے ہی ندا آئی۔
وہ جو تیری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔
وه جو غفور و رحیم ہے۔
وه جو کن فیکون پر قادر ہے۔
وه تو نیتوں کااحوال جاننے والا ہے۔
وہ نیتوں پر اجر دینے پر بھی قادر ہے۔
اُسے
کب،
کس کی،
کونسی،
ادا پسند آ جائے۔
وه ہی جانتا ہے۔
بس پھر کیا تھا۔
مولا میں بہت گہنگار مجھے بخش دیجیے۔
روتے روتے کمال صاحب نے سنہری جالی تھام کر دعائیں مانگنی شروع کردیں۔
اور اِدھر کراچی میں ان کا جسدِ خاکی جہاز کے ملبے میں تلاش کیا جا رہا تھا۔
بھئی والله کمال۔
کیا کمال کا کام کرتے ہو۔
کمال نے تو کمال ہی کردیا۔
اس طرح کے جملے سننے کی انہیں عادت تھی۔
مگر جب سے نوکری کے سلسے میں لاہور میں مقیم ہوئے انہیں یہ بھی سننے کو ملا۔
بھئی ککو کراچی والے تونوکری چھوڑ دیتےہیں۔
شہر نہیں چھوڑتے اور تم پچھلے سات سال سے لاہور میں اکیلے گزر بسر کر رہے ہو۔۔۔ کیسے۔؟
بیوی بچوں کو لاہور کیوں نہیں لے جاتے۔؟
اکثر اُنہیں ایسے فضول سوالات کا سامنا رہتا تھا۔
وہ کبھی مسکرا کر کبھی خاموش رہ کر جوابات ٹال دیا کرتا تھا۔
بس ایک بار عمر میں بڑے کزن جن کی وه بہت عزت کرتے تھے انہوں نے یہ سوال دہرائےتوانہوں نے کچھ یوں جواب دیا۔
بھیا بچے کراچی سے ہی مانوس ہیں۔
یہاں پڑھ رہے ہیں اور اچھا پڑھ رہے ہیں۔ تو میں انہیں کیوں دوسرے شہر لے جا کر پریشان کروں۔ اور بیوی کا بھی بچوں کے ساتھ ہونا زیادہ ضروری ہے نہ کہ میرے۔ یقیناً میرے لئے کچھ پریشانی ہوتی ہے مگر خیر ہے اتنا تو میں مینج کر لیتا ہوں۔
نام ہی کی طرح کمال کی شخصیت تھی۔ نامساعد حالات کے باوجود تعلیمی سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا۔ جس وقت عمومی طور پر لوگ کمپیوٹر سے واقف بھی نہ تھے۔ اس وقت سے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا لوہا منوایا۔ جواں سال بھائی کی حادثاتی موت نے جذباتی طور پر بہت متاثر کیا مگر اسے کبھی اپنے پیشہ ورانہ امور پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اخباری صنعت سے بطور صحافی منسلک ہونے کے بجائے اپنے شعبے میں رہتے ہوئے اپنا مقام بنایا۔ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے لئےبھی ضرر رساں۔ ساٹھ کے پیٹے میں ہونے کے باوجود حس مزاح برقرارتھی جسمانی طور پر بھی فٹ ہی تھے۔ حالانکہ دل کے آپریشن کے بعد لوگ پلنگ سے لگ جاتے ہیں مگر وه اسی طرح چلتے پھرتے ہشاش بشاش ہی نظر آتے۔ دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے۔ بیٹیاں خیر سے اپنے گھروں کی ہو گئیں تھیں لڑکوں کی شادی کرنا ابھی باقی تھا۔ اصل نام تو سیّد کمال فضل زیدی تھا۔
مگرکراچی میں خاندان بھر میں ککو کے نام سے ہی پکارے جاتے تھے۔کراچی میں کسی کے ککو چاچا تھے تو کسی کے ککو ماما
لاہور میں آکر پکارے جانے والے ناموں میں “شاہ جی” کا اضافہ ضرور ہوا۔ مگر اس نام کی بیخ کنی نہیں کی تو انہوں نے بڑھاوا بھی نہیں دیا۔
کمال صاحب عید والے دن دوپہر کا کھانا میرے گھر۔
ایک دفتری ساتھی نے حکم آمیز دعوت دی۔
ارے نہیں بھائی عید پر اپنے گھر ہوں گے ہم تو۔
کمال صاحب نے خوشی سے بتایا۔
آپ کی کب روانگی ہے۔سر
ایک اور ساتھی نے پوچھا۔
بس کل دوپہر کی فلائٹ ہے۔
شام میں کراچی میں ہوں گے
اپنے بچوں اور اُنکی ماں کے ساتھ
کمال صاحب نے خوشی خوشی بتایا۔
اور سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔
دوسرے دن اپارٹمنٹ سے بیگ لیا وقت مقررہ سے کافی پہلے ہی ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ بے تابی تھی۔ بے چینی تھی۔ جو انہیں چین نہیں لینے دے رہی تھی۔ پورے تین مہینے کے بعد گھر جانے کی سبیل ہوئی تھی ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُڑ کر کراچی پہنچ جائیں۔
خیر جہاز روانہ ہوا، کمال صاحب نے اپنا سر جہاز کی سیٹ سے لگایا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اور سوچنے لگے کافی نوکری ہو گئی دوسرے شہر میں اب تو بچیوں کے فرض سے بھی سبک دوش ہو چکے ہیں۔بڑے بیٹے کی شادی ہو جائے تو بس اب پکا پکا کراچی واپس آجائیں گے۔ دوسرے شہر میں نوکری ویسے ہی مشکل ہوتی ہے اوپر سے کرونا اور لاک ڈاؤن کی قباحتیں۔ انہیں اس بات کا بھی قلق تھا کہ اپنے والد کے آخری ایام دوسرے شہر میں ہونے کی بناء پر وہ خدمت نہ کر پائے۔
عموماً وه فلائٹ میں سو جایا کرتے تھے۔ آج خوشی کے مارے نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وقت گزاری کے لئے جیب سے موبائل نکالا۔ تصویریں دیکھنے لگے گھر والوں کی بچوں کی نواسی کی نواسے کی خود ہی خیال آیا یہ تو اب اور بڑے ہو گئے ہوں گے۔ آج وقت تھا کہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے موبائل رکھ دیا۔
پھر خیال آیا۔ بیٹے نے بھی ویڈیوز بھیجی تھی۔ وه دوبارہ موبائل میں سیو ویڈیوز دیکھنے لگے۔ کچھ گھر کی بنی ویڈیوز تھی جس میں سب انہیں اپنے پاس بلا رہے تھے۔ اور کچھ نوحے اور منقبتیں تھیں۔ ایسے میں میر حسن میر کی پڑھی ہوئی نعت کی ویڈیو آگئی۔
یا محمّد، ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
میر حسن کی آواز اور آغا سروش کی شاعری نے انہیں مسحور کر دیا۔ اور کمال صاحب زیر لب میر کی آواز سے آواز ملانے لگے۔
یا محمّد ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
دوسرے ہی پل انہوں نے سوچا نجف و کربلا کی زیارتیں تو کر لیں ہیں۔ بس بیٹے کی شادی کے بعد دونوں میاں بیوی درِ رسول ؐ پر حاضری دیں گے اور عمرہ کریں گے۔ اور اور……
ابھی یہ سوچ جاری ہی تھی کہ اناؤنسمنٹ ہوئی کہ پی کے 8303 کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والی ہے۔ تمام مسافر اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ انہوں نے موبائل جیب میں رکھا اور سیٹ بیلٹ باندھ لی۔
مگر جہاز لینڈ کرنے کے بجاۓ دوبارہ فضا میں بلند ہونے لگا۔
تمام مسافر پریشان ہو گئے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ دوسرے ہی لمحے جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ جہاز میں چیخ و پکار ہونی لگی۔ لوگ آیات کریمہ کا ورد کرنے لگے۔ کوئی آیت الكرسی پڑھنے لگا۔ تو کہیں سے درود ابراہیمی کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
کمال صاحب نے کمال کے سرعت کے ساتھ آیت الكرسی بھی پوری پڑھی نادِعلی اور کلمہ طیبہ بھی، اس کے بعد پھر وه دوبارہ وہی نعت زیر لب دوہرانے لگے
یا محمّد
اور آنکھیں بند کر لیں۔
اب جب آنکھیں کھولیں تو خود کو گنبد خضری کے سامنے پایا۔ انکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ سب کچھ آناً فاناً کیسے ہو گیا۔
خود سے ہی سوال کیا
میں نے تو کراچی ائیر پورٹ پر اترنا تھا
میں یہاں کیسے۔؟
مجھ سا گنہگار دربار مصطفیٰ میں کیسے ۔۔؟
اپنے اندر سے ہی ندا آئی۔
وہ جو تیری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔
وه جو غفور و رحیم ہے۔
وه جو کن فیکون پر قادر ہے۔
وه تو نیتوں کااحوال جاننے والا ہے۔
وہ نیتوں پر اجر دینے پر بھی قادر ہے۔
اُسے
کب،
کس کی،
کونسی،
ادا پسند آ جائے۔
وه ہی جانتا ہے۔
بس پھر کیا تھا۔
مولا میں بہت گہنگار مجھے بخش دیجیے۔
روتے روتے کمال صاحب نے سنہری جالی تھام کر دعائیں مانگنی شروع کردیں۔
اور اِدھر کراچی میں ان کا جسدِ خاکی جہاز کے ملبے میں تلاش کیا جا رہا تھا۔
بھئی والله کمال۔
کیا کمال کا کام کرتے ہو۔
کمال نے تو کمال ہی کردیا۔
اس طرح کے جملے سننے کی انہیں عادت تھی۔
مگر جب سے نوکری کے سلسے میں لاہور میں مقیم ہوئے انہیں یہ بھی سننے کو ملا۔
بھئی ککو کراچی والے تونوکری چھوڑ دیتےہیں۔
شہر نہیں چھوڑتے اور تم پچھلے سات سال سے لاہور میں اکیلے گزر بسر کر رہے ہو۔۔۔ کیسے۔؟
بیوی بچوں کو لاہور کیوں نہیں لے جاتے۔؟
اکثر اُنہیں ایسے فضول سوالات کا سامنا رہتا تھا۔
وہ کبھی مسکرا کر کبھی خاموش رہ کر جوابات ٹال دیا کرتا تھا۔
بس ایک بار عمر میں بڑے کزن جن کی وه بہت عزت کرتے تھے انہوں نے یہ سوال دہرائےتوانہوں نے کچھ یوں جواب دیا۔
بھیا بچے کراچی سے ہی مانوس ہیں۔
یہاں پڑھ رہے ہیں اور اچھا پڑھ رہے ہیں۔ تو میں انہیں کیوں دوسرے شہر لے جا کر پریشان کروں۔ اور بیوی کا بھی بچوں کے ساتھ ہونا زیادہ ضروری ہے نہ کہ میرے۔ یقیناً میرے لئے کچھ پریشانی ہوتی ہے مگر خیر ہے اتنا تو میں مینج کر لیتا ہوں۔
نام ہی کی طرح کمال کی شخصیت تھی۔ نامساعد حالات کے باوجود تعلیمی سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا۔ جس وقت عمومی طور پر لوگ کمپیوٹر سے واقف بھی نہ تھے۔ اس وقت سے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا لوہا منوایا۔ جواں سال بھائی کی حادثاتی موت نے جذباتی طور پر بہت متاثر کیا مگر اسے کبھی اپنے پیشہ ورانہ امور پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اخباری صنعت سے بطور صحافی منسلک ہونے کے بجائے اپنے شعبے میں رہتے ہوئے اپنا مقام بنایا۔ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے لئےبھی ضرر رساں۔ ساٹھ کے پیٹے میں ہونے کے باوجود حس مزاح برقرارتھی جسمانی طور پر بھی فٹ ہی تھے۔ حالانکہ دل کے آپریشن کے بعد لوگ پلنگ سے لگ جاتے ہیں مگر وه اسی طرح چلتے پھرتے ہشاش بشاش ہی نظر آتے۔ دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے۔ بیٹیاں خیر سے اپنے گھروں کی ہو گئیں تھیں لڑکوں کی شادی کرنا ابھی باقی تھا۔ اصل نام تو سیّد کمال فضل زیدی تھا۔
مگرکراچی میں خاندان بھر میں ککو کے نام سے ہی پکارے جاتے تھے۔کراچی میں کسی کے ککو چاچا تھے تو کسی کے ککو ماما
لاہور میں آکر پکارے جانے والے ناموں میں “شاہ جی” کا اضافہ ضرور ہوا۔ مگر اس نام کی بیخ کنی نہیں کی تو انہوں نے بڑھاوا بھی نہیں دیا۔
کمال صاحب عید والے دن دوپہر کا کھانا میرے گھر۔
ایک دفتری ساتھی نے حکم آمیز دعوت دی۔
ارے نہیں بھائی عید پر اپنے گھر ہوں گے ہم تو۔
کمال صاحب نے خوشی سے بتایا۔
آپ کی کب روانگی ہے۔سر
ایک اور ساتھی نے پوچھا۔
بس کل دوپہر کی فلائٹ ہے۔
شام میں کراچی میں ہوں گے
اپنے بچوں اور اُنکی ماں کے ساتھ
کمال صاحب نے خوشی خوشی بتایا۔
اور سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔
دوسرے دن اپارٹمنٹ سے بیگ لیا وقت مقررہ سے کافی پہلے ہی ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ بے تابی تھی۔ بے چینی تھی۔ جو انہیں چین نہیں لینے دے رہی تھی۔ پورے تین مہینے کے بعد گھر جانے کی سبیل ہوئی تھی ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُڑ کر کراچی پہنچ جائیں۔
خیر جہاز روانہ ہوا، کمال صاحب نے اپنا سر جہاز کی سیٹ سے لگایا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اور سوچنے لگے کافی نوکری ہو گئی دوسرے شہر میں اب تو بچیوں کے فرض سے بھی سبک دوش ہو چکے ہیں۔بڑے بیٹے کی شادی ہو جائے تو بس اب پکا پکا کراچی واپس آجائیں گے۔ دوسرے شہر میں نوکری ویسے ہی مشکل ہوتی ہے اوپر سے کرونا اور لاک ڈاؤن کی قباحتیں۔ انہیں اس بات کا بھی قلق تھا کہ اپنے والد کے آخری ایام دوسرے شہر میں ہونے کی بناء پر وہ خدمت نہ کر پائے۔
عموماً وه فلائٹ میں سو جایا کرتے تھے۔ آج خوشی کے مارے نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وقت گزاری کے لئے جیب سے موبائل نکالا۔ تصویریں دیکھنے لگے گھر والوں کی بچوں کی نواسی کی نواسے کی خود ہی خیال آیا یہ تو اب اور بڑے ہو گئے ہوں گے۔ آج وقت تھا کہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے موبائل رکھ دیا۔
پھر خیال آیا۔ بیٹے نے بھی ویڈیوز بھیجی تھی۔ وه دوبارہ موبائل میں سیو ویڈیوز دیکھنے لگے۔ کچھ گھر کی بنی ویڈیوز تھی جس میں سب انہیں اپنے پاس بلا رہے تھے۔ اور کچھ نوحے اور منقبتیں تھیں۔ ایسے میں میر حسن میر کی پڑھی ہوئی نعت کی ویڈیو آگئی۔
یا محمّد، ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
میر حسن کی آواز اور آغا سروش کی شاعری نے انہیں مسحور کر دیا۔ اور کمال صاحب زیر لب میر کی آواز سے آواز ملانے لگے۔
یا محمّد ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس۔۔۔
دوسرے ہی پل انہوں نے سوچا نجف و کربلا کی زیارتیں تو کر لیں ہیں۔ بس بیٹے کی شادی کے بعد دونوں میاں بیوی درِ رسول ؐ پر حاضری دیں گے اور عمرہ کریں گے۔ اور اور……
ابھی یہ سوچ جاری ہی تھی کہ اناؤنسمنٹ ہوئی کہ پی کے 8303 کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والی ہے۔ تمام مسافر اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ انہوں نے موبائل جیب میں رکھا اور سیٹ بیلٹ باندھ لی۔
مگر جہاز لینڈ کرنے کے بجاۓ دوبارہ فضا میں بلند ہونے لگا۔
تمام مسافر پریشان ہو گئے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ دوسرے ہی لمحے جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ جہاز میں چیخ و پکار ہونی لگی۔ لوگ آیات کریمہ کا ورد کرنے لگے۔ کوئی آیت الكرسی پڑھنے لگا۔ تو کہیں سے درود ابراہیمی کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
کمال صاحب نے کمال کے سرعت کے ساتھ آیت الكرسی بھی پوری پڑھی نادِعلی اور کلمہ طیبہ بھی، اس کے بعد پھر وه دوبارہ وہی نعت زیر لب دوہرانے لگے
یا محمّد
اور آنکھیں بند کر لیں۔
اب جب آنکھیں کھولیں تو خود کو گنبد خضری کے سامنے پایا۔ انکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ سب کچھ آناً فاناً کیسے ہو گیا۔
خود سے ہی سوال کیا
میں نے تو کراچی ائیر پورٹ پر اترنا تھا
میں یہاں کیسے۔؟
مجھ سا گنہگار دربار مصطفیٰ میں کیسے ۔۔؟
اپنے اندر سے ہی ندا آئی۔
وہ جو تیری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔
وه جو غفور و رحیم ہے۔
وه جو کن فیکون پر قادر ہے۔
وه تو نیتوں کااحوال جاننے والا ہے۔
وہ نیتوں پر اجر دینے پر بھی قادر ہے۔
اُسے
کب،
کس کی،
کونسی،
ادا پسند آ جائے۔
وه ہی جانتا ہے۔
بس پھر کیا تھا۔
مولا میں بہت گہنگار مجھے بخش دیجیے۔
روتے روتے کمال صاحب نے سنہری جالی تھام کر دعائیں مانگنی شروع کردیں۔
اور اِدھر کراچی میں ان کا جسدِ خاکی جہاز کے ملبے میں تلاش کیا جا رہا تھا۔