Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ساغر علی وزیر آباد نامی چھوٹے شہر کا چھوٹی صنعت (برتن کی)کا چھوٹا صنعتی کارکن تھا۔ اچھی گزر اوقات ہو جاتی تھی۔ سال بھر کا اناج تو تھوڑی سی خاندانی زمین تھی علی پور میں وہاں سے آجاتا تھا باقی مہینے کا خرچہ برتن بنانے کی فیکٹری میں کام کر کے نکال لیتا تھا۔
ابھی کچھ گھنٹےپہلے ہی اسکے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ لاک ڈاؤن کے باوجود اس نے مٹھائی بانٹی تھی پورے محلے میں۔ سب خوش تھے۔
بچہ تھوڑا کمزور تھا پیدائشی طور پر ہی، دوا دارو، دم درود جو وہ اور اسکے گھر والے کر سکتے تھے سب کیا مگر بچے کی طبعیت تھوڑی ہی سنبھلتی اور اسکے بعد اور زیادہ بگڑ جاتی۔ اس کرونائی وبائی صورتحال میں تو چیف جسٹس کی بیوی کے لئے ڈاکٹر مشکل سے ملا تھا تو یہ تو تھا ایک عام سےبھی عام آدمی
تواِیس نوچائلڈ اسپیشلسٹ کتھوں لبهنا سی۔
“پتر ویکھ اے تیرا منڈا ٹھیک نئیں لگ ریا
ایدی سا گھٹ رہی اے، نالے رو وی بہتا ریا اے”
ساغر علی کی ماں نے ساغر سے کہا
“اماں جی فیر کی کراں تسی دسو”
ساغر نے جواب دیا
“پت منڈے نوں وڈے اسپتال لے جا”
ساغر کی ماں نے کہا
” اماں جی۔۔۔
پُل پار کرنا پیندا اے اُس واسطے
تے نالے اُتھے بہوتی پُلس وی کھلوتی اے،
او کسی نوں وی نئیں جان دیندی”
ساغر نے ماں سے کہا
مگر جب ماں نے بہت اصرار کیا تو وہ مان گیا
اچھا اماں
میں موٹر سائیکل سٹارٹ کرنا وا،
تسی بھیجو اس دی ماں نوں
ساغر نے جواب دیا
ساغر توں نئیں جاندا حالے او ٹھیک نئیں اے،
توں انج کر چھوٹے پرا نو نال لے جا
اماں جی نے جواب دیا
دونوں بھائی بیٹے کو لے کر نکلے،
موٹرسائیکل چھوٹا بھائی چلا رہا تھا
ساغربیٹے کو گود میں لے کر پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔
دریائے چناب پر بنے ہوئے پل پر آکر
پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا۔
ہاں بھئی کتھےجا رہے ہو۔۔؟
پولیس کانسٹیبل نے پوچھا
بھائی جان نے ہسپتال جارہے نے وڈے
اے نکا بیمار اے گا ساڈا
ساغر کے چھوٹے بھائی نے جواب دیا
جان دیو تواڈی مہربانی بادشاہو
اے نکا منڈا بہتا بیمارہے گا
ساغر بھی پیچھے سے بولا
کانسٹیبل نے دونوں کی طرف غور سے دیکھا
اور شرارت بھرے لہجے میں کہا
بالکل جاندیاں گے بادشاہو
موٹرسائیکل نوں سائیڈ تے لاؤ
ہور ذرا ساڈےنال آؤ
پائی جان اے اج سانوں بہتا تنگ کرن گے۔
ساغر کے بھائی نے موٹرسائیکل سائڈ میں
لگاتے ہوئے ساغر سے کہا
موٹرسائیکل سائڈ میں لگوا کر ان دونوں کو پولیس وین میں بٹھا لیا۔ دونوں منتیں کرتے رہے ہمیں جانے دے ہماری مجبوری ہے۔ مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
ایک پولیس والے نے کہا بھی کہ یار جانے دے
مگر دوسرے نے فوراً اس کی بات یہ کہہ کر رد کر دی کہ تمھیں نہیں پتہ تھا کل کیا ہوا تھا
میں نے کل ایک فیملی کو مجبوری کی وجہ سے چھوڑ دیا پتا چلا وہ پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی نہیں لڑکا تھا جس نے برقع اوڑھاہوا تھا. ایس پی نے اگلے ناکہ پر پکڑ لیا
ان میں کچھ اسی قسم کا ڈرامہ ہوا تو ایس پی صاحب ہمیں نہیں چھوڑیں گے
گھنٹے بھر تک وزیرآباد کی گلیوں میں گھماتے رہے۔ اور بعد میں جا کر تھانے میں بند کر دیا کسی ایک پولیس والے کو رحم آیا تو اس نے فون دیا گھر اطلاع کرو
گھر والے آئے۔
اب کے پولیس نے اتنی مہربانی کی کے
گھر والوں کو نومولود تھما دیا کہ
جاؤ جا کر بڑے ہسپتال میں دکھا دو
نومولود کو لے کر جب گھر والے ہسپتال پہنچے تو
ڈاکٹروں نے دیکھ کر کہا اس کا تو انتقال آدھے گھنٹے قبل ہوچکا ہے۔
روتے پیٹتے بچے کی لاش اٹھائے گھر آئے۔ محلے اڑوس پڑوس کے لوگ اور کچھ قریبی رشتہ دار بھی ایسے میں آچکے تھے۔ ساغر اوراُس کےچھوٹے بھائی کو شخصی ضمانت پر چھڑایا گیا۔
ساغر کو شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ بچے کے ساتھ کچھ برا ہو چکا ہے۔
ساغر بالکل خاموش تھا۔
جب گھر لاکر اس کو اطلاع دی گئی
کہ تمہارا بیٹا مر چکا ہے۔
وہ اس وقت بھی بالکل خاموش رہا۔
نہ آنکھ سے آنسو ٹپکا
نہ کوئی چیخ ماری اور
نہ ہی سسکی لی اور رویا بالکل بھی نہیں۔
اس کی ماں اکیلے میں اس کے قریب آئی اور اس سے پوچھا
پتر او اللہ دی امانت سی اللہ واپس لے لئی۔۔۔
پر اوس دا نا تے کچھ دس
فاتحہ درود واسطے۔
تیرا پرا وی کہہ ریا سی
اودھا ڈیتھ سرٹیفکیٹ وی بنوانا اے ۔
پتر دس نا ۔۔۔ ماں نے ساغر سے پھر پوچھا
کرونا علی ولد ساغر علی
ساغر نے طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا
پتر توں چھلا ہوگیا ایں
ساغر کی ماں ساغر سے گویا ہوئی
ہاں جی ماں جی
کرونا
نا اے اُودا۔
پورے وزیرآباد وِچ دٙس دینا
پنجاب پولیس کرونا مار دِتا
یہ کہہ کر زور زور سے ہسنے لگا
******
ساغر علی وزیر آباد نامی چھوٹے شہر کا چھوٹی صنعت (برتن کی)کا چھوٹا صنعتی کارکن تھا۔ اچھی گزر اوقات ہو جاتی تھی۔ سال بھر کا اناج تو تھوڑی سی خاندانی زمین تھی علی پور میں وہاں سے آجاتا تھا باقی مہینے کا خرچہ برتن بنانے کی فیکٹری میں کام کر کے نکال لیتا تھا۔
ابھی کچھ گھنٹےپہلے ہی اسکے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ لاک ڈاؤن کے باوجود اس نے مٹھائی بانٹی تھی پورے محلے میں۔ سب خوش تھے۔
بچہ تھوڑا کمزور تھا پیدائشی طور پر ہی، دوا دارو، دم درود جو وہ اور اسکے گھر والے کر سکتے تھے سب کیا مگر بچے کی طبعیت تھوڑی ہی سنبھلتی اور اسکے بعد اور زیادہ بگڑ جاتی۔ اس کرونائی وبائی صورتحال میں تو چیف جسٹس کی بیوی کے لئے ڈاکٹر مشکل سے ملا تھا تو یہ تو تھا ایک عام سےبھی عام آدمی
تواِیس نوچائلڈ اسپیشلسٹ کتھوں لبهنا سی۔
“پتر ویکھ اے تیرا منڈا ٹھیک نئیں لگ ریا
ایدی سا گھٹ رہی اے، نالے رو وی بہتا ریا اے”
ساغر علی کی ماں نے ساغر سے کہا
“اماں جی فیر کی کراں تسی دسو”
ساغر نے جواب دیا
“پت منڈے نوں وڈے اسپتال لے جا”
ساغر کی ماں نے کہا
” اماں جی۔۔۔
پُل پار کرنا پیندا اے اُس واسطے
تے نالے اُتھے بہوتی پُلس وی کھلوتی اے،
او کسی نوں وی نئیں جان دیندی”
ساغر نے ماں سے کہا
مگر جب ماں نے بہت اصرار کیا تو وہ مان گیا
اچھا اماں
میں موٹر سائیکل سٹارٹ کرنا وا،
تسی بھیجو اس دی ماں نوں
ساغر نے جواب دیا
ساغر توں نئیں جاندا حالے او ٹھیک نئیں اے،
توں انج کر چھوٹے پرا نو نال لے جا
اماں جی نے جواب دیا
دونوں بھائی بیٹے کو لے کر نکلے،
موٹرسائیکل چھوٹا بھائی چلا رہا تھا
ساغربیٹے کو گود میں لے کر پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔
دریائے چناب پر بنے ہوئے پل پر آکر
پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا۔
ہاں بھئی کتھےجا رہے ہو۔۔؟
پولیس کانسٹیبل نے پوچھا
بھائی جان نے ہسپتال جارہے نے وڈے
اے نکا بیمار اے گا ساڈا
ساغر کے چھوٹے بھائی نے جواب دیا
جان دیو تواڈی مہربانی بادشاہو
اے نکا منڈا بہتا بیمارہے گا
ساغر بھی پیچھے سے بولا
کانسٹیبل نے دونوں کی طرف غور سے دیکھا
اور شرارت بھرے لہجے میں کہا
بالکل جاندیاں گے بادشاہو
موٹرسائیکل نوں سائیڈ تے لاؤ
ہور ذرا ساڈےنال آؤ
پائی جان اے اج سانوں بہتا تنگ کرن گے۔
ساغر کے بھائی نے موٹرسائیکل سائڈ میں
لگاتے ہوئے ساغر سے کہا
موٹرسائیکل سائڈ میں لگوا کر ان دونوں کو پولیس وین میں بٹھا لیا۔ دونوں منتیں کرتے رہے ہمیں جانے دے ہماری مجبوری ہے۔ مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
ایک پولیس والے نے کہا بھی کہ یار جانے دے
مگر دوسرے نے فوراً اس کی بات یہ کہہ کر رد کر دی کہ تمھیں نہیں پتہ تھا کل کیا ہوا تھا
میں نے کل ایک فیملی کو مجبوری کی وجہ سے چھوڑ دیا پتا چلا وہ پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی نہیں لڑکا تھا جس نے برقع اوڑھاہوا تھا. ایس پی نے اگلے ناکہ پر پکڑ لیا
ان میں کچھ اسی قسم کا ڈرامہ ہوا تو ایس پی صاحب ہمیں نہیں چھوڑیں گے
گھنٹے بھر تک وزیرآباد کی گلیوں میں گھماتے رہے۔ اور بعد میں جا کر تھانے میں بند کر دیا کسی ایک پولیس والے کو رحم آیا تو اس نے فون دیا گھر اطلاع کرو
گھر والے آئے۔
اب کے پولیس نے اتنی مہربانی کی کے
گھر والوں کو نومولود تھما دیا کہ
جاؤ جا کر بڑے ہسپتال میں دکھا دو
نومولود کو لے کر جب گھر والے ہسپتال پہنچے تو
ڈاکٹروں نے دیکھ کر کہا اس کا تو انتقال آدھے گھنٹے قبل ہوچکا ہے۔
روتے پیٹتے بچے کی لاش اٹھائے گھر آئے۔ محلے اڑوس پڑوس کے لوگ اور کچھ قریبی رشتہ دار بھی ایسے میں آچکے تھے۔ ساغر اوراُس کےچھوٹے بھائی کو شخصی ضمانت پر چھڑایا گیا۔
ساغر کو شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ بچے کے ساتھ کچھ برا ہو چکا ہے۔
ساغر بالکل خاموش تھا۔
جب گھر لاکر اس کو اطلاع دی گئی
کہ تمہارا بیٹا مر چکا ہے۔
وہ اس وقت بھی بالکل خاموش رہا۔
نہ آنکھ سے آنسو ٹپکا
نہ کوئی چیخ ماری اور
نہ ہی سسکی لی اور رویا بالکل بھی نہیں۔
اس کی ماں اکیلے میں اس کے قریب آئی اور اس سے پوچھا
پتر او اللہ دی امانت سی اللہ واپس لے لئی۔۔۔
پر اوس دا نا تے کچھ دس
فاتحہ درود واسطے۔
تیرا پرا وی کہہ ریا سی
اودھا ڈیتھ سرٹیفکیٹ وی بنوانا اے ۔
پتر دس نا ۔۔۔ ماں نے ساغر سے پھر پوچھا
کرونا علی ولد ساغر علی
ساغر نے طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا
پتر توں چھلا ہوگیا ایں
ساغر کی ماں ساغر سے گویا ہوئی
ہاں جی ماں جی
کرونا
نا اے اُودا۔
پورے وزیرآباد وِچ دٙس دینا
پنجاب پولیس کرونا مار دِتا
یہ کہہ کر زور زور سے ہسنے لگا
******
ساغر علی وزیر آباد نامی چھوٹے شہر کا چھوٹی صنعت (برتن کی)کا چھوٹا صنعتی کارکن تھا۔ اچھی گزر اوقات ہو جاتی تھی۔ سال بھر کا اناج تو تھوڑی سی خاندانی زمین تھی علی پور میں وہاں سے آجاتا تھا باقی مہینے کا خرچہ برتن بنانے کی فیکٹری میں کام کر کے نکال لیتا تھا۔
ابھی کچھ گھنٹےپہلے ہی اسکے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ لاک ڈاؤن کے باوجود اس نے مٹھائی بانٹی تھی پورے محلے میں۔ سب خوش تھے۔
بچہ تھوڑا کمزور تھا پیدائشی طور پر ہی، دوا دارو، دم درود جو وہ اور اسکے گھر والے کر سکتے تھے سب کیا مگر بچے کی طبعیت تھوڑی ہی سنبھلتی اور اسکے بعد اور زیادہ بگڑ جاتی۔ اس کرونائی وبائی صورتحال میں تو چیف جسٹس کی بیوی کے لئے ڈاکٹر مشکل سے ملا تھا تو یہ تو تھا ایک عام سےبھی عام آدمی
تواِیس نوچائلڈ اسپیشلسٹ کتھوں لبهنا سی۔
“پتر ویکھ اے تیرا منڈا ٹھیک نئیں لگ ریا
ایدی سا گھٹ رہی اے، نالے رو وی بہتا ریا اے”
ساغر علی کی ماں نے ساغر سے کہا
“اماں جی فیر کی کراں تسی دسو”
ساغر نے جواب دیا
“پت منڈے نوں وڈے اسپتال لے جا”
ساغر کی ماں نے کہا
” اماں جی۔۔۔
پُل پار کرنا پیندا اے اُس واسطے
تے نالے اُتھے بہوتی پُلس وی کھلوتی اے،
او کسی نوں وی نئیں جان دیندی”
ساغر نے ماں سے کہا
مگر جب ماں نے بہت اصرار کیا تو وہ مان گیا
اچھا اماں
میں موٹر سائیکل سٹارٹ کرنا وا،
تسی بھیجو اس دی ماں نوں
ساغر نے جواب دیا
ساغر توں نئیں جاندا حالے او ٹھیک نئیں اے،
توں انج کر چھوٹے پرا نو نال لے جا
اماں جی نے جواب دیا
دونوں بھائی بیٹے کو لے کر نکلے،
موٹرسائیکل چھوٹا بھائی چلا رہا تھا
ساغربیٹے کو گود میں لے کر پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔
دریائے چناب پر بنے ہوئے پل پر آکر
پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا۔
ہاں بھئی کتھےجا رہے ہو۔۔؟
پولیس کانسٹیبل نے پوچھا
بھائی جان نے ہسپتال جارہے نے وڈے
اے نکا بیمار اے گا ساڈا
ساغر کے چھوٹے بھائی نے جواب دیا
جان دیو تواڈی مہربانی بادشاہو
اے نکا منڈا بہتا بیمارہے گا
ساغر بھی پیچھے سے بولا
کانسٹیبل نے دونوں کی طرف غور سے دیکھا
اور شرارت بھرے لہجے میں کہا
بالکل جاندیاں گے بادشاہو
موٹرسائیکل نوں سائیڈ تے لاؤ
ہور ذرا ساڈےنال آؤ
پائی جان اے اج سانوں بہتا تنگ کرن گے۔
ساغر کے بھائی نے موٹرسائیکل سائڈ میں
لگاتے ہوئے ساغر سے کہا
موٹرسائیکل سائڈ میں لگوا کر ان دونوں کو پولیس وین میں بٹھا لیا۔ دونوں منتیں کرتے رہے ہمیں جانے دے ہماری مجبوری ہے۔ مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
ایک پولیس والے نے کہا بھی کہ یار جانے دے
مگر دوسرے نے فوراً اس کی بات یہ کہہ کر رد کر دی کہ تمھیں نہیں پتہ تھا کل کیا ہوا تھا
میں نے کل ایک فیملی کو مجبوری کی وجہ سے چھوڑ دیا پتا چلا وہ پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی نہیں لڑکا تھا جس نے برقع اوڑھاہوا تھا. ایس پی نے اگلے ناکہ پر پکڑ لیا
ان میں کچھ اسی قسم کا ڈرامہ ہوا تو ایس پی صاحب ہمیں نہیں چھوڑیں گے
گھنٹے بھر تک وزیرآباد کی گلیوں میں گھماتے رہے۔ اور بعد میں جا کر تھانے میں بند کر دیا کسی ایک پولیس والے کو رحم آیا تو اس نے فون دیا گھر اطلاع کرو
گھر والے آئے۔
اب کے پولیس نے اتنی مہربانی کی کے
گھر والوں کو نومولود تھما دیا کہ
جاؤ جا کر بڑے ہسپتال میں دکھا دو
نومولود کو لے کر جب گھر والے ہسپتال پہنچے تو
ڈاکٹروں نے دیکھ کر کہا اس کا تو انتقال آدھے گھنٹے قبل ہوچکا ہے۔
روتے پیٹتے بچے کی لاش اٹھائے گھر آئے۔ محلے اڑوس پڑوس کے لوگ اور کچھ قریبی رشتہ دار بھی ایسے میں آچکے تھے۔ ساغر اوراُس کےچھوٹے بھائی کو شخصی ضمانت پر چھڑایا گیا۔
ساغر کو شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ بچے کے ساتھ کچھ برا ہو چکا ہے۔
ساغر بالکل خاموش تھا۔
جب گھر لاکر اس کو اطلاع دی گئی
کہ تمہارا بیٹا مر چکا ہے۔
وہ اس وقت بھی بالکل خاموش رہا۔
نہ آنکھ سے آنسو ٹپکا
نہ کوئی چیخ ماری اور
نہ ہی سسکی لی اور رویا بالکل بھی نہیں۔
اس کی ماں اکیلے میں اس کے قریب آئی اور اس سے پوچھا
پتر او اللہ دی امانت سی اللہ واپس لے لئی۔۔۔
پر اوس دا نا تے کچھ دس
فاتحہ درود واسطے۔
تیرا پرا وی کہہ ریا سی
اودھا ڈیتھ سرٹیفکیٹ وی بنوانا اے ۔
پتر دس نا ۔۔۔ ماں نے ساغر سے پھر پوچھا
کرونا علی ولد ساغر علی
ساغر نے طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا
پتر توں چھلا ہوگیا ایں
ساغر کی ماں ساغر سے گویا ہوئی
ہاں جی ماں جی
کرونا
نا اے اُودا۔
پورے وزیرآباد وِچ دٙس دینا
پنجاب پولیس کرونا مار دِتا
یہ کہہ کر زور زور سے ہسنے لگا
******
ساغر علی وزیر آباد نامی چھوٹے شہر کا چھوٹی صنعت (برتن کی)کا چھوٹا صنعتی کارکن تھا۔ اچھی گزر اوقات ہو جاتی تھی۔ سال بھر کا اناج تو تھوڑی سی خاندانی زمین تھی علی پور میں وہاں سے آجاتا تھا باقی مہینے کا خرچہ برتن بنانے کی فیکٹری میں کام کر کے نکال لیتا تھا۔
ابھی کچھ گھنٹےپہلے ہی اسکے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ لاک ڈاؤن کے باوجود اس نے مٹھائی بانٹی تھی پورے محلے میں۔ سب خوش تھے۔
بچہ تھوڑا کمزور تھا پیدائشی طور پر ہی، دوا دارو، دم درود جو وہ اور اسکے گھر والے کر سکتے تھے سب کیا مگر بچے کی طبعیت تھوڑی ہی سنبھلتی اور اسکے بعد اور زیادہ بگڑ جاتی۔ اس کرونائی وبائی صورتحال میں تو چیف جسٹس کی بیوی کے لئے ڈاکٹر مشکل سے ملا تھا تو یہ تو تھا ایک عام سےبھی عام آدمی
تواِیس نوچائلڈ اسپیشلسٹ کتھوں لبهنا سی۔
“پتر ویکھ اے تیرا منڈا ٹھیک نئیں لگ ریا
ایدی سا گھٹ رہی اے، نالے رو وی بہتا ریا اے”
ساغر علی کی ماں نے ساغر سے کہا
“اماں جی فیر کی کراں تسی دسو”
ساغر نے جواب دیا
“پت منڈے نوں وڈے اسپتال لے جا”
ساغر کی ماں نے کہا
” اماں جی۔۔۔
پُل پار کرنا پیندا اے اُس واسطے
تے نالے اُتھے بہوتی پُلس وی کھلوتی اے،
او کسی نوں وی نئیں جان دیندی”
ساغر نے ماں سے کہا
مگر جب ماں نے بہت اصرار کیا تو وہ مان گیا
اچھا اماں
میں موٹر سائیکل سٹارٹ کرنا وا،
تسی بھیجو اس دی ماں نوں
ساغر نے جواب دیا
ساغر توں نئیں جاندا حالے او ٹھیک نئیں اے،
توں انج کر چھوٹے پرا نو نال لے جا
اماں جی نے جواب دیا
دونوں بھائی بیٹے کو لے کر نکلے،
موٹرسائیکل چھوٹا بھائی چلا رہا تھا
ساغربیٹے کو گود میں لے کر پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔
دریائے چناب پر بنے ہوئے پل پر آکر
پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا۔
ہاں بھئی کتھےجا رہے ہو۔۔؟
پولیس کانسٹیبل نے پوچھا
بھائی جان نے ہسپتال جارہے نے وڈے
اے نکا بیمار اے گا ساڈا
ساغر کے چھوٹے بھائی نے جواب دیا
جان دیو تواڈی مہربانی بادشاہو
اے نکا منڈا بہتا بیمارہے گا
ساغر بھی پیچھے سے بولا
کانسٹیبل نے دونوں کی طرف غور سے دیکھا
اور شرارت بھرے لہجے میں کہا
بالکل جاندیاں گے بادشاہو
موٹرسائیکل نوں سائیڈ تے لاؤ
ہور ذرا ساڈےنال آؤ
پائی جان اے اج سانوں بہتا تنگ کرن گے۔
ساغر کے بھائی نے موٹرسائیکل سائڈ میں
لگاتے ہوئے ساغر سے کہا
موٹرسائیکل سائڈ میں لگوا کر ان دونوں کو پولیس وین میں بٹھا لیا۔ دونوں منتیں کرتے رہے ہمیں جانے دے ہماری مجبوری ہے۔ مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
ایک پولیس والے نے کہا بھی کہ یار جانے دے
مگر دوسرے نے فوراً اس کی بات یہ کہہ کر رد کر دی کہ تمھیں نہیں پتہ تھا کل کیا ہوا تھا
میں نے کل ایک فیملی کو مجبوری کی وجہ سے چھوڑ دیا پتا چلا وہ پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی نہیں لڑکا تھا جس نے برقع اوڑھاہوا تھا. ایس پی نے اگلے ناکہ پر پکڑ لیا
ان میں کچھ اسی قسم کا ڈرامہ ہوا تو ایس پی صاحب ہمیں نہیں چھوڑیں گے
گھنٹے بھر تک وزیرآباد کی گلیوں میں گھماتے رہے۔ اور بعد میں جا کر تھانے میں بند کر دیا کسی ایک پولیس والے کو رحم آیا تو اس نے فون دیا گھر اطلاع کرو
گھر والے آئے۔
اب کے پولیس نے اتنی مہربانی کی کے
گھر والوں کو نومولود تھما دیا کہ
جاؤ جا کر بڑے ہسپتال میں دکھا دو
نومولود کو لے کر جب گھر والے ہسپتال پہنچے تو
ڈاکٹروں نے دیکھ کر کہا اس کا تو انتقال آدھے گھنٹے قبل ہوچکا ہے۔
روتے پیٹتے بچے کی لاش اٹھائے گھر آئے۔ محلے اڑوس پڑوس کے لوگ اور کچھ قریبی رشتہ دار بھی ایسے میں آچکے تھے۔ ساغر اوراُس کےچھوٹے بھائی کو شخصی ضمانت پر چھڑایا گیا۔
ساغر کو شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ بچے کے ساتھ کچھ برا ہو چکا ہے۔
ساغر بالکل خاموش تھا۔
جب گھر لاکر اس کو اطلاع دی گئی
کہ تمہارا بیٹا مر چکا ہے۔
وہ اس وقت بھی بالکل خاموش رہا۔
نہ آنکھ سے آنسو ٹپکا
نہ کوئی چیخ ماری اور
نہ ہی سسکی لی اور رویا بالکل بھی نہیں۔
اس کی ماں اکیلے میں اس کے قریب آئی اور اس سے پوچھا
پتر او اللہ دی امانت سی اللہ واپس لے لئی۔۔۔
پر اوس دا نا تے کچھ دس
فاتحہ درود واسطے۔
تیرا پرا وی کہہ ریا سی
اودھا ڈیتھ سرٹیفکیٹ وی بنوانا اے ۔
پتر دس نا ۔۔۔ ماں نے ساغر سے پھر پوچھا
کرونا علی ولد ساغر علی
ساغر نے طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا
پتر توں چھلا ہوگیا ایں
ساغر کی ماں ساغر سے گویا ہوئی
ہاں جی ماں جی
کرونا
نا اے اُودا۔
پورے وزیرآباد وِچ دٙس دینا
پنجاب پولیس کرونا مار دِتا
یہ کہہ کر زور زور سے ہسنے لگا
******