کسی ملک کی خارجہ پالیسی میں دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کاسلسلہ قائم رکھ سکے۔اس سلسلہ میں ملکی وسیاسی امور،دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے،ایک نقطہ ذہن نشین ہونا چاہئیےکہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی میں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اسے اقوام عالم میں اہم مقام حاصل ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی اقوام عالم کے اتحاد میں پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ ، فروغ اور ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ہماری خارجہ پالیسی میں دنیا بھر کے تمام ممالک کے ساتھ دوستی ہے
پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر اپنے ہمسایہ ممالک کے معاملے میں وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی جس طرح سے غیر ملکی ممالک کے ساتھ بات چیت کرتی ہے اور اپنی تنظیموں ، کارپوریشنوں اور انفرادی شہریوں کے لیے اس کے باہمی تعامل کے معیار کا تعین کرتی ہے۔ وہ قابل فخر ہے کیونکہ پاکستان اپنی زرعی اورصنعتی معیشت کے اعتبارسے خاص اہمیت کا حامل ہے جو کہ دنیا میں 42 ویں سب سے بڑی (بلحاظ جی ڈی پی) اور 23 ویں سب سے بڑی (بلحاظ خریداری) معاشی طاقت ہےاور 11.4 بلین امریکی ڈالر کی معیشت ہے۔
1947 میں ، ریاست پاکستان کے بانی ، قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک نشریاتی پیغام میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اصولوں اور مقاصد کو واضح طور پر بیان کیا ، جو پاکستان کی وزارت خارجہ امور کی ویب سائٹ کے ہوم پیج پر ایک اقتباس میں بھی نمایاں ہے۔۔
15 اگست 1947 کو ، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ، قائد اعظم نے کہا:
“ہمارا مقصد اندر باہر امن ہونا چاہیے ۔ ہم پرامن طور پر رہنا چاہتے ہیں اور اپنے قریبی پڑوسی ممالک اور پوری دنیا کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس کسی کے خلاف جارحانہ ڈیزائن نہیں ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ کھڑے ہیں اور خوشی خوشی دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
پاکستان اور بھارت بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست1947ء کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ دونوں ممالک کو برطانوی ہند نے ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم کے فارمولےپر آزاد کیا۔بھارت جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست قرار پایا۔ جبکہ مسلم اکثریتی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ریاست کا نام دیا گیا۔
آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیا۔مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک چار بڑی جنگوں جبکہ بہت ہی سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ پاک بھارت جنگ ,1971 کے علاوہ کشیدگیوں کی بڑی وجہ تحریک آزادی کشمیر ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ مختلف واقعات سے تعلقات پر بہت اثر پڑتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں۔جن میں آگرہ،شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے۔
قائداعظمؒ کی خواہش یہ تھی کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کی مانند ہوں۔ اپنا ممبئی کا محل نما مکان ماؤنٹ پلیزنٹ بیچنے سے آپ نے گریز کیا تھا۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ کچھ وقت وہاں گزارا کریں گے۔
تقسیم ہند سے تقریباً تین ماہ قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے رائٹرز کے نمائندے Doon Campbell کو ایک بہت اہم انٹرویو دیا جو 22 مئی 1947ءکو ڈان میں شائع ہوا۔ انٹرویو کا موضوع تقسیم کے بعد پاکستان کی سیاسی وخارجہ پالیسی کے بنیادی نکات تھے، خاص طور پر یہ کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہوگا اور بین الاقوامی طاقتوں میں وہ کس پر زیادہ انحصار کرے گا، اور یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں کی حفاظت کیسے اور کیونکر کی جا سکے گی۔ انٹرویو سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے قائد اعظم کا وژن بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کا ایک اہم نکتہ حسب ذیل ہے:
“قائد اعظم پاکستان اور بھارت کے مابین دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کے خواہاں تھے۔ تقسیم ہند ان کے نقطہ نظر سے مستقل دشمنی اور تناؤ کی نہیں، بلکہ باہمی کشیدگی کے خاتمے کی بنیاد تھی۔”
راج گو پال اچاریہ کو گورنر جنرل انڈیا بننے پر مبارک باد دیتے ہوئے قائداعظم نے لکھا کہ:
“اب ہمیں ماضی دفن کر کے مستقبل کی طرف دیکھنا ہو گا جہاں سماجی انصاف اور برابری قوموں کا وقار ہوتی ہے۔”
انھوں نے بڑے واضح انداز میں یہ بھی کہا کہ بھارت کو علاقائی بالا دستی کو ترک کر دینا چاہئیے اور پاکستان سےبرابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے۔
پاکستان اور بھارت کے لیڈر نفرت کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ بھارت میں شر پسند پائے جاتے ہیں تو پاکستان میں بھی کچھ لوگ آگ اور خون کے دریا بہا دینا چاہتے ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستانی معاشرے میں امن کی خواہش بڑھی ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کا کردار کم ہوا۔اور بھارت میں بڑھ گیا ہے۔ جس کی سیدھی سادھی مثال نریندر مودی کی سوچ اور آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے۔جس کا واحد مقصد مسلم کش اقدامات ہیں۔اور یہ سوچے سمجھے منصوبےہندوستان کے ایوان وزیراعظم اور ”را‘‘ کے دفتر میں پروان چڑھتے ہیں‘ بھارت میں جنگی جذبات کو ہوا دینے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ پاکستان کو ایک وحشی قوم اور پاک فوج کو سازشیوں کا ایک بہیمانہ ٹولہ ثابت کرنے کے لیے‘ دھڑا دھڑ بالی ووڈ میں فلمیں بنتی ہیں۔ بھارتی میڈیا پورے اتحاد اور کمال یکسوئی سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں جتا رہتا ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی مداخلت کے بے شمار ثبوت و شواہد موجود ہیں ۔ دہشتگردوں سے بھارتی اسلحہ برآمد ہوا ۔ افغانستان میں موجود بھارت کے ٹریننگ کیمپوں سے تربیت کے شواہد ملے ۔ دہشتگردوں کے ٹارگٹ ہی واضح کرتے ہیں کہ پیچھے کون ہے ۔ مثلاً چینی انجینئرز کا اغوا ۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ ۔ جی ایچ کیو پر قبضہ کی کوشش ۔ نیول اور ایئر بیسز پر حملے ۔ اورین طیاروں کی تباہی وغیرہ اس سب سے بڑھ کر خود بھارتی سینئر افسروں کے اعترافات مثلا سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے اپنی کتاب میں بلوچستان میں مداخلت کااز خود اعتراف کیاہے ۔ بھارتی خفیہ ادارے کے سابقہ ڈپٹی چیف ایم کے دھرنے اپنی کتاب ”مشن ٹو پاکستان“ میں پاکستان خصوصاً کراچی میں فرقہ وارانہ مذہبی کشیدگی کو ڈیزائن کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دہلی کے قریب ایک فارم ہاﺅس میں ہم ہندوﺅں کو مولوی بناتے تھے چنانچہ ہم نے شیام پروہت کو مولوی رضوان کا نام دیا ۔گو تم رے کو مولانا مہم خان کی شناخت دی اور شیعہ و سنی تصادم کے راستے ہموار کرنے کے لیے دونوں طرف ہمارے ہی لوگ حملے کرتے تھے ۔
ہندوستانی سلامتی مشیراجیت دوول نے ”را‘‘ کے افسروں کو بتایا کہ قبائلی پٹی میں سرگرم تحریک طالبان کے لیڈر ان کے حکم پہ حرکت میں آتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کچھ دن پہلے‘ اس تقریر میں یہ دعویٰ بھی اس نے کیا کہ بھارت جب چاہے‘ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر سکتا ہے۔جس کا ایک ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری ہے۔کلبھوشن نےانکشاف کیا ہے کہ وہ ایک بھارتی جاسوس ہے اور را کے ایجنڈے پہ کام کر رہا ہے جس کا بنیادی مقصد بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مالی و فوجی مدد کرنا ہے تاکہ بلوچستان میں شورش پیدا کی جا سکے۔
کشمیر کے لوگوں پہ کرفیو نافذ کر کے اس پوری حسین وادی کو جیل میں بدل دیا گیا ہے۔آۓ روز کنٹرول لائن پہ بلا اشتعال فائرنگ بے شمار پاکستانیوں کے لئے جانی و مالی نقصان کا باعث بن رہی ہے مگر کوئی بھارت کو سبق سکھانے والا نہیں ہے۔
بھارت تنگ نظری اور شدت پسندی کی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ ہزاروں پاکستانی خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پہ عرس کی تقریبات میں جانا چاہتے ہیں مگر بھارتی حکام ویزا دینے میں روڑے اٹکاتے ہیں اور وہاں جانے والے زائرین کو خواہ مخواہ سیکورٹی کے نام پہ دھمکاتے ہیں۔بعض زائرین کو پاکستانی جاسوس بنا کر قید میں ڈال دیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا حصہ بناتے ہیں۔
اس کے بر عکس پاکستان ہندو اور سکھ زائرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتا ہے جس کی ایک بڑی مثال بابا گرونانک کے مزار واقع کرتار پور کی ہے جہاں روزانہ ہزاروں سکھ یاتری بغیر کسی ویزا کے آتے ہیں اور اپنی رسومات بغیر کسی خوف سے ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔یہی صورت حال گردوارہ پنجہ صاحب اور ننکانہ صاحب کی بھی ہے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ہمارے ایک دوست پروفیسر صاحب نے انڈیا کی پٹیالہ یونیورسٹی میں مقالہ پڑھنے جانا تھا مگر انڈین حکام نے انھیں یہ کہہ کر ویزا دینے سے انکار کر دیا کہ تاریخ اور پنجابی زبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ دس لاکھ سے زائد گھرانوں نے 1947 میں ہجرت کی۔ان کے بہت سے رشتہ دار و احباب بھارت میں مقیم رہ گئے۔جن کی یادیں اورمحبت ان کا اثاثہ ہیں۔ان لوگوں کو آپس میں ملانے کے لئے کوئی رستہ نکلنا چاہئیے جو کہ دیر پا اور بے خوف و خطر ہو۔آج کی گلوبل دنیا میں انسانوں کو میل جول سے روکنا انسانیت کی نفی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت ،پاکستان سے تعلقات کی بہتری کا جب نیک نیتی سے فیصلہ کرے گی تو حالات فی الواقع ٹھیک ہو جائیں گے۔
اس امر کے لئے دو طرفہ مذاکرات کا شروع ہونا بے حد ضروری ہے۔پوری دنیا اس بات پہ اتفاق رکھتی ہے کہ بات چیت سے رستے کھلتے ہیں اور پیچیدہ معاملات کا عقدہ کھلتا ہے۔لہذا بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کا دروازہ فوری طور پر کھولنا چاہئیے۔
ہماری دعا ہے کہ قائداعظم کا وہ خواب کہ پاکستان اور بھارت پرامن ہمسایوں کی طرح رہیں جلد پورا ہو۔