اخوان المسلمون سے ہمدردی اور اخوان کی قربانیوں کا اعتراف اپنی جگہ، لیکن مصر میں جاری حالیہ حکومت مخالف مظاہروں کے ذریعے سیسی کا تختہ الٹنے کا خواب فی الحال ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ایسے مظاہرے ایک سال پہلے بھی ہوچکے ہیں اور تب بھی آج کی طرح چھوٹے شہروں میں چند سو سے زیادہ لوگ باہر نہیں نکلے تھے۔ اس وقت بھی الجیزہ اور اسکندریہ جیسے شہروں کے علاوہ پورے مصر میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ ان شہروں میں باہر نکلنے والے مظاہرین بھی اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کا موازنہ 2010-11 کی عرب اسپرنگ سے کیا جاسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومتیں خود ایسے مظاہروں کو وقوع پذیر ہونے کا موقع دیتی ہیں تاکہ اس بہانے عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا کسی حد تک کتھارسس ہوجائے اور کوئی بڑی عوامی تحریک نہ شروع ہوسکے۔
اس وقت مصری مظاہرین کی قیادت کرنے کے لیے کوئی گروپ یا قوت میدان میں موجود نہیں ہے۔ السیسی کے سابق قریبی ساتھی محمد علی نے کرپشن اور مہنگائی کے خلاف پچھلے سال بھی مظاہروں کی کال دی تھی اور اب اس احتجاج کی پہلی سالگرہ پر ایک بار پھر مصریوں کو احتجاج پر برانگیختہ کیا۔ لیکن خود محمد علی جلاوطن ہے اور اس کے پیچھے مصر کے اندر کوئی جماعت یا گروہ نہیں جو اس کی ہدایات پر احتجاجی تحریک کو آگے بڑھائے۔ اخوان کی صف اول ہی نہیں صف دوم اور سوم کی ساری قیادت بھی جیلوں کے اندر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 2013 میں جس بے رحمی کے ساتھ اخوان کو کچلا گیا اس کے بعد اخوان فی الحال اس پوزیشن میں ہیں ہی نہیں کہ کوئی بڑی تحریک کھڑی کر سکیں۔
اس ساری تصویر کو علاقائی اور عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت فضا مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں ہے۔ عرب دنیا بہت تیزی سے امریکہ و اسرائیل کی مٹھی میں آ رہی ہے۔ ٹرمپ کی ڈیل آف دا سنچری بظاہر کامیاب جا رہی ہے۔ اس سارے منظرنامے میں اسرائیل اور امریکہ عین اسرائیل کے دروازے پر کوئی ایسی عوامی تحریک افورڈ نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں وہ سیسی جیسے پالتو سے محروم ہوکر اپنا سارا منصوبہ کھٹائی میں ڈال دیں۔ لہذا،اخوان، مصر اور فلسطین کے لیے بہت سی دعائیں۔ لیکن ان مظاہروں کے ذریعے سیسی کو گھر بھیجنے کا خواب دیکھنا قبل از وقت ہوگا۔