لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت کے دسیوں ثمرات میں سے ایک ذرائع ابلاغ کی آزادی بھی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ نجی ٹی وی کو کام کرتے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تاہم دنیا میں غیرسرکاری ذرائع ابلاغ کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔1920ء کی دہائی میں برٹش براڈ کاسٹنگ کمپنی)بعدازاں کارپوریشن(یعنی بی بی سی کا آغاز نجی نشریاتی ادارے کے طور پر ہوا جسے جلد ہی حکومتِ برطانیہ نے اپنی تحویل میں لے کر سرکاری نشریاتی ادارہ بنا لیا۔
بی بی سی نے 1930ء کی دہائی میں اپنی عالمی سروس کا آغاز کیا جس کے تحت اب دنیا بھر کی 28معروف زبانوں میں نشریات کا سلسلہ جاری ہے۔ چند دہائیاں قبل پاکستانیوں کی اکثریت کے لیے ملکی و عالمی حالات جاننے کا واحد ذریعہ بی بی سی اردو سروس کے ریڈیو پروگرام ہی تھے، جبکہ دوسری طرف ریڈیو پاکستان کے خبرنامے حکومتی دعووں وعدوں اور بیان بازی کے گرد گھومتے تھے۔ بی بی سی کے بعدامریکی نشریاتی ادارے وائس آف امیرکہ نے عالمی ریڈیو سروس کے ذریعے دنیا تک اپنی آواز پہنچانا شروع کی۔
21ویں صدی کے آغاز میں نجی ٹیلیویژن چینلوں کو پاکستان میں نشریات کی اجازت مل گئی۔ اس سے جہاں سرکاری ٹی وی چینل اپنی سابقہ اہمیت سے محروم ہوا ،وہیں بی بی سی اور وائس آف امیرکہ کی مقبولیت میں بھی کمی آگئی کہ ریڈیو اب قصہٴ پارینہ تھا۔2011 سے 2020تک کی دہائی کو پاکستان میں ابلاغی انقلاب کی دہائی کہا جا سکتا ہے۔
موبائل فون اور کمپیوٹر تو پہلے ہی سے موجود تھا، 3 جی اور4جی کی آمد سے سمارٹ فون کا راہ ہموار ہوئی اور ٹی وی چینل کی بجائے اب سوشل ویب سائٹس خبر کا ذریعہ بن گئیں۔ کاغذی اخبار اور اس میں لکھے جانے والے مضامین کی قدر میں کمی آئی کیونکہ اب عام لوگ اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے کسی مدیر کی قطع برید کے رحم و کرم پر نہ تھے، فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کی صورت میں ہر فرد کے پاس اپنا پلیٹ فارم آچکا تھا۔
انٹرنیٹ کی اس قدر عام اور آسان رسائی کے نتیجے میں عالمی نشریاتی ادارے ایک بار نمایاں ہو گئے ہیں اور ان کے صارفین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔بی بی سی اور وائس آف امریکا نے اپنی ویب سائٹس، فیس بک اور ٹوئٹر کے صفحات کا موثر استعمال کیا اور بارِ دگر اہمیت حاصل کرلی۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمنی کے ڈی ڈبلیو اور برطانیہ کے ادارے انڈی پینڈنٹ نے بھی اپنی اردو نشریات کا آغاز کیا اور بہت جلد مقبولیت حاصل کرلی۔ تمہید خاصی طویل ہوگئی، اصل مدعا یہ ہے کہ ان خبررساں اداروں نے پاکستان میں اپنی خاصی حد تک آزادانہ نشریات سے جہاں ایک جانب آزادئ اظہار کو تقویت بخشی ہے، وہیں یہ کچھ ایسے تہذیبی سوالات اور مباحث بھی دانستہ ساتھ لے کر آ رہے ہیں جنھیں ہماری تہذیب صدیوں قبل طے کر چکی ہے۔
فیس بک پر مٹرگشت کرتے ہوئے میری نظر سے ڈی ڈبلیواردو کا ایک لنک گزرا جس کا عنوان تھا ”جنوبی ایشیا کے مسلم ایل جی بی ٹی کا سہارا ‘سوشل میڈیا’“۔اس کے ساتھ دیا گیا کیپشن کچھ یوں ہے:
”بنگلہ دیش جیسے قدامت پرست مذہبی معاشرے میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس برادری سے تعلق رکھنے والے مسلم باشندے انتہائی خوف کی فضا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔“
تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے یہ لنک کھولا اور پوری تحریر پڑھ ڈالی۔جیسا کہ درج بالا کیپشن سے ظاہر ہے، اس میں چند بنگلہ دیشی ہم جنس پرستوں کی “مظلومیت” اور ان کےساتھ مسلم معاشرے کے “سفاکانہ” رویے کو موضوع بنا کر کچھ واقعات درج کیے گئے ہیں اور آخر میں یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اگرچہ معاشرہ ان ہم جنس پرستوں کو فی الحال سمجھ نہیں پا رہا، اورسماج میں ان کی قبولیت کو ابھی وقت لگے گا تاہم بالآخر انھیں ان کے ”حقوق“ مل جائیں گے۔ تحریر میں ہم جنس پرستی کے مخالفین کے لیے جابجا ”انتہاپسند“، ”قدامت پسند“اور ”ظالم“ جیسے القاب استعمال کیے گئے ہیں۔ درمیان میں کہیں یک سطری وضاحت کی گئی ہے کہ ‘بنگلہ دیشی قانون کے تحت ہم جنس پرستی غیرقانونی ہے’۔ یہ امر ابھی وضاحت طلب ہے کہ اگر یہ عمل غیرقانونی ہے تو پھر اس قانون کی پابندی کرنے والے افراد انتہاپسند، قدامت پسند اور ظالم جبکہ قانون شکنی کرنے والے مظلوم اور ”معتدل“ کیونکر ٹھہرے۔
ویب سائٹ کو ذرا تفصیل سے کھنگالنے پر یہ امر سامنے آتا ہے کہ مسلم معاشرے میں ہم جنس پرستی پر مبنی یہ تحریر حادثاتی طور پر شائع نہیں ہوگئی بلکہ ڈی ڈبلیو نے طویل عرصے سے ایسی تحاریر کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جن کے ذریعے غیر فطری جنسی تعلق کو انسانی حقوق کے لفافے میں لپیٹ کر اس کے حق میں فضا ہموار کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب بی بی سی کی پالیسی بھی زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ہم جنس پرستی، ڈیٹنگ، بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ،رقص و سرود اور مرد و زن کا اختلاط جیسے مباحث باقاعدگی سے بی بی سی کے صفحات کا حصہ بن رہے ہیں۔ ویب سائٹ کا ایک مختصر جائزہ ہی یہ عیاں کرنے کےلیے کافی ہے کہ ایک منصوبے کے تحت ایسے موضوعات کے حوالےسے نرم گوشہ پیدا کرنے پر کام ہورہا ہے جو دینی و علاقائی روایات، کلچر اور تعلیمات سے انحراف کی راہ ہموار کرتا ہے۔
یہ ادارے پاکستانی ریاست اور سماج کے خلاف غیرسرکاری تنظیموں کے پروپیگنڈے اور بے بنیاد الزامات کو عالمی سطح پر پھیلانے کا کام بھی بخوبی کر رہے ہیں۔اقلیتی خواتین میں جبری تبدیلیِ مذہب کا پروپیگنڈہ ان اداروں کا من پسند موضوع ہے جسے استعمال کرتے ہوئے سماج، ریاست اور اہلِ مذہب کی شناخت اور کردارجو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزادیِ اظہار کے پردےمیں صدیوں پرانی دینی و اخلاقی روایات کی چولیں ہلانے کو چپ چاپ برداشت کر لیا جائے؟ کیا اب معاشرے کو انسانی حقوق کی وکالت کے نام پر ہر رطب و یابس برداشت کرنا ہوگا؟ کیا کوئی ادارہ باقی نہیں جو ان غیرملکی چینلوں کو ان کی قانونی و اخلاقی حدود اور صحافتی اخلاقیات یاد دلائے اور بصورتِ دیگر ان کو واپسی کی راہ دکھائی جائے ؟ ٹی وی پروگرامات میں ایک چھینک اضافی لگ جانے پر حرکت میں آ جانے والے سرکاری ادارے اور متعلقہ حکام اس سارے عمل میں کہاں کھڑے ہیں؟ کیا حکومتِ پاکستان ایسا کوئی میکانزم ترتیب نہیں دے سکتی جس کے تحت ان اداروں کو انتباہ جاری کیا جائے کہ وہ خبر اور تجزیے کے نام پر مقامی ماحول کو آلودگی سے دوچار نہ کریں؟