معروف نقاد شاعرہ پروین طاہر کا طاہر حنفی کے تیسرے شعری مجموعے خانہ بدوش آنکھیں پر تبصرہ
“مخلصانہ کوششوں کے باوجود مجھ سے دوستوں کی محبت کا حق ادا نہیں ہو پاتا یہ وہ کتاب ہے جس کی تحریری رسید مجھے بہت پہلے دینا چاہیے تھی مگر بوجوہ دی نہ جا سکی۔ بھائی طاہر حنفی وہ مخلص دوست ہیں جو ناسازی طبع کے باوجود اس کتاب کا تحفہ دینے بذات خود ایک بھیگی شام ہمارے یہاں تشریف لائے تھے. ایک پرلطف گفتگو چائے کاکپ اور دو دو طاہرین کےقہقہے میری شام کوسہانا کرگئے.
اس کتاب میں ساٹھ غزلیں بیس نثری نظمیں اور قریباً تئیسس آزاد نظمیں شامل ہیں اس کتاب کی قرات ہمیں اپنے عنوان سے ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے ایسا رومانوی اور کثیر جہتی عنوان ہمیں طرح طرح کے امیجز سے روشناس کرواتا ہے آگے بڑھیں تو انتساب ایسا شاندار
ڈھل گئیں آنکھیں اذیت میں مری خانہ بدوش
خواہشیں ہیں نا مکمل خواب سارے نا تمام
شاعری کی شکل میں جتنے بھی میرے حرف ہیں
آج کرتا ہوں انہیں اس دیدہ بینا کے نام
طاہر حنفی ایک مشاق منجھے ہوئے ہنر ور شاعر ہیں ان کی شاعری تنقیدی گفتگو سے زیادہ پڑھی جانے اور سُننے کے لائق ہے….. وبا نے شاعری میں اچھا خاصہ ورود و دخل رکھا مگر طاہرحنفی صاحب کی ردیف بن کر اس نےجو لطف دیا بیان سے باہر ہے
تمام عمر کا دُکھ تھا وبا کے موسم میں
میں اس لئے بھی تھا رویا وبا کے موسم میں
سسکتی پیاس زمیں برد ہو گئی ایسے
کہ دریا رو پڑا سارا وبا کے موسم میں
چند اشعار پیش خدمت ہیں جو آڈٹ کے کسی بھی قاری کے دل میں اتر جانے کے لائق ہیں
محبت ,عنایت وفا کے سفر پر
مرے ساتھ ہے وہ دعا کے سفر پر
مرے دکھوں کو مٹانے میں کوئی ہو تو کہوں
کہ آپ جیسا زمانے میں کوئی ہو تو کہوں
کتاب کی ساری ہی غزلیں جمالیات فن کے معیار پر پورا اترتی ہیں
دوستو انکی ایک نثری نظم ملاحظہ کیجئے جو مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آئی
خط شکستہ
ہمارے جسموں کے اوراق پہ
احساس کے سارےالفاظ
خط شکستہ میں لکھے ہوئےہیں
کہ محبتوں کی سر زمیں پہ نفرتوں کا م
اذیتوں کا راج تھا
مگر اب انتظار کریں اس ایک لمحے کا
وقت کی دہلیز پہ
خو سارے لفظوں کو
دست حنائی میں
کنگن کی صورت
مجسم کرے! !
طاہر حنفی نے شاعری کی ہر صنف کو مکمل “پروٹوکول ” کے ساتھ لکھتے اور نبھاتے ہیں بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں لیکن ان کی ایک آزاد نظم ملاحظہ کیجئے جو آج کی نظم کے سارے عصری تقاضوں کو پورا کرتی ہے یہ نظم انسانیت تاریخ فنی جمالیات اور آفاقی آدرشوں کا حسین مظہر ہے
پیغمبروں کی سر زمیں فلسطین
مرے فلسطین!
ترے جوانوں کے زندہ خوں کی
قسم ہے مجھ کو
وہ دن قریب آ رہا ہے
جس دن
میٹھی دھرتی کو دشمنوں کے لہو سے تازہ خراج دوں گا
کہ تیری دھرتی نئے اجالوں کی منتظر ہے
میں ان اندھیروں میں جیتے جیتے جوان ہو ہو کے مر رہا ہوں
مرا لہو سُرخی وطن ہے
مرے لہو سے یہ شاہراہیں کہ جن کے ماتھے پہ
اک نئی داستاں لکھی ہے
مری ہی پہچان بن گئی ہے
آپ بھی اس کتاب کو ضرور پڑھیں آپ کی ملاقات حیرت اور سر خوشی سے ہوگی”