1987ءمیں اخبار خواتین میں دو سفرناموں کی اشاعت کے بعد اگلے کئی سال میری تحریریں زیادہ تر ماہنامہ رابطہ میں شائع ہوئیں۔ 1999ءمیں روزنامہ جنگ کے مڈ ویک میگزین میں میرا سفرنامہ ”دریا دریا وادی وادی“ قسط وار شائع ہوا اور خاصی مقبولیت حاصل کی۔ اس سفرنامے کی اشاعت کے دوران روزنامہ ”امت“ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر احتشام پاشا نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنے اخبار کیلئے باقاعدہ اور بامعاوضہ لکھنے کی پیشکش کی۔ چنانچہ 2000ء میں روزنامہ امت کیلئے میں نے اپنا سفرنامہ ایران ”کیسپیئن کی چاہ میں“ لکھنا شروع کیا۔ یہ سفرنامہ روزانہ فی قسط کی بنیاد پر ساٹھ اقساط میں شائع ہوا اور بے انتہا مقبول ہوا۔ میرے اس سفرنامے نے خود مجھے اتنا متاثر کیا کہ اسے پڑھتے پڑھتے میں بھی ایک اور سفر کرنے کیلئے بے چین ہو گیا۔
ان دنوں سوویت روس کی شکست کے نتیجے میں کرّہ ارض پر کئی نئے ممالک ابھر آئے تھے ۔ ان ملکوں میں بحیرہ کیسپیئن کے مشرقی کناروں پر آباد وسط ایشیائی ممالک تاجکستان، ازبکستان،کرغیزستان، قازقستان اور ترکمانستان بھی شامل تھے اور کیسپیئن کے مغربی ساحلوں پر قفقاز کے خطے میں آذربائیجان، جارجیا اور آرمینیا بھی آزاد ہو چکے تھے۔ سوویت یونین کا آ ہنی پردہ گر جانے کے بعد دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے یہ آزاد ریاستیں بڑی کشش کا باعث بن گئی تھیں، چنانچہ دنیا بھر کے سیاحوں نے ان ممالک کا رخ کر لیا تھا۔
قفقاز وہی خطہ ہے جسے ہم کوہ قاف کہتے ہیں، یعنی پریوں کا دیس، اور آذر بائیجان اس کوہ قاف کا دِل ہے۔ بحیرہ کیسپیئن کے کنارے آباد دنیائے اسلام کا یہ اہم تاریخی ملک میرے لئے بھی بڑی کشش کا باعث تھا اور روس سے آزاد ہونے کے بعد آذر بائیجان کی سیاحت کے خواب کو تعبیر دینا ممکن بھی ہو گیا تھا۔ ایران کے پڑوس میں ہونے کے باعث یہاں بائی روڈ جانا بھی بہت آسان تھا ۔ مجھے ایران کا پہلا سفر کئے آٹھ سال گزر چکے تھے اس لئے ایک بار پھر ایران جانے کی خواہش بھی دل میں تھی۔ اس لئے سن 2000ء میں مَیں نے براستہ ایران، بائی روڈ آذربائیجان کی سیاحت کا پروگرام بنالیا۔
روزنامہ امت میں سفر نامہ ایران کی قسط وار اشاعت کے دوران میرے پاس قارئین کے خطوط اور فون بھی آتے تھے۔ ایک دن کراچی کے معروف تعلیمی ادارے عثمان پبلک اسکول کے پرنسپل معین نیّر کا فون آیا۔ پہلے تو انہوں نے میرے سفرنامے کی تعریف کی اور پھر آئندہ اسی طرح کی کسی سیاحت میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جب میں نے بتایا کہ میں عنقریب ایران اور آذربائیجان کی سیاحت کیلئے نکل رہا ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس سفر میں شامل ہونے کا خیال ظاہر کیا۔ میں نے انہیں تیاری کا کہہ تو دیا، لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ کراچی کی مصروف زندگی سے جان چھڑا کر میرے ساتھ واقعی چل بھی پڑیں گے۔
آذربائیجان کی سیاحت کا وہ پروگرام میرے دوست دانش راشدی کی وجہ سے بھی بنا تھا۔ دانش کی خالہ محترمہ عاصمہ انیسہ اُن دنوں آذربائیجان میں پاکستان کی سفیر تھیں۔ ان کی طرف سے دانش کو آذربائیجان آنے کی دعوت ملی تو اُس نے سفری معلومات کیلئے مجھ سے رابطہ کیا۔ میرا مشورہ تھا کہ یہ سفر اگر بائی روڈ براستہ ایران کیا جائے تونہ صرف کم خرچ ہوگا، بلکہ دلچسپ بھی بہت ہوگا۔
بائی ایئر جانے کیلئے پاکستان سے آذر بائیجان کیلئے کوئی ڈائریکٹ فلائٹ بھی نہیں تھی بلکہ پہلے استنبول جانا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے ٹرکش ایئر لائن کی فلائٹ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو تک لے جاتی تھی۔ اس وقت اس سفر کا ریٹرن ٹکٹ پچاس ہزار روپے سے زیادہ کا تھا، جبکہ یہی سفر بائی روڈ کیا جاتا تو زیادہ سے زیادہ دس ہزار میں ہو سکتا تھا۔ دانش بائی روڈ جانے کیلئے تیار تو ہو گیا لیکن اس نے شرط یہ رکھی کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ آذربائیجان کا ویزاصرف بائی ایئر ٹکٹ ہی پر ملتا تھا۔ بائی روڈ سفر کیلئے ایران اور آذربائیجان کے ویزوں کا حصول آسان نہ تھا، لیکن دانش کی خالہ چونکہ پاکستانی سفیر تھیں اس لئے ان کی سفارش کام آئی اور چند دن میں ہی ہمارے پاسپورٹوں پر دونوں ممالک کے ویزے لگ گئے۔ ہم خوشی خوشی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن ہوا یہ کہ روانگی سے دو چار روز قبل اچانک دانش نے اعلان کیا کہ وہ نہیں جا رہا ….
میرے لئے تو یہ خبر بڑی مایوس کن تھی کیونکہ میں خود پر اِس سیاحت کا موڈ پوری طرح طاری کر چکا تھا۔ دانش نے کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں، میں چاہوں تو اکیلا جا سکتا ہوں، وہ آذر بائیجان میں اپنی خالہ سے میری مہمان نوازی کا کہہ دے گا۔ چنانچہ میں نے ”یہ سفر اکیلے ہی کاٹنے“ کا فیصلہ کرلیا اور دانش نے خالہ کو میرے اکیلے آنے کی اطلاع دے دی ۔
ادھر معین صاحب بھی دھن کے پکے نکلے۔ جس دوران میرے پاسپورٹ پر ایران و آذربائیجان کے ویزے لگے،اس دوران معین اور اس کے دو دوستوں منصور اور طفیل نے بھی ایرانی ویزے حاصل کرلئے۔آذر بائیجان جانے کیلئے میراارادہ براستہ کوئٹہ، تفتان، زاہدان، کرمان، شیراز، تہران اور رامسرسفر کرتے ہوئے ایران کے آخری سرحدی شہر آستارا تک پہنچنے کا تھا۔ آستارا بحیرہ کیسپیئن کے جنوب مغربی ساحل پر آباد ایک چھوٹا سا شہر ہے، جہاں ایران سے آذر بائیجان میں داخل ہونے کا بارڈر گیٹ ہے۔
میری منزل آستارا سے آگے آذر بائیجان تھی۔ مجھے آذر بائیجان کے دارالحکومت ”باکو“ تک جانا تھا۔معین، منصور اور طفیل کا پروگرام میرے ساتھ رامسر تک جانے کا تھا۔ میرے آگے نکلنے کے بعد یہ لوگ وہاں سے واپسی اختیار کرکے ایران کے کچھ اور شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے پاکستان آنے کا پروگرام رکھتے تھے۔ چنانچہ جس دن میں کراچی سے کوئٹہ جانے والی کوچ میں سوار ہوا تو اس میں یہ تینوں بھی میرے ساتھ تھے۔
ہم کراچی سے کوئٹہ، کوئٹہ سے تفتان اور پھر ایران کے پہلے شہر زاہدان پہنچے اور پھر مزید آگے کرمان، شیراز اور تہران کی سیاحت کرتے ہوئے ہفتے بھر میں ایران کے ساحلی شہر رامسر پہنچ گئے۔ رامسر میں مَیں نے اپنے ان تینوں ساتھیوں کو الوداع کیا اور خود ایران کے سرحدی شہر آستارا پہنچ گیا۔ یہاں ایران سے آذر بائیجان میں داخل ہوا اور ایک دن کا سفر کر کے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو پہنچ گیا۔
باکو کی سیاحت میں مجھے دانش کی خالہ یعنی سفیر صاحبہ اور پاکستانی سفارتی عملے ، خصوصاً سفیر کے ڈرائیور شوکت کی وجہ سے بڑی آسانی رہی اور اس کے ساتھ شہر کی خوب سیر کی۔ جس دن مجھے باکو سے واپس روانہ ہونا تھا اس دن شوکت کہنے لگا کہ آج اس کی ایک آذری ”سہیلی“ نازیلی کے گھر ایک تقریب ہے جس میں وہ مجھے بھی لے جانا چاہتا ہے۔ نازیلی کی والدہ کی سالگرہ تھی ۔شوکت نے جب اسے بتایا کہ ایک پاکستانی دوست آیا ہوا ہے تو اس نے مجھے بھی مدعوکرلیا۔اب چونکہ اتنی اچھی دوست نے مدعو کرلیا تھا اس لئے اس تقریب میں لازماً شریک ہونا تھا۔ اس وقت دوپہرکے دو بج رہے تھے۔ آج میری روانگی توتھی لیکن اس میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے۔ چنانچہ میں تواس مقامی تقریب میں شرکت کیلئے فوراً ہی تیار ہو گیا۔دوپہر میں ہم شوکت کے گھر سے نکلے اور انڈر گراؤنڈ میٹرو میں بیٹھ کر ”احمد علی“ اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگئے ۔
پانچ چھ اسٹیشن گزرنے کے بعد آخری اسٹیشن احمد علی آگیا۔ہم اسٹیشن سے باہر آئے تو یہاں نسبتاًخاموش ماحول تھا ۔ ہر طرف فلیٹ ہی فلیٹ تھے لیکن ٹریفک اورگہما گہمی کم تھی ۔ ایک ٹیلی فون بوتھ سے شوکت نے نازیلی کے گھر فون کیا تواس نے شوکت کویہیں رکنے کا کہا۔تھوڑی دیر بعد سامنے سے سیاہ میکسی میں ملبوس ایک بڑی حسین اور نازک سی لڑکی آئی اور تیزی سے ہماری طرف بڑھی۔ شوکت کو دیکھ کر وہ کھل اٹھی۔
”السلام علیکم“
اس نے بالکل اردو لہجے میں ایک پرجوش سلام کیا تو میں چونکا۔
”وعلیکم السلام“ ہم دونوں ایک ساتھ بولے۔
”آپ لوگ ٹھیک ہیں؟“ اس نے خالص اردو میں کہا۔ میں پھر حیرت زدہ ہوا ۔ یہی نازیلی تھی جو ہمیں لینے کےلئے اسٹیشن پرآگئی تھی۔سیاہ لباس میں وہ چودھویں کے چاند کی طرح طلوع ہو رہی تھی۔ لیکن میں تو اس کے اردو بولنے پر حیران تھا۔
میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ انڈین فلمیں بہت دیکھتی ہے اور ان فلموں سے ہی اس نے اردو بولنا سیکھا ہے۔وہ اصلاً جارجیائی مسلمان تھی۔ اس کا خاندان کئی سال قبل جارجیا سے ہجرت کرکے آذربائیجان میں آباد ہو گیا تھا۔
ہم نازیلی کے ساتھ گلشن ِ اقبال جیسے فلیٹوں کے ایک چہل پہل والے احاطے میں داخل ہوگئے۔ نازیلی کاگھرتیسری منزل پر تھا۔ جیسے ہی ہم اس کے فلیٹ میں داخل ہوئے ،ایک ویڈیو کیمرے والے نے پھرتی سے اپنا کیمراہماری طرف موڑا اور ریکارڈنگ شروع کر دی۔ کیمرہ مین کے پیچھے کھڑی نازیلی کی والدہ، اس کے بہن بھائیوں اور خاندان کی کچھ خواتین نے خیرسگالی مسکراہٹوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ہمارے پہنچتے ہی تقریب کا آغاز ہوگیا۔
ایک ٹیبل پر جارجیائی پکوان سجے ہوئے تھے۔ دیوار کے ساتھ لگے شوکیس پر ایک بڑا سا ڈیک رکھا ہوا تھا۔ نازیلی نے آگے بڑھ کر اس کا بٹن دبا دیا۔ تیز موسیقی والا ایک انڈین گانا بجنے لگا اوراس کی دھن پر وہاں موجود لڑکے اور لڑکیاں دھنادھن ناچنے لگے۔ شوکت نے بھی آؤ دیکھا نہ تاﺅ، اٹھ کر ان ناچنے والوں میں شامل ہوگیا۔ نازیلی کی والدہ نے میرا ہاتھ پکڑکر مجھے بھی اس رقص میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ میں تو ہڑبڑا ہی گیا اورپیروں نے جیسے زمین کو پکڑ لیا۔ انہوں نے میرے گھبراہٹ دیکھی تو پیچھے ہٹ گئیں۔ ناچنے والوں میں نازیلی کے بہن بھائی، خالائیں اور ایک خوبرو کزن ”آئی تھان“ شامل تھے۔ جب سب ناچ ناچ کر تھک گئے تو میوزک بند کر دیا گیا اور کھانے کا دور شروع ہوگیا۔ آئی تھان میرے برابر والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئی۔
”یا تم جورنالست ہو؟“ اس نے انگریزی میں میرے کان میں سرگوشی کی۔
”ہاں، میں جورنالست ہوں، لیکن تم نے یہ انگریزی کیسے سیکھی؟“ میں بولا۔
”یہاں کئی انسٹیٹیوٹ انگریزی سکھاتے ہیں۔“
اس نے جلدی سے جواب دیا اور پھر بولی:
”مجھے جورنالست بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں بھی جورنالست بننا چاہتی ہوں۔“
میں اپنے جورنالست ہونے پر کچھ فخر وغیرہ محسوس کیا۔
کھانا کھانے کے بعد فوٹو سیشن ہوا اور ہم رخصت ہونے کےلئے کھڑے ہوگئے۔ باقی سب تو وہیں رک گئے البتہ نازیلی اور آئی تھان اسٹیشن تک چھوڑنے کےلئے ہمارے ساتھ ہی چل دیں۔فلیٹوں سے باہرآئے تو نازیلی شوکت کے ساتھ اورآئی تھان میرے ساتھ ہو گئی۔
”تم مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاﺅ۔“ چلتے چلتے اچانک آئی تھان نے میرے کان میں سرگوشی کی ۔
میں تو سنّاٹے میں آگیا اور ٹھٹک کراُسے دیکھنے لگا۔ ”کیا مطلب؟“
”ہاں“ وہ ایک اندازِ دلبری سے مسکرائی۔” مجھے اپنے ساتھ لے جاﺅ۔“
”مگر کہاں؟“ میں اچنبھے میں تھا۔
”کہیں بھی …. جہاں تمہارا دل چاہے مجھے جورنالست بہت اچھے لگتے ہیں۔“
وہ ایک ادا کے ساتھ شرمائی اور اس کی مسکراہٹ مزید دلفریب ہوگئی۔
”لیکنلیکن میں تو آج پاکستان واپس جا رہا ہوں۔“
میں جلدی سے بولا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
”تم پاکستان جا رہے ہو …. توکیا ہوا؟ مجھے بھی پاکستان لے جاﺅ۔“ وہ بولی۔
”کیسے؟ “ میں رک ہو گیا۔
”مجھ سے شادی کرلو۔“
وہ بھی رک گئی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی۔
میری تو حرکت قلب ہی بند ہونے لگی۔
شوکت اورنازیلی ہم سے بے خبر آگے آگے جا رہے تھے اورآئی تھان بولتی جا رہی تھی۔
”سنا ہے پاکستانی اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔ تم مجھے مارو گے تو نہیں؟“
اب میں ہنس پڑا۔
”ہاں …. میں ہوں تو غصے والا …. مار بھی سکتا ہوں۔“
”کیا! کیا تم مجھ پر ہاتھ اٹھاﺅ گے؟“ وہ حیرانی اور غصے سے مجھے دیکھنے لگی۔
”نہیں تم جیسی لڑکی پربھلا کون ظالم ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔“
وہ پھر مسکرانے لگی۔”تم آج اپنا جانا ملتوی کیوں نہیں کر دیتے۔“
”بہت مشکل ہے۔ میری سیٹ بک ہو چکی ہے۔“میں بولا۔
”تو کیا ہوا؟ …. سیٹ کینسل کرادو …. میں تمہیں باکو کی سیر کراﺅں گی۔“
اس نے بڑے پیار سے کہا اور میں ڈر گیا۔ اس حسینہ کے ساتھ اگرمیں صرف ایک دن کیلئے بھی رک گیا تو رکنے کا یہ سلسلہ شایدپھرروکے نہ رکے۔
”اچھا…. میں دیکھتا ہوں …. میں…. میں تھوڑی دیر میں تمہیں فون کرتا ہوں۔“
میں جلدی سے بولا۔
اس نے میری ڈائری لی اور اس میں خود ہی اپنا فون نمبرلکھ دیا۔میٹرو اسٹیشن آگیا تھا۔ شوکت اور میں نے سیڑھیوں پر اتر کر نازیلی اور آئی تھان کی طرف الوداعی ہاتھ لہرائے اوراسٹیشن کی زیر زمیں سیڑھیوں پر اتر گئے۔ میٹرو میں بیٹھ کرہم گنجلک اسٹیشن پہنچے اور تیز تیز شوکت کے فلیٹ کی طرف چلے کیونکہ نو بج چکے تھے۔ میری بس کا ٹائم قریب تھا۔ میں نے فٹافٹ اپنا سامان اٹھایا، شوکت سے احسان مندانہ رخصت چاہی، دوبارہ ملنے،خط لکھنے کا وعدہ کیا اورنکل آیا ۔
ٹیکسی نے مجھے پندرہ منٹ میں بس اسٹینڈ تک پہنچا دیا۔تہران جانے والی بس اپنے مسافروں کی منتظرکھڑی تھی ۔ٹھیک گیارہ بجے بس ٹرمینل سے نکلی اور آہستہ آہستہ باکو کی روشنیوں کو پیچھے چھوڑنے لگی۔ میں نے اپنی ڈائری کھولی اور اس میں لکھے ہوئے آئی تھان کے ٹیلی فون نمبرکو دیر تک دیکھتا رہا، پھر بوجھل دل کے ساتھ نمبر کو کاٹ دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بس کچھ دیر میں باکو سے باہر نکل آئی۔
صبح تک میں ایران میں داخل ہو گیا۔ پھر رامسر، مشہد اور زاہدان سے ہوتا ہوا چار دن بعد پاکستان میں داخل ہوا اور اگلے دو دن مزید سفر کرتے ہوئے براستہ کوئٹہ کراچی پہنچ گیا۔ اگلے دن کیمرے سے نیگیٹیو رول نکال کر فوٹو لیب کو دے دیئے۔ دوسرے دن تصویریں پرنٹ ہو کر آ گئیں۔
میں نے اپنی اہلیہ کو روداد سفر سناتے ہوئے اس آذری دوشیزہ کے بارے میں بھی بتایا کہ جو مجھے شادی کی پیشکش کر رہی تھی۔ جیسے ہی تصویریں پرنٹ ہو کر آئیں تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس لڑکی کی تصویر کونسی ہے؟…. میں نے تصویر دکھائی تو اسے خاموشی سے دیکھا اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
اگلے دن ہم سسرال جانے لگے تو مجھے بتائے بغیر بیگم نے وہ تصویری البم بھی ساتھ رکھ لی۔جب ہم وہاں پہنچے تو تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ بیگم ایک طرف بیٹھی اپنی بہنوں کو وہ البم دکھا تے ہوئے کہہ رہی تھی:
”یہ ِاس لڑکی کی تصویر دیکھ رہی ہو؟…. کتنی خوبصورت ہے نا؟…. “
”ہاں …. خوبصورت تو ہے۔“
”تمہیں پتہ ہے؟…. اِس لڑکی نے ”اِن“ کو شادی کی آفر کر دی تھی؟“
”ہیں! …. شادی کی آفر کر دی تھی؟…. پھر؟ ….“
سب بہنوں کی ایک ساتھ حیران آواز ابھری۔
”پھر کیا …. چھوڑ آئے میری خاطر۔“
بیگم نے سب کو ایک فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور پھر کنکھیوں سے میری طرف دیکھا۔ میںجلدی سے انجان بن کر اِدھر ُادھر دیکھنے لگا۔