میرا دوست آصف بنی گالا میں رہتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ بنی گالا اسلام آباد کی ایک ایسی بستی ہے جس کے اطراف میں زیادہ تر ویرانیاں ہیں۔ شہری آبادی سے کٹا ہوا یہ علاقہ راول جھیل کے عقب میں واقع ہے اور مرگلہ نیشنل پارک کی حدود میں آتا ہے۔ شہر کے مقابلے میں یہاں رات بھی کچھ زیادہ ہی جلدی آ جاتی ہے اور اندھیرا بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ آصف بھائی کا گھر بنی گالا کی مین روڈ پر نہیں۔ ان کے گھر تک پہنچنے کیلئے ایک تنگ سا راستہ ہے جو چند وسیع و عریض مگر ویران فارم ہاؤسز اور کھیتوں کےدرمیان سے ہوتا ہوا آگے کی طرف جاتا ہے جہاں بائیں طرف بیس پچیس مکانات کی ایک گلی ہے جس کے آخر میں آصف بھائی کا گھر ہے۔ اپنی گاڑی ہو تو آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے لیکن پیدل جانے والے کا خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
ایک دن میں ان کے گھر گیا تو آصف بھائی اور ان کی بیگم خلاف معمول کچھ خاموش لگے۔ میں نے آصف بھائی سے پوچھا بھی کہ خیریت ہے آج آپ کچھ کم کھلکھلا رہے ہیں، لیکن انہوں نے یہی کہا کہ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ دوبارہ استفسار پر بھابھی نے ان کو ذرا غور سے دیکھا اور مجھ سے کہا:
“یہ آپ کو بالکل نہیں بتائیں گے عبید بھائی۔”
“کیا مطلب؟۔۔۔ کیا نہیں بتائیں گے؟۔۔۔”
“وہی جو اس دن ان کے ساتھ پیش آیا ہے۔”
“کیا پیش آیا ہے آصف بھائی؟ ۔۔۔ کیا ہوا ہے؟۔۔۔”میرے لہجے میں تشویش آ گئی۔
“ارے رہنے دیں عبید بھائی۔۔۔ میں بتا دوں گا تو آپ بنی گالا آنے سے ہی گھبرائیں گے۔”
“ارے کچھ تو پتہ چلے بھائی۔” میں بولا۔
آصف بھائی نے کچھ ناراضگی سے بھابھی کی طرف دیکھا۔ پھر مسکرائے اور بولے:
“ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ بس گلی میں کچھ نظر آیا تھا پرسوں رات۔”
” کوئی خاص بات نہیں؟ ۔۔۔ ڈر کے مارے ان کا برا حال ہو گیا تھا اور کہتے ہیں کوئی خاص بات نہیں۔” بھابھی نے ان کے گھورنے کے جواب میں گھورا۔
بالآخر آصف بھائی نے اپنی گلی میں پیش آنے والا وہ سنسنی خیز واقعہ سنایا جو کسی اور کے ساتھ نہیں خود ان کے اپنے ساتھ پیش آیا تھا۔ انہی کا زبانی سنئے:
“پرسوں رات خاصی ٹھنڈ تھی۔ مجھے راولپنڈی شہر میں اپنے کام نمٹاتے نمٹاتے خاصی دیر ہو چکی تھی۔ واپس بنی گالا تک پہنچتے پہنچتے بارہ ایک بج گئے۔ آج آسمان پر بادل بھی چھائے ہوئے تھے اور رات کا اندھیرا بستی کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے چکا تھا ۔ میں گاڑی میں اکیلا ہی تھا۔ بنی گالا کی مین روڈ پر تو پھر بھی کچھ روشنیاں تھیں، لیکن میں جیسے ہی اپنے گھر جانے والے رستے پر مڑا تو ایک گھپ اندھیرے اور سنسان ماحول میں داخل ہو گیا۔ میری گاڑی کی ہیڈ لائٹس اس اندھیرے کو دور بھگانے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھیں ۔ اپنے گھر کی طرف جانے والی گلی آئی تو میں نے گاڑی اس میں داخل کر دی۔ اس گلی میں مکان تو کئی ہیں لیکن زیادہ تر زیر تعمیر ہی ہیں یا ابھی آباد نہیں ہوئے۔ اس لئے گلی بھی ویران ہی رہتی ہے۔ میں گاڑی آہستہ آہستہ بہت ہلکی رفتار کے ساتھ چلاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ گھر اب قریب ہی تھا۔ دن بھر کاموں کی تھکن گھر کے قریب آنے پر مجھ پہ سوار ہو رہی تھی۔ بس یہی سوچ رہا تھا کہ گھر پہنچتے ہیں بستر پہ لیٹ جاؤں گا۔ انہی سوچوں میں تھا کہ ہیڈ لائٹس کی روشنی میں گلی کے درمیان تھوڑا آگے مجھے ایک سایہ سا متحرک نظر آیا۔ میں حیران ہوا کہ یہ اس وقت رات کے ایک بجے کون ہے جو گلی میں گھوم رہا ہے؟۔۔۔ گاڑی اور قریب ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ہیولا کوئی مرد نہیں بلکہ عورت ہے۔ اس کا رنگ برنگا لباس خاصا چمک دار تھا اور گاڑی کی روشنی کو شیشے کی طرح منعکس کر رہا تھا۔ میں مزید قریب ہوا تو اندازہ ہوا کہ وہ کوئی نوجوان لڑکی ہے جس کے خوبصورت اور رنگا رنگ ریشمی جڑاؤ لباس سے یوں لگتا تھا جیسے وہ یا تو کسی شادی میں شرکت کر کے آ رہی ہے، یا پھر خود ہی دلہن ہے۔۔۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا؟۔۔۔ شادی سے وہ رات کے اس پہر اکیلے کیسے واپس آ رہی ہے؟۔۔۔ اور اگر وہ کوئی دلہن ہی ہے تو اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے؟۔۔۔ گاڑی لحظہ بہ لحظہ اس کے قریب ہوتی چلی گئی۔ ”
وہ راستے کے تقریباً درمیان میں کھڑی تھی اور اس کا چہرہ سڑک کی طرف تھا۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر وہ اسی پوزیشن میں کھڑی رہی تو جب میری گاڑی اس کے قریب سے گزرے گی اس وقت اس کا چہرہ میری سائڈ والی کھڑکی کے شیشے سے بس چند ہی انچ دور ہوگا۔ دور سے اس کا رنگا رنگ چمکدار لباس دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ وہ ایک حسین اور خوش شکل لڑکی ہوگی۔۔۔ اور اب تو میں اس کے خاصا قریب آ چکا تھا۔ مجھے اس کے گورے سفید چہرے کی روشن جھلک بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔میرا دل ذرا زور سے دھڑکنے لگا۔
گاڑی رفتہ رفتہ اس کے قریب پہنچ گئی اور اس کے برابر سے گزرنے لگی۔ جیسے ہی اس کا چہرہ شیشے کے قریب آیا ، اس نے یکدم اپنا رخ میری طرف کیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ اور اسی وقت جیسے ہی میری نظر اس کے چہرے پر پڑی۔۔۔ میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میری روح کی گہرائی سے ایک بھیانک چیخ برآمد ہوئی جو میرے حلق تک آتے آتے رک گئی۔۔۔ میں ہکا بکا،آنکھیں پھاڑے اس کے چہرے کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔ بلاشبہ اس کا چہرہ گورے سفید رنگ کا تھا۔۔۔لیکن۔۔۔لیکن اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لمبی اور طوطے کی خمیدہ چونچ جیسی گھومی ہوئی ناک اور اس کی نیچے سے اوپر کی طرف گھومی ہوئی نوکدار ٹھوڑی۔۔۔ یا خدا۔۔۔ اس کی ناک اور ٹھوڑی کی نوکیں ایک دوسرے سے بس چند ملی میٹر ہی کے فاصلے پر ہوں گی۔ اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری تھا اور وہ بغیر کسی خوف، بغیر کسی پریشانی اور بغیر کسی مسکراہٹ کے بس مجھے گھورے جا رہی تھی۔ میرا دماغ دھواں دھواں ہو گیا اور پورے بدن پر لرزہ سا طاری ہو گیا۔
میں نے اپنا سر جھٹکا اور ایک دم گاڑی کے ایکسلریٹر پر پاؤں دبا دیا۔ گاڑی زور سے اچھلی اور تیزی سے آگے دوڑنے لگی۔ گھر تو قریب ہی تھا۔ میں چند سیکنڈوں میں اپنے گھر کے گیٹ تک پہنچ گیا جو آج اللہ جانے کیوں پورا کھلا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی سیدھی اندر لا کر کھڑی کی اور انجن بند کئے بغیر تیزی سے نیچے اترا اور جلدی سے مین گیٹ اندر سے بند کر دیا۔ گیٹ بند کر کے کسی قدر اطمینان نصیب ہوا کیونکہ وہ ناک مڑی لڑکی، عورت، بھتنی یا چڑیل جو بھی تھی وہ قریب ہی تھی اور مجھے خوف تھا کہ وہ میرے پیچھے پیچھے گھر میں نہ داخل ہو جائے۔
گھر کا دروازہ کھول کر داخل ہوا تو اندر بالکل خاموشی طاری تھی۔ اہلیہ اور بچے سب سو چکے تھے۔ میرے آنے کی آہٹ سن کر بیوی اٹھی تو میں اس پر برس پڑا:
“یہ گھر کے سب دروازے کیوں کھلے ہوئے ہیں؟ تم لوگوں کو ذرا بھی خوف نہیں۔”
“کیوں کیا ہوا؟” بیوی چونک کر بولی۔ “دروازے تو پہلے بھی کئی دفعہ کھلے رہتےہیں ، پہلے تو کبھی آپ نے کچھ نہیں کہا۔”
“اچھا ٹھیک ہے زیادہ باتیں نہیں کرو بس سو جاؤ۔”
میں جھلا کر بولا اور جلدی سے بستر میں گھس کر کمبل سر تک اوڑھ لیا۔
بیوی مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی رہی۔
اگلے تین دن تک میرے بدن میں بخار کی سی کیفیت رہی۔ صبح اٹھ کرمیں نے بیوی کو رات کا قصہ سنایا تو وہ بھی پریشان ہو گئی۔ بعد میں ہم نے پاس پڑوس سے بھی معلومات لینے اور دریافت کرنے کی کوشش کی کہ کیا اس طرح کی کوئی عورت اس علاقے میں کسی اور نے بھی کبھی دیکھی ہے؟ ۔۔۔لیکن ہر ایک نے لا علمی ہی ظاہر کی۔
بس وہ دن آج کا دن، میں کبھی بھی اکیلا رات کو دیر سے گھر نہیں آتا۔”