خبر کیسے بنے،جو ایسی ہو،سب دیکھیں، سب سنیں، اخبار،ٹی وی کے رپورٹر، اینکر،نیوز روم کے لوگ دن رات بھاگ دوڑ کرتے ہیں.
آج خبر کیاہے؟ جو شاید سب سے زیادہ دیکھی جاسکے، خصوصاً ٹی وی پر جس کی ریٹنگ زیادہ ہو۔
نیوز چینلزمیں معمول سے ہٹ کرکوئی دلچسپ فوٹیج،جس کی مکمل پیڈنگ کی گئی ہو،بہت پسند کی جاتی ہے،وہ رپورٹراور اینکربھی یکدم مقبول ہو جاتا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا،ٹویٹر، فیس بک،واٹس ایپ اور دوسری ویب سائٹس پر تصاویر،فوٹیج فوری ا پ لوڈ ہوجاتی ہے اوران کا ٹاپ ٹرینڈ آجاتا ہے۔
ایک ٹی وی رپورٹرنے عید پرریلوے سٹیشن پررپورٹنگ کرتےایک جملہ بارباربولا،اس کی غلطی سے بھری یہ فوٹیج کسی دور میں یوٹیوب پراپ لوڈ ہوئی لوگوں نے دیکھی لیکن زیادہ مقبول اس وقت ہوئی، جب بھارتی فلم میں اس کو دوبارہ دکھایا بھی اور ری انکیٹمنٹ بھی کی گئی۔ وہ رپورٹرراتوں رات نہیں،بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے ہٹ ہوگیا اوراس کی ٹی وی پر چلنے والی غلطی سپرہٹ ٹرینڈ بن گیا۔ اخبارات نے رپورٹ کیا،دیگر چینلز نے انٹرویوز چلائے، حتیٰ کہ وہ رپورٹرایک عرصہ سے بے روزگارتھا،اس کو ایک نیشنل پرائیویٹ چینل نے جاب آفرکردی،ایک طرح سے اس کا توبھلا ہوگیا۔
جس ٹاک شو میں شرکاء کے درمیان بڑی لڑائی، بداخلاقی خصوصاً گالم گلوچ یا باقاعدہ ہاتھا پائی ہوجائے، وہ پروگرام خوب چلتا اورڈسکس ہوتاہے،بلکہ جس نے نہیں بھی دیکھا ہوتا، وہ بھی مجبور ہو جاتا ہے۔
آج بھی خبرکا وہی اصول ہے، یعنی آدمی کے کتے کو کاٹنے کے منتظر رہتے ہیں۔
اب کتے تو اتنے فارغ نہیں کہ انسان کا مزہ چکھیں، ایسے میں انسان کی تفریح کیلئے کوئی دوسرا انسان ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
نظریں تیز کردیں اور کان کھڑے کرلیے، کہیں کچھ غیرمعمولی ہونے کی دیر ہے،پھراسے اتنا گھماتے ہیں کہ دیکھنے والے سے زیادہ جس کا ذکر ہوتا ہے،اسے چکرآجاتے ہیں۔
لیکن اس سب چکرمیں وہ خبرٹاپ ٹرینڈ بن جاتی ہے۔
غیرمحسوس انداز سے سیاسی رہنما بھی ٹاپ ٹرینڈ بنتے ہیں،کوئی دھرنا دے کر، کوئی مٹی ڈال کر،کوئی پیسہ واپس اور کوئی استعفیٰ مانگتا ہے، کوئی تلاشی کا مطالبہ کرتا ہے،کوئی نیا بیانیہ پیش کرتا ہے۔
وفاقی وزراء نے بھی دیکھا دیکھی ٹویٹر اکاؤنٹس بنالیے اور اب انہیں بھی معلوم ہوگیا کہ میڈیا یہاں چلنے والا ایک ایک جملہ نہ صرف اٹھا لیتا ہے بلکہ اس کو بہت زیادہ زیربحث لایا جاتا ہے۔ ایسا ہی فنکار لوگوں نے کیا ہے۔
کئی باران کی فوٹیج،تصاویریا بیان ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے۔
کسی شخص کو سرعام جوتے پڑے، منہ کالا کیا،گدھے پر بٹھادیا ،غیر مہذب جملہ کس دیا یا پھر کوئی اور فوٹیج چل جاتی ہے۔
ٹی وی پر بولنے کا انداز اگرغورکریں تو کچھ ایسا ہوتا ہے،
کون لایا یہ جھمکے ؟کہاں سے آئے یہ جھمکے؟ کون دیکر گیا یہ جھمکے؟
یاپھر ہائے میری انگوٹھیاں کہاں گئی انگوٹھیاں؟
اور پھرایسے ایسے الفاظ کہ پڑھنے اور سننے والا، انگلیاں دانتوں تلے دبانے کے بجائے ویسے ہی ہکابکا ہی رہ جاتاہے۔
خاتون اینکر نے رپورٹنگ کرتے جذباتی انداز سے کہا ناظرین دیکھیں اس سیکورٹی اہلکارنے ہمیں آفس کے اندرنہیں جانے دیا،دیکھیں اسے بات کرنے کی تمیز نہیں، معلوم نہیں کس ادارے کا اہلکار ہے۔
یہ دیکھیں اورپھربندوق برداراس اہلکار نے ایک زناٹے دارتھپڑاس خاتون کے جڑدیا۔
جس نے بھی دیکھا اسے حیرت ہوئی اور افسوس بھی۔
قدرتی بات ہے،خاتون کے ساتھ ایسا بُرا سلوک کوئی بھی درست قرارنہیں دے سکتا۔
اب ہوا یہ کہ چینلزپرفوٹیج خوب چلی،خاتون ہرچینل پرانٹرویو دے رہی ہے۔
اورجی ہاں، یہ ایونٹ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔
جوکچھ بھی ہے،بحث اپنی جگہ، کیا اخلاقی طورپردرست ہے؟
کیا یہ صحافتی اقدارہیں؟
ٹاپ ٹرینڈ کی دوڑمیں کچھ بھی کرگزرنے کی لگن، بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
سیاست دانوں کے ایک دوسرے پرلفظی حملے بھی ان دنوں ٹاپ ٹرینڈ بن رہے ہیں۔
مخالف کو نہ صرف زچ کرنے کی کوشش بلکہ اسے نفسیاتی طور پرگھائل کرنے کیلئے دماغ پر زیادہ زور دینے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جاتی۔
اس محاذ آرائی کو میڈیا خوشی خوشی ایسے گود لیتا ہے، جیسے اسی کے انتظارمیں ہو۔
ٹاپ ٹرینڈ ہمارے مزاج، سوچ، معاشرت سمیت ہماری سیاست، صحافت اور اخلاق کو کہاں لے جارہاہے، کچھ معلوم نہیں،کاش! کچھ اچھا بھی ہمارا ٹاپ ٹرینڈ بن جائے۔