نیشنل کالج آف آرٹس سے گریجویشن کرنے بعد بھی خوار ہورہے ہیں، ہمیں بڑا فخر تھا اس بات پر، مگر یہ اعزاز ہمارے کچھ کام نہیں آسکا” وہ حالات سے قدرے مایوس دکھائی دیا، اسد سے یہ ابتدائی ملاقاتیں تھیں، وہ انگریزی روزنامہ میں بطور کارٹونسٹ کام کررہے تھے۔ میرے منجھلے بھائی اپنی میڈیکل لائن سے بیزاری دکھا کر صحافت سے وابستہ ہوچکے تھے، وہ اسی اخبار میں تھے، ان کے پاس جاتے تو خالد اور اسد سے بھی ملاقات ہوجاتی، دونوں این سی اے سے فائن آرٹس میں فارغ التحصیل تھے، کارٹونسٹ کو بطور پیشہ اپنایا، اس کے ساتھ ان میں کچھ مختلف کرنے کی لگن سی تھی، الحمرا ہال میں پتلی تماشہ بھی کرتے، کئی برس تک بچے “آچڑی کھاچڑی” کے عنوان سے پپٹ شو دیکھتے رہے۔ جنہیں دونوں چلاتے تھے۔
اسد کا مزاج خالد سے قدرے مختلف تھا، بعض دوست اس سے اختلاف کرتے تھے، چونکہ دونوں اکثر اکٹھے کام کرتے اور ملتے تھے، اس لئے یہ تاثر پایا جاتا۔ خالد کچھ کم گو اور اپنے کام میں مصروف رہنے والا انسان ہے، اسد گفت وسنید میں فوری شریک ہوجاتے اور بڑے مخصوص انداز سے کوئی قصہ ضرور سناتے۔ یہ سب کرنے کے دوران اسد مکمل باڈی لینگوئج کا استعمال کرتے۔ چونکہ دونوں ایک جیسا کام کرتے تھے اور اکثر ادارہ بھی ایک ہی رکھتے، اس لئے سب کا خیال تھا کہ ان کی سوچ اور مزاج میں بھی ہم آہنگی ہے۔ اور یہ کسی حد تک غلط بھی نہیں تھا،لیکن کبھی کبھی محسوس ہوتا کہ اسد اپنی شخصیت کو مقابلے میں دبا ہوا سمجھتا اگرچہ اس کا اظہار کھل کر نہیں کیا۔
خالد اور اسد کے کارٹونز میں لائن کا واضح فرق تھا، آرٹ کو جاننے والے بخوبی اندازہ لگالیتے اس میں آئیڈیائز کا مختلف ہونا بھی صاف دکھائی دیتا، دوست اسد کا کام دیکھ کر خالد کا حوالہ دیتے یا موازنہ کرتے، لیکن اس کا مقصد صرف تقابلی جائزہ لینا ہوتا۔ وہ شاید اسدکبھی کبھار پسند نہیں کرتے، یہ بھی فطری عمل ہے۔ وہ اپنی الگ شناخت رکھنے کا قائل تھا۔
زندگی میں خوشی اور غمی ایک دوسرے کا تعاقب کرتی ہیں، انسان کسی ایک سے جان چھڑاتا اور دوسرے کے پیچھے بھاگتا ہے۔ روزگار کا چھن جانا انسان کو ایک انجان دکھ اور تکلیف کی کیفیت میں لے جاتا ہے۔ خالد اور اسد دونوں نے ایسے حالات دیکھے، اسد کہتا کہ گہرے پانیوں اور لہروں میں غوطے کھانے کے بعد دوبارہ سطح پر آجانے میں ایک لطف اور جیت کا مزہ ہے”۔
میں نے ایک بار اسد سے اپنے ناولٹ کا ٹائٹل بنانے کی فرمائش کی، انہوں نے مسودہ پڑھنے کیلئے مانگا، جس کے بعد انہوں نے بڑی تکنیکی گفتگو کی اور اس تحریر کے پس منظر اور محرکات پر بحث کی، اور میری سوچ جاننےکی کوشش کی، اس وقت مجھے اندازہ ہوگیا کہ اسد حقیقی فنکار ہے کیونکہ وہی اپنے کام کی روح تک پہنچتا ہے۔
اسد پریشان بھی بہت جلدہوجاتا ، کسی دوسرے کا دکھ اسے مجبور کردیتا، اسد ایک پیار کرنے والا دل رکھتا تھا، وہ کسی کی تکلیف میں دکھی ہو جاتا۔ میرے منجھلے بھائی سے بڑی دوستی تھی، وہ 39 سال کی عمر میں دل کا روگ لگاکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اسد بھی انہیں میں سے تھا جنہیں بھائی کی وفات پر گہرا دکھ ہوا۔ دوستی کا رشتہ بہت مضبوط مگر انتہائی نازک بھی ہوتا ہے، کیونکہ کسی کے چلے جانے سے دل کی حالت بعض اوقات ناقابل بیان ہوجاتی ہے۔ ایک دوست کا غم تک بتانے کی ہمت نہیں ہوتی، کبھی اپنوں کا ، کبھی دوستوں ، بچھڑنا آدمی کو دنیا سے ایک طرف کردیتا ہے۔
مالی حالات بھی حوصلہ کم کریتے ہیں، لیکن یہ سب دل کے معاملے بگڑنے کا نتیجہ ہیں، وگرنہ انسان کسی بھی مشکل کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اسد نے دوستوں سے میل ملاپ کسی حال میں ترک نہیں کیا، سوچوں میں گم ضرور رہتا مگر خود کو تنہائی میں دھکیلنے نہیں دیتا۔ میرے سب سے بڑے بھائی کے خالد اور اسد کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، انہیوں نے پیارے بھائی کی وفات کے بعد تمام مشترکہ دوستوں سے مسلسل رابطہ رکھا، وہ کہیں نہ کہیں مل لیتے اور یادیں تازہ کرلیتے۔
بھائی بتاتے ہیں کہ چند برس پہلے ایک روز اچانک اسد کا فون آیا، اس نے کہا یار ڈاکٹر “منجھلے بھائی کا پکارتے تھے” بہت یاد آرہا ہے، خوابوں میں آتا ، بڑے بھائی نے کہا فکر نہ کرو ملتے ہیں۔ اسد نے جواب دیا مجھے ان دنوں کوئی کام ہے، جلد ملاقات کرتے ہیں”۔
بڑے بھائی نے بتایا کہ محرم شروع ہوگئے میں نے سوچا کہ عاشورہ کے بعد ملتے ہیں، مگر نویں محرم کو اطلاع ملی اسد ہم سب سے ناراض ہوگیا اور دور جانے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ جنازے میں شریک ہوئے جہاں خالد حسین سے ملکر افسوس کیا، انہوں نے بتایا کہ اسد دل کے مرض کا شکار ہوکر گھر پر تھا، جب آپ سے بات ہوئی ان دنوں آپریشن کی تیاریاں چل رہی تھی، سرجری کے بعد حالت نہ سنبھل سکی، اور آج وہ ہم سے رخصت ہوگیا۔
اسد دوستوں کو دل سے چاہنے والا تھا، یہ رشتہ انسان کو باندھے رکھتا ہے، وہ بھائی کے جانے پر دل گرفتہ تھا، اب شاید دونوں رابطے میں تھے۔ اسد بھی بھائی کی راہ پر چل پڑا اور ویسی یادیں ہمیں تھما گیا۔
a۔