Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میری والدہ اور میرے بڑے بھائی کی میری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ بھائی 13 اپریل اور امی 15 اپریل کو فوت ہوئیں۔ دونوں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شدت سے یاد آریے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم اپریل میں اس کیفیت میں چلے جاتے ییں۔
امی کی یاد لکھا۔
**************
وہ گھڑیاں جب بھی نظروں کے سامنے ذھن کے پردے سے نکل کر آتی ہیں، ایک دم سب کچھ جیسے تھم سا جاتا ہے۔
سرکاری ہسپتال کا وارڈ جہاں کئی تکلیف کی حدوں کو عبور کرتے زندگی اور موت کی دہلیز پر پہنچے مریضوں کے درمیان وہ دنیا میں سب سے قیمتی ہستی بستر پر لیٹی، اپنے بچوں کو کبھی دکھ اور پریشانی میں دیکھ کر تڑپ جانے والی ماں اس لمحے بھی جیسے رب سے کوئی مکالمے میں مصروف تھی۔
یہ گھڑی ہوش کے عالم سے کہیں آگے تھی، اس نے کبھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کی آنکھ کا آنسو تک زمین پر گرنے نہ دیا اور اپنی مامتا کے آنچل میں جذب کرلیا کرتی۔ زندگی کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں، کبھی محسوس نہیں ہونے دیں۔
مگر اس روز ایک احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا یہ وہ چھاؤں ہے جس نے دکھوں کی تپش کبھی ان تک پہنچنے نہ دی۔ حالات کے سردگرم تھپیڑوں سے ہمیشہ بچا کر رکھا۔
ماں کہتی تھی میرے لال کبھی کسی تنگی سے دوچار نہ ہوں، وہ اس کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتی۔ اور کوئی جتن کرتی رہتی۔
اس گھڑی اپنے بچوں کی مسیحائی کرنے والی ہستی کسی دوا کی نہیں چند حرف دعا کی طلب گار دکھائی دی۔
رب سے تعلق بنانے کے جتنے اسباب تھے اس نے بچوں کو بتا چھوڑے تھے بدقسمت اولاد پریشانی میں اپنے لاتعلقی کے عالم میں وہ سب بھول گئے۔ انہیں طبیب اور دوا کی فکر تھی۔
ہائے کاش! کسی طور ماں کوئی بات کرتی، بچوں نے بڑی محبت سے پیار بھری یادوں کے حوالے دے دے کر پکارا۔ مگر وہ اس گھڑی ان کو اک محفوظ مقام پر چھوڑ کر جیسے کسی اور منزل کی راہ لینے کا قصد کئے تھی۔
ماں کو بس فکر لاحق تھی اپنے ایک منجھلے بچے کی جس نے کسی اور دیس کا سفر طے کرکے لوٹنا تھا، اس کی آنکھیں منتظر رہیں، اس کی راہ تکتی رہیں۔
اب شاید اس کو احساس ہوگیا تھا وہ بھی ٹھیک ہے اور محفوظ ہے، اپنی اس حد سے تجاوز کرتی تکلیف میں بھی ماں جیسے ایک حالت اطمینان میں تھی۔ وہ جان چکی تھی اس کے بچے اب اپنا دکھ، درد سنبھال لیں گے، ان کو دنیا کے چلن کی عادت ہوگئی ہے۔
بچے اندر سے گھٹ گھٹ کر ماں کی حالت کو دیکھ رہے تھے، ماں بھی کب چاہتی ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو خود سے دور کرے۔
لیکن قدرت نے ہر ایک کو اپنا آپ دکھایا ہے، اس کے معاملات میں کوئی کب کچھ کرپایا ہے، یہ حقیقت بھی ہر انسان جانتا ہے۔
اور پھر اک ٹھنڈا سا جھونکا آیا اپنے ساتھ ان بچوں کی بیش قیمت ہستی کو ہمراہی بناکر لے گیا۔
اس گھڑی کو کوئی بھول پایا ہے کیونکہ رب نے ایک ایسا نظام بنایا ہے ماں ہر پل اپنے بچوں کے لیے عافیت کا سایہ ہے۔
یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہوجاتی ہے کہ زندگی کی اس نازک گھڑی سے ہر ایک کو گزرنا ہے، ان آخری لمحات کی دکھ بھری یادوں کو دل میں بسانا ہے یہ چھاؤں، ٹھنڈی ہوا، پرسکون آغوش، پھر دوبارہ نہیں ملتی، اس کی خواہش زندگی بھر انسان کا تعاقب کرتی ہے۔
کاش! میں ایسا کرتا، ویسا کرتا،یہ ہوجاتا۔
لیکن وہ لمحے اور گھڑی گزر گئے، ماں کی محبت، شفقت، باتیں اور یادیں اچھے سے محفوظ کرکے رب کے سامنے اسے بھرپور خراج پیش کیا جائے۔
ہاں ایسا کچھ اس نے بھی کہا تھا تو کیوں یہی کریں۔
آؤ! ماں کے لیے دعا کریں۔
میری والدہ اور میرے بڑے بھائی کی میری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ بھائی 13 اپریل اور امی 15 اپریل کو فوت ہوئیں۔ دونوں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شدت سے یاد آریے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم اپریل میں اس کیفیت میں چلے جاتے ییں۔
امی کی یاد لکھا۔
**************
وہ گھڑیاں جب بھی نظروں کے سامنے ذھن کے پردے سے نکل کر آتی ہیں، ایک دم سب کچھ جیسے تھم سا جاتا ہے۔
سرکاری ہسپتال کا وارڈ جہاں کئی تکلیف کی حدوں کو عبور کرتے زندگی اور موت کی دہلیز پر پہنچے مریضوں کے درمیان وہ دنیا میں سب سے قیمتی ہستی بستر پر لیٹی، اپنے بچوں کو کبھی دکھ اور پریشانی میں دیکھ کر تڑپ جانے والی ماں اس لمحے بھی جیسے رب سے کوئی مکالمے میں مصروف تھی۔
یہ گھڑی ہوش کے عالم سے کہیں آگے تھی، اس نے کبھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کی آنکھ کا آنسو تک زمین پر گرنے نہ دیا اور اپنی مامتا کے آنچل میں جذب کرلیا کرتی۔ زندگی کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں، کبھی محسوس نہیں ہونے دیں۔
مگر اس روز ایک احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا یہ وہ چھاؤں ہے جس نے دکھوں کی تپش کبھی ان تک پہنچنے نہ دی۔ حالات کے سردگرم تھپیڑوں سے ہمیشہ بچا کر رکھا۔
ماں کہتی تھی میرے لال کبھی کسی تنگی سے دوچار نہ ہوں، وہ اس کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتی۔ اور کوئی جتن کرتی رہتی۔
اس گھڑی اپنے بچوں کی مسیحائی کرنے والی ہستی کسی دوا کی نہیں چند حرف دعا کی طلب گار دکھائی دی۔
رب سے تعلق بنانے کے جتنے اسباب تھے اس نے بچوں کو بتا چھوڑے تھے بدقسمت اولاد پریشانی میں اپنے لاتعلقی کے عالم میں وہ سب بھول گئے۔ انہیں طبیب اور دوا کی فکر تھی۔
ہائے کاش! کسی طور ماں کوئی بات کرتی، بچوں نے بڑی محبت سے پیار بھری یادوں کے حوالے دے دے کر پکارا۔ مگر وہ اس گھڑی ان کو اک محفوظ مقام پر چھوڑ کر جیسے کسی اور منزل کی راہ لینے کا قصد کئے تھی۔
ماں کو بس فکر لاحق تھی اپنے ایک منجھلے بچے کی جس نے کسی اور دیس کا سفر طے کرکے لوٹنا تھا، اس کی آنکھیں منتظر رہیں، اس کی راہ تکتی رہیں۔
اب شاید اس کو احساس ہوگیا تھا وہ بھی ٹھیک ہے اور محفوظ ہے، اپنی اس حد سے تجاوز کرتی تکلیف میں بھی ماں جیسے ایک حالت اطمینان میں تھی۔ وہ جان چکی تھی اس کے بچے اب اپنا دکھ، درد سنبھال لیں گے، ان کو دنیا کے چلن کی عادت ہوگئی ہے۔
بچے اندر سے گھٹ گھٹ کر ماں کی حالت کو دیکھ رہے تھے، ماں بھی کب چاہتی ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو خود سے دور کرے۔
لیکن قدرت نے ہر ایک کو اپنا آپ دکھایا ہے، اس کے معاملات میں کوئی کب کچھ کرپایا ہے، یہ حقیقت بھی ہر انسان جانتا ہے۔
اور پھر اک ٹھنڈا سا جھونکا آیا اپنے ساتھ ان بچوں کی بیش قیمت ہستی کو ہمراہی بناکر لے گیا۔
اس گھڑی کو کوئی بھول پایا ہے کیونکہ رب نے ایک ایسا نظام بنایا ہے ماں ہر پل اپنے بچوں کے لیے عافیت کا سایہ ہے۔
یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہوجاتی ہے کہ زندگی کی اس نازک گھڑی سے ہر ایک کو گزرنا ہے، ان آخری لمحات کی دکھ بھری یادوں کو دل میں بسانا ہے یہ چھاؤں، ٹھنڈی ہوا، پرسکون آغوش، پھر دوبارہ نہیں ملتی، اس کی خواہش زندگی بھر انسان کا تعاقب کرتی ہے۔
کاش! میں ایسا کرتا، ویسا کرتا،یہ ہوجاتا۔
لیکن وہ لمحے اور گھڑی گزر گئے، ماں کی محبت، شفقت، باتیں اور یادیں اچھے سے محفوظ کرکے رب کے سامنے اسے بھرپور خراج پیش کیا جائے۔
ہاں ایسا کچھ اس نے بھی کہا تھا تو کیوں یہی کریں۔
آؤ! ماں کے لیے دعا کریں۔
میری والدہ اور میرے بڑے بھائی کی میری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ بھائی 13 اپریل اور امی 15 اپریل کو فوت ہوئیں۔ دونوں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شدت سے یاد آریے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم اپریل میں اس کیفیت میں چلے جاتے ییں۔
امی کی یاد لکھا۔
**************
وہ گھڑیاں جب بھی نظروں کے سامنے ذھن کے پردے سے نکل کر آتی ہیں، ایک دم سب کچھ جیسے تھم سا جاتا ہے۔
سرکاری ہسپتال کا وارڈ جہاں کئی تکلیف کی حدوں کو عبور کرتے زندگی اور موت کی دہلیز پر پہنچے مریضوں کے درمیان وہ دنیا میں سب سے قیمتی ہستی بستر پر لیٹی، اپنے بچوں کو کبھی دکھ اور پریشانی میں دیکھ کر تڑپ جانے والی ماں اس لمحے بھی جیسے رب سے کوئی مکالمے میں مصروف تھی۔
یہ گھڑی ہوش کے عالم سے کہیں آگے تھی، اس نے کبھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کی آنکھ کا آنسو تک زمین پر گرنے نہ دیا اور اپنی مامتا کے آنچل میں جذب کرلیا کرتی۔ زندگی کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں، کبھی محسوس نہیں ہونے دیں۔
مگر اس روز ایک احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا یہ وہ چھاؤں ہے جس نے دکھوں کی تپش کبھی ان تک پہنچنے نہ دی۔ حالات کے سردگرم تھپیڑوں سے ہمیشہ بچا کر رکھا۔
ماں کہتی تھی میرے لال کبھی کسی تنگی سے دوچار نہ ہوں، وہ اس کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتی۔ اور کوئی جتن کرتی رہتی۔
اس گھڑی اپنے بچوں کی مسیحائی کرنے والی ہستی کسی دوا کی نہیں چند حرف دعا کی طلب گار دکھائی دی۔
رب سے تعلق بنانے کے جتنے اسباب تھے اس نے بچوں کو بتا چھوڑے تھے بدقسمت اولاد پریشانی میں اپنے لاتعلقی کے عالم میں وہ سب بھول گئے۔ انہیں طبیب اور دوا کی فکر تھی۔
ہائے کاش! کسی طور ماں کوئی بات کرتی، بچوں نے بڑی محبت سے پیار بھری یادوں کے حوالے دے دے کر پکارا۔ مگر وہ اس گھڑی ان کو اک محفوظ مقام پر چھوڑ کر جیسے کسی اور منزل کی راہ لینے کا قصد کئے تھی۔
ماں کو بس فکر لاحق تھی اپنے ایک منجھلے بچے کی جس نے کسی اور دیس کا سفر طے کرکے لوٹنا تھا، اس کی آنکھیں منتظر رہیں، اس کی راہ تکتی رہیں۔
اب شاید اس کو احساس ہوگیا تھا وہ بھی ٹھیک ہے اور محفوظ ہے، اپنی اس حد سے تجاوز کرتی تکلیف میں بھی ماں جیسے ایک حالت اطمینان میں تھی۔ وہ جان چکی تھی اس کے بچے اب اپنا دکھ، درد سنبھال لیں گے، ان کو دنیا کے چلن کی عادت ہوگئی ہے۔
بچے اندر سے گھٹ گھٹ کر ماں کی حالت کو دیکھ رہے تھے، ماں بھی کب چاہتی ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو خود سے دور کرے۔
لیکن قدرت نے ہر ایک کو اپنا آپ دکھایا ہے، اس کے معاملات میں کوئی کب کچھ کرپایا ہے، یہ حقیقت بھی ہر انسان جانتا ہے۔
اور پھر اک ٹھنڈا سا جھونکا آیا اپنے ساتھ ان بچوں کی بیش قیمت ہستی کو ہمراہی بناکر لے گیا۔
اس گھڑی کو کوئی بھول پایا ہے کیونکہ رب نے ایک ایسا نظام بنایا ہے ماں ہر پل اپنے بچوں کے لیے عافیت کا سایہ ہے۔
یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہوجاتی ہے کہ زندگی کی اس نازک گھڑی سے ہر ایک کو گزرنا ہے، ان آخری لمحات کی دکھ بھری یادوں کو دل میں بسانا ہے یہ چھاؤں، ٹھنڈی ہوا، پرسکون آغوش، پھر دوبارہ نہیں ملتی، اس کی خواہش زندگی بھر انسان کا تعاقب کرتی ہے۔
کاش! میں ایسا کرتا، ویسا کرتا،یہ ہوجاتا۔
لیکن وہ لمحے اور گھڑی گزر گئے، ماں کی محبت، شفقت، باتیں اور یادیں اچھے سے محفوظ کرکے رب کے سامنے اسے بھرپور خراج پیش کیا جائے۔
ہاں ایسا کچھ اس نے بھی کہا تھا تو کیوں یہی کریں۔
آؤ! ماں کے لیے دعا کریں۔
میری والدہ اور میرے بڑے بھائی کی میری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ بھائی 13 اپریل اور امی 15 اپریل کو فوت ہوئیں۔ دونوں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شدت سے یاد آریے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم اپریل میں اس کیفیت میں چلے جاتے ییں۔
امی کی یاد لکھا۔
**************
وہ گھڑیاں جب بھی نظروں کے سامنے ذھن کے پردے سے نکل کر آتی ہیں، ایک دم سب کچھ جیسے تھم سا جاتا ہے۔
سرکاری ہسپتال کا وارڈ جہاں کئی تکلیف کی حدوں کو عبور کرتے زندگی اور موت کی دہلیز پر پہنچے مریضوں کے درمیان وہ دنیا میں سب سے قیمتی ہستی بستر پر لیٹی، اپنے بچوں کو کبھی دکھ اور پریشانی میں دیکھ کر تڑپ جانے والی ماں اس لمحے بھی جیسے رب سے کوئی مکالمے میں مصروف تھی۔
یہ گھڑی ہوش کے عالم سے کہیں آگے تھی، اس نے کبھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کی آنکھ کا آنسو تک زمین پر گرنے نہ دیا اور اپنی مامتا کے آنچل میں جذب کرلیا کرتی۔ زندگی کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں، کبھی محسوس نہیں ہونے دیں۔
مگر اس روز ایک احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا یہ وہ چھاؤں ہے جس نے دکھوں کی تپش کبھی ان تک پہنچنے نہ دی۔ حالات کے سردگرم تھپیڑوں سے ہمیشہ بچا کر رکھا۔
ماں کہتی تھی میرے لال کبھی کسی تنگی سے دوچار نہ ہوں، وہ اس کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتی۔ اور کوئی جتن کرتی رہتی۔
اس گھڑی اپنے بچوں کی مسیحائی کرنے والی ہستی کسی دوا کی نہیں چند حرف دعا کی طلب گار دکھائی دی۔
رب سے تعلق بنانے کے جتنے اسباب تھے اس نے بچوں کو بتا چھوڑے تھے بدقسمت اولاد پریشانی میں اپنے لاتعلقی کے عالم میں وہ سب بھول گئے۔ انہیں طبیب اور دوا کی فکر تھی۔
ہائے کاش! کسی طور ماں کوئی بات کرتی، بچوں نے بڑی محبت سے پیار بھری یادوں کے حوالے دے دے کر پکارا۔ مگر وہ اس گھڑی ان کو اک محفوظ مقام پر چھوڑ کر جیسے کسی اور منزل کی راہ لینے کا قصد کئے تھی۔
ماں کو بس فکر لاحق تھی اپنے ایک منجھلے بچے کی جس نے کسی اور دیس کا سفر طے کرکے لوٹنا تھا، اس کی آنکھیں منتظر رہیں، اس کی راہ تکتی رہیں۔
اب شاید اس کو احساس ہوگیا تھا وہ بھی ٹھیک ہے اور محفوظ ہے، اپنی اس حد سے تجاوز کرتی تکلیف میں بھی ماں جیسے ایک حالت اطمینان میں تھی۔ وہ جان چکی تھی اس کے بچے اب اپنا دکھ، درد سنبھال لیں گے، ان کو دنیا کے چلن کی عادت ہوگئی ہے۔
بچے اندر سے گھٹ گھٹ کر ماں کی حالت کو دیکھ رہے تھے، ماں بھی کب چاہتی ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو خود سے دور کرے۔
لیکن قدرت نے ہر ایک کو اپنا آپ دکھایا ہے، اس کے معاملات میں کوئی کب کچھ کرپایا ہے، یہ حقیقت بھی ہر انسان جانتا ہے۔
اور پھر اک ٹھنڈا سا جھونکا آیا اپنے ساتھ ان بچوں کی بیش قیمت ہستی کو ہمراہی بناکر لے گیا۔
اس گھڑی کو کوئی بھول پایا ہے کیونکہ رب نے ایک ایسا نظام بنایا ہے ماں ہر پل اپنے بچوں کے لیے عافیت کا سایہ ہے۔
یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہوجاتی ہے کہ زندگی کی اس نازک گھڑی سے ہر ایک کو گزرنا ہے، ان آخری لمحات کی دکھ بھری یادوں کو دل میں بسانا ہے یہ چھاؤں، ٹھنڈی ہوا، پرسکون آغوش، پھر دوبارہ نہیں ملتی، اس کی خواہش زندگی بھر انسان کا تعاقب کرتی ہے۔
کاش! میں ایسا کرتا، ویسا کرتا،یہ ہوجاتا۔
لیکن وہ لمحے اور گھڑی گزر گئے، ماں کی محبت، شفقت، باتیں اور یادیں اچھے سے محفوظ کرکے رب کے سامنے اسے بھرپور خراج پیش کیا جائے۔
ہاں ایسا کچھ اس نے بھی کہا تھا تو کیوں یہی کریں۔
آؤ! ماں کے لیے دعا کریں۔