کالج سے فارغ ہوئے تو یونیورسٹی جانے کے شوق نے دن رات بے چین کیے رکھا۔ ویسے تو ہمارے نزدیک ہم سٹوڈنٹس: مستقبل کا بے روزگار طبقہ, پردہ: جسے لڑکیاں کھڑکی پر ڈالتی ہیں, کتاب: وقت ضائع کرنے کا طریقہ, محبت: جس کے دم سے کیفیٹیریا آباد ہے, دل: بغیر آپریشن کے کسی کو بھی دیا جاسکتا ہے, کالج: تفریح گاہ، یونیورسٹی: خوشگوار زندگی کے آخری سال اور شادی ان تمام گناہوں کی سزا ہے۔
ہمارا موضوع یونیورسٹی کی یادیں ہیں۔ کسی نہ کسی طرح ڈیپارٹمنٹ تعلقات عامہ کی میرٹ لسٹ میں نام آگیا۔ خوشی سے پھولے نہ سمائے، نئے کپڑے پہنے، بس پر سوار ہوکر یونیورسٹی کی طرف اپنے اردگرد سے بے خبر نکل پڑے۔ اچانک بس کی بریک لگی، اپنا توازن سنبھال نہ سکے تو ایک خاتون پر جا گرے، وہ دبے دبے لفظوں میں بولی کیا کر رہے ہو؟ میں بوکھلاہٹ میں بولا کہ یونیورسٹی سے ڈگری کر رہا ہوں. یونیورسٹی پہنچے گیٹ سے لے کر ڈپارٹمنٹ تک آتے آتے سمجھ آگئی کہ یونیورسٹی جہاں ہی اور ہے۔ تھوڑے سے نروس تو پہلے ہی تھے تھوڑی نروس پن واش روم نکالنے گئے، سیٹ پر بیٹھے تو سامنے لکھا تھا اتنا زور تعلیم پر دیتے تو آج کسی اچھی سیٹ پر ہوتے۔ سوچا کالج میں مستی تھی، ہماری بھی کچھ ہستی تھی، ٹیچروں کا سہارا تھا، دل یہ آوارہ تھا، کہاں آگئے اس یونیورسٹی کے چکر میں اپنا کالج ہی کتنا پیارا تھا۔
کلاس میں بیٹھ کر ٹیچرز کا انتظار شروع ہوا۔ ہم بتاتے چلیں ہمارے نزدیک وہ شخص جو دباؤ کا شکار ہو، طالبعلموں کی وجہ سے مایوسی میں ڈوبا ہو، پھر بھی ویل ڈریسڈ ہو، وہ ٹیچر ہوتا ہے۔ پر یونیورسٹی کے ٹیچرز کی تو بات ہی الگ نکلی اور پھر وہ دنیا سے الگ تھلگ دیکھنے والی میڈم، ہماری میڈم کلاس میں آئیں۔ سن رکھا تھا مرد کی خوبصورتی اس کے اخلاق اور عورت کی خوبصورتی اس کے منہ دھونے کے بعد پتہ چلتی ہے۔ اور یہاں تو میک اَپ سے خالی چہرہ، ہلکی سے لپ اسٹک، بھرپور مسکراہٹ (جو ہماری جان نکالنے کے لئے کافی تھی) کے ساتھ کلاس میں میڈم موجود تھیں۔ ایک وہ زمانہ تھا جب سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ شاکا لاکا بوم بوم والی پینسل مل جائے اور آج یہ خواہش تھی انکی مسکراہٹ مل جائے۔ تعارف شروع ہوا تو ہماری باری بھی آئی، جب ہم نے تعارف کے ساتھ ان کو دسمبر اپنی ڈیٹ آف برتھ بتائی تو مسکرا کے کہتیں، سنا ہے دسمبر میں نمونے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم نے سوچا عشق میں مشکل وقت سبھی پر آتا ہے کوئی بکھر جاتا ہے کوئی نکھر جاتا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ قدرت سے گلہ ہوا، کہ آپ نے ٹیچر کو حسین بنایا، خوبصورتی دی، ہرنی سی آنکھیں بلکہ نشیلی آنکھیں دیں، ریشم سے بال، گلاب کے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کے ساتھ دھیما اور دلکش لہجہ، پیار بھرا دل بھی دیا اور حسن تو قیامت تھی اور پھر زبان دی اور پھر ستیاناس ہی ہوگیا۔ آہستہ آہستہ نمونے والی شرمندگی سے باہر نکلے، تو احساس ہوا کہ اگر ٹیچر خوبصورت ہو تو لیکچر بھی تبرک لگتا ہے، اس کی کئ گئی بےعزتی بھی پھولوں کی خوشبو جیسی لگتی ہے اور کلاس بھی زندگی سے بھرپور میلا لگتی ہے۔
کلاس روم کے آخری بینچ پر تقریبا گھر جیسا ہی ماحول ہوتا ہے۔ جہاں کچھ لوگ اچار کی طرح ہوتے ہیں جو سادہ دال چاول جیسی زندگی کو بھی چٹپٹا اور مزے دار بنا دیتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا، یار لوگوں کے سین چل رہے تھے، صرف ہم ہی مسکین چل رہے تھے۔ ہم سوچتے یہاں ہم سے ایک میڈم نہیں پھس رہی، ادھر میاں صاحب کی پوری فیملی پھنس گئی ہے۔ انہی دنوں احساس ہوا، یونیورسٹی کی زندگی میں پانچ چیزیں ختم ہونے پر بہت تکلیف دیتی ہیں؛ نمبر1 دوستی نمبر 2 پیسہ نمبر 3 یونیورسٹی کی بس چھوٹ جانا نمبر 4 ہفتہ کیونکہ اگلے دن اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور نمبر 5 خوبصورت ٹیچر کا لیکچر ختم ہونا۔لاسٹ والا تو مجھے رلا ہی دیتا تھا۔
انہی دنوں میڈم کی سالگرہ قریب آگئی۔ کیفیٹیریا میں ایک گول میز کانفرنس بلائی گئی۔ مشورہ مانگا گیا کہ ایسا گفٹ بتایا جائے جو میڈم کے دل پہ ٹھا کر کے لگے۔ ایک کمبخت بولا۔ گولی مار دے، گفٹ دا گفٹ ٹھا دی ٹھا۔ میں نے اسے گھورا تو اس نے با آواز بلند ایک شعر پڑھا
تیرے ورگے اک سو دس
میڈم ورگا کوئی تے دس
ہم نے بھی قسم اٹھا رکھی تھی۔ کہ اپنی محبت کو نیچا نہ ہونے دیں گے جواباً لہک کر بولے،
میں محبت بےپناہ و باکمال کروں گا
میڈم سے نکاح کرکے اپنا عشق حلال کروں گا
ایک اندر سے فوراً بولا تو مسئلہ کیا ہے؟ میڈم کو پرپوز مار، ویسے بھی پاکستانی یونیورسٹیوں کے پچھلے دو سالہ ریکارڈ کے مطابق دوہزار سٹوڈنٹ نے اپنی ٹیچر سے شادی کی۔ بات تو حوصلہ افزائی تھی۔ پر پتہ نہیں لوگ پرپوز کیسے کر دیتے ہیں مجھے تو چناچاٹ کھاتے ہوئے پاپڑی مانگنے میں بھی شرم آتی ہے۔ کہتا پھر تیار رہ ذلیل ہونے کے لیے۔ ہم بھی عزم سے بولے، ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں،جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، لیکن ذلیل یونیورسٹی میں ہوتے ہیں۔ ہمارے گروپ کا دل جلے والا شاکا جس کی محبت کے دو ہی گواہ تھے ایک وہ لڑکی اور ایک اس کی دادی ایک گزر گئی ایک مکر گئی۔ اس نے کہا میری مانو، لڑکیوں کے چکر میں مت پڑنا دوستوں۔ یہ آتی ہیر کی طرح، لگتی ہیں کھیر کی طرح، چبھتی ہیں تیر کی طرح اور آخر میں حالت کر دیتی ہیں فقیر کی طرح۔ اس لیے بہتر ہے عشق کرنے سے پہلے انجام دیکھ لو اگر پھر بھی بات دماغ میں نہ گھسے تو پھر فلم گجنی اور تیرے نام دیکھ لو۔ میں نے اسے یہ کہہ کر چپ کرایا، اب تو گوگل میپ بھی نہیں بتا سکتا کہ میرا پیار مجھے کس موڑ پر لے آیا ہے۔ ہمارے گروپ کا فلاسفر ایک سرد آہ بھر کر بولا۔ جہاں دیکھو عشق کے بیمار بیٹھے ہیں، ہزاروں مر گئے لاکھوں تیار بیٹھے ہیں، برباد کرکے اپنی تعلیم لڑکیوں کے پیچھے، پھر کہتے ہیں مولوی صاحب دعا کریں بےروزگار بیٹھے ہیں۔ ایک بولا اچھا سچ سچ بتا دوست تمہیں ٹیچر کی خوبصورتی اچھی لگتی ہے یا عقلمندی؟ میرے بولنے سے پہلے ہی دوسرا بول پڑا قانون فطرت ہے جو خوبصورت ہوتے ہیں وہ عقل سے محروم ہوتے ہیں. اور میں اپنے محبوب کی تعریف کو بدتعریفی میں بدلتے دیکھ کر تلملا گیا۔ اتنی دیر میں ہمارے گروپ کا جیمز بانڈ بھاگتا ہوا آیا اور خبر دی کے میڈم تو شادی شدہ ہیں، اور ان کے تین بچے بھی ہیں اس لیے بچوں کے کپڑے سالگرہ کے تحفے میں دے لو۔ تو اپنی کفیت گویا ایسے ہوئی کے کاٹے تو جسم سے خون نہ نکلے۔ اوپر سے کسی نے فون پر گانا لگادیا چھن سے جو ٹوٹے کوئی سپنا ۔
دھوکا ملا جب پیار میں، زندگی میں اداسی چھا گئی۔ سوچا تھا چھوڑ دیں گے یونیورسٹی کو پر کمبخت کلاس میں ایک اور خوبصورت ٹیچر آ گئی۔ تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اس لیے نئے آنے والوں یاد رکھنا اگر کلاس کی جی آر خوبصورت اور بااخلاق ہے تو یقین رکھو تم خوش قسمت ہو، لیکن اگر کلاس کی ٹیچر خوبصورت ہو تو دنیا ہی جنت ہے۔ کیونکہ خوبصورتی میں پاکستانی مرد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے، لیکن پاکستانی عورتیں ٹاپ ٹونٹی میں بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں۔ دیکھنے میں آیا کہ اگر ٹیچر مرد ہے اور ہینڈسم ہے تو لڑکیوں کی پوری تعداد کلاس میں موجود ہوتی تھی اور اگر اگر میڈم خوبصورت ہیں تو تمام کے تمام لڑکے کلاس لینے کے لئے حاضر ہوتے تھے۔اور ہمیشہ یاد رکھنا ایسی خوبصورت ٹیچر سے گلاب یا چائے کی فرمائش مت کرنا کیونکہ گلاب یا چائے تو دور کی بات، وہ اپکو سوکھا دھنیا بھی نہ دے۔ لیکن اگر ایسی غلطی ہوجائے تو یہ سوچ کر دل مطمئن کر لینا۔ میڈم کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو پر اپنا منہ خود نہیں چوم سکتی۔ اور جو میڈم پر تعویذ کرانے پر یقین رکھتے ہیں تو وہ امید رکھیں میڈم آپ کے قدموں کی بجائے آپ کے گلے بھی پڑھ سکتی ہے۔ ویسے بھی کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے الادین کا چراغ اور میک اپ شدہ میڈم دونوں کو رگڑا جائے تو اندر سے جن ہی نکلتا ہے۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔