زندگی میں کئی بار والدین سے زیادہ کوئی عزیز،رشتہ داریا ایسی ہستی، انسان کی رہنمائی کرتاہے جس کی شخصیت کاسحر عمر بھر ساتھ نبھاتا ہے۔ دادا، دادی، نانا اور نانی سےلیکر تایا، چچا، ماموں کبھی خالہ، ممانی بھی کرداراداکرجاتےہیں۔ زندگی کے یادگار اور اہم لمحات کا پیچھے مڑکر جائزہ لینے پرواضح اندازمیں وہ ہستی،سڑک پر جاتے بڑے سائن بورڈ کی طرح نگاہوں کے سامنے آکر توجہ مرکوز کرلیتی ہے۔
بچپن میں زیادہ تر وقت ننھیال میں گزارنے کے باعث نانا، نانی ہماری کردارسازی میں نمایاں رہے، والدہ اور نانی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ چیزوں کا خیال رکھتیں لیکن ہمارے ماموں جو کہ پانچ بہن بھائیوں میں منجھلے ہیں، وہ ہرمعاملے میں ہمیں کچھ نہ کچھ بتاتے بلکہ سکھاتے رہتے، کرکٹ کھیلنا ہو، پڑھائی میں انگریزی میں پھنستے ہوں یا پھر جنرل نالج یعنی معلومات عامہ ہو، یا دینی مسائل ہوں، منجھلے ماموں سے بآسانی رہنمائی مل جاتی، ان کا انداز بڑا سادہ اور طنزومزاح کا تڑکا لگاہوتا۔ قصے کہانیاں نانی اماں تو سناتی تھیں، لیکن منجھلے ماموں کے پاس پرانی اور حالات حاضرہ کی باتوں کا ذخیرہ ہوتا۔ اگر کبھی کچھ نہیں پوچھاتو اپنے سے کوئی قصہ چھیڑدیتے ، دینی معاملات پر بھی سیرحاصل گفتگو کرکے معلومات میں اضافہ کردیتے ہیں۔
بچپن میں محض اتنی بات پر متاثرہوجاتے کہ کچھ بھی پوچھیں وہ جواب ضرور دیتے، حتیٰ کہ کچھ دلچسپ باتیں بھی بطور علم میں اضافے کاباعث بن جاتیں، جیسے ہم لوگ سکول میں تھے جب انہوں نے ہمیں ایک دوانگلش کے عام بول چال والے الفاظ کے سپیلنگ بتائے، جوکہ زیادہ تر پڑھنے میں نہیں آتے بلکہ بولنے میں استعمال ہوتے ، جیسے کہ ایٹی کیٹ ،آداب، جب میرا کالج میں فرسٹ ائیر کی سائیکالوجی کی کلاس کا پہلا روز تھا،پروفیسر نے یہی لفظ بولا اور پوچھا کوئی سپیلنگ بتائے گا، ذہن میں کئی سال سے پڑاہوا تھا، ہرایک نے غلط بتایا ، میں نے ہاتھ اٹھایااور بتادیا۔ وہ بڑے حیران ہوئے اور سارے سٹوڈنٹس پر اپنا رعب بن گیا۔ میرے دوستوں نے پوچھا تم انگلش میڈیم میں پڑھے ہو، میں نے کہا میڈیم انگلش تھامگر میں نے کبھی اسے پڑھا نہیں تھا ، مجھے سکول دور میں میرے منجھلے ماموں نے بتایا تھا، ایسے ہی کچھ اور مشکل سپیلنگ بتاکر مزیددھاک بنا ڈالی۔
ماموں ہمارے ساتھ کسوٹی بھی کھیلتےجوکہ ذہنی آزمائش کامقابلہ ہوتا، کسوٹی میں جنرل نالج بہتر بنانے میں مدد ملتی، پڑھنے کاموقع زیادہ نہیں ملتاتھا، لیکن ان سے ملنے والا علم ذہن میں ذخیرہ کرلیتے۔
وہ اپنےتجربات یا جذبات کا اس خوبصورتی سے اظہارکرتے کہ وہ بھی روحانی تسکین کاباعث بن جاتا، ایک بار بولے کہ ہمیں بھی شاعری کا شوق تھا مگر روزگار کے چکر ہمیں ایسا نہ کرنے دے پائے، فیض احمد فیض جیل میں رہے تو اچھے شعر کہہ دیئے، حالانکہ ایسا نہیں تھا، یہ محض ایک حوالہ تھا، اسی طرح کہتے پینٹنگ کا جنون بھی پورا نہیں کرپائے، صادقین نے خطاطی میں انگلیاں ٹیڑھی کرڈالیں۔ سرکاری ٹی وی میں سفارش نہ ہونے کے باعث رہ گئے، اسی دور کے پروڈیوسر بعد کے دنوں میں جب مشہور ہوئے تو منجھلے ماموں کہتے کاش میرٹ ہوتا یاپھر ہماری کوئی سفارش چل جاتی۔
ایسی باتیں صرف اس لئے کرتے کہ مقابلے کے لئے مایوسی سے دوسرے کو دور رکھاجائے۔ یعنی کسی ناکامی کو دل سے لگالینے سے کوئی حاصل نہیں۔ حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہتے۔
ہمارے یہ پیارے جوکسی تعلق یا رشتہ سےمنسلک ہوکر بڑے پیاراور لگاؤ سےشخصیت بنانے میں حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں، نہ جانے کیوں ہم اس احسان عظیم کو سمجھ بھی پاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری زندگی میں حاصل کی گئی کامیابیوں کے پیچھے بھی انہیں کاہاتھ ہوتاہے، اگر سمجھ پائیں تو شاید اس کاکوئی بدل بھی نہ دے پاتے۔ اتنازیادہ خیال رکھنے والے یہ اپنے پیارے،منجھلے ماموں ، نانی اماں ،داداجی کی صورت میں ہماری زندگی کاحصہ ہوتے ہیں۔
اگر ہم ان بڑوں کی حکمت جان لیں اور اپنےبچوں سمیت اردگرد کےلوگوں سے ایسا ہی پیار کاتعلق بنالیں تو شاید دوسروں کےلئےویسا ہی کردارادا کرسکتے ہیں۔