۱۹۹۹ میں جب اسوقت کے وزیراعظم نواز شریف و فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے درمیان اختلافات کی خبریں عام تھیں تو وزیراعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو مطمئن کرنے کے لئے چیئرمین جوائنٹ جیف آف اسٹاف کمیٹی کی اضافی ٹوپی مرحمت کرکے انہیں اپنے حقیقی ارادوں کے بارے میں بے خبر رکھنے کی کوشش کی۔
لیکن وہ بھول گئے کہ فوجی اس قسم کی شطرنج کے عادی ہیں بلکہ روز ہی مشق کرتے ہیں، اس لیے جب 12 اکتوبر 1999 کو بلّی تھیلے سے باہر آئی تو شکاری اسےدبوچنے کے لئے پہلے ہی تیار تھے۔
موجودہ صورتحال ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلہ کا نوٹیفیکشن نہ ہوا ٹرک کی بتّی ہو گئی جسے نہ صرف پوری قوم بلکہ افواج پاکستان بھی دم بخود ہو کر گھور رہے ہیں۔ یہ تنازعہ اب تک اپنے منطقی انجام پر نہیں پہنچا۔
بظاہر حکومتی ذرائع کی طرف سے سب ٹھیک ہے کے اعلانات اور مختلف ڈیڈ لاینوں کے باوجود نوٹیفیکشن کا نہ آنا بھی اس امکان کا اظہار ہے کہ طوفان نہیں ٹلا۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ وزیراعظم اس معاملے میں نواز شریف کا سبق دُھرانے کی کوشش کررہے ہیں۔اب تک تو ایسے کھیل کبھی کامیاب نہیں ہوئے پر کھیلوں کے میدان میں ریکارڈ بنتے ٹوٹتے ہی رہتے ہیں۔
شنید ہے کہ اس حکومت کی گورنینس اور معیشت کے میدان میں شدید ناکامی کے بعد اسٹیبلشمنٹ انکا بوجھ اُٹھا کر مزید عوامی تحقیر و تذلیل کا شکار ہونا نہیں چاہتی۔ اس لئے خود کو ان کی حمایت سے دور کرنا چاہتی ہیں۔یہ بات جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم کو واشگاف الفاظ میں بتاچکے ہیں ۔ جنرل فیض حمید کا ISI سے تبادلہ بھی اس فیصلے پر عملدرآمد کا حصہ ہے، جس پر وزیراعظم کو شدید تحفظات ہیں۔
جنرل فیض حمید اور آئی ایس آئی کا گذشتہ تین سالوں میں حکومت سے تعاون ہی تھا جس کی بدولت حکومت کئی پارلیمانی بحرانوں بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکی۔ اس لئے جنرل فیض حمید کا تبادلہ ان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے اور وہ اپنی پوری قوت سے مزاحمت کررہے ہیں۔
حالانکہ یہ بھی ہے ممکن ہے کہ اس بیساکھی سے جان چھڑانے کے بعد وہ اپنے معاملات بہتر طریقے سے سنبھالنے کے قابل ہو جائیں لیکن اس کے لیے جس خود اعتمادی کی ضرورت ہے وہ فی الوقت اسٹیبلشمنٹ کئ بیساکھیوں کے استعمال کی عادت کی وجہ سے محروم نظر آرہے ہیں۔
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے اب رہائی ملی تو مر جائیں گے
خود اعتمادی سے محروم اور گذشتہ تین سال کی کارکردگی یا عدم کارکردگی کے بوجھ سے دبا ہوا وزیراعظم اپنی اسی اسٹیبلشمنٹ جو اسے اقتدار کے تخت پر لیکر آئی ہی سے لڑنے پر تیار ہو گیا، اسے احسان فراموشی کہیں سیاست دوراں خیر یہ ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
موجودہ وزیراعظم کے مزاج فاشزم کے اثرات ہمیشہ تھے، رہی سہی کسر اسٹیبلشمنٹ نے مکمل حمایت کرکے پوری کردی۔نتیجہ یہ ہے تمام اداروں بشمول الیکٹرونک میڈیا، و پریس سے لیکر احتساب سے عدالت تک جس قسم کا مکمل کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے وہ تو پاکستان کی تاریخ میں سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کسی کو نصیب ہوا۔
ویسے تو نواز شریف نے بھی اپنے دور اقتدار میں بھی اداروں پر کنٹرول کرنے کی کچھ نہ کچھ کوششیں کی تھیں لیکن وہ ہیوی مینڈیٹ کے باوجود کامیاب نہ ہوسکے، یہ تو بمشکل سادہ اکثریت رکھنے والا حکمران پھر بھی “مہربانوں” نے دیو بنا دیا۔ اب یہی دیو ان کے گلے آنے کی کوشش کرے گا۔ قوم تو رو ہی رہی ہے اسے بنانے والے بھی اپنے حُسن انتخاب سر پیٹیں گے۔
واضح بات ہےکہ یہ جنگ کسی سویلین سپریمیسی کے لئے نہیں بلکہ اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرکے اپنے اقتدار کا دوام حاصل کرنے کے لیے ہے۔جس میں اگر وہ خدا نخواستہ کامیاب ہو گئے تو اس کے نتائج پوری قوم بھگتے گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنت ہمیشہ غلط گھوڑے پر ہی داؤ کیوں لگاتی ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کی فیکٹری کی سیاسی طور پر کامیاب مصنوعات ہیں اور تینوں نے کسی نہ کسی درجے میں طاقت و اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہی پر کنٹرول کی کوشش کی۔
دوسری طرف نرم مزاج ، احسان شناس و فرمانبردار ظفر اللہ خان جمالی و چودھری شجاعت کا کمال نَے نوازی ان کے کام نہیں آیا ان کی ناکامی کی اہم وجہ یہ بھی تھی کہ فوجی بیساکھی عارضی استعمال کے لئے دی جاتی ہے کہ ٹانگوں میں توانائی آنے کے بعد بعد وہ اپنے قدموں پر چل سکیں۔ جو اپنی ٹانگوں کو مستقل بیساکھی کا عادی بنالیتے ہیں انہیں پینشن دیکر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
ویسے تو محمد خان جونیجو بھی اُنہی کا انتخاب تھا اس نے بھی خود کو حقیقی وزیراعظم ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی وزارت عظمیٰ کو شھید کرادیا لیکن بعد میں علم بغاوت بھی بلند نہ کیا ۔نسبتا بہتر و دبنگ وزیراعظم ثابت ہونے کے باوجود وہ عوام میں ذاتی اپنی جڑیں بنانے میں ناکام رہے۔
ذوالفقار علی بھٹّو نے اسکندر مرزا کو قائد اعظم سے بڑا لیڈر کہا اور ایوب خان کو ڈیڈی ، پر انہیں اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا پڑےگا کہ انہوں نے ایوب خان سے بغاوت ان کے دور اقتدار ہی میں کی تھی۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس وقت جمھوریت کا چولا پہنا لیکن اقتدار ملتے ہی ایک دور فسطائیت شروع ہو گیا۔
نواز شریف بھی جنرل جیلانی کی خدمت کے طفیل پنجاب کی وزارت اعلی تک پہنچنے کے بعد جنرل ضیاء کے ذریعے اپنے اس محسن سے جان چھڑائی، وزیراعظم بننے کے بعد اقتدار میں شرک سے بچنے کے لئے ہر فوجی سربراہ مخاصمت رکھی (یہ الگ بات ہے کہ اقتدار سے دوری کے دور میں اندھیرے اُجالے میں اسی کوچے کا طواف)۔
اس مرتبہ انہیں ایک سر پھرا شو بوائے مل گیا، اور اسٹیبلشمنٹ نے اس کی حکومت کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے اپنی عزت و وقار کو داؤ پر لگانے کے بعد، پھر بھی وہی کچھ ہوا جو ہوتارہتاہے۔
شوبوائے نے بیساکھی کا تین سال تک ضرورت سے زیادہ استعمال کرتو لیا پر اپنی ٹانگوں کو ورزش کے ذریعے مضبوط بنانے پر توجہ ہی نہیں دی۔ بیساکھی کی لیز ختم ہورہی ہے اور اس کے لئے بیساکھی کے بغیر جینے کا تصور بھی محال ہے۔اس سفر رائیگاں میں شوبوائے کا سیاسی مستقبل مشکوک, اسٹیبلشمنٹ کا وقار و دبدبہ بھی مٹی میں ۔
اہم سبق یہ بھی ہے کہ جب بھی اسٹیبلشمنت نے مٹی کے مادھوؤں اور سیاسی طور پر کمزور مہروں کے ساتھ مل کر کھیلا تو ایک طرف تو (سوائے محمد خان جونیجو کے) انہیں انکی طرف سے پریشانی اور شرکت اقتدار میں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اقتدار کی اپنی محدودات ہوتی ہیں شاہانہ مزاج کے حامل افراد چاہے شریف ہوں یا غیر شریف خان طاقت حاصل کرنے لئے جھُکنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے ، لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس میں شرک ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
مضبوط اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی صلاحیت والے گھوڑے اسٹیبلشمنٹ کو عارضی طور پر کمر پر بٹھا تولیتے ہیں پر مستقل سواری کو برداشت نہیں کرتے۔جب اور جیسے بھی موقع ملتا ہے وہ اس بوجھ سے اپنی پُشت کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارئ سیاست درحقیقت گھوڑے اور “جاکی” کے درمیان کشمکش کی داستان بن کررہ گئی ہے۔
ہائی بریڈ حکومت کوئی نیا نظریہ نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں اقتدار میں آنے والی حکومتیں کسی نہ کسی درجے میں ہائی بریڈ ہی ہوتئ ہیں۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب شریک اپنے حصے سے زیادہ ہڑپ کرنا چاہیں یا تقسیم کارکے فارمولے کے تحت اپنے حصے کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے صرف اور صرف اقتدار کے مزے لینے پر اکتفا کریں۔
یہاں پر بھی یہی ہوا کہ کچھ ضرورت سے زیادہ بھونڈے انداز میں اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے تحت ایک خود پرست شھزادے کی قائم ہونے والی ہائی بریڈ حکومت جسے نہ تو کاروبار حکومت انجام دینے کی تربیت و تجربہ اور نہ ہی کچھ کام سیکھنے کی ضرورت کا احساس ۔
کیا بلندی تھی کیسی پستی ہے۔ اپنے زمانے کا عظیم کھلاڑی، اپنے زمانہ عروج میں دنیائے کرکٹ کو نیوٹرل ایمپائیر سے متعارف کرنے والا 2018 کے انتخابات سے اب تک “ایمپائر “ کے کاندھے پر سوار ہے۔
اوپر سے دماغ میں بھی خَنّاس کہ “سیّاں” کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور انتخاب موجود ہی نہیں۔چنانچہ بجائے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کے “سیّاں” کی کھوپڑی پر چڑھ کر بھنگڑا ڈالنے کی کوشش شروع کردی ۔
اب جب کھیل شروع ہو چکا ہے، ۔بظاہر وزیراعظم عمران خان نے بڑی حدتک کشتیاں جلانے کافیصلہ کرہی لیا۔ اگرعمران خان کے لیے اس جنگ میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ممکن نہ بھی ہوا تب بھی ،اسٹیبلشمنٹ کی درون پردہ سرگرمیوں کو طشت از بام کرکے ان کی گرفت کو کمزور کرنے کا سبب ضرور بن سکتے ہیں۔
اس کے کھیل کے ختم ہونے کے ابتدا شروع ہو چکی ہے، دونوں طرف سے چھریاں تیز ہورہی ہیں۔ نواز شریف کے آخری دور میں تحریک لبیک کو سڑکوں لایا گیا آج وہی سڑکوں پر موجود ہیں۔اب انتظار ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرز کی ایک تقریر کا کہ “وہ ڈکٹیشن نہیں” لیں گے۔ اس کے بعد اصل کھیل شروع ہو گا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ نوٹیفیکشن کی تاخیر کے لئے علم نجوم و روحانی علوم کی باتیں اصل معاملات سے توجہ بٹانے کے لئے پھیلائی جارہی ہیں۔معاملہ اصل معاملہ یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب اس کمبل کو چھوڑنا چاہ رہی ہے لیکن کمبل اسے چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔اب کمبل کسی دہماکے (جو خود کش بھی ہو سکتا ہے) کی تیاری کررہے کی تیاری کررہا ہے۔
یہ بھی جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے محرومی کے بعد ان کی حکومت کا طویل عرصے تک قائم رہنا محال ہے، عمران خان کی افتاد طبع دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بغیر لڑے نہیں جائے گا۔ وہ کیا کرے گا یا کیا کرپائے گا اس پر بات پھر کبھی ہوگی لیکن اسمیں کوئی شک نہیں کہ نقصان دونوں (اسٹیبلشمنٹ و PTI) کا ہو گا۔
لڑتے لڑتے ہو گئی گُم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
جہاں تک ہائی بریڈ سسٹم ہے جب تک ملک میں حقیقی جمھوریت جو لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو نہیں آئے گا ہائی بریڈ نظام چلتا ہی رہے گا۔ یہ چلا گیا تو بھی کسی اور (اُن کے منتخب شدہ) خچر ہی نے ہی اس ملک کی گاڑی کو گھسیٹنا ہے۔
اس سارے کھیل میں عوام صرف تماش بین ہیں۔۔۔۔
بدل کر فقیروں کا بھیس ہم غالب