آس امید گمان یقین بھروسا، یہ سب بڑے مثبت مگر بھاری کیفیات اور جذبات ہیں جن کا سہارا بندے کے اندر ٹوٹ پھوٹ کو جوڑنے یا کسی گرتی ہوئی احساس کی دیوار کو ہاتھ دے کر روکنے کی ایک سعی کے مترادف ہوتا ہے۔ ان سب کے اشارے اور اظہار بیرونی طور پر دوسروں کی بات یا عمل سے مل جاتے ہیں۔
کسی ناکامی کے بعد مایوسی در آنا فطری بات ہے، اندھیرے میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہ دے، کسی جانب بڑھنے میں رکاوٹیں نظر آئیں، ایسے میں کچھ سوجھ نہ رہا ہو۔ حالات پر نگاہ ڈالنے سے ادراک ہوجاتا ہے کیا قدم اٹھانا صائب ہے، چند لمحے آنکھیں بند کرکے سارے معاملات کا بڑے سکون سے جائزہ لینے پر واضح ہوجاتا ہے، کہاں سے آئے ہیں اور کدھر جانا ہے۔
ذہن میں چلنے والے خیالات اکثر راستے کے تعین کا فیصلہ نہیں کرنے دے پاتے، ابہامی کیفیت نہ صرف مایوسی کی راہ پے ڈالتی ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں بھروسا اور اعتبار کے اعشاریئے گرنے شروع ہوجاتے ہیں۔ کسی دوسرے کی بات کا یقین ناپ تول کی باریکی جیسا عمل محسوس ہونے لگتاہے۔ اپنی کہی بھی زیادہ وزن پانے میں کامیاب نہ ہوپاتی ہے۔ ایسے میں بداعتمادی کی بُو جیسے تعفن کی صورت ہرسو دماغ کے کونے کونے میں جگہ بنالیتی ہے۔
آس امید گمان یقین بھروسا ، ان سب کی راہیں ہموار کرنے کے طریقے بہت سے ہیں، مگر فوری نتائج کی متلاشی نگاہیں اور ذہن کبھی غلط راہوں کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ یہ گمان کہیں وہم بن کر سامنے آجاتا ہے، آس امید اندر کے وسوسے کی دوسری شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اپنے اندر گرتی دیوار کو سہارا دینے کا احساس یقین لگنے لگتا ہے۔ کسی کے ساتھ دینے پر پیدا شدہ کیفیت ایک بھروسا کے معنی سمجھانے لگتی ہے۔
کہاں کون سا قدم اٹھانا ہے، کس مرحلے پر کیا فیصلہ کرناہے۔ زندگی میں جلد بازی کا مزاج اس کام کو بھی پیچیدگی میں ڈال کر ابہام کے دوراہے پر لاکھڑا کر دیتا ہے۔ تھوڑا سا توقف جسے کہیں صبر کہہ کر اور کہیں تحمل کی تعریف پیش کرکے بیان کیا جاتا ہے، کام آسان بناسکتا ہے لیکن اندر کی بے چینی زیادہ تر سب کچھ بے ترتیب کر اچھی بُری اشیاء کا ایک ڈھیر جیسے آگے بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ اس پر قابو پانے سے بہت کچھ عیاں ہوجاتا ہے، اندر کی عافیت اور باہر پائی جانے والی بے بسی کا نہایت احسن انداز میں سامان پیدا ہوجاتا ہے۔
ذہن کی کھڑکیاں اور روشن دان کھلے رکھنے سے اردگرد سے اچھے خیالات اور مثبت سوچ ٹھنڈی ہوا کے جھونکیں بن کر آتے ہیں۔ دوسروں سے متعلق اچھا گمان بھروسے کی چاردیواری کی مضبوطی کا احساس دلاتا ہے۔ باہر کی دنیا سے تعلق زیادہ مستحکم بنانے کی خواہش باہمی اعتماد کا قلعہ تعمیر کردیتی ہے۔ دوسرے سے نفرت اختلاف کی بنیاد ڈالتی ہے، اسی پر کھڑی دیوار فاصلے بڑھانے کا کام کرتی ہے۔ اور یہی پیار کا جذبہ کہیں دوسرے گند کے ساتھ باہر پھینک آتی ہے۔ جسے پھر محض باتوں اور تحریروں ڈھیر میں تلاش کرنے کی لاحاصل کوشش ہمیں اس کے حقیقی معنی بھی بھلادیتی ہے۔ انسیت اور دوسرے کیلئے پائے جانے والی کشش اگر اندر رہ جائے تو پھر نفرت کبھی جڑ نہیں پکڑ سکتی اس کا بیج تناور درخت بن ہی نہیں سکتا۔
آس امید گمان یقین بھروسا، یہ سب بڑے مثبت مگر بھاری کیفیات اور اشارے ہیں جن کا سہارا لے کر بے یقینی اور ناامیدی کی منجدھار میں گھری ناو پار لگ جاتی ہے۔ پھر دل سے بھی ایک آواز سنائی دیتی ہے۔
چلو ! اعتبار کرکے دیکھ لو۔