21 ویں صدی کا انسان اور معاشرے جدیدیت اور مادی ترقی و خوشحالی کے باوجود انسانیت کے بنیادی اصولوں و تصورات طے کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں اور مشکلات و پیچیدگیاں برابر بڑھ رہی ہیں ایسے میں نئے سماج کی تشکیل و تعمیر نو کیسے ممکن العمل ہوسکے گی؟
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تہذیبی دانش مندی اور وحی الہٰی کی کرنیں کیسے آج روشنی بن سکتی ہیں وہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، وہ شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ افکار و تصورات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں شعور نبوت ورسالت 21 ویں صدی میں بھی چھٹی صدی عیسوی جیسے زندہ و تابندہ ہے اس نور و دانش مندی سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے نئے پیراڈایم میں علمی و فکری اور نظریاتی و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول میں انسانیت کی رہبری و دانش مندی کا رجحان فروغ پاسکے اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے میں تحمل و دانش مندی اور مثبت علمی و فکری اثرات مرتب ہوسکیں
تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں:،:
,,جب میں نے ان کی روشنی کو اپنے سامنے چمکتا پایا تو خوف میں اپنی ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا تاکہ ان کے نور کا جلوہ مجھے بصارت سے محروم نہ کر دے،میں بمشکل ان پر نگاہ ڈال پا رہا تھا۔روشنی ان کے نور میں ڈوب کر منور ہو رہی تھی اور ان کا چہرہ سورج اور چاند کی مانند چمک رہا تھا۔
ایک اور راوی بیان کرتے ہیں کہ چودھویں کی رات تھی،رسول خدا تشریف فرما تھے، کبھی میں چاند کو دیکھتا تھا تو کبھی میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کی زیارت کرتا تھا ،پھر چاند کو اور پھر چہرہ مبارک کو دیکھتا تھا،آخر میرے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک چاند سے کہیں زیادہ روشن اور خوبصورت تھا۔،،
بخدا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر شعور نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بدل جائے تو بہتر و برتر نظام زندگی و سیاست کی تشکیل و تکمیل ہدف قرار دیا جاسکتا ہے ماننے والے امت مسلمہ کے حاکم و عوام بھی شعور نبوت سے سرفراز نہیں ہیں۔
صورت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ارتقائی مراحل سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کے لئے نئے عمرانی ارتقاء و فکری مکالمے کے سلسلے میں شعور نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی حاصل کی جائے تو علم و فضل اور رحمت و برکت کا ایک ایسا سمندر سایہ فگن ہوگا کہ جس کی وسعت کا اندازہ اس میں صرف اترنے والے کو ہو سکتا ہے،ہر غوطہ خور کسی نئے پہلو کو آشکار کر لیتا ہے۔ اور اس توفیق سے خدا ہر کسی کو نہیں نوازتا اور جن کو نوازتا ہے ان کی دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے۔
دور حاضر نے مسائل کی دنیا میں آنکھ کھولی ہیں اور مسائل کا انبار لگا چکے ہیں جس میں جدیدیت کے افکار بھی شامل ہیں اور امراض بھی،اغراض بھی ہیں اور اعراض بھی۔آج کا معاشرہ بےحد پیچیدہ ہو چکا ہے جس کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے لیے اس قدر احتیاط کی ضرورت ہے کہ اس کے کمزور دھاگے ٹوٹنے سے محفوظ رہیں اور اس کی ترتیب بھی محفوظ رہے۔
آیئے ایک حیرت انگیز مظہر کو زیر بحث لاتے ہیں کہ “دور جدید کے مسائل کا حل دور قدیم کی سنت نبوی میں موجود ہے”
ایک ایسے شخص کی زندگی جس پر بے شمار لٹریچر، کہانیاں اور ناول و افسانے موجود ہونے کے باوجود آج بھی انسان لکھتے ہیں پر ابھی بھی اس زندگی کے نئے پہلو آشکار ہو تےجا رہے ہیں اگر ہم اس کردار کو ،طریقہ کو اور سنت کی حکمتوں کو ابھی تک پوری طرح نہیں تشریح کر پائے تو یہ علامت ہے اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انسانیت کے معراج ہونے کی ، اس فلسفے و شعور نبوت کی کہ وہ اپنے ساتھ صدیوں کے مسائل اور سیاسی و سماجی گتھیوں سلجھانے کا تریاقِ زندگی ساتھ لایا ہے اس انسانی انٹلکچوئلزم کی انتہا کی کہ آج کا انسان اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ہمارے آج کے معاشرے کے مسائل انسانوں کے پیدا کردہ ہیں اور ان کی دوا دور قدیم کے نسخہ کیمیا یعنی تصورات اور نظریات کی عملی افادیت و میکنزم تشکیل دینے میں ہیں ۔کیا آپ اس معاشرے کے امراض کی دوا بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں گے تو آیئے اس فکری و سائنسی بیانیے اور ذہنی و تہذیبی ارتقاء جیسے وسیع و فعال اور مستعد و دانش مندانہ نیک کام کا آغاز کرتے ہیں۔
معاشرے کی تعمیر کے لیے قلیل مدت اور طویل مدت مقاصد طے کرنا ہوں گے۔ان پر عمل کرنے کی حکمت ہائے عملی بنانی ہوں گی۔معاشرے میں موجود ناسور ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس غلاظت،بددیانتی،دھوکہ دہی،سستی،نافرمانی،ناپ تول میں کمی،اخلاقی گراوٹ اور بہت سی ایسی بیماریوں کا جڑ سے سدباب کرنے کی ٹھاننی ہو گی۔اسی کے ساتھ ان اچھے لوگوں کے لئے نئے سرے سے تعمیر افکار و نظریات جدیدہ کے سلسلے میں مفید اور پاکیزہ زندگی کے لئے طریقہ کار اور فارمولوں کو بھی ڈھونڈ کر دنیا کے سامنے لانا ہو گا جن کی اچھائیوں اور مثبت اثرات کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔
کسی نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق کیسا تھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔
,,انّما بعثت لاَتمم مکارم الاَخلاق،،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید میں بیان کردہ تمام مکارم اخلاق و کردار سازی کی درست ترتیب و تدوین کے لئے میکنزم تشکیل دیا گیا تھا جن کی آج پریکٹیکیلٹی مشکل نظر آتی ہے اس کی عملی تصویر آپ کو اگر کہیں ملے گی تو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار میں ملے گی۔اس مقدمے کا مقصد ہمیں 21 ویں صدی کے معاشرے کو ان اخلاقی قدروں کی تشکیل و تعبیر نو کی طرف لے کر جانا ہے جو ایک صحت مند معاشرے کے بنیاد بناتے ہیں اور جس سے ہمارا حقیقی اسلامی معاشرہ ہمیشہ سے بھرپور ہوتا تھا۔لوگوں سے اچھی بات کہوپوری سیرت رسول اٹھا لیں کبھی کسی تحریر میں کسی راوی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیزاری اور غلط لب و لہجہ کے بارے میں نہیں بیان کیا۔پورا عرب آپ کے حسن اخلاق اور حسن بیان کا شیدائی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ وعدہ کا پورا کرنے والا کوئی نہیں تھا،عدل ایسا کہ غیر مسلم آپ کے پاس فیصلہ کروانے آتے، صبر کا پیکر ایسا کہ کفار کے ستانے پر قرآن “یآ یّھا المزّمّل” کہتا ہے،سچ کا ساتھ دینے کی بات ہوتی ہےتو کہتے ہیں کہ مجرم کی جگہ بیٹی بھی ہوتی تو اس کو بھی سزا دیتا،دشمنوں کے لیے بھی مغفرت مانگنے والے،رشتہ داروں سے سلوک میں بہترین ،لوگوں کو معاف کرنے والے ،اخلاقی قدروں کے قائم کرنے والے۔حاکم وقت کی حیثیت سے دور اندیشی ،سمجھ داری اور ہر معاملے پر گہری نظر کی ایسی کوئی مثال دنیا میں آج تک نہیں ہے۔
یہ صرف وہ چند معیارات ہیں جن کی کسی معاشرے کی تعمیر میں ضرورت ہوتی ہے۔زندہ قومیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کے لیے ہمیشہ اس کے اچھے اور برے تمام ادوار یاد رکھتی ہیں۔
اگر انسانیت اپنے تجربات و احساسات اور جذبات و خیالات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونا چاہتی ہے تو دین حق کا دامن تھامنا ہو گا اور اگر دین حق کو سمجھنا ہے تو اسے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عینک سے دیکھنا ہو گا۔عبادات کی اہمیت اپنی جگہ ہیں لیکن ان عبادات کو بنیاد بنا کر شہر نبی کے علم کے دروازوں سے فیض حاصل کرنا ہو گا۔ شہر نبی کے دروازے اہل علم ہیں جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہوآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ تعالی عنہ اس کا دروازہ۔صحابیان رسول کی فضیلت سے اور اولیا اللہ کی نسبت سے فیض حاصل کر کے آج ہم بےشمار اہل علم کے سرمایہ علم سے مستفید ہوتے ہیں یہ تمام راستے ہمیں اسی طرف لے کر جاتے ہیں جس کی منزل ہمیشہ کی کامیابی ہے۔
سیرت رسول کی رسی کو پکڑ کر ہی ہم ایک زندہ معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں جس نے ایک بار پھر دنیا کی سیادت اور امامت کے فرائض نبھانے ہیں۔مسلمان اہل علم و فضل اور مرد و خواتین کی ذمے داری ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے 21 ویں صدی کے لئے معتبر و معنی خیز منصوبے تشکیل دینے کے لئے کمر کس لیں۔