بچہ ابھی جھولنے میں جھول رہا ہوتا ہے اسے اردگرد سے بصری اور سماعتی رابطے بنانے دقت ہورہی ہوتی ہے واحد ہستی ماں دیکھ بھال کرتی ہے۔ کبھی بھوک لگے زیر ناف بھیگ جانے کا مسئلہ ہو یا پھر گود میں لیکر ٹہلنے کی خواہش۔ میں بار دیگر مصروفیات گھریلو یا ذاتی نوعیت کی ترجیحات اس بے بس کو نظر انداز کرنے کا باعث بن جاتی ہیں۔ یہاں سے ذہن میں ایک عجیب احساس جنم لینے لگتا ہے کہ کوئی شاید توجہ نہیں دے رہا اسے میری فکر نہیں ۔
انسان کی زندگی میں ایسے بے شمار ان گنت لمحات اور مواقع آتے ہیں جہاں اسے بے رخی سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے دوسروں کی بے رخی اس کے مزاج کا جیسا حصہ بن جاتی ہے۔ کوئی اپنا ہو یا بیگانہ جب اس اذیت سے دوچار کرتا ہے تو اندر کہیں شدت سے ایک دھچکا سا لگتا ہے یا کچھ ٹوٹ پھوٹ سی محسوس ہوتی ہے۔
ہم شاید کبھی اس کیفیت کا زیادہ اندازہ نہیں لگا پاتے یہ ہماری معمول کی عادت یا کہہ لیں فطرت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس دوسروں کا بہت زیادہ خیال رکھنا محبت اور انسیت کے جذبات کا اظہار کچھ مختلف کام کرجاتا ہے کسی کا حال دریافت کرنا تکلیف میں خیریت پوچھنا غم میں پرسہ دینا خوشی میں شریک ہونا ایک تقویت کا باعث بنتا ہے ہم اپنے پن کا احساس دلاتے ہیں۔
لیکن ایسا کم دیکھنے اور کرنے میں آتا ہے نہ جانے کیوں اپنی سوچ اور ذاتی پسند ناپسند ہم سے کچھ اور عمل کراجاتی ہے۔ کئی بار نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں سے بے رخی دکھا جاتے ہیں۔ یہ بڑی نشتر جیسا کام کرتی ہے کسی بھی انسان کو اندر سے چیرپھاڑ دیتی ہے۔ کئی بار جائز اور درست وجوہات بھی ہوتی ہیں اگر تھوڑا سا احساس کا مظاہرہ اور وقت دے دیں تو شاید یہ قتل ناحق سے بچا جاسکتا ہے۔
بے رخی کیا ہے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھیں تو جیسے لاشوں کا ایک ڈھیر نگاہوں کو پشیمانی کی کیفیت میں دھندلا دیتا ہے۔ محسوس کریں تو جسے یہ بے رخی کا شکار لاشیں ہم سے بےشمار سوال کرتی سنائی دیں گی۔ کب بچے کو آغوش میں نہ لیا جب اسے شدت سے اس کی ضرورت تھی کہاں کسی بھائی کا ہاتھ نہ تھاما جب اسے ایسا چاہیے تھا بہن کی آواز پر جواب نہ دیا ماں کی بات سنے بغیر گھر سے نکل گئے باپ کی نصیحت نظر انداز کردی۔ بیوی کے پاس نہ بیٹھے جب وہ توقع کئے تھی۔ بوڑھے والدین کو نظر بھر نہ دیکھا حالانکہ ان کی نگاہیں منتظر رہتی ہیں
یہ بے رخی بڑی ظالم ہے کسی جنگجو کی مانند قتل عام کرتی جاتی ہے اور مڑ کے دیکھتی بھی نہیں۔
ایک چھوٹا سا جملہ کبھی ایک پیار اور ہمدردی بھرا لفظ ” جی” کیا کچھ نہیں کرجاتا مگر ہماری سرشت میں جیسے نسیانی کیفیت بھری پڑی ہے سب کچھ بھول کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب یاد آتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
پھر۔۔ایک لفظ رہ جاتا ہے ” کاش”