ADVERTISEMENT
تاریخ میں مصر کا ایک خاص مقام رہا ہے۔ یہاں اسلامی فتح کے بعد اہم مجاہدین اسلام اور عظیم اسلامی شخصیتیں گزری ہیں۔ یہ لوگ اسلام کی تعلیمات کے فروغ کے لئے اندلس کے ممالک اور مغربی عرب سے آتے تھے۔ ان میں کچھ صوفیا کرام مصر کے مختلف صوبوں میں رہائش پذیر رہے اور کچھ دمشق وغیرہ میں منتقل ہوگئے۔ مصر کا تاریخی شہر اسکندریہ ان عظیم اسلامی شخصیات اور اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کا اہم مرکز رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سے داعیان اسلام آسودہ خاک ہیں اور ان کے مزارات و خانقاہیں بڑی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ان سے عقیدت اور محبت کرنے والے لوگ کثیر تعداد میں ان درگاہوں اور خانقاہوں میں فیض و برکت حاصل کرنے کے لئے دور دور سے چلے آتے ہیں۔ ان مشہور زیارت گاہوں میں کچھ ایسی بھی ہیں، جنھیں ان بزرگوں کی یادگار کے طور پر بنایا اور اورتعمیر کیا گیا ہے۔ فاطمی دور میں یہ بات بہت عام تھی کہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک بندہ اپنے خواب میں کسی ولی اللہ کا دیدار کرتا تھا، چنانچہ اس دیدار کو عملی جامہ پہنایا جاتا اور اس ولی کے نام سے کسی مزار یا مسجد کو ایک یادرگاہ کے طور پر تعمیر کیا جاتا۔ لیکن یہ اصل قبر نہیں ہوتی ہے، جہاں کسی ولی اللہ کو اس میں دفن کیا گیا تھا۔ جبکہ بزرگوں کی یاد دلانے کے لئے وہ صرف ایک یادگار ہوتی ہے۔
اسکندریہ کے مغرب میں لبان کے علاقے میں معروف صحابی، زاہد اور صوفی بزرگ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی ایک درگاہ واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حقیقتاً یہاں کوئی مدفون نہیں ہے، لیکن دور قدیم میں اسکندریہ کے لوگوں نے اپنے شہر میں ایک ایسی یادگار بنوائی تھی، جہاں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ طلباء اور لوگوں کو فقہ، حدیث اور قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ یہ جگہ اب تک موجود ہے جو حضرت ابو الدرداء کے نام اور ان کی یاد اور احترام میں تعمیر کی گئی تھی۔اب یہ اہلِ اسکندریہ کی سعادت و احترام کا مقام بن گیا ہے۔ چونکہ وہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے کردار کی قدر کرتے ہیں، اس لئے ان کی یاد میں ہر سال ایک جشن بھی مناتے ہیں۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے پیروکار مصر کے تمام صوبوں سے ان کی درگاہ پر تشریف لاتے ہیں۔
اسکندریہ میں حضرت ابو الدرداء کی درگاہ مصر میں ایوبی ریاست کے دور میں قائم ہوئی تھی، یہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے، جو ٹرام پٹریوں کے وسط میں نمایاں ہے۔ یہ ایک مستطیل عمارت ہے جس کے درمیان راہداری ہے جو مستطیل کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ راہداری سے پہلے ایک بڑا نیم سرکلر محراب لگا ہوا ہے، جو ماربل کے دو متصل ستونوں پر مشتمل ہے اور ایک قبرستان مشرقی اور مغربی حصوں کو تقسیم کرتا ہے، جس کا نام ابو الدرداء ہے۔ اس عمارت کو باہر اور اندر سے خوبصورت اسلامی نقوش سے سجایا گیا ہے۔ درگاہ کی موجودہ شکل کو شہزادہ عمر طوسون نے تعمیر کیا تھا، جس نے خاص طور پر اسکندریہ شہر کی دیکھ بھال کی تھی۔ شہر میں پورے علاقوں کو قائم کرنے کے لئے اطالوی انجینئرز کی مدد لی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ اسلام کی دعوت اور فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، تاکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو عام کیا جا سکے۔ دمشق میں لوگوں کو تعلیم دینے کے بعد آپ مصر کی فتح کے لئے اسلامی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے، آپ ان عظیم صحابہ اور رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے ۲۱؍ ہجری، ۶۴۱ء میں اسکندریہ کی فتح میں حصہ لیا تھا۔ اسکندریہ میں آپ اپنے مختصر قیام کے دوران لوگوں کو ایک جگہ پر فقہ اور حدیث کا درس دیتے تھے۔ اسکندریہ کے لوگوں کی تعلیم دینے کے برسوں کے بعد حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے دمشق کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہاں ان کی وفات ہوئی اور وہیں انہیں دفن کیا گیا۔ لیکن اسکندریہ کے عوام کا ماننا ہے کہ ان کا انتقال اسکندریہ شہر میں ہوا اور اس یادگار درگاہ میں ہی ان کو دفن کیا گیا ہے، جو ان کے لئے تعمیر کیا گیا۔ اور نسل در نسل بہت سارے عقائد اور حضرت ابو الدرداء کے کرامات وراثت میں ملے۔ وہ حضرت ابو الدرداء سے وابستہ کہانیاں اور داستانیں دہراتے ہیں۔
اس یادگار درگاہ سے کچھ واقعات بھی جڑے ہوئے ہیں ، جنہیں اسکندریہ کے عوام دہراتے ہیں۔ اس میں کچھ کرامات بھی وابستہ ہیں، اس لئے عوام حضرت ابو الدرداء کو کرامات کے مالک بلاتے ہیں۔ حضرت ابو الدرداء سے منسوب ہونے والی کرامات میں سے ایک ایسا واقعہ ہے جو زبان کے ذریعہ مصر کے مختلف صوبوں میں نہ صرف اسکندریہ شہر میں پھیل گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ عظیم کے دوران ایک جرمن جنگی جہاز نے حضرت ابو الدرداء کی درگاہ کے ارد گرد ایک بہت بڑا ٹارپیڈو پھینک دیا تھا۔ اس علاقے کے گھروں اور دکانوں کے مکینوں نے اس وقت تصدیق کی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا کے نیک بندے حضرت ابو الدرداء ، جو سفید کپڑوں میں ملبوس تھے، اپنی درگاہ سے اٹھے ، پھر درگاہ کے اوپر چڑھے اور محلے کے لوگوں کو بچانے کے لئے لپٹ گئے۔ انہوں نے اپنے بازو سے اس ٹارپیڈو کو اٹھا کر زمین پر پھینک دیا۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اس ٹارپیڈو کو روک لیا، تاکہ وہ دوبارہ سمندر کی طرف لوٹ جائے جہاں سے وہ آیا تھا۔اسی حوالے سے ایک اور دلچسپ کہانی یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک یونانی خواجہ چھاپوں کی آواز پر اپنی نیند سے بیدار ہوا، تو وہ جلدی سے اپنی عمارت چھوڑنے کے لئے نیچے چلا گیا پھر اس نے دیکھا ہے کہ اس کی عمارت کے سامنے واقع حضرت ابو الدرداء کی درگاہ سے ایک سفید سایہ نکل رہا ہے، اور اس علاقے کی حفاظت کے لئے اپنے ہاتھوں سے بموں کو پسپا کرتا ہے اور علاقہ میں کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ پھر جو خواجہ نے دیکھا، اسے لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔
ٹرام کی پٹریوں کے درمیان واقع درگاہ کے بارے میں ایک اور کہانی یہ ہے کہ چالیس کی دہائی میں علاقہ کے ذمے داروں نے ٹرام لائن کے وسط میں واقع درگاہ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اسے دوسری جگہ منتقل کرنے کا ارادہ تھا، کیونکہ یہ درگاہ ٹریفک میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ جیسے ہی ایک کارکن نے درگاہ کو منہدم کرنا شروع کیا تو اس کارکن کا بازو مفلوج اور مکمل طور پر بے بس ہوگیا۔ اسے دیکھ کر باقی کارکنان نے کام چھوڑ دیا۔ ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ درگاہ کے انہدام میں استعمال ہونے والے تمام کھدائی اور لوڈرز درگاہ کو چھونے کے ساتھ ہی ٹوٹ پڑے اور درگاہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، گویا کہ حضرت ابو الدرداء نے اپنی میت کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا، لہذا محلے کے ذمے داروں نے پھر فیصلہ پر عمل درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اسکندریہ کے عوام نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی فیوض و برکات کے بارے میں بہت سارے راز رکھتے ہیں اور بہت سی کہانیاں ان کی عظمت کی دہراتے ہیں۔ ان سے ما فوق الفطرت واقعات سے جوڑتے ہیں۔
حضرت ابو الدرداء کی درگاہ کی تعمیر سے اب تک یکم رمضان المبارک سے چھ رمضان کی اختتامی رات تک حضرت ابو الدرداء کے جشن ولادت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کی درگاہ کو پھولوں، برقی لیمپوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ اس درگاہ کے باہر لوگ جشن مناتے ہیں۔ درگاہ کے سامنے پویلین میں مذہبی تقاریب، مذہبی نغمے اور ذکر کی محفلیں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور قراء حضرات قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے ہیں۔ لوگ یہی جملے دہراتے ہیں کہ’’اے ہمارے آقا ۔۔ آپ کی مدد‘‘ ’’اے ہمارے آقا ۔۔ آپ کے احسانات‘‘ ’’ اے آل البیت ۔۔ مدد‘‘۔ حضرت ابو الدرداء کے جشن ولادت کی محفل میں بچے بھی بہت خوش ہوتے ہیں جو جھولوں پر سوار ہو تے ہیں، دکانوں سے مٹھائیاں خریدتے ہیں۔بچے ہر سال اس محفل کومنانے کا انتظار کیا کرتے ہیں۔ آخر میں اگرچہ یہ درگاہ جس کا بیس میٹر سے زیادہ کا رقبہ نہیں ہے اور جس میں حضرت ابو الدرداء کو دفنایا نہیں گیا ہے لیکن اس درگاہ کو یادگار کے طور پر اس کی تعظیم واحترام کیا جاتا ہے۔ وہاں سے گزرنے والے شہری اور ٹرام میں سواری کرنے والےاپنے سر کو بائیں اور دائیں ہلا دینے کا اشارہ کیا کرتے ہیں اور دہراتے ہیں کہ ’’میرے آقا ابو الدرداء ۔۔ آپ کی مدد‘‘۔ یہ سچ ہے کہ اہل اسکندریہ خاص طور پر عوام غیر معمولی شخصیات سے محبت کرتے ہیں جو مذہب سے منسلک ہوتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ یہ ان کے لئے زندگی کی مشکلات کو برداشت کرنے کا ایک مضبوط طریقہ ہے۔