بچپن میں ٹی وی پرایک اشتہار کسی انشورنس کمپنی کا چلتا تھا، جس میں بچی گیت گاتی ہے، اے خدا!میرے ابو سلامت رہیں،
گھرکا بڑا،ہمیشہ اہم اور بڑے فیصلے کرتاہے،
اے خدا!میرے ابوسلامت رہیں
بچپن میں ٹی وی پرایک اشتہار کسی انشورنس کمپنی کاچلتاتھا، جس میں بچی گیت گاتی ہے، اے خدا!میرے ابو سلامت رہیں،
گھرکا بڑا،ہمیشہ اہم اور بڑے فیصلے کرتاہے،یہی خاندانی نظام کاچلن رہا ہے،والد صاحب کی کہی بات ٹالنا ممکن نہیں ہوتا، ان کا ہرحکم سرآنکھوں پر ہوتاہے۔ کہتے ہیں باپ سے سرکشی کرنا کسی طور درست نہیں ہوتا،کوئی حکم عدولی خاندان کا شیرازہ بکھیردیتا ہے۔
ملک کانظام دیکھیں ، ریاستی ادارے کبھی کبھی گھر کے بڑے لگتے ہیں، حتیٰ کہ کچھ باقاعدہ بڑے ہی بن چکے ہیں، ایسے میں سیاسی بساط پرچلنے والی چالیں ،ان بڑوں کی رضامندی کے بغیرآگے نہیں بڑھتیں۔ گھر کے بڑے بوڑھے ہمیشہ بہتری کا سوچتے ہیں، مگرکئی بار دوسروں کا اختلاف ہوجاتاہے۔
بڑے اپنی رائے تھونپتے رہتے ہیں، مجبوراً کسی کوانکارنہیں کرناپڑتا، لیکن جمہوریت میں اپنی رائے دینابھی سب کاحق ہے۔ ایسے میں اکثریت کی سوچ کومدنظررکھنا پڑتا ہے۔ ریاستی ادارے بڑوں کاکرداراداکرناچاہتے ہیں، سیاسی جماعتوں میں کچھ انہیں اپنا بڑا، والدصاحب کی جگہ مان لیتی ہیں، کچھ اختلاف کرنے کاحق محفوظ رکھتی ہیں۔
بڑی جماعتوں کی ابھرتی نئی قیادت بھی بڑی شدومدسے سیاسی بساط پرچال چلنے میں مصروف ہیں، انہیں بھی اپنے بڑوں بلکہ کہا جائے کہ ریاستی بڑوں کے متاثرہ بزرگوں کی شفقت اور سرپرستی حاصل ہے۔بڑے بوڑھوں کی شکل دیکھ دیکھ کر اکتاجانےوالے لوگ نئی نسل کےنمائندوں کی بات سن لیتےہیں،انہیں بڑوں کی سیاسی حکمت اوردوراندیشی پرمبنی باتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی دیتی۔لیکن اہم ملکی سیاسی فیصلےآخرکاربڑوں کو کرناپڑتےہیں، جہاں آکر کبھی کبھاراچھے اور حیران کن نتائج نکلتےہیں لیکن ڈیڈلاک بھی آجاتاہے۔
بڑے حکمت سے کام لیتےہیں مگر ماضی کےزخم کبھی تازہ ہوجاتےہیں،جوکہ ایک دوسرےکولگائے ہوتے ہیں، انہیں یاد کرکے پھرسیاسی بڑے آمنےسامنے آجاتے ہیں۔
اپنی جان کی فکر انسان کی جبلت میں شامل ہے، وہ سیاست کامیدان ہویا پھر کھیل۔کون چاہے گا اسے چوٹ آئے یا پھروہ کسی گھاٹے کی سودے میں بڑانقصان اٹھائے۔ جان بچانے میں ہی عافیت جان لینی چاہیے۔ بحران کی صورت میں بیماری، جلاوطنی، جیل کی نظربندی یا پھر کوئی اور فرارکی راہ اختیارکرناپڑجاتی ہے۔ کئی بار ریاست کے بڑوں سے مفاہمت یا مصالحت کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے۔
جمہوریت میں اپنی رائے دینا، اس بات پر عمل کرانے کے لئے دوسروں کوقائل کرنااور ساتھ لیکر چلنا، ایک جدوجہد اور تحریک کی شکل اختیارکرجاتاہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے اپنے اپنے بڑے ہوتے ہیں، ہرکوئی اپنے بڑے کی سنتا اور عمل کرتاہے۔
پہلا بڑے کےمنظرسے ہٹنے پر اولاد کو موقع ملتا تھا، مگر اب سیاست کےمیدان میں والداوربچے ساتھ ساتھ سرگرم ہوگئےہیں،برے دن دیکھنے کی صورت میں بچوں کو ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ ان کی اچھے انداز سےتربیت کی گئی انہیں کسی بھی صورتحال کامقابلہ کرنے کےلئے تیار کرلیا گیا۔ اب یہ بچے پارٹی کے بڑوں کےکندھےسے کندھا ملاکر بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوگئے ہیں۔
پنجاب کےشیر ہوں،یاپھرسندھ کے زردار، حکومت کے خلاف ملکر چلنے کاعزم ظاہرکیا، مگر بڑوں نے ایک بار پھر سب کو مخمصے میں ڈال دیا، ایک بڑے نے استعفے کی بات کی، دوسرے نےمخالفت کردی۔
معاملہ ایک دوسرے کو ماضی کے طعنے دینے پر آگیا،حتیٰ کہ زندگی سے ہاتھ دھونےوالوں کوجان جانے کی بات یاددلانے تک کی نوبت آگئی، ایک بیٹی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی، ایک خدامیرے ابو سلامت رہیں،
میں انہیں ظالموں کے حوالے نہیں کرناچاہتی،
یہاں بھی دوسرے ابانےبیٹےکے ساتھ بیٹھ کرپرجوش بھاشن دے ڈالا اور بات ایک دوسرے سےمعذرت تک آگئی۔
اپوزیشن اتحاد نے جسے ابا بنایا، صورتحال بگڑنے پرانہیں بھی غصہ آگیا، جنہیں کبھی چپ کرانا مشکل ہوتا، وہ مختصر اور نامکمل پریس کانفرنس کرکے ایسا نکلے کہ حیرت سے زیادہ بالکل واضح ہوگیا،کسی بڑے سے مقابلے کے لئے ان کی تیاری مکمل نہیں۔ یہ بڑے اور اولاد ابھی اپنی منوانے کے چکر میں میدان سے بڑے بڑے نعرے لگاتے باہر نکل رہے ہیں، مگر تاثر کسی جنگ کادے رہے ہیں۔ یہاں معلوم ہی نہیں کون بڑا ہے اور کس کابڑا ہے۔ متحد ہوکر لڑنے کاتاثر بھی ناکام رہا۔
ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ریاست کتابوں جیتے، یا بڑی جماعتوں کے ابو،مقابلہ جاری ہے، دیکھیں نتیجہ کیا آتا ہے۔
لیکن سننے میں آیا ہے کہ ایک بیٹی نے دوسرے کے اباسے تلخ کلامی کی، جسے چھپایاگیا، اور تاثر معافی تلافی کی نوبت تک آگیا۔
رہا ہے،والد صاحب کی کہی بات ٹالنا ممکن نہیں ہوتا، ان کا ہرحکم سرآنکھوں پر ہوتاہے۔ کہتے ہیں باپ سے سرکشی کرنا کسی طور درست نہیں ہوتا،کوئی حکم عدولی خاندان کا شیرازہ بکھیردیتا ہے۔
ملک کانظام دیکھیں ، ریاستی ادارے کبھی کبھی گھر کے بڑے لگتے ہیں، حتیٰ کہ کچھ باقاعدہ بڑے ہی بن چکے ہیں، ایسے میں سیاسی بساط پرچلنے والی چالیں ،ان بڑوں کی رضامندی کے بغیرآگے نہیں بڑھتیں۔ گھر کے بڑے بوڑھے ہمیشہ بہتری کا سوچتے ہیں، مگرکئی بار دوسروں کا اختلاف ہوجاتاہے۔
بڑے اپنی رائے تھونپتے رہتے ہیں، مجبوراً کسی کوانکارنہیں کرنا پڑتا، لیکن جمہوریت میں اپنی رائے دینا بھی سب کا حق ہے۔ ایسے میں اکثریت کی سوچ کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ ریاستی ادارے بڑوں کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، سیاسی جماعتوں میں کچھ انہیں اپنا بڑا، والدصاحب کی جگہ مان لیتی ہیں، کچھ اختلاف کرنے کاحق محفوظ رکھتی ہیں۔
بڑی جماعتوں کی ابھرتی نئی قیادت بھی بڑی شدومد سے سیاسی بساط پرچال چلنے میں مصروف ہیں، انہیں بھی اپنے بڑوں بلکہ کہا جائے کہ ریاستی بڑوں کے متاثرہ بزرگوں کی شفقت اور سرپرستی حاصل ہے۔بڑے بوڑھوں کی شکل دیکھ دیکھ کر اکتاجانےوالے لوگ نئی نسل کے نمائندوں کی بات سن لیتے ہیں،انہیں بڑوں کی سیاسی حکمت اور دوراندیشی پرمبنی باتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی دیتی۔لیکن اہم ملکی سیاسی فیصلےآخرکار بڑوں کو کرناپڑت ےہیں، جہاں آکر کبھی کبھار اچھے اور حیران کن نتائج نکلتےہیں لیکن ڈیڈلاک بھی آجاتاہے۔
بڑے حکمت سے کام لیتےہیں مگر ماضی کےزخم کبھی تازہ ہوجاتےہیں،جوکہ ایک دوسرےکو لگائے ہوتے ہیں، انہیں یاد کرکے پھرسیاسی بڑے آمنے سامنے آجاتے ہیں۔
اپنی جان کی فکر انسان کی جبلت میں شامل ہے، وہ سیاست کا میدان ہویا پھر کھیل۔کون چاہے گا اسے چوٹ آئے یا پھر وہ کسی گھاٹے کی سودے میں بڑا نقصان اٹھائے۔ جان بچانے میں ہی عافیت جان لینی چاہیے۔ بحران کی صورت میں بیماری، جلاوطنی، جیل کی نظر بندی یا پھر کوئی اور فرار کی حد راہ اختیار کرنا پڑجاتی ہے۔ کئی بار ریاست کے بڑوں سے مفاہمت یا مصالحت کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے۔
جمہوریت میں اپنی رائے دینا، اس بات پر عمل کرانے کے لئے دوسروں کوقائل کرنا اور ساتھ لیکر چلنا، ایک جدوجہد اور تحریک کی شکل اختیار کر جاتاہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے اپنے اپنے بڑے ہوتے ہیں، ہرکوئی اپنے بڑے کی سنتا اور عمل کرتاہے۔
پہلا بڑے ہٹنے پر اولاد کو موقع ملتا تھا، مگر اب سیاست کے میدان میں والد اور بچے ساتھ ساتھ سرگرم ہوگئے ہیں،برے دن دیکھنے کی صورت میں بچوں کو ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ ان کی اچھے انداز سےتربیت کی گئی انہیں کسی بھی صورتحال کامقابلہ کرنے کےلئے تیار کرلیا گیا۔ اب یہ بچے پارٹی کے بڑوں کےکندھے سے کندھا ملا کر بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوگئے ہیں۔
پنجاب کے شیر ہوں،یاپھرسندھ کے زردار، حکومت کے خلاف ملکر چلنے کاعزم ظاہرکیا، مگر بڑوں نے ایک بار پھر سب کو مخمصے میں ڈال دیا، ایک بڑے نے استعفے کی بات کی، دوسرے نےمخالفت کردی۔
معاملہ ایک دوسرے کو ماضی کے طعنے دینے پر آگیا، حتیٰ کہ زندگی سے ہاتھ دھونے والوں کوجان جانے کی بات یاد دلانے تک کی نوبت آگئی، ایک بیٹی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی، ایک خدامیرے ابو سلامت رہیں،
میں انہیں ظالموں کے حوالے نہیں کرنا چاہتی، مجھے ان کی زندگی عزیز ہے۔
یہاں بھی دوسرے ابا نے بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر پرجوش بھاشن دے ڈالا اور بات ایک دوسرے سے معذرت تک آگئی۔
اپوزیشن اتحاد نے جسے ابا بنایا، صورتحال بگڑنے پرانہیں بھی غصہ آگیا، جنہیں کبھی چپ کرانا مشکل ہوتا، وہ مختصر اور نامکمل پریس کانفرنس کرکے ایسا نکلے کہ حیرت سے زیادہ بالکل واضح ہوگیا،کسی بڑے سے مقابلے کے لئے ان کی تیاری مکمل نہیں۔ یہ بڑے اور اولاد ابھی اپنی منوانے کے چکر میں میدان سے بڑے بڑے نعرے لگاتے باہر نکل رہے ہیں، مگر تاثر کسی جنگ کا دے رہے ہیں۔ یہاں معلوم ہی نہیں کون بڑا ہے اور کس کابڑا ہے۔ متحد ہوکر لڑنے کا تاثر بھی ناکام رہا۔
ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ریاست کے ابو جیتے، یا بڑی جماعتوں کے ابو، مقابلہ جاری ہے، دیکھیں نتیجہ کیا آتا ہے۔
لیکن سننے میں آیا ہے کہ ایک بیٹی نے دوسرے کے ابا سے تلخ کلامی کی، جسے چھپایا گیا اور معاملہ معافی تلافی کی نوبت تک پہنچ گیا۔