آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں نواز شریف کی وطن واپسی کا مطالبہ کیوں کیا، کیا وہ نہیں جانتے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے کیا نتائج ہونگے ، یقیننا آصف زرداری کسی بھی سیاستدان سے زیادہ جلاوطنی کے حالات سمجھتے ہیں ، انھوں نے بے نظیر بھٹو کی وجلاوطنی کی زندگی دیکھی ہے، آصف زرداری یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت ملکی سیاست میں انہیں بادشاہ گر کی جو پوزیشن حاصل ہے وہ بھی ن لیگ کی سخت سیاست کی وجہ سے ہے ، اگر ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملالیا تو پھر ملک میں کسی اور پارٹی کی سیاست کی گنجائش نہیں رہے گی۔
اسکے باوجود زرداری صاحب نے یہ دھماکہ خیز بیان دیا اس کا طویل پس منظر ہے ، جب میاں نواز شریف وزیرا عظم پاکستان تھے ، اسٹیبلشمنٹ زرداری صاحب پر دباو ڈالے ہوئے تھی، ایسے میں زرداری صاحب نے ملک بھر میں اینٹ سے اینٹ بجانے والی شہرہ آفاق تقریر کی ،انہیں زعم تھا کہ اے آرڈی کے ساتھی نواز شریف وزیر اعظم پاکستان ہیں ، انکی پشت مضبوط ہے ، لیکن جب وہ طے شدہ ملاقات کیلیے پنجاب ائے تو میاں نواز شریف نے زرداری صاحب سے ملنے سے انکارکردیا، یہ زرداری صاحب کی ذاتی توہین بھی تھی اور پارٹی کی بھی۔ زرداری صاحب اس وقت کڑوا گھونٹ پی گئے اور دل کے کسی کونے میں اسے دبادیا ، اس کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا،میاں نواز شریف پانامہ کے کیس میں وزارت عظمی سے نااہل قرار پائے ،جی ٹی روڈ سے ووٹ کو عزت دو کا سفر شروع کیا ، اسی وقت سے زرداری صاحب کی اپنی عزت اور بے عزتی کا بدلہ لینے کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ میاں نواز شریف گرم و سخت حالات سے گزرتے بیرون ملک چلے گئے، ملک میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔
ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلیے کے پی کے میں پی ٹی آئی سے چوٹ کھائے مولانا فضل الرحمان ماہی بے آپ کی طرح تڑپ رہے تھے،، لیکن وہ ایک صوبے تک محدود تھے ، اسٹیبلشمنٹ کپتان کے صفحے پر تھی ، زرداری صاحب نے صورتحال کا جائزہ لیا اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کی بنیاد رکھی،دیگر جماعتوں کی طرح ن لیگ بھی پی ڈی ایم میں شامل ہوگئی، اس اتحاد کے وجود میں آتے ہی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوگیا کہ وہ زیادہ کھل کر نہیں کھیل سکتی ، کپتان کو بھی باونسرز آنا شروع ہوگئے اور چوکے چھکے لگانے مشکل ہوگئے،اب زرداری صاحب اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں آگئے اور انکی مشکلات میں بتدریج کمی آنے لگی ، صادق سنجرانی نے ایک پل کا کردار ادا کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ ایک اورساتھی میسرآگیا،تاہم زرداری صاحب اتنے پر مطمئن نہیں تھے وہ مزید کی خواہش رکھتے تھے،اس لیے یوسف گیلانی کو چیئرمین سینٹ بنانے کا خواب دیکھا۔ یہ ایسا وقت تھا کہ زرداری صاحب کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا، اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی تھی اور پی ڈی ایم بھی ، زرداری صاحب سینٹ سے اگے پنجاب میں بھی اپنا کردار چاہتے ہیں،جو پاکستان کے اقتدار کا منبع ہے۔ وہ وہاں گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ مل کر کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، لیکن ن لیگ نے ضمنی الیکشن سے لے کر سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب تک زرداری صاحب کے کھیل کو دیکھالیکن وہ پنجاب میں کسی اور کی نظر نہِیں چاہتے ، جونہی پیپلزپارٹی نے بوزدار کے خلاف عدم اعتماد کی بات کی ، ن لیگ نے سخت جواب دیا ، بلکہ پیپلزپارٹی کو گھیرنے کا منصوبہ بنایا۔ پی ڈی ایم کے سولہ مارچ کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کی کمزور رگ پر ہاتھ رکھا گیا کہ لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ اسمبلیون سے استعفے بھی دیئے جائیں ، پیپلزپارٹی اس معاملے کو ملتوی کرتی آرہی تھی لیکن جب مولانا فضل الرحمان نے اس معاملے پر فوری فیصلے کیلیے کہا تو آصف علی زرداری نے فوری طور پر ن لیگ کے سب سے کمزور پہلو پر وہ حملہ کیا، جسے وہ بہت عرصے سے دل میں لیے بیٹھے تھے ،انھوں نے نواز شریف کی ذات پر حملہ کیا، جس سے پوری ن لیگ تلملا گئی۔
لیکن کیا زرداری صاحب اس معاملے کو وہاں تک لے جائین گے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو، جہاں تک آصف زرداری کو میں جانتا ہوں وہ ایسا نہیں کرینگے ، کیونکہ نواز شریف کی وطن واپسی خود زرداری صاحب بھی نہیں چاہیں گے ،کیونکہ اگر نواز شریف پاکستان واپس آگئے تو میڈیا اور سیاست کا فوکس وہی ہونگے ،اس کے علاوہ اس مطالبے سے پیپلزپارٹی تنہا ہوجائیگی ، پنجاب جہاں سے اسے پہلے ہی دیس نکالا مل چکا ہے ، آئندہ وہاں قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی ،بلوچستان کی علاقائی طاقتیں بھی ان سے بہت دور چلی جائینگی ، صوبہ سندھ جہاں انکی حکومت ہے ،اس کے دارالحکومت کراچی اور دیگر شہری علاقوں میں پہلے ہی پیپلزپارٹی کی شدید مخالفت ہے ، سب سے اہم بات پی ڈی ایم اجلاس میں شریک چیئرمین کی حیثیت سے کلیدی خطاب کرکے انھوں نے بلاول بھٹو کی ابھرتی ہوئی سیاسی حیثیت کو بالکل ختم کردیا ہے۔ وہ ایک نمائشی گڈے کے طور پررہ گئے ہیں اور یہ پیغام گیا ہےکہ پیپلزپارٹی میں جو کچھ بھی ہیں وہ آصف علی زرداری ہیں ، بلاول کچھ نہیں، آصف زرداری یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ موجودہ ہائبریڈ نظام اپنی قوت کھوچکا ہے ، آئندہ کے کسی بھی سیٹ اپ میں طاقت ن لیگ کے پاس ہوگی ، وہ نواز شریف کی صورت میں ہویا شہباز کی صورت، جلد یا بدیر ایسا ہونا ہے ، اور اگر ایسا ہوگیا اور وفاقی حکومت نے متنازعہ مردم شماری کے خلاف سندھ کے شہری علاقوں کے مطالبے میں شفاف مردم شماری کروادی تو پیپلزپارٹی کی صوبے میں حکومت کا خواب بھی بکھر جائیگا۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ آصف علی زردای نے میاں نواز شریف پریہ ذاتی حملہ کرکے انہں بہت شدت سے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا احساس دلادیا ہے ، اب وہ جلد ہی سمجھوتے کیلیے واپس اآئینگے ، اور ن لیگ سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کردار کے حوالے سے کچھ یقین دھانیوں کے بعد پی ڈی ایم میں فعال ہوجائینگے جو ان سے ان کی سندھ حکومت کی قربانی کے مطالبے سے پہلے ہی دستبردار ہوچکا ہے ، یہ اعلان بلاول بھٹو سے کراکے وہ پارٹی میں بلاول بھٹو کی حیثیت بھی ببحال کرائنگے۔