دوہزار بیس ساری دنیا کو اضطراب اور بے یقینی سے دوچار کرگیا۔ دوہزار انیس کے اختتام میں آنے والے مہلک وائرس نے نئے سال کے آغاز پر سب کو کسی نہ کسی صورت اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہر کوئی صرف ایک ہی موضوع زیربحث لاتا کہ یہ مہلک وباء کیسے اور کس طرح ان کے ملک میں داخل ہوئی، ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی انسان یا جاندار شے سمگل کرکے لائی گئی ہو، جان لیوا مرض کی خبریں خوف کے سائے کی مانند ہر سو پھیلتی رہیں۔ مختلف سازشی نظریات اور سیاسی بیانات سامنے آنے لگے، حقیقت کیا ہے، سیاست، طب اور سائنس سے وابستہ افراد بھی نہیں جانتے تھے، بڑی متضاد کہانیاں منظر عام آتی رہیں، چین کے علاقے ووہان میں اس وائرس پر تجربے ہورہے تھے جس دوران انسان متاثر ہونا شروع ہوئے، سائنسدانوں سے روک تھام کی تدبیریں نکالیں مگر وائرس قابو سے باہر ہوگیا، بتایا جاتا ہے کہ وہاں سے سفر کرکے دوسرے ملکوں جانے والوں میں اس کی علامتیں پائی گئیں اور پھر وہ اس سے متاثر ہوئے بلکہ جان سے بھی گئے۔
گزرے سال میں لوگوں نے میل جول کم کردیا، ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا گلے لگانا یاں تک کہ قریب کھڑے ہونے تک اجتناب کی عادت اپنالی۔ اصل میں کورونا نے کچھ عجیب انداز میں اپنا خوف بٹھایا ہے کہ کئی لوگ سب ماننے پر آمادہ ہوگئے لیکن اکثریت بے یقینی اور ابہام جیسی کیفیت میں مبتلا رہی۔
چین اور دیگر مغربی ممالک کے درمیان معاشی جنگ ایک نئے انداز میں شروع ہوگئی ہے بلکہ اسے عالمی جنگ کہا جارہا تھا، اس میں جاپان، جرمنی حتیٰ کہ بھارت بھی چین کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہا۔
عالمی سطح پر مختلف ممالک کے ایک دوسرے پر وائرس کا حملہ کرنے کے الزامات لگتے رہے، حتیٰ کہ بھارت نے پاکستان کی طرف اشارہ کردیا۔ پاکستان کے مختلف حلقوں نے ایران، سعودی عرب کے زائرین کو ملوث کردیا۔
یہ انجان وائرس نہ جانے کہاں گھات لگائے بیٹھا ہے، اس کا تعلق گندگی صفائی، امارت غربت، عقل مند، جاہل، تعلیم یافتہ ان پڑھ کے فرق سے بالاتر ہے، جتنے کیس سامنے آرہے ہیں، ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔
گزشتہ برس کے زیادہ دن لوگوں نے اپنوں کے ساتھ خوشیاں نہیں منائیں، گھروں تک محصور ہوکر رہے، سالگرہ جیسی تقریبات ویڈیو کالز پر منائی گئیں، شادیاں منسوخ یا ملتوی کردی گئیں۔ معمر افراد اپنے ہمسایوں سے کھڑکیوں کے ذریعے باتیں کرتے رہے جبکہ وہ افراد جو تن تنہا تھے ان کا کسی بھی انسان سے کوئی رابطہ نہیں رہا کیونکہ وہ گھر میں رہنے اور دوسروں سے دو میٹر کا سماجی فاصلہ رکھنے کی حکومتی گائیڈ لائنز کی تعمیل کرتے رہے۔
کورونا کے شکار افراد کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک نہیں برتا گیا، انہیں جیسے اچھوت بنادیا گیا۔ احتیاط ضروری تھی لیکن ابتدا میں جیسے اقدامات اٹھائے گئے، وہ کسی طور درست نہ تھے۔
یہ تنہائی یا آئسولیشن اگر مناسب طریقے اور مریض کے طور پر ہوتی تو شاید زیادہ پریشانی نہ ہوتی۔ اس میں ناصرف متاثرہ فرد قرنطینہ میں جاتا یے مگر ساتھ ہی اس کے گھروالوں سے بھی محکمہ صحت سمیت تمام متعلقہ سرکاری ادارے پوچھ گچھ کرتے۔ اور گھر یا پورا محلہ سیل کردیا جاتا رہا۔ اس خاندان کو جیسے نظر لگ جاتی ہے اور وہ نظربند بھی ہو جاتے ہیں۔ کوئی اچھوت جیسے اس گھر سے برآمد ہوگیا۔
حکومتوں نے وباء پر کنٹرول کے لئے لاک ڈاون لگانے کا فیصلہ کرلیا، تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز، دفاتر بند بند کردیئے گئے، معمول کی زندگی متاثر ہوگئی،
لاک ڈاون نے سب سے زیادہ مزدور دیہاڑی دار طبقے کو متاثر کیا، ان کے لئے کمانا اور کھانا دونوں مشکل ہوگیا،
یہ سوال ان دنوں اکثر ذہنوں میں آتا ہے اور ہم ایک دوسرے سے بھی کرتے رہے کہ تمہارے کسی جاننے والے کو کورونا ہوا ہے؟
جواب زیادہ تر یہی ملتا ہے، نہیں میڈیا میں ہے، بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔
عید پر لاک ڈاون نرم یا ختم کیا گیا، اس کی وجوہات سب کو معلوم ہے لوگ کاروبار کرنا چاہتے تھے اور خریداری کرکے اپنی خوشیاں کسی صورت التوا میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے۔
عالمی ادارہ صحت اور حکومتوں کا مسلسل اصرار رہا کہ تمام ہدایات غور سے سنیں اور اُن پر سختی سے عمل درآمد کریں۔یہ مشورے نہایت مفید تھے، جیسے کہ ہر روز وقت پر سونے اور بیدار ہوں، صفائی کا خیال رکھیں، صحت بخش خوراک کھائیں، ورزش کریں، اپنے کام اور آرام یہ توجہ دیں۔ تفریح والی سرگرمیوں کےلیے بھی وقت ضرور نکالیں۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ ہدایت بھی دی کہ خبریں دیکھنے، پڑھنے اور سننے کا معمول کم کردیں، ورنہ اس سے آپ میں بے چینی اور پریشانی بڑھے گی، دن میں کچھ دیر کورونا سے متعلق معلومات جمع کرنے کیلئے مخصوص رکھیں۔
طبی شعبے سے وابستہ افراد کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں، ماہرین کا کہنا ہے کورونا کے باعث لوگوں کے مزاج چڑچڑے اور غصے والے ہوگئے ہیں، انہیں دوسروں سے پیار اور رحم دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر کورونا کا شکار افراد سے امتیازی اور اچھوت والا سلوک نہیں برتنا چاہیے۔ اسی طرح انہیں رنگ نسل، حیثیت اور فرقے کا طعنہ نہیں دینا چاہیے۔
ماہرین کہتے ہیں یہ وباء اور بیماری ہے، اسے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دینا، بلکہ دوسروں کی مدد کرکے انہیں اس صورتحال سے نکالنا ہے۔ یہ خوف اور ڈر ختم کرنا ہوگا کہ میں گھر کیسے جاوں یا میرے لئے گھر جانا مشکل ہے، اپنے غصے اور پریشانی پر قابو پاکر آگے بڑھنا ہوگا، گھر اور اس کے افراد ہی آپ کی اصل طاقت ہیں، ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اس صورتحال سے نکالا جاسکتا ہے ۔
اب سائنسدانوں کی تازہ تحقیق میں اس سوچ کو یکسر مسترد کردیا کہ کورونا نظام تنفس کی بیماری ہے، اس کی وجوہات میں پھیپھڑوں کا متاثر ہونا نہیں بلکہ دماغ اور سردرد، فالج اور دماغی امراض جیسی علامات شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے کئی لوگ جو اس بیماری سے متاثر ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں شدید نوعیت کا مرض نہیں ہوا تھا مگر اس کے باوجود کئی دن گزر جانے کے باوجود محسوس ہوتاہے کہ ان کی یادداشت متاثر ہوئی ہے، وہ ہر وقت تھکن محسوس کرتے ہیں اور توجہ ایک جگہ مرکوز کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لیکن جو اس بیماری سے زیادہ متاثر ہوئے، ان کے ساتھ ہونے والے واقعات زیادہ باعث پریشانی ہیں۔
اس سال کے دوران لوگوں میں امید، آس، مایوسی، ناامیدی، بے یقینی، پریشانی کے جذبات پائے گئے، کسی نہ کسی کا عزیز یا جاننے والا موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگیا۔ کاروبار اور تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوا۔ بے شمار لوگ معمول کی زندگی سے ہٹ گئے۔
نئے سال کا خیرمقدم اچھی امیدوں کے ساتھ کرنا ہوگا۔ ساری دنیا اب کورونا کی ویکسین کا انتظار کررہی ہے۔ پہلی بار شاید ہر کسی کو صحت اور زندگی کا بڑی سنجیدگی سے احساس ہوا۔ رب تعالیٰ نے دکھا دیا کہ ہر شے کا علم اس ذات پاک کو ہے، انسان دنیا کے راز نہیں پاسکتا ۔