رومی نے گفتگو کے تین دروازے بتائے تھے !
آپ کہا کرتے تھے !
آپکا کلام جب تک ان تین دروازوں سے گزر نہ جائے آپ اس وقت تک اپنا منہ نہ کھولیں !
1۔ آپ اپنی گفتگو کو سب سے پہلے سچ کے دروازے سے گزاریں۔
اپنے آپ سے پوچھیں آپ جو بولنے لگے ہیں کیا وہ سچ ہے؟
2۔ اگر اس کا جواب ہاں آئے تو پھر آپ اسکے بعد اپنے کلام کو اہمیت کے دروازے سے گزاریں. آپ اپنے آپ سے پوچھیں! آپ جو کہنے جا رہے ہیں کیا وہ ضروری ہے؟
3۔ اگر جواب ہاں آئے تو آپ اسکے بعد اپنے کلام کو مہربانی کے دروازے سے گزاریں آپ اپنے آپ سے پوچھیں ! کیا آپ کے الفاظ نرم اور لہجہ مہربان ہے؟
اگر لفظ نرم اور لہجہ مہربان نہ ہو تو آپ خاموشی اختیار کریں خواہ آپ کے سینے میں کتنا ہی بڑا سچ کیوں نہ ہو اور آپ کا کلام خواہ کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو __!
رومی کی ذات میں یہ تینوں دروازے کھل گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی ایسا لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا جو نرم نہ ہو جو ضروری نہ ہو اور جو سچ نہ ہو _!!!
مولانا روم کے چند اشعار:
بدشکل نے خود کو آئینے کے سامنے کیا
غصے سے بھر گیا اور چہرا پلٹ لیا
بدگمان نے جب کسی کا کوئی جرم دیکھا
دوزخ کی آگ میں وو بھیتر سے جل اٹھا
اپنے غرور کو دین کی ہمایت بتاتا ہے
خودی کے کفر کو خود میں دیکھ نہیں پاتا ہے
٭٭٭٭
جو عمر گزر گئی، جڑ اس کی ہے یہ دم
سینچو طوبہ سے اسے، گر رہی نہیں ہے نم
اس عمر کی جڑ کو دو آب-حیات ذرا
تاکِ وو درخت ہو جای پھر سے ہرا-بھرا
سب ماضی تیرا اس پانی سے سدھر جائیگا
زہر پرانا سب اس سے شکر ہو جائیگا