(آزادی، حق اور خاموشی)
“یونین جو کہتا ہے وہ ماننا پڑتا ہے ہماری مانگیں کیا زیادہ ہیں۔ کیا مانگ رہے ہیں؟ بنگلہ مانگ رہے ہیں، لاکھ روپیہ مانگ رہے ہیں۔ہم صرف عزت سے جینا مانگ رہے ہیں۔
ہر چیز کا بھاؤ اوپر جارہا ہے، اس حساب سے کیا تنخواہ نہیں بڑھنی چاہیےاچھی تنخواہ، سال کا بونس یہ مانگیں پوری نہیں ہوسکتیں”۔
آج کتنے برسوں بعد فلم “البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے” کے ڈائیلاگ یاد آگئے،ایک دور تھا یہ حقیقت تھی اور اب شاید ایسی باتیں فلموں میں بھی نہیں رہیں، اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا انسان کا بنیادی حق ٹھہرا، مگر ریاستی اداروں نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے مل کر اس اٹھنے والی آواز کو بڑی خوبصورتی سے دبا ڈالا۔
اب سیاست میں ہی سب کچھ بولا اور سنا جاتا ہے، کیا مانگنا ہے اور کیا دینا ہے یہ بھی سیاست کرنے اور دیکھنے والوں کے درمیان رہ گیا۔
یونین بنانے کا حق ضیاء الحق نے ختم کیا بعد میں آنے والوں نے اس کی حوصلہ شکنی کی۔ وہ کامیاب رہے، کیا حق ہے کیسے مانگنا ہے اس کا ذکر ہی گول کردیا۔ جو مل گیا اس پر صبر شکر کی نئی تعریف پیش کردی۔
انصاف کیا ہے وہ کتابوں میں بھی واضح نہیں۔ کون دے گا اور کیسے ملے گا، اسے بتانے والے بھی نہیں رہے۔
سرکاری شعبے میں اجتماعی سوداکاری کا تصور معدوم ہوتا گیا، یعنی سب کے مفاد کی جدوجہد، کولیکٹیو بارگیننگ ایجنٹ (سی بی اے) کسی کو معلوم نہیں۔
نجی شعبے میں بھٹہ مزدور، مل اور فیکٹری ورکر اپنے قانونی حقوق سے لاعلم ہیں کیونکہ کوئی آگاہی دینے والا نہیں۔ اس سب کو شجر ممنوع قرار دیا جاچکا ہے۔ اپنے حق کے لیے احتجاج اور ہڑتال صرف ان لوگوں تک رہ گئی ہے جنہیں میڈیا تک رسائی ہے اور وہ جان چکے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ ان کو حق دلادے گی۔ جنہیں ایسی کوئی سہولت نہیں یا وہ ایسا نہیں کرپاتے ان کی آواز کہیں تک نہیں پہنچ پاتی۔
نجی شعبے کے بے شمار ادارے ہیں جہاں ایسا کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں ۔ حتیٰ کہ دنیا میں سب کی آواز بننے والا میڈیا خود اس حق سے بری طرح سے محروم ہے اور وہاں کام کرنے والے غیر صحافی کارکن بنیادی سہولتوں سے ناآشنا ہیں۔ ان کی آواز نہ کوئی سننے والا نہ کوئی بننے والا۔
نہ وہ احتجاج کرسکتے ہیں نہ کسی سے شکوہ کرسکتے ہیں۔
حکومت نے قانونی ریلیف کے لیے ادارے بنائے ہیں مگر کوئی وہاں جاتا نہیں اگر چلا بھی جائے تو ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
آزادی کے 73 برس بیت گئے ،تبدیلی کی دعویدار حکومت بھی آئی مگر۔ کام کرنے والوں کے لیے کیا کچھ حکومت نے کیا اس کے بارے میں زیادہ توقعات وابستہ کرنے والوں کو مایوسی ہوئی ۔ کیونکہ حق مانگنے کا حق دینا اس نئی حکومت کے ایجنڈے میں بھی شاید نہیں تھا۔
حق مانگنے والے بھی چپ ہیں، اور حکومتیں بھی خاموش،
پھر فلم یاد آجاتی ہے،
“البرٹ پنٹو کا باپ کہتا ہے۔ میں نے آج تک نہیں بتایا کہ میں ہڑتال پر کیوں ہوں؟
اٹھائیس برس تک مل مشینوں پر کام کیا۔ مشینوں کی آواز میرے دماغ میں گھس گئی، اٹھائیس برس تک میں چپ رہا، پتہ نہیں کیوں چپ رہا۔خاندان کو دیکھتا رہا، بچوں کو بڑا کرنا تھا۔ ہوسکتا ہے اس لیے منہ بند رکھا۔کام کرتا رہا، کیا نہیں ہوا ہم لوگوں کے ساتھ۔عزت کے ساتھ جینے کو نہیں ملا، پھر بھی چپ رہا۔کیا معلوم شاید میں ہی ڈرپوک تھا۔
ہماری چھوٹی چھوٹی مانگ سیٹھ لوگ پوری کرنے کو تیار نہیں۔اب اٹھائیس برس کے بعد میں نے آواز اٹھائی، بہت ٹائم بعد۔اب پیچھے ہٹنے والا نہیں۔
ہڑتال سے کیا ملنے والا معلوم نہیں مگر ایک چیز میں نے سوچ لی ہے کہ مجھے لڑنا ہے۔”