حامد میر صاحب کے معاملے پر تو معافی تلافی ہو ہی جائے گی ۔ دراصل سازش کرنا ایک فن لطیف ہے جس میں جذبات کی کوئی گنجائش نہیں مگر یہ اہم نکتہ باریک کام کرنے میں طاق میر صاحب بدقسمتی سے فراموش کر گئے ۔ پنجابی میں کہتے ہیں روندی یاراں نوں لے کے ناں بھرواں دا ۔ اپنے میر صاحب کے ساتھ لگتا ہے یہی معاملہ ہوا ۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ بلوچ مسنگ پرسن کے لیے دل میں کتنا درد رکھتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے باقاعدگی کے ساتھ بلوچستان یاترا اور اندرون ملک و بیرون ملک رابطوں کا خصوصی اہتمام رکھتے ہیں ۔ ماما قدیر اسی لیے ان کے بہت قریب رہے مگر ماما موصوف غیرملکی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران مسنگ پرسن سے زیادہ کلبھوشن کی گرفتاری پر اپنے دلی دکھ اور تاسف کا اظہار کرکے کام خراب کرگئے ۔ مزید خرابی ہفتہ بھر پہلے ہوئی جب میر صاحب کی مسنگ پرسن فہرست کے ایک سرکردہ نام عبد النبی بنگلزئی عرف چھوٹا میر کو قندھار افغانستان میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ۔ کیوں اور کس نے قتل کیا ، یہ الگ قصہ ہے مگر کہتے ہیں اس واقعہ نے میر صاحب کو بہت کبیدہ خاطر کیا اور وہ جذبات کی رو میں بہہ نکلے ۔ جذباتی دباو میں آکر انہوں نے اسد طور جیسے پر ہاتھ رکھ دیا جس کا کل صحافتی اثاثہ اپنی برادری پر انگلیاں اٹھانے اور ان کی خوابگاہوں میں جھانکنے تک محدود تھا ۔ ایک سینیر صحافی کے ہاتھوں شٹ اپ کال نیز عدالتی ذلت اٹھانے اور خطیر جرمانہ بھگتنے کے بعد طور نے عافیت کے لیے صرف خواتین متعلق امور کو نشانہ بنانا شروع کیا ۔ پہلے ایک نجی چینل کی خاتون مالک کو دباو میں لانے کی کوشش کی مگر وہ دبنگ خاتون تو اپنے کسی سگے کے دباؤ میں نا آئیں تو اس بیچارے کی کیا دال گلتی لہذا اب نشانہ بنیں صحافی حضرات و خواتین کی نجی اور خانگی زندگی ۔ اس میں کامیابی تو خیر کیا ہوتی لیکن اس نے حامد میر جیسے کہنہ مشق صحافی کو بہکا دیا ۔ وہ جذباتی دباؤ میں چوک پر ایسی باتیں کر گئے جو اب تک اسد طور اپنے وی لاگ میں کرتے آئے تھے ۔ نتیجہ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا کیونکہ جب آپ ایک خطرناک کھیل شروع کریں گے تو سامنے کا حریف اس میں بہت زیادہ مہارت اور وسائل رکھتا ہے ۔ آپ تو بلاثبوت سرعام کچھ باتیں کر گئے ، وہ تو ثبوت بھی ایسے تراشیں گے کہ کوئی انگلی تک نا اٹھا سکے ۔ حیرت کی بات ہے حامد میر صاحب کے سامنے ایک سرکردہ خاتون سیاستدان کی مثال تھی جو اپنے پاس کئی خاص ویڈیو ہونے کا دعوی رکھتی تھیں مگر پھر جب واقفان حال نے صورتحال واضح کی تو وہ چپکی ہو رہیں مگر میر صاحب نے تمام تر تجربہ کے بعد وہی کھیل کھیلا ۔ وہ بھی ایک مشکوک شہرت رکھنے والے یو ٹیوبر کے کندھے پر ، یہ اس تمام معاملے کا پیچیدہ ترین پہلو ہے ۔ شدید تعجب ہے کہ حامد میر جیسا ذہین ، فطین اور ماہر صحافی اس سطح پر آگیا جیسے کوئی بھٹیارن اپنی کسی پڑوسن سے لڑ رہی ہو ۔ گھر کی خواتین کو اپنے طعن و تشنیع و الزام کا حصہ بنانا کبھی شرفا کا وطیرہ نہیں رہا اور صحافی الزام کب لگاتا ہے ۔ وہ تو رپورٹ کرتا ہے پورے ثبوت کے ساتھ ، یہ کبھی نہیں کہتا کہ اب میں یہ کروں گا ۔