ADVERTISEMENT
افغانستان ایک بار پھر جل اٹھنے کو ہے یہ میری خواہش نہیں بلکہ امڈتے ہوئے خدشات ہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے تھنک ٹینک جن کا زمین سے کوئی رابطہ نہیں امریکی فوج کے جانے کے بعد کے فارمولے پیش کررہے ہیں۔ ایک فارمولے کے مطابق کابل میں مسلم غیر ملکی فوج تعینات کی تجویز G 7 ممالک میں زیر بحث آئی سائڈ لائین پر ترکی سے مشورہ ہوا تو اس نے پاکستان کے ساتھ مل کر کابل ائیر پورٹ کی حفاظت کا ذمہ لینے میں دلچسپی ظاہر کی حیرت یہ ہے کہ اتنی زبردست انٹیلی جنس رکھنے والے ممالک کو اس تجویز کے منفی پہلو کا اندازہ نہیں۔ سوال یہ پے کہ کیا پاکستان اس پر تیار ہوجائے گا ؟ جواب ہے نہیں کیونکہ پاکستان کی اب پالیسی یہ ہے کہ وہ امن فوج میں تو شامل ہوسکتا ہے لیکن کسی کی لڑائی میں نہیں۔ دوسرا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا طالبان یہ تجویز قبول کر لیں گے اس سے قبل کپ کوئی ” تھینک ٹینک ” اس پر غور بھی کرتا طالبان کا دو ٹوک بیان آ گیا کہ ” سوچنا بھی نہیں بھائی ” طالبان نے ترکی کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج افغانستان میں برداشت نہیں کی جائے گی ۔۔۔۔۔تو یہ تجویز ناکام ہوگئی اگر اس پر ضد کی گئی تو اس فوج پر بھی حملے شروع ہوجائیں گے ۔
طالبان سے کتنے ہی اختلافات ہوں وہ افغانستان کی حقیقت ہیں
پاکستان نے انہیں دوحہ مذاکرات تک پہنچا کر بہت بڑا کام کیا لیکن اشرف غنی کی حکومت مستقل متضاد سگنل دے رہی ہے اور یہ امریکا کے لئے بھی خفت کی بات ہے ۔ اگر طالبان اور کابل کا حکمران مستقبل کے سیاسی نظام پر متفق نہیں ہوئے اور امریکا چلا گیا تو پھر خوں ریزی ہوگی۔پھر ہجرتیں ہوں گی اور پھر پاکستان دباو میں آئے گا
۔ایک بار پھر اڈے کسی کام کے نہیں ہونگے۔ افغان فوجی ذہنی طور پر طالبان سے پست ہیں مقابلے پر نہیں آنا چاہتے۔ لہذا راستہ صرف مستقبل کے نظام سیاست اور حکومت پر اتفاق کرنا ہے جس سے اشرف غنی بھاگ ریے ہیں