ادبی مجلہ ”قلم کی روشنی“اردوادب کی عظیم مصنفہ بانوقدسیہ مرحومہ کی زیرِسرپرستی منصہ شہود پرآیا۔اس کی بانی مدیررفعت خان مرحومہ تھیں جن کی وفات کے بعدجریدہ معروف افسانہ و ناول نگار محمود ظفراقبال ہاشمی کی زیرنگرانی اپنا ادبی سفرکامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔اس کی مجلس ِ ادارت میں خدیجہ عطا،فیض محمدشیخ اورکشف بلوچ شامل ہیں۔”قلم کی روشنی“ کاشمارہ نمبر 13 مشہور و معروف ادیب’ مستنصرحسین تارڑ نمبر ‘ہے۔تارڑ صاحب کثیرالتصانیف ادیب ہیں۔ان کی تحریر اورشخصیت کے گوناگوں پہلوہیں۔مستنصرحسین تارڑ کا ادبی سفر ایک سفر نامہ نگارکی حیثیت سے ہوا۔انہوں نے ناول،افسانے،کالم،ڈرامے اورخطوط لکھے،پی ٹی وی مارننگ شوکی برسوں میزبانی کی۔بے شمار ڈراموں میں اداکاری کے جوہردکھائے۔ٹی وی سے ’شادی آن لائن‘بھی کئی سال تک کیا۔اسی سال سے زائدعمرلگ بھگ ستتر تصانیف کے بعدبھی ان کاادبی سفر جاری ہے ۔مستنصرحسین تارڑ اردوکے ان چندادیبوں میں شامل ہیں،جن کی گزربسرکا تمام ترانحصار ان کی کتب کی آمدنی پرہے۔ان کی ایک کتاب ”پیارکاپہلاشہر“ کے پچھہترسے زیادہ ایڈیشنزشائع ہوچکے ہیں۔بقول تارڑ وہ صرف اسی ایک کتاب کی آمدنی پرگزاراکررہے ہیں۔ مستنصرحسین تارڑکا قلم آج بھی جولانی پرہے،اورہرسال ان کی دوتین کتابیں شائع ہوتی ہیں ۔ اور قارئین ان کی نئی کتاب کاانتظارکرتے ہیں۔
ایسے ہمہ جہت ادیب اوردانشور پر نمبر کی اشاعت ”قلم کی روشنی “ کا ایک بہت عمدہ اقدام ہے۔ اداریے میں محمودظفر اقبال ہاشمی لکھتے ہیں۔ ” ہمارے درمیان ایک انوکھاسیاح سانس لیتاہے۔وہ جب جب پہاڑوں کی طرف سفر اختیار کرتا ہے،ان کی چوٹیوں پراپنی انوکھی داستانیں لکھ آتاہے اورپہاڑوں سے لوٹتے ہوئے اپنی ساتھ وہاں کی انوکھی داستانیں لے آتاہے، انوکھے اسلوب میں کچھ ایسی پرتاثیرنثرہمیں سنا تا ہے کہ وہ داستانیں راگ پہاڑی کاکھینچا ہوا سُر لگنے لگتی ہیں۔جس طرح معروف گیت’باغوں میں پڑے جھولے‘ کی سحرانگیزی سے راگ پہاڑی کااصل حسن سمجھ میں آتاہے،اسی طرح نثرکی ایک اہم شاخ سفرنامے کا اُونچا سُر ایسے لطیف زیروبم اورلوچ کے ساتھ صرف مستنصر حسین تارڑ ہی کھینچ سکتاہے! زندگی میں جوایک کتاب بار بار پڑھی، وہ تارڑصاحب کی تخلیق ’پیار کا پہلا شہر‘ تھی، ہربارپڑھ کردل میں یہی خواہش ابھری کہ کبھی زندگی میں موقع ملاتواس عظیم مصنف کا دایاں ہاتھ عقیدت سے تھام کراپنی دونوں آنکھوں سے لگاؤں گاکہ میرے لیے پیار کا پہلا اور آخری شہر پیرس نہیں بلکہ آپ ہیں، آپ ہی سنان ہیں، آپ ہی پاسکل ہیں، میرے لیے آپ ہی شانزے لیزے کی گلیاں ہیں اور آپ ہی سحرانگیزدریائے سین ہیں! ۔
تارڑصاحب کی ’قلم کی روشنی‘ کے ساتھ ایک بہت خاص نسبت ہے، قلم کی روشنی کاہرتازہ شمارہ اب تک بروقت اس عظیم قلم کارکے پرفسوں لمس کا اعزاز پاتا رہا ہے، ان کی مہتابی نظریں اس ادبی مجلے اوراس کی تحریروں پربکھرتی رہی ہیں سو اس طرح قلم کی روشنی منور و معتبر ہوتا رہا ہے اور اس کے طفیل اس میں لکھنے والوں کی تحریریں اوران کے نام بھی دمکتے رہے ہیں۔ہم میں سے کسی کی اتنی اوقات یا مجال نہیں کہ تارڑ صاحب کے علمی اورادبی خدمات کے صلے میں انہیں کچھ لوٹاسکیں لیکن چونکہ ایک کام ہمارے بس میں تھا کہ ہم اپنے اس ہیروکے لیے قلم کی روشنی کاایک شمارہ مختص کرکے اپنی بے پایاں محبت اور عقیدت کا ادنیٰ سااظہارکریں چنانچہ یہ خصوصی شمارہ گلابوں،کلیوں،گ یندے کے عام سے گُلوں سے مزین ایک معمولی سا ہار ہم کانپتے ہاتھوں سے اپنے عظیم ہیروکے گلے میں پہنا نے اعزاز حاصل کر رہے ہیں۔اصل بات اور پیغام ان پھولوں کی ملی جلی مہک ہے۔“
عقیدت اورمحبت سے لبریز اس اداریے کی طرح ادبی جریدے نے مستنصرحسین تارڑ کے فن اورشخصیت پرایک شاندارگلدستہ سجایاہے جو قارئین کی بھرپورداد کامستحق ہے۔دو سو بیس صفحات کے اس خصوصی شمارے کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ان دس عنوانات کے تحت مستنصرحسین تارڑ کے فنی سفر اور شخصیت کا نچوڑ قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ پہلاحصہ مستنصرحسین تارڑ سوانح پر مشتمل ہے۔جس میں ہاجرہ عمران نے ”عمرگزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں“ کے عنوان سے ان کی تعلیم، ادبی سفر، محبت، سیاحت وکوہ پیمائی،ایوارڈز اورنظریہ فن کومختصرطور پرایسے پیش کیاہے کہ دس صفحہ کے مضمون کے ذریعے تارڑکی تمام زندگی سامنے آجاتی ہے۔مستنصرحسین تارڑ یکم مارچ 1939ء کو پیدا ہوئے۔تارڑصاحب کے ماموں نذیر حسین چیمہ نے ان کانام مستنصرحسین تارڑ رکھا جو عباسی خلیفہ مستنصر کے بہت بڑے فین تھے ۔ دادی کواتنامشکل نام یاد نہیں ہوتا تھا۔نام سیکھنے کے لیے تسبیح کے دانوں پرنام دہرایا کرتیں۔شایداسی تسبیح سے برکت کاسائبان تعمیرہوگیا کہ پھر ساری عمرمستنصرحسین تارڑ اس برکت کے سائے میں رہے اور انہیں عالم گیرشہرت ،عزت ،دولت ہرشے کثیربرکت کے ساتھ عطا ہو ئی۔
تارڑصاحب نے بچپن کادلچسپ واقعہ بیان کیا۔”گلی سے گزرنے والے بردہ فروش نے مجھے مٹھائی کھلائی اور مجھے اپنے شانوں پر بٹھا کر اغوا کر کے ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ حسن اتفاق سے اباجی کے دوست نے مجھے دیکھ لیا، بردہ فروش پکڑا گیا، اسے قلعہ گجرسنگھ تھانے اورمجھے گھرپہنچادیا۔“
تارڑ صاحب بچپن ہی سے مطالعے کے شوقین تھے اورچھوٹی عمرمیں بچوں کی کئی کہانیاں لکھ ڈالیں۔1957ءمیں ماسکو ورلڈ یوتھ فیسٹول میں شرکت کی۔ان کی شخصیت اس فیسٹول میں شرکت کے بعد ہی ابھر کرسامنے آئی۔ واپسی پر نوائے وقت میں پہلا سفرنامہ”لندن سے ماسکو تک“ لکھا۔اس کے بعد پہلا ناولٹ ”فاختہ“ تحریر کیا، وہ اب تک پچھہتر کے لگ بھک کتابیں لکھ چکے ہیں،جن میں سفرنامے ،ناول، ڈرامے، افسانے، کالمز کے مجموعے شامل ہیں۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات کوعوام سے متعارف کرانے میں تارڑ صاحب کابہت بڑا رول ہے۔ ملکی اسفار پر وہ بیس کے قریب سفرنامے تحریرکرچکے ہیں۔وہ کہتے ہیں۔”میں نے زندگی میں کوئی اورکام نہیں کیا، بس کتابیں لکھیں۔“
مستنصرحسین تارڑنے نہ صرف ٹی وی ڈرامے لکھے بلکہ کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی مگرپھراداکاری ترک کردی،ڈراموں میں ہیرو کے بجائے اصل زندگی کا ہیرو بننے کوترجیح دی اوربن کے دکھایا۔ آٹھ سال پی ٹی وی مارننگ شوکی میزبانی کرتے رہے۔ تارڑ صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ اداکار، قلم کار،ٹی وی میزبان، کالم نگار کے علاوہ سیاح اورسرگرم کوہ پیمابھی رہے ہیں۔
سوانح کے اسی حصے میں مستنصرحسین تارڑ کی کتابوں کی مکمل فہرست اور ان کی اشاعت کاسال دیا گیا ہے۔جن میں بتیس سفرنامے،تیرہ ناول،دوافسانوں کے مجموعے،پندرہ کالموں کے مجموعے،نوٹی وی سے نشرہونے والے ڈرامے اورایک محمدخالداختر،شفیق الرحمٰن اورکرنل محمدخان کے خطوط اوران کے خاکے اوردوان کی کتب کے انگریزی ترجمے شامل ہیں۔قلم کی روشنی میں دی گئی فہرست کی ان چوہتر کتابوں کے بعد تارڑصاحب کی تین اورکتب کالموں کامجموعہ”تارڑنامہ 7“ اوردوسفرنامے”صنم کدہ کمبوڈیا“ اور”ویت نام تیرے نام“بھی شائع ہوچکی ہیں اوران کی تعدادستترہوگئی ہے۔اسی حصے میں ’عمرِ رفتہ کابصری خاکہ‘میں مستنصرحسین تارڑکی بچپن سے جوانی ،شادی،اہل خانہ اوراحباب کے ساتھ نادرونایاب تصاویردی گئی ہیں۔
اس نمبر کے دوسرے حصے میں مستنصرحسین تارڑ کے بارے میں خصوصی مضامین شائع کیے گئے ہیں۔جس میں آٹھ مضامین شامل ہیں۔جن سے ان کی تصانیف کا نچوڑ قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔ ”پیار کا پہلا سفر۔مجمل تجزیہ“ معروف ادیب وشاعرجمیل احمدعدیل نے لکھاہے ۔”نکلے تیری تلاش میں کا آخری سے پہلا باب’اپاہج وینس‘ پیارکاپہلا شہر ثابت ہوا۔ آپ بیتی کی ایک شاخ یعنی سفر نامے کا جزو فکشن میں منقلب ہوکر سرفراز اس لیے ہو گیا کہ وی ایس نائپال کے مطابق’آپ بیتی مسخ کی جاسکتی ہے،حقائق بدلے جاسکتے ہیں لیکن فکشن کبھی جھوٹ نہیں بولتا، یہ ادیب کومکمل طور پر بے نقاب کر دیتا ہے۔‘ جیسے حسنِ بے پروانے اپنی بے نقابی کے لیے اپنی بے نقابی کے لیے بن کوشہروں پر ترجیح دی، اسی طرح تحریری اظہارکی مناسبت سے فن نے اپنے اصلی جوہر کو ظہور پذیر کرنے کے لیے فکشن کونان فکشن پر فوقیت دی۔ بطور نظیر مذکورہ دونوں متون کا تقابل ایک باقاعدہ مطالعہ سامنے لا سکتا ہے۔راقم کو ایک متبحر عالم، دانشور مستنصر اپنے نمائندہ پانچ ناولوں، بہاؤ، راکھ، اے غزال شب، خش و خاشاک زمانے اور منطق الطیر جدید کے اوراق میں ملے۔“
”بزبانِ تارڑ“ کے عنوان سے ظاہرشاہ نے تحقیق و جستجوکے ساتھ مصنف کی تحریروں سے اقتباسات دیے ہیں۔جن سے مستنصرحسین تارڑ تمام فنی سفر اور خیالات قارئین پر واضح ہوجاتے ہیں۔ تارڑ کہتے ہیں۔”میں نے کبھی اپنے کسی سفرکے دوران یہ نہیں سوچاکہ واپس آ کر سفرنا مہ لکھنا ہے۔میری پہلی ترجیح آوارہ گردی ہوتی ہے، سفرنامہ بعد میں آتا ہے۔ویسے سفرنامے کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ آپ کسی جگہ کے سفر کے دوران لطف اندوز ہوتے ہیں اورپھر جب اسے لکھا جاتا ہے تو دوبارہ اس کاتصورکرکے لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں میراسب سے خوبصورت تجربہ سفرحج کاتھا۔ میں غارِ حرامیں ایک رات کے نام سے اس تجربے کی روداد لکھی۔مجھے اس ایک رات کے تجربے کوبیان کر نے میں چھ ماہ لگ گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ چھ ماہ تک میں سفر میں رہا۔میرے شروع کی سفرناموں پرخاصے اعتراضات ہوتے رہے، اب کم ہورہے ہیں۔جہاں تک مبالغے کاتعلق ہے تویہ سمجھنا چاہیے کہ سفر نامہ نگار کوئی رپورٹر نہیں ہوتا۔“
مصنف کے ضخیم ناول”خش وخا شاک زمانے“ کا جائزہ اعجاز احمد نے لیا۔ وہ لکھتے ہیں۔”مستنصرحسین تارڑ عہدِ حاضر میں اردوادب کابڑا نام ہیں۔ وہ اس خطے میں داستان گوئی کی قدیم روایت کے سچے پیروکاروں میں سے ہیں بلکہ انہوں نے داستان گوئی کی قدیم روایت کو نئی بلندی سے روشناس کروایا۔ 2010ء میں خش وخاشاک زمانے لکھنے سے پہلے وہ اردو ادب کو”راکھ“ اور ”قربتِ مرگ میں محبت“ کے ساتھ ساتھ ”بہاؤ“ جیسے منفرد اور لازوال ناول دے چکے تھے۔’خس وخاشاک زمانے‘ نہ صرف ان کے چالیس سالہ ادبی سفر کان چور ہے بلکہ یہ ان کے اندر بسے ایک قدیم داستان گو کی وسیع المشربی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اردوادب میں تاریخی اشکالات، لامتناہی کرداروں، تہذیبی توڑپھوڑ اور مہاوقتی بیانیے کا جو اسٹینڈرڈ قرة العین حیدرنے ”آگ کادریا‘ ‘میں سیٹ کیاتھانصف صدی بعد’خس و خاشاک زمانے ‘ نے اس کو ایک نئی جہت دی ہے۔دوسرے حصے میں میٹافکشن کا استعمال غلام باغ کی یاد دلاتاہے جہاں مرزا اطہربیگ نے کبیر کے رجسٹرکے ذریعے کہانی کو آگے بڑھانے کی منفرد تکینیک استعمال کی ہے۔ اس ناول میں تارڑا یک الگ رنگ و روپ اور اپنی فکرکی بلندی پر نظر آتے ہیں ۔’خس وخاشاک زمانے‘ اردوادب میں ایک ایسی بلندسطح ہے جس پرپہنچنے کے لیے تارڑ جیسے ہمہ جہت ادیب کو چالیس سال لگے اوراس بلند سطح کی برابری کے لیے اردوادب میں کسی نئے آدم کوپیداہوناہو گا یا اردو ادب کو ایک نیا آدم تخلیق کرناہوگاجوخس وخاشاک زمانے میں موجود آدمیت کے بیانیے کومزیدگہرائی اورگیرائی کے ساتھ دنیاکے سامنے پیش کرسکے۔“
”محبت آخری بستی“ سارااحمد نے لکھتی ہیں۔”نامورمصنف کے بارے میں پوری دنیاجانتی ہے،لاتعدادپُرتحیرسفرنامے اورشاہکارناول دنیا ئے ادب کی جھولی میں ڈالنے والے یہ مایہ نازادیب سحرانگیزشخصیت کے مالک ہیں،نگرنگرگھومنے والے فسوں کارکاتصورخواب آگیں ہے، وہ جب اپنے سامنے پھیلی ہوئی وسیع دنیاکادامن اپنی آنکھوں سے کھینچ کراپنی لکھنے کی میزپربیٹھتے ہوں گے،ہاتھ میں قلم تھام کرتمہیدباندھتے ہوں گے تولفط یقینا دم سادھے اپنی باری کے منتظررہتے ہوں گے۔لیکن بقول تارڑصاحب تخلیقی واردات کوقلم بندکرنے کے لیے ماحول بنانے کی ضرورت نہیں ،میں نے اپنی دکان میں پڑی بیجوں کی بوریوں پربیٹھ کربھی لکھا،اگرآپ میں لکھنے کی تڑپ ہے توکوئی مشکل نہیں ورنہ آپ نتھیاگلی میں بھی نہیں لکھ سکتے۔“
شمالی علاقہ جات کے سفرنامے ”یاک سرائے“ کاتجزیہ رحمان شاہ نے کیاخوب کیاہے۔”تارڑصاحب کی کتاب ’یاک سرائے‘ پڑھنے کے بعد آپ عشق کی ایک ایسی سچی کہانی سے آشناہوتے ہیں جسکے عاشق نے قیس وفرہادکوپیچھے چھوڑدیا،جی ہاں بشام سے نکلتے ہی شانگلاپا س کواٹھتی ہوئی تنگ درہ نماسڑک کے ذراآگے،سندھ جہاں سے گہرائی میں پارے کی ایک ندی کی طرح چمکتاتھا وہاں اس عشق کی کہانی آپ پرآشکارہوتی ہے۔اوراس کہانی کی علامت ایک روڈ ہے۔عاشق روڈ۔“
تارڑصاحب کے انتہائی عقیدت اورمحبت سے لکھی کتاب”منہ ول کعبہ شریف“ پرمضمون ناہیداختربلوچ نے لکھاہے۔”محبت کے طاق پر جلتے سچی عقیدت کے چراغ کی لوتلے لکھے گئےایک سفرنامہ عشق کااحوال جوآئندہ آنے والی کئی صدیوں تلک منہ ول کعبے شریف کرنے والوں کی رہنمائی کرتارہے گا،جودل کے کواڑوں پرلگے زنگ آلودتالوںکوکھولنے کاکٹھن کام انجام نہایت آسانی سے کرتارہے گا،جوسفرِ حج پرجانے والوں کے لیے کسی تربیتی پروگرام سے کم نہیں۔ڈاکٹرعلی شریعتی اپنی کتاب ’حج‘ میں بیان کرتے ہیں’حج محض عرفات میں مکمل نہیں ہوتا،ادھورارہتاہے۔حج تودراصل تب شروع ہوتاہے جب آپ اپنے وطن واپس جاتے ہیں اوراپنے لوگوں کواپنے حج کے تجربے میں شریک کرتے ہیں۔نہ شریک کریں توحج ادھورارہتاہے۔تارڑصاحب نے بھی اپنے حج کومکمل کرنے کے لیے یہ سفرنامہ حج تحریرکیاہے ۔’منہ ول کعبہ شریف‘ منزل نہیں صرف پڑاو¿ ہے۔اس سے آگے کوکئی راستے نکلتے ہیں جن میں سے ایک راستہ’غارِحرامیں ایک رات‘تک لے جاتاہے۔جس نے منہ ول کعبہ شریف کرلیا،وہ غارِحرامیں ایک رات تک بھی ضرورپہنچے گا۔انشااللہ۔ “
گل ارباب کے مضمون کادلچسپ عنوان ”مسی روٹی،گڑکاپتیسہ ا ورتارڑصاحب“ہے۔مِسی روٹی پیزاکی قدیم شکل ہے جس پردیسی گھی لگایا جاتاتھااس میں مرچیں تیزہوتی ہیں تواس کے ساتھ گڑکاپتیسہ بھی ضروربنتاہے۔مِسی روٹی اورمونگ پھلی والے گڑکے پتیسے کالطف وہی جا نتے ہیں جنہوں نے کھایاہے۔گل ارباب اس مزے کوتارڑ صاحب سے ملاتے ہوئے لکھتی ہیں۔”ہواکچھ یوں کہ ایک سہیلی نے ابن انشا کے ایک ہلکے پھلکے سفرنامے’چلتے ہوتوچین کوچلیے‘ کاذکرکیاتومیں نے اپنی جمع پونجی اکٹھی کرکے بھائی کودی اورکتاب لانے کوکہا،مگروہ تارڑ صاحب کاسفرنامہ لے آیا۔میں اعتراض کیاتوبولاکہ بک شاپ والے کواتناہی کہاکہ بھائی سفرنامہ دے دیں۔اس نے کاغذپرنام دیکھے بغیر ’نکلے تیری تلاش میں‘ نکال کرپکڑادیااورکہاسفرنامے پہلے بکتے ہی نہیں تھے،پھرتارڑ صاحب کاسفرنامہ آیااوران کوبلندیوں کے سفرپرساتھ لے گیا۔بے دلی سے مطالعہ شروع کیاوہ کتاب اوربعد والی تارڑ صاحب کی ساری کتابیں میرے لیے مِسی روٹی اورگڑکے پتیسے جیسی پر لطف اورپرمزہ ہوگئیں۔“
جبکہ طارق عزیز نے ”کہاں میں کہاں یہ مقام “ میں مستنصرحسین تارڑ سے پہلی ملاقات اورپھربہت سے ملاقاتوںکااحوال رقم کیاہے۔نمبر کے تیسرے سیکشن میں بانوقدسیہ کی وفات پرلکھے مستنصرحسین تارڑکے تاثر دوتاثراتی مضامین ہیں۔چوتھے میں تارڑصاحب کی دونثری نظمیں اورپانچویں حصے میں ان کاشاہکارافسانہ”مکوڑے،دھک مکوڑے‘ کوشامل کیاگیاہے۔چھٹے حصے میں کشف بلوچ نے تارڑصاحب نثرکابے مثال انتخاب کیاہے۔ساتواں حصہ اقبال خورشید کاکیامستنصرحسین تارڑ کے انٹرویوکوجگہ دی گئی ہے۔آٹھویں حصے میں شاعروں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیاہے۔جبکہ آخری دوحصے مستنصرحسین تارڑکودیے اوران کے دوسروں کودیے آٹوگرافس کاانتخاب شامل کیاگیا ہے۔بیک ورق پرمستنصرحسین تارڑکے قلم سے لکھے کچھ اقوالِ زریں درج ہیں۔”رب کے سامنے جھکنے والاسرسب سے سربلندہوتاہے۔“ ،”کسی کوجان لیناکسی کی جان لینے سے بہترہے۔“ ،”ستارے اوردوست ایک جیسے ہوتے ہیں،چاہے کتنے کی طویل فاصلوں پرہوں ان کی روشنی آپ تک پہنچتی رہے گی۔“،” ندی کے پانی اورآنکھ کے پانی میں صرف جذبات کافرق ہے۔“۔” تعلیم دراصل آہستہ آہستہ اپنی جہالت کوجان لینے کانام ہے۔“،”اگرتم پردنیاہنستی ہے تودنیا پرہنسوکہ اس کی شکل بھی تم جیسی ہی ہے۔“
غرض ”قلم کی روشنی“کامستنصرحسین تارڑنمبران کے فن اورشخصیت پرایک بھرپوردستاویز ہے۔جس میں ان کی زندگی کانچوڑقارئین کے سامنے آجاتاہے۔بہترین شمارے پرادبی مجلہ کی پوری ٹیم مبارک باد کے حقدارہے۔ایسے مزیدخصوصی شماروں کاانتظاررہے گا۔