اپوزیشن کی ایک اور اے پی سی اپنے اختتام کو پہنچی۔ 2018 میں تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی یہ چھٹی آل پارٹیز کانفرنس تھی۔ گزشتہ پانچ کانفرنسوں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو انھوں نے حزب اختلاف کی صفوں میں موجود انتشار کو واضح کرنے اور حکومت کے پاوں مضبوط کرنے کے علاوہ ملکی سیاست پر کوئی قابل ذکر تاثر نہیں چھوڑا۔ مختلف جماعتوں کے الگ الگ حکمت عملی پر اصرار کے نتیجے میں حزب اختلاف کے اندر گہری خلیج کے تاثر کو تقویت مل رہی ہے۔
اتوار کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اپنے نتائج کے اعتبار سے کتنی مختلف ہے، اس کا اندازہ تو کانفرنس کے بعد حزب اختلاف کی حکمت عملی اور تحرک کی نوعیت سے ہوگا، تاہم نواز شریف نے اپنی جچی تلی مگر جارحانہ تقریر کے ساتھ سیاست کے افق پر نئی انٹری ڈال کر اس کانفرنس کو گزشتہ پانچ اجتماعات سے ممتاز بنا دیا ہے۔
اگرچہ اکثر تجزیے فطری طور پر نواز شریف کی تقریر کے نکات ہی کے گرد گھوم رہے ہیں تاہم ہمیشہ کی طرح جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی گفتگو بھی کچھ کم اہم نہیں تھی۔ بیس اکیس منٹ پر مشتمل مولانا کی گفتگو میں جہاں پی ٹی آئی حکومت اور اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا وہیں پاکستان میں دینی جماعتوں کی سیاست کے حال اور مخدوش مستقبل کی نشاندہی بھی کی گئی۔
تقریر کے ابتدائی حصے میں مولانا نے انکشاف کیا کہ 2018 کے الیکشن کے بعد ذمہ دار حلقوں کی جانب سے انھیں یہ باور کروایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں مذہبی ووٹ کی فیصلہ کن حیثیت توڑنے کے لیے مختلف این جی اوز کے ذریعے پندرہ سال تک محنت کی گئی۔ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عمران خان سے زیادہ موزوں فرد کوئی نہیں ہوسکتا تھا چنانچہ یہ صوبہ مسلسل دوسری مدت کے لیے انہی کے حوالے کیا گیا۔
دو ہزار چھے سات کے بعد سے مذہبی سیاست کے حالات کا جائزہ لیں تو مولانا کے اس الزام کے وزن سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ 2007 کی وکلا تحریک میں دینی جماعتوں کے بھرپور کردار کے باجود ان جماعتوں کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرکے دراڑ ڈالی گئی۔ اصول پسندی کے نام پر جماعت اسلامی سے 2008 کے انتخابات میں بائیکاٹ کا کلہاڑا چلوا کر ایک جانب مولانا فضل الرحمن کے پر کتر دیئے گئے اور دوسری جانب خود جماعت اسلامی کو آئندہ پانچ سال کے لیے ملکی منظر نامے میں غیر متعلق کر دیا گیا۔
2013 کے الیکشن میں مذہبی جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں اتریں۔ انتخابی نتائج نے مین سٹریم مذہبی جماعتوں کو خیبر پختونخوا کے دوردراز سرحدی علاقوں تک محدود کردیا۔ 2018 میں اگرچہ دینی جماعتیں متحد ہوکر انتخابی عمل میں شریک ہوئیں تاہم اس بار یہ اتحاد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی کوئی قابل ذکر تاثر چھوڑنے میں ناکام رہا۔ یوں مذہبی سیاسی جماعتوں کو اس قدر دیوار سے لگا دیا گیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے باوجود وہ قانون سازی کروانے یا روکنے کے لیے موثر لابنگ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ محمد آصف جیسے ارکان اسمبلی فلور پر تقریر کرتے ہوئے مندر کی حمایت کے نام پر اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ تمام مذاہب کو برابر قرار دے ڈالتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے ارکان اس پر صدائے احتجاج بلند کریں تو انھیں قیام پاکستان کا مخالف اور قائداعظم کو کافر قرار دینے جیسے گھسے پٹے اور بے وقعت الزامات کے نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے۔
مولانا نے اپنی تقریر میں بجا طور پر گلہ کیا کہ وہ ملک کے مذہبی طبقے کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں تو انھیں مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ آئین میں موجود اسلامی شقوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ مسلسل جاری ہے اور اگر اس پر صدائے احتجاج بلند کی جائے تو الزام لگایا جاتا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ اگر قوم پرست رہنما اپنی قوم اور علاقے کے حقوق کے نام پر قومیت کارڈ کھیل سکتے ہیں تو پاکستان کے اسلامی تشخص اور مذہبی طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے مذہبی کارڈ کیوں نہیں کھیلا جا سکتا؟
اے پی سی میں ایک افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ باقی تمام قائدین کی تقاریر کو تو باہتمام سوشل میڈیا کے ذریعے لائیو چلایا گیا مگر چونکہ منتظمین کو یہ اندازہ تھا کہ مولانا اسٹیبلشمنٹ پر بے رحمانہ تنقید کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاست کے حوالے سے بھی بات کریں گے، چنانچہ ان کی تقریر کو لائیو جانے سے ہی روک دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور قوم پرست جماعتیں تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود مذہبی سیاست کو دیس نکالا دینے کے ایجنڈے پر دل و جان سے یکسو ہیں۔ جماعت اسلامی تو فی الحال قومی دھارے سے ویسے ہی غائب ہے، مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ پاوں بھی ان کے اپنے اتحادیوں نے باندھ رکھے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ان کے جارحانہ رویے اور سیاسی عمل میں اداروں کی مداخلت پر غیرمعذرت خواہانہ موقف کے باوجود اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں کے جانب سے زبانی جمع خرچ کے سوا مولانا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ جماعتیں خوفزدہ ہیں کہ ایک حد سے زیادہ مولانا کی حمایت ملکی و غیرملکی اشرافیہ کے نظر میں ان جماعتوں کے غیرمذہبی تاثر کو خراب کرے گی جس کے نتیجے میں اقتدار کی راہداری سے دوری کا وقفہ مزید طویل ہو سکتا ہے۔
ان حوصلہ شکن حالات میں تمام مذہبی سیاسی جماعتوں، بالخصوص مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ اپنے مثبت تشخص کی بقا، ایوانوں کے اندر عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ نظریاتی جدوجہد اور ملک کے ہر خطے میں اپنی شناخت زندہ رکھنے کے لیے انھیں اپنی حکمت عملی میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مولانا اگر یونہی اپوزیشن جماعتوں کی بے مقصد وقت گزاری کے بیچ دھوکہ کھاتے رہے تو یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ اگلے انتخابات تک دینی جماعتیں عزت سادات بالکل ہی گنوا بیٹھیں۔