حسین احمدشیرازی فیڈرل بورڈآف ریونیوکے ڈائریکٹرجنرل کے عہدے سے 2006ء میں ریٹائرہوئے۔ریٹائرمنٹ کے بعدوکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ایک ایسے دورمیں جب مشتاق احمدیوسفی،ابن انشا،شفیق الرحمٰن،محمدخالداختر،کرنل محمد خان اوربھارت کے مجتبیٰ حسین انتقال کے بعداردوادب میں نثری مزاح کاشعبہ ویران ہوچلاہے۔ شعری مزاح کاحسن انورمسعود،خالدمسعود، سرفرازشاہد اور ڈاکٹر انعام الحق جاویدکی موجودگی میں پوری توانائی سے برقرارہے۔ حسین احمدشیرازی نے طنزومزاح لکھنے کاآغازکیا،توقارئین نے ان کی تحریروں کا خیر مقدم کیا اوران کی پہلی کتاب”بابونگر” نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے اوراس کے اب تک چارایڈیشنزشائع ہوچکے ہیں۔
بابونگرکے بے پناہ کامیابی کے بعد حسین احمدشیزاری قارئین کے لیے ”دعوتِ شیراز” لے کرآئے ہیں،دوسری کتاب کی اشاعت سے انہوں نے خودکو مستندمزاح نگار ثابت کردیاہے۔شاہد ظہیرسید،اشفاق احمدورک اور حسین احمدشیرازی اردوکے نثری مزا حیہ ادب کامستقبل ہیں۔
شاعر،کالم نگار،مزاح نگارعطاالحق قاسمی لکھتے ہیں۔”مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں حسین شیرازی کے بارے میں کیالکھوں۔کاش آپ نے ان کی خوش رنگ تحریریں پڑھنے کے علاوہ ان سے ملنے کی خوش گوارنعمت بھی حاصل کی ہوتی،مگرمیں یہاں صرف ان کی نئی کتاب کے بارے میں چندسطریں لکھ رہاہوں جوان کی مایہ نازتصنیف ”بابونگر” کے بعداس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
جب میں نے یہ کتاب پڑھنے کا ارادہ کیاتومیرے ذہن میں یہ تعصب تھاکہ ”بابونگر”سے آگے کی چیز اب وہ کہاں لکھ پائیں گے،مگرجب میں نے مطالعہ شروع کیاتومجھے محسوس ہواکہ نقشِ دوم، نقشِ اول سے دوقدم آگے ہے۔حسین شیرازی کی تحریرآپ کوقہقہہ بھی دیتی ہے مگرکم کم،البتہ چہرے کی مسکراہٹ اور سوچ کی لہروں میں کمی نہیں آنے دیتی۔وہ محفل میں بہت کم گفتگوکرتے ہیں،مگرانہیں پڑھتے ہوئے لگتاہے کہ وہ لکھ نہیں رہے،اعلیٰ ذوق کے حامل بے تکلفانہ دوستوں کی محفل میں بیٹھے انہیں اپنی زندگی کے شنیدہ ودیدہ واقعات سنارہے ہیںاوران لمحوں میں جی چاہتاہے کہ یہ طوطی خوش بیاں بولتاجائے اورہم سنتے جائیں! میں کون ہوتاہوںکہ حسین شیرازی کی اس اعلیٰ درجے کی خوش بیانی پرانہیں داددوں،میں دعا ہی کرسکتاہوں کہوہ ہم کم نصیبوں کے نصیب میں اپنی تحریریں دان کرتے رہیں۔حسین شیرازی ایسے شگفتہ نگارادیب اگرہمارے درمیان نہ ہوتے توہمیں یہ زندگی کتنی کٹھن محسوس ہوتی۔”
”بابونگر” کی مانندجاویداقبال اورعادل محمود کے کارٹونوں نے ”دعوتِ شیراز” کالطف بھی دوبالا کیاہے۔اس کادلچسپ سرورق بھی ایسے ہی کارٹونزسے آراستہ ہے۔ملک کے مایہ نازسائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیرخان کاکہناہے ۔” میرے شیرازی بھائی سے تقریباً چالیس برسوں سے تعلقات ہیں۔جب ہم نے ایٹم بم بنانے کاکام شروع کیاتوشیرازی بھائی اسلام آبادایئرپورٹ پرکسٹم آفیسرتھے۔میں ان سے جاکرملااور بتایاکہ ہماراپروجیکٹ بہت اہم ہے اورڈیفنس کے زیرِ سایہ کام کررہے ہیں۔ہمارا بہت ساسامان بذریعہ ہوائی جہازآیاکرگے اورآپ سے درخواست ہے کہ فوراً اس کی کلیئرنس کرادیاکریں۔انھوں نے نہایت پھرتی اورہنرمندی سے اس کابندوبست کردیا اوراس طرح ہمارے ایٹمی پروگرام میں ان کی خدمات نہایت قابلِ تحسین ہیں۔ا
علیٰ سرکاری عہدیدارکے علاوہ شیرازی بھائی اعلیٰ ادیب ہیں۔ان کی کتاب بابو نگربیسٹ سیلرہے،کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔مزیدارچٹکلوں سے بھری یہ کتاب پڑھنے کے قابل ہے اوراب یہ” دعوت شیراز”نہایت دلچسپ مزاحیہ مضامین ایک قابلِ تحسین کتاب ہے اس میں پچیس اعلیٰ مزاحیہ مضامین ہیں۔”
ڈاکٹررؤف پاریکھ کاکہناہے۔”شیرازی صاحب کے مزاح کی نمایاں خصوصیات میں ان کازبان پرعبور،ذوقِ شعری اورایک فطری حسِ مزا ح بھی ہے جوہموارمیں بھی ناہموری اورناگوارمیں بھی خوش گواریت کے کچھ پہلوتلاش کرلیتی ہے اوریہی کسی مزاح نگارکی سب سے عزیز متا ع ہوتی ہے،بقول سرخیلِ قبیلہ مزاح نگاراں مشتاق احمدیوسفی ،حسَ مزاح ہی انسان کی چھٹی حس ہے اوراگریہ حس پاس ہوتوانسان ہرمشکل سے ہنستاکھیلتاگزرجاتاہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کالج کے کھلنڈرے پن کے ساتھ اس دورکی ناگفتہ بہ حماقتیں اوران کاملبہ ہویاہمارے اسپتالوںکی قابلِ رحم اورناقابلِ علاج حالتِ زار،میاں بیوی کے رشتے کی نزاکتیں ہوں کاسرکاری ملازمت کاخارزار،شیرازی صاحب ان سب سے یوں ہنستے کھیلتے گزرجاتے ہیں جیسے کچھ ہواہی نہ ہو،اگرچہ اس عمل میں بقول شاعر،سیروںلہوخشک ہوتاہے تب کہیں جاکرایک مصرع ترکی صورت نظرآتی ہے۔لیکن لکھنے والے کاکمال یہ ہے کہ بڑی بے ساختگی اورروانی سے قاری کواپنے احساسات میں شریک کرلیا ہے۔ناگوارحالات وواقعات یابے لطف مشاہدات کوایک لطیف اندازاورخوب صورت زبان کے ساتھ لطف لے لے پیش کرناقاری کے لیے ذریعہ انبساط بھی ہے اورزندگی آموزبھی۔”
سنگ میل نے ”دعوت ِ شیراز” کوبہت عمدہ سفیدکاغذپربہترین کتاب اورعمدہ سرورق کے ساتھ شائع کیاہے۔دوسوبہترصفحات کی کتا ب کی آٹھ سوروپے قیمت بھی مناسب ہے۔کتاب میں پچیس دلچسپ مضامین ہیں۔جن کالطف جاویداقبال اورعادل محمودمضامین کے موضوع کے مطابق بنائے کارٹونز نے دوبالاکردیاہے۔
مزاح نگار،خاکہ نگاراورکالم نگارڈاکٹراشفاق احمدورک لکھتے ہیں۔”شیرازی صاحب سے تعلق اورتعارف کی اصل اورمعقول وجہ ان کی مایہ نازتصنیف”بابونگر”تھی،جوانھوں نے اپنی بے پناہ ملازمت بلکہ قابلِ رشک افسری سے سبک دوشی اختیارکرکے کئی برس کی ریاضت،مشاہد ے اورمجاہدے کے بل بوتے پرمکمل کی تھی۔یہی وجہ ہے کہ میرے ذہن ودل میں ان کاامیج ایک روایتی بیوروکریٹ کانہیں بلکہ ایک عظیم” بیوروگریٹ” کاہے۔میں سمجھتاہوں کہ یہ کتاب اپنے شگفتہ ادبی وقارکے ساتھ ساتھ وطنِ عزیزکی تاریخ ایک نہایت اہم سیاسی،معاشرتی اور اخلاقی دستاویزبھی ہے،جس پہ ابھی تک اس اندازسے توجہ نہیں کی گئی۔اس کتاب کے ٹھیک آٹھ سال بعدجناب حسین احمدشیرازی اپنے نئے نکورمجموعے”دعوتِ شیراز” کے ساتھ ادبی منظرنامے پردستک دے رہے ہیں۔
شیرازی صاحب اپنی تحریروں میں طنزومزاح ،چھیڑ چھاڑ اورشگفتگی ولطافت کے جملہ ہتھیاروں کے ہمراہ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔خوب صورت اشعار،دل چسپ واقعات،انوکھے تجربات،ہلکی پھلکی تحریفات،لفظی چھیڑچھاڑاوراچھوتے لطائف سے بھی وہ اپنے موقف کومسلسل مضبوط ومربوط کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ میرے نزد یک موجودہ معاشرے میں زندہ دل ہونا،شایدزندہ ہونے سے بھی زیادہ اہم اورضروری ہے۔یہ تصنیف بھی دراصل معاشرے کے رِستے ہوئے ناسوروں کی جانب ایک اصلاح طلب مسکراہٹ،زندگی کے نشیب وفرازپرایک شوخ نظراورانسانی کمزوریوں، لاچاریوں ،منہ زوریوں،چالاکیوں اورافراتفریوں پرایک دلبرانہ قہقہہ کادرجہ رکھتی ہے۔”
”عرضِ مصنف ” میں حسین احمدشیرازی نے کیافکرانگیزبات کہی ہے۔”اس دنیامیں سب سے مہذب صداہنسی اورقہقہے کی ہے۔آپ کی اصل زندگی تووہی لمحات ہیں جن میں آپ مطمئن اورمسرورہیں ورنہ باقی توموت کاانتظارہے۔اسی لیے کہاگیاہے کہ کبھی اپنے چہرے سے دکھ کوظاہرمت ہونے دو کیونکہ اس سے دوست غمگین اوردشمن خوش ہوتے ہیں۔کتنی تلخ حقیقت ہے کہ اگرآپ ہنستے ہیں تولوگ بھی آپ کے ساتھ مسکراتے ہیں لیکن اگرآپ روتے ہیں تویہ بوجھ آپ کواکیلے ہی اٹھاناپڑتاہے۔طنزومزاح لکھنے والوں کامسئلہ یہ ہے کہ اگرلوگ ان کی تحریروں پرنہ ہنسیں توان پرہنسناشروع ہوجاتے ہیں۔”
”دعوتِ شیراز” کاپہلامضمون”بورکے لڈو”ہے۔عنوان ہی سے ظاہرہے کہ شادی جسے وہ بورکالڈوکہاجاتاہے جسے کھانے والابھی پچھتائے اور نہ کھانے والابھی۔ ع ”ناکامی ”عقد” یا کامیابی۔۔دونوں کاحاصل خانہ خرابی۔۔سقراط سے کسی نے پوچھا کہ مردکوشادی کرنی چاہیے یانہیں تواس نے جواب دیاکہ جوچاہوکرلو،بالآخرپچھتاؤگے۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے چنانچہ اس سانچے سے نکلاہوا پروڈکٹ کیسے سیدھا ہوسکتاتھا!نصف بہترکوجوروکہتے ہیں جبکہ جورکے معنی ظلم کے لیں۔اس طرح جوروکی توبنیادہی جفااورستم پرہے۔تاریخ کی کتابیں قاتل قابیل اوراقلیماکی پرمسرت ازدواجی زندگی کے تذکرے سے یکسرخالی ہیں۔یعنی یہ قتل بھی کوئی گناہِ بے لذت ہی ثابت ہوا ۔ہاں اس بارے میں عادل شہنشاہ جہانگیرعرف شیخوکی مثال دی جاسکتی ہے جس نے شیرافگن کوقتل کرواکے اس کی زوجہ نورجہاں سے نہ صرف شادی بلکہ اس کے اپنے بقول چندکباب اورچارپیالے شراب کے عوض پوری مغلیہ سلطنت اس کے قدموں میں رکھ دی تھی۔”
اس مضمون کی ابتدامیں مصنف نے شعرمیں معمولی تحریف اورپھر بات سے بات نکالنے اورتاریخی واقعات کومضحک انداز میں استعمال کر کے مزاح پیداکرنے کااسلوب اختیارکیاہے۔واقعات کے بیان میں شاعرانہ تلمیح کالطف بھی آتاہے اورحسین شیرازی کے کثیرالمطالعہ ہو نے کاعلم بھی ۔اس کے ساتھ شیرازی صاحب لطائف بیان کرتے ہوئے قاری کومسکرانے پرمجبورکردیتے ہیں ۔جیسے” بیٹے نے با پ سے پو چھا کہ آپ کی شادی کس عمرمیں ہوئی تھی توباپ نے جواب دیاکہ بیٹاعمرکاکیابتاؤںالبتہ اتنایاد ہے کہ ابھی عقل نہیں آئی تھی۔اسی طرح ایک اوربچے نے استفسارکیاکہ اباجی کیاگدھے بھی بیاہ کرتے ہیںتووالدصاحب روہانسے لہجے میں گویاہوئے کہ برخوردارگدھے ہی توبیاہ کرتے ہیں۔جب یہ کہاگیاکہ اگرلوگ فہم وفراست سے کام لیں توطلاقیں نہ ہوں توکسی نے تبصرہ کیاکہ اگریہ عمل پہلے ہی کرلیاجائے توشادیاں ہی نہ ہوں۔شادی کے بعدسسرنے داماد سے پوچھاکہ بیٹااگرہماراتعلق غریب،کم تعلیم یافتہ اورمعاشرے کے غیرموثرطبقے سے ہوتاتوکیاتم پھر بھی ہماری بیٹی سے شادی کرلیتے؟ اثبات میں جواب ملنے پروہ پکاراٹھا: بیگم مبارک ہو! خاندان میں ایک اوربدھوشامل ہوگیاہے۔”
غرض پورے مضمون میں شادی کے مختلف مضحکہ خیزپہلوؤں کوبہت دلچسپ اندازمیں بیان کیاگیاہے اوراس کے ساتھ جگہ جگہ موجودکارٹون سونے پرسہاگہ ثابت ہوتے ہیں۔بڑھاپے کے مسائل کاپرلطف بیان”بڑھاپا،بزرگی اوراپینڈکس”میں پیش کیاگیا ہے۔”ہم اپنے دوست شوکت بٹ کے اس فلسفے سے قطعی متفق نہیں ہیں کہ انسانی زندگی میں بڑھاپاجسم میں موجوداپینڈکس کی طرح بالکل فالتواور بیکار چیز ہے کیو نکہ اس میں خوبی توکوئی نہیںالبتہ اس کی خرابی جان لیوابھی ثابت ہوسکتی ہے۔ایک نقطہ نظرسے انسانی زندگی بچپن،لڑکپن،جوانی، بڑھاپا اورپھربچپن کی طرف سفرکانام ہے بلکہ بڑھاپے کے بعد والے بچپن میں چارسال،تین سال،دوسال اورپھرایک سال عمروالی اسٹیج بھی آجاتی ہے جب انسان کھانے پینے سے لے کردیگرتمام طبعی وظائف کے لیے دوسروں محتاج ہوجاتاہے۔کہاجاتاہے کہ کسی عقل مندبوڑ ھے کی موت ایک اچھی لائبریری کے خاکسترہونے کے مترادف ہے لیکن اس کہاوت میں زورعقل مند پرہے۔بعض بوڑھے لوگوں کیلئے یاد داشت کاضعف سب سے بڑاعذاب ہوتاہے۔وہ موبائل فون کاپاس ورڈبھول جاتے ہیں۔اسے بروقت استعمال کے لیے کاغذپرلکھتے ہیں ،تووہ ورق کھوجاتاہے۔اس کاغذکوپرس میں محفوظ کرتے ہیں توپرس گم جاتاہے۔اگرپرس اورکاغذدونوں مل جائیں توموبائل کسی ٹیکسی یا رکشے میں رہ گیاہوتاہے بلکہ کئی دفعہ جیب میں پڑاموبائل ڈھونڈنے یہ دوستوں کے گھروں کاچکربھی لگالیتے ہیں جبکہ وہاں پہنچ کرانھیں یاد نہیں آتاکہ وہ اس جگہ کیوں آئے ہیں۔پھرموبائل مل بھی جائے تواس شخص کانام بھول جاتے ہیںجس کوفون کرناتھا،گاڑی میں بیٹھ کرکوئی چیزیادآئے توبلڈنگ کی تین سیڑھیاں چڑھ کراپنے فلیٹ میں آتے ہیں لیکن بیڈروم کی الماری کھولنے تک انھیں یادنہیں رہتاکہ وہاں سے کیا نکالناہے۔اس پرمستزاد،لوگ ان کی بے چارگی پرلطیفے بنالیتے ہیں ۔ایک بابے سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تووہ سسکیاںبھرتے ہوئے بو لے کہ جس بے وفاخاتون کوبھولناچاہتاہوں،اس کانام یادنہیں آرہا۔”
احمدحسین شیرازی طنزومزاح کے پردے میںقارئین کو بہت بڑے پیغام دیتے ہیں۔ان کااسلوب بہت سادہ ،دلنشین اورپراثرہے اور زبان پر انہیں پوراعبورہے۔بعض جگہ وہ لفظ،جملے یامصرع میں معمولی تحریف سے بات کوکہیں کاکہیں پہنچادیتے ہیں۔جوایک اچھے مزاح نگارکی علامت ہے۔عرض مصنف میں انہوں نے لکھاہے۔”ہماری تاریخ کاایک بڑا سانحہ ہلاکوخاں کے ہاتھوں بغدادکی تباہی تھا۔مورخ بتاتے ہیں کہ جب اس نے حملہ کیاتھاتوبغداد شہرکی بیشترآبادی جن تین مناظروں میں مصروف تھی ان کے موضوع تھے:سوئی کی نوک پرکتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟مسواک بالشت برابریاکم بھی ہوسکتی ہے؟کواحرام ہے یاحلال ہے؟ اسی طرح صلاح الدین ایوبی نے جب قسطنطنیہ فتح کیا تو شہرکابیشترحصہ خالی تھاکیونکہ اس کے مکین ایک مناظرے میں شریک تھے جہاں بحث ہورہی تھی کہ یسوع مسیح نے مصلوب ہونے سے پہلے خمیری روٹی کھائی تھی یاپتیری۔ان واقعات کی روشنی میں ہمیں آج کے حالات کاجائزہ ضرورلیناچاہیے۔تاریخ کااٹل فیصلہ ہے کہ جہالت اورتنگ نظری کے مست ہاتھی پرسوارہونے والے وہیں جاتے ہیں جہاں اس ہاتھی کاجی چاہتاہے۔”
”افسریات۔دفتریات۔واہ یات” ون ایکٹ ڈرامے کے انداز میں لکھاہے۔جس کاعنوان ہی تحریف کی عمدہ مثال ہے۔ڈرامے میں سرکا ری افسرکے معمولات کودلچسپ اندازمیں پیش کیاگیاہے۔”افسرشاہداپنے ماتحت عابدسے مخاطب ہے۔”اپنے غبن کاکیاکررہے ہو۔” عابد(لفافہ بڑھاتے ہوئے)”سریہ نذرانہ پیش خدمت ہے۔” شاہد(لفافہ کھولتے ہوئے) ”ارے بھائی یہ کیاہے؟تم پانچ کروڑکاغبن کررہے ہو!کم ازکم پچاس لاکھ توہونے چاہئیں۔”عابد”بس حضور! میں تودس لاکھ ہی پیش کرسکتاہوں۔” شاہد”یعنی ڈھائی فیصد سے بھی کم!یعنی زکواةبھی نہیں۔”(لفافہ واپس لوٹادیتاہے) عابد”سرچھوڑیں آپ کاکیاخرچ ہورہاہے۔ویسے بھی آپ زکواة کے مستحقین کی فہر ست سے خارج ہیں۔”شاہد:”راشی،جہنمی،گندی مچھلی تومیں ہی کہلاؤں گااورتم چارکروڑنوے لاکھ کے ساتھ حاجی بن جاؤگے۔”عابد:” سرمیرے اوربھی تواخراجات ہیں ۔دعوتیں،موسیقی کی محافل،کاریں،ریسٹ ہاؤس،دبئی،لندن،نیویارک کے تفریحی دورے ،قیمتی تحائف ۔۔”شاہد:”اچھاان اخراجات کے پندرہ لاکھ نکال کربقیہ رقم دے دو۔”عابد:”سرمیرے بڑے اخراجات ہیں ۔تین بیویاں اورتین خاندا نوںکاذاتی خرچ! آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔”
یہ تمام مکالمہ بلاتبصرہ پیش ہے کہ اس افسوس ناک صورتحال سے ہم سب آگاہ ہیں،جسے احمدحسین شیرازی نے اس مکالماتی تحریرمیں عمدگی سے پیش کیاہے۔اس طرح طنزومزاح کے پردے میں مصنف نے رشوت،اقرباپروری اوردیگرسماجی برائیوں کی نشاندہی کی ہے۔”ہم سے برانہ کوئی ” میں وہ بعض سماجی خوبیوں کوخواب میں دیکھتے ہوئے حیران ہیں کہ وہ کس پاکستان میں پہنچ گئے ہیں کہ جدھرنظردوڑائیں،ہر شخص نیک نیتی سے اپنے کام میں اس عزم کے ساتھ مصروف ہے کہ وہ ان مسائل کوحل کئے بغیرچین سے نہیں بیٹھے گا،ان پرہمارے کانوں اورآنکھوںکوبھی یقین نہیں آرہاتھا۔آئیے آپ بھی کچھ ملاحظہ کریں۔
”ایک کچہری میں مقدمات کے فریقین کے ساتھ ساتھ مصنف اوروکلابھی قرآن پرحلف لے رہے تھے کہ آئندہ وہ ہرقسم کے خوف اورلالچ کوبالائے طاق رکھ کرصرف اورصرف حق اورانصاف کی طرف داری کریں گے۔اس موقع پرموجودافراد نے ناجائزکاموں سے کمائی ہوئی تمام رقم ایک یتیم خانے کوبھجوانے کااعلان کیا۔ایک سرکاری دفترمیں بیوہ عورت اپنے مرحوم شوہرکی پنشن اپنے نام کروانے پہنچی تواسے سیدھا بڑے افسرکے کمرے میں لے جایاگیاجہاں تمام متعلقہ اہلکاروں نے اس کی کئی سال سے زیرِ التوافائل مکمل کرکے اس خاتون کوپنش کااجاز ت نامہ پیش کیااورمعذرت بھی کی کہ اسے اس کام کے لیے دفترآنے کی تکلیف اٹھانی پڑی۔اس موقع پرتمام ملازمین نے عہدکیاکہ وہ اپنے کام پاکستان کے مفاد کومدنظررکھتے ہوئے انجام دیں گے۔ایک مذہبی ادارے کے مہتمم اپنے طلباکوفرقہ واریت اوردہشت گردی سے مکمل اجتناب کی تلقین کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اسلام میں اپنے دین کوٹکڑے ٹکڑے کرنے اورناحق کسی کی جان لینے والوں کے لیے سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔کئی شہروں میں صحافیوں اورادیبوں کی انجمنوںکے اجلاس منعقدہورہے تھے جہاں ملکی مفادکواپنے ذاتی مفاد پرمقدم رکھنے کاعہدکیاجارہاتھا۔ہم نے یہ بھی دیکھاکہ اس سال دوپاکستانیوں نے نوبل انعام حاصل کیاہے جبکہ پاکستان دنیاکے پہلے تین بڑے ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی صف میں شامل ہوگیاہے۔ہم ان روح پرورمناظرکودیکھ کرحیرت واستعجاب کے سمندرمیں ڈوبے ہوئے تھے کہ اچانک ٹرن ٹرن ٹرن۔۔گھڑی کے الارم نے صبح سات بجنے کااعلان کردیااورہماری آنکھ کھل گئی۔”
اس خواب کے بعداخبارات کی سرخیاںکچھ یوں ہوتی ہیں۔”اسکول معاملات میں نااہلی کامظاہرہ کرنے پرہیڈماسٹرکی معطلی۔۔میں اپنی تنخواہ میں سے افسران کوحصہ نہیں دے سکتا۔حج اورعمرہ کرنے میں پاکستانی سرفہرست،ایمانداری میںایک سوساٹھویں پوزیشن!انٹرنیٹ کی بیہودہ لچرسائٹس پرجانے والوں میں پاکستانی سرفہرست۔۔پانامہ لیکس کے بعد’پاکستان گیٹ’ اہم افراد کی اندورن اوربیرون ملک اربوں ڈالرکی جائیدادوں اورکھاتوں کی تفصیلات مل گئیں۔۔گدھے،کتوں اوربلیوں کاگوشت،کیمیکل سے تیارکردہ دودھ اورانسانی استعمال کے ناقابل اشیائے خوردنی۔”
یہ متضاد اورتکلیف دہ حالات ہرصاحب فکراورحساس دل انسان کوسوچنے پرمجبورکردیتے ہیں۔احمدحسین شیرازی نے طنزومزاح کومسائل کی نشاندہی کے لیے عمدگی سے استعمال کیاہے۔جہاں انہوں نے اپنی پہلی کتاب”بابونگر” سرکاری دفاترمیں کی خامیوں اورعام آدمی کوپیش آنے والی مشکلات کوبھرپورانداز سے پیش کیاہے۔”دعوتِ شیراز”میں عام معاشرتی خرابیوں کی بھرپوراندازمیں نشاندہی کی ہے اوردونوں کتب میں اپنے قلم کو ایک نشترکی طرح استعمال کیاہے۔
”دعوتِ شیراز” کے دیگرمضامین میں”بھولے پرندے اوربے دَرپنجرے”،”مس بجلی تھری ناٹ تھری”،” فرشتوں نے اسے سجدہ کیاتھا”، ”عقدِثانی۔مرگِ ناگہانی”،”سارے جہاں کادردہمارے جگرمیں ہے”،”دوستی اورغبارے”،”ساقی ہوتیری خیرترے مے کدے کی خیر” ،”انجمنِ مریدانِ زوجہ”،” آسمان،شوکت اورکھجورکے درخت”،”شادی۔خانہ بربادی؟” ،”بچپن کاساون۔وہ کاغذکی کشتی،وہ بارش کا پانی”،” بڑے میاں۔سبحان اللہ”،” آپ خوشی سے اچھلنے لگے”،”اردوکانیاقاعدہ۔الف سے اردوڈائجسٹ/ الطاف قریشی”،”طنزو مزاح کیاہے؟”،”خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو”،”ایسابھی ہوتاہے زمانے میں”،”کوئی دوانہ دے سکے”،”لال بجھکٹر”،”آپ کے خواب اورتعبیریں” اور”ایک بڑھاپاسوسیاپا” شامل ہیں۔جن میں حسین شیرازی نے لطائف،واقعات،تحریف مزاح کے ہرانداز کو استعمال کیاہے، اورقاری کی دلچسپی کوقائم رکھاہے۔قہقہے اورخندہ زیرِلب کے ساتھ تلخ اورتکلیف دہ حقائق بھی پیش کیے ہیں،یہی ایک اچھے مزاح نگارکی پہچا ن ہے۔
‘دعوتِ شیراز” سے کچھ دلچسپ اورفکرانگیزجملے ملاحظہ کریں اورمصنف کوداد دیں۔
کسی گدھ کی راہنمائی میںچلنے والے قافلے کی منزل جنگلی جانوروں کی گلی سڑی لاشوں اورگندگی کی ڈھیرکے علاوہ کیاہوسکتی ہے؟
ایک گھنٹے دفترکاکام بھی کرلیاکرو۔اس طرح کی تبدیلی سے انسانی شخصیتت’یک رُخی’ اور’یک رنگ’ بننے سے بچ جاتی ہے۔
وہاں ہم نے کئی بوڑھوں کوبھی جھلستے دیکھاجوجلنے کی سرحدسے گزرچکے تھے اورراکھ کے ڈھیرمیں نہ شعلہ تھانہ چنگاری تھی۔یہ بزرگ لوگ وہا ںآنکھیںسینکنے آتے تھے۔
غصہ دراصل قدرت کی طرف سے آپ کودی گئی سزاہے جسے آپ جتناچاہیں،بڑھاگھٹاسکتے ہیں۔
غصہ اس الاؤکی طرح ہے جسے غصیل لوگ اپنے ذہن میں دوسروں پرپھینکنے کے لیے دہکاتے ہیں لیکن دراصل یہ اپنی بھٹی میں ہی سلگتا رہتا ہے۔
ہم نے نفرت کے درخت پرصرف خرابی اورشرمندگی کے پھل ہی لگتے دیکھے ہیں۔
اس عارضی زندگی کی مختصرمدت دوستی اورمحبت کے لیے بھی بہت تھوڑی ہے اسے نفرت ا وررنجش میں گزارناخداوندکریم کی نعمتوں کاکفران ہے۔
اگرکوئی شخص اس عارضی زندگی کے بعدبھی زندہ رہناچاہتاہے تواسے چاہیے کہ یاتوپڑھے جانے کے قابل چیزیں لکھے یالکھے جانے کے قابل کام کرے۔
شادی کی کتاب کے پہلے صفحے پرعشقیہ شاعری اورقصیدے،دوسرے صفحے پرلطیفے اوربقیہ تمام صفحات پرنوحے اورمرثیے لکھے ہوتے ہیں۔
مسکراہٹ بین الاقوامی زبان ہے جسے اس کرہ ارض کے ہرکونے میں میں ہرشخص سمجھتاہے۔تبسم کوایسی چابی بھی کہاگیاہے جوہرتالے کولگ جاتی ہے۔
آپ کاخوش رہناآپ کے براچاہنے والوں کے لیے سب سے بڑی سزاہے۔مسکراہٹ دردکی شکست اورچہرے کی رونق ہے۔
الہام کے علاوہ اس دنیاکے دیگرتمام سچ افراد کے ذاتی سچ ہوتے ہیں۔
آخر میں ”دعوت ِ شیراز” سے دواشعارپیش ہیں۔جوتحریف کی عمدہ مثالیں ہیں۔
سبق پڑھ پھر حماقت کا، شرافت کا ،ریاضت کا
لیاجائے گاتجھ سے کام زوجہ کی اطاعت کا
‘اماں’ سے کہا ہم نے،’بیگم’ سے سنا ہم نے
کچھ ‘اُن’ سے کہا ہوتا،کچھ ‘اُن’ سے سناہوتا
”دعوتِ شیراز” بلاشبہ طنزومزاح کی عمدہ کتاب ہے۔حسین احمدشیرازی کا”بابونگر” کے بعدنقشِ ثانی اگرنقشِ اول سے بہترنہیں توکسی بھی طرح اس سے کمتربھی نہیں ہے۔