امیر کا چُناؤ
ملا عمر کے سابق ترجمان عبدالحی مطمئن کی کتاب سے اقتباس، اس کی جبّار عمری جو اس محفل میں موجود تھا، نے بھی تصدیق کی۔ غالبا یہ وہی اجلاس ہے جس میں جبّار عمری نے شرکاء کو مُلاعمر کی وفات کی اطلاع دی۔
“شیخ عبدالحکیم نے اپنا ہاتھ ملا اختر منصور کے ہاتھوں پر بیعت کے لئے رکھا، لیکن اختر منصور گھبرایا ہوا اور پسینے سے شرابور تھا اور اپنا ہاتھ شیخ کو نہ دے پایا۔ تب شیخ نے زبردستی اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اعلان کیا کہ تم میرے قائد ہو اور میں تمھاری اطاعت کا وعدہ کرتا ہوں۔ پھر دیگر تین شیخوں (علماء)نے بھی بیعت کی۔
اس کے بعد عبدالقیوم ذاکر نے جذباتی انداز میں منصور کے ہاتھوں کو ہاتھ میں لیکر چوما اور بیعت کی، پھر عامر خان حقانی نے اور اس گھر کے مالک جہاں یہ اجلاس منعقد ہوا اوردیگر حاضرین نے بھی بیعت کی۔
لیکن ملا منّان (ملا عمر کے قریبی عزیز) نے ہاتھ نہیں بڑہایا۔ اس پر شیخ نے پوچھا کہ آپ بیعت کیوں نہیں کررہے ہیں؟ اس پر ملا منّان نے پوچھا کہ ہمارے گھرانے کا کیا ہوگا؟ ہماری کیا حیثیت ہو گی؟ یہ بات واضح ہونے چاہیے۔
ملا عمر کی زندگی کے آخری بارہ سال (تمام لنک)
ملا عمر کی زندگی کے وہ راز جو کبھی سامنے نہ آسکے
یوں لگا جیسے ملا عمر بندوق اٹھا کر مجاہدین کو بھون ڈالیں گے
ملا عمر کا خفیہ ٹھکانا، جبار عمری اور اس کے پراسرار دوست
وہ چار کتابیں جن میں ملا عمر کے الہامات درج ہیں
وہ جس نے ملا عمر کی قدم قدم پر حفاظت کی؟
جب ملا منّان نے یہ کہا تو عبدالقیوم ذاکر نے سختی سےجواب دیا کہ ابھی آپ بہت چھوٹے ہیں اور یہ بزرگوں کا فیصلہ ہے اور فوری اپنا ہاتھ (بیعت کے لیے) دیں، اس پر منّان نے بھی بیعت کرلی۔
پھر شیخ نے منان کو بتایا کہ آپکو مناسب عہدہ دیا جائے گا اور آپکے اہل خانہ کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔ اس کے بعد تمام شیخوں (علماء) نے سب سے حلف لیا کہ مناسب وقت تک اس بات کو خفیہ رکھا جائے گا اور ان تمام فیصلوں کا باہر کوئی تذکرہ نہیں کیا جائے گا۔”
مُلاعمر اور پاکستان
امریکہ ہمیشہ ملا عمر کو پاکستان اور آئی ایس آئی کا کٹھ پتلی سمجھتا تھا۔ کئی مبصریں کا کہنا تھا کہ ملا عمر اور کئی طالبان کے لیڈر کے مذہبی نظریات پاکستانی مدرسوں میں تعلیم کے دوران تشکیل پائے۔ دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے دعوی بھی کیا تھا کہ مُلا عمر اور اس کے رفقاء نے وہاں تعلیم حاصل کی تھی۔
لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ طالبان کی پُرانی لیڈرشپ بشمول ملا عمر نے کبھی پاکستان میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ ملا عمر نے اپنے تعلیم اُرزگان صوبے کے غیر روایتی اسکول جسے ہُجرہ کہا جاتا ہے، جو کہ درحقیقت صوفی سلسلے سے تعلق رکھتا تھا۔
مُلا عمر پاکستان صرف دوبار گئے تھے ایک مرتبہ اپنی زخمی آنکھ کا علاج کرانے کے لئے کوئٹہ کے ایک اسپتال میں، دوسری مرتبہ مجاہدین گروپ کے اندرونی تنازعے کے نتیجے میں اسلحہ حاصل کرنے کے لئے ۔
جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پاکستان ان دو (درحقیقت تین پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا) ممالک میں سے تھا جنہوں نے نئی حکومت کو تسلیم کیا۔اس دوران طالبان کے پاکستان انٹیلجنس اورسول سوسائٹی کی تنظیمیوں کے درمیان گہرے روابط قائم ہوئے۔
اس کے باوجود ملا عمر بطورسپریم لیڈر ان چیزوں سے لاتعلق رہا، اور ایک ناقابل فہم شریک کار کی طرح رہا، ملا عمر نے پاکستان کو افغانستان میں سڑکیں بنانے اور ٹیلیفون نیٹ ورک بنانے کی اجازت دی اور پاکستان کی شمالی اتحاد سے جنگ میں مدد بھی قبول کی۔
لیکن کبھی پاکستان کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی۔ جنرل معین الدین حیدر نے مجھے بتایا کہ وہ ملا عمر کوبامیان میں گوتم بدھ کے مجسمے تباہ کرنے اور اسامہ بن لادین کو پناہ دینے سے روکنے کی کوشش میں ناکام رہے۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گُل نے بھی دعوی کیا کہ اس کا ملا عمر پر کسی قسم کا اثر رسوخ نہیں ہے۔ بلکہ روس کے خلاف افغان جنگ میں گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی کی حمایت کئ پاداش میں وہ اسے قندھار میں خوش آمدید کہنے کو تیار نہیں تھا۔
جب پاکستانی اسلام پسند سیاستدان مولانا فضل الرحمن نے ملا عمر کو سابق افغان حکمران ظاہر شاہ کے حامیوں کے ساتھ قریبی تعاون پر راضی کرنا چاہا تو طالبان لیڈر نے سوال کیا “آپ اپنی اسلامی ریاست کیوں قائم نہ کر پائے۔
اختتامیہ
جہاں تک مجھے علم ہے ، ملا عمر نے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد کبھی بھی مزاحمتی تحریک کی قیادت نہیں کی، اور نہ ہی انہوں نے سول آبادی کے طالبان کے جرائم پر کبھی ان کی سرزنش کی۔ بلکہ خاموشی سے خود کو عملی دنیا سے دور کرلیا۔
دلچسپ بات یہ کے کہ اس عمل سے دونوں امریکہ اور طالبان نے فائدہ اُٹھایا، طالبان نے اس کے نام اور شخصیت کو خود کو اندرونی طور پر متحد رکھنے کے لئے استعمال کیا۔ دوسری طرف امریکہ کی افغان پالیسی کا دارومدار ہی اس کہانی پر تھا کہ ملا عمر اور اسامہ بن لادن دونوں اکٹھے ہیں۔اس لحاظ سے مُلا عمر کی شخصیت دونوں کے لئے اہم تھی اس لیے نہیں کہ انہوں نے کیا کیا بلکہ دونوں اطراف اپنی مرضی کےرنگ میں پیش کرکے مقاصد کے حاصل کرنے کی کوشش کی۔
طالبان کے لئے سپریم لیڈر ایک کرشماتی عابد و زاہد سادہ زندگی گذارنے والا شخص جو بآسانی جنوبی افغانستان کی دیہی زندگی گذارنے والوں کے دل سے قریب، اسے تحریک کے روحانی قائد کے طور پر پیش کیا جاتا، ان کے سالانہ عید کے پیغامات کے ذریعے لوگوں کو اپنے مشن کے لئے تعاون کرنے کے لیے تیار کرنا۔
اس وقت انکے عوام میں طالبان کی تحریک کے بارے میں بتدریج دوغلے اور کرپٹ ہونے کا تاثر بڑھ رہا تھا، ملا عمر اس وقت کی دیانت و زہد پرہیز گاری کی مثالیت کی علامت تھے جس نے طالبان کی تحریک جو 1990 کی ڈھائی کے خانہ جنگی کے دوران ابتدائی عوامی حمایت جیتنے میں کامیابی حاصل کی۔
امریکہ کے لئے بھی یہ کہنا کہ ملا عمر طالبان کے جنگجوؤں کی قیادت کرتے ہوئے القاعدہ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ان کے دعوے کو تقویت دیتا جو افغانستان پر حملے کی بنیاد تھی۔
اسی طرح افغان حکومت بھی ملا عمر کو اپنے بڑے دشمن پاکستان سے قریبی طور پر منسلک کرکے اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتی تھی۔
حقیقت بالکل مختلف تھی ملا عمر کی کہانی ان لوگوں کے لئے تنبیہ ہونے چاہیے اپنے سادہ تصورات کو مسلط کرکے افغانستان کے پیچیدہ حقائق کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک طالبان دینا کے ناقابل فہم ترین مزاحمتی گروہوں میں سے ایک تھے۔ اسکی بڑی وجہ اس تحریک کی اپنی غیر شفافیت تھی۔
آج دو دہائیوں کے بعد امن کے امکانات سامنے آرہے ہیں، اگر امریکہ آخرکار افغانستان سے نکل چُکا ہے۔ امن کے معاہدے کی کامیابی کے لیے اس جنگ کے بارے میں اس قسم کی پوشیدہ کہانیوں کو سامنے لاکر ان سے سبق حاصل کرنا لازمی امر ہے۔
گیا وقت پھر واپس آتا نہیں
مترجم کے تاثرات
ملا عمر کی روپوشی کے دنوں کے بارے میں کتاب کی تلخیص و تر جمے کی تکمیل کے بعد آخر میں مناسب سمجھا کہ کچھ اپنا تبصرہ بھی شامل کرلوں۔
یہ کتاب 2018 میں شایع ہوئی تھی اور آج امریکہ و ناٹو افغانستان سے تقریباً نکل چُکا ہے، اس وقت میدان میں القاعدہ نام کی کوئی تنظیم موجود نہیں ہے کسی نہ کسی حد تک اس کا دوسرا جنم مزید خوفناک ہو کر داعش کے روپ میں سامنے ہے۔
کل وال اسٹریٹ جرنل کے مضمون اور بیٹّی ڈیم کی اس کتاب میں دو تین مشترکہ نکات سامنے آئے ۔
1. وال اسٹریٹ جرنل نے یہ بات کہی گئی تھی کہ طالبان میں درحقیقت القاعدہ کے خلاف ناراضی موجود تھی کہ ان کی وجہ سے اُنہیں پوری دنیا سے لڑنا پڑا۔جو کہ ان کی ترجیح نہیں تھی۔ یہی بات بیٹّی ڈیم کی اس کتاب میں بھی کسی اور انداز سے کہی گئی۔
2. بیٹی ڈیم نے 2001 میں طالبان کے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی کا ذکر کیا تھا۔لیکن امریکی حکومت کے غلط فیصلے اور طالبان کے مسلسل تعاقب کی وجہ سے ہتھیار اُتھانے پر مجبور ہو گیے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی تحریر میں قبضے کے ابتدائی سال میں طالبان کے خاموش بیٹھنے کا سرسری تڈکرہ کیا تھا۔
3. آخری بات کہ ملا عمر کی وفات کے بعد نئے امیر کے انتخاب کے موقعے پر ان کے اہل خانہ کو انکا مقام دینے کا وعدہ کیا گیا تھا آج ملا عمر کے بیٹے مُلا یعقوب موجودہ طالبان کی قیادت کا حصہ ہیں۔
افغانستان اور عراق جنگ کے اصل معمار, اسوقت کے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ, اپنے دور میں اپنے اقوال کی وجہ سے بھی مشھور تھے۔ان کا یہ قول :-
It is easier to get into something than to get out of it.
Donald Rumsfeld
کسی چیز میں گھُسنا آسان ہے نکلنا مشکل ۔ ڈونلڈرمسفیلڈ
امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سچ ثابت ہوا۔
درحقیقت ان کی چھیڑی ہوئی افغانستان و عراق جنگیں امریکی تاریخ کا سب سے بڑا اور مہنگا سبق ثابت ہویئں ہیں جب امریکہ بیس سال لگا کر ، کھربوں ڈالرز کے اخراجات کے باوجود ، ہزاروں و اتحادی امریکی فوجیوں کی اموات اور ملین سے زائد افغان و عراقی شھریوں کی شھادت کے بعد بھی اب اس کمبل سے جان چھُڑانا چاہ رہا ہے۔
2001کے افغانستان پر حملے اور2003 میں ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے جواز کے تحت، محض فوجی برتری کے زعم میں عراق پرحملے کی قیمت امریکی قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ حالانکہ دونوں جگہوں پر امریکی افواج قبضہ کرنے میں با اسانی کامیاب ہو گئی تھیں ۔ لیکن باہر نکلنا ہی در حقیقت اس فوجی مہم جوئی کا مشکل ترین مرحلہ ثابت ہوا۔
اس کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے ایک بات میرے ذہن پر خاص طور پر نقش ہو گئی۔ کہ جب اللہ کسی قوم کا بُرا وقت لاتا ہے تو پہلے اس کی عقلوں پر پتھر رکھ دیتا ہے۔
2001 کے اواخر میں جب طالبان حالات کو نا مساعد پا کر ، بڑی حدتک ہتھیار ڈالنے پر راضی ہو گئے تھے، اور اس سلسلے میں حامد کارزائی سے ایک امن معاہدہ تک طے پا گیا تھا لیکن اپنی فوجی قوت پہ نازاں امریکی حکمرانوں کی جنگی ڈاکٹرین انسانی و تہذیبی اقدار یا انصاف کے تقاضوں سے ماوراء تھی ۔ اور اسی سوچ کے باعث امریکہ نے might is right کے زعم میں اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
اگر بلّی کو بھی دیوار سے لگادیا جائے تو وہ بھی پلٹ کر شیرکی طرح حملہ کر دیتی ہے۔ یہی کچھ امریکہ کے ساتھ ہوا۔ جب امریکہ نے اپنی طاقت کے بل پر طالبان کے پُرامن ہتھیار ڈالنے کی راہیں بند کردیں تو اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
تاریخ کی عجیب بات یہ ہے کہ وہ خود کو بارہا دُھراتی ہے، اسی لئے عقلمند افراد و اقوام جو کسی غلط احساس برتری یا بالفاظ دیگر کسی گھمنڈ میں مبتلاء نہ ہوں ،تاریخ سے سبق حاصل کرکے اپنے مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ جب امریکہ نے افغانستان ایڈونچر شروع کیا تھا تو وہ یقینا بھول گئے تھے کہ وہ ایک ایسے ملک پر حملہ آور ہورہے ہیں جو تاریخ میں سلطنتوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس ساری صورت حال کے اصل ذمہ دار اس وقت کے امریکی صدر جارج بُش اور وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ تھے، اگر وہ ابتدائی کامیابیوں پر اکتفا کرلیتے تو شاید تاریخ کا نیا باب رقم کرلیتے۔ لیکن انہوں نے یہ موقع طاقت کے نشے میں اپنے غلط احساس برتری کے ہاتھوں ضائع کردیا۔
ان بیس سالوں میں امریکہ کو دو مواقع ملے جب وہ اپنی فتح کا اعلان کرکے خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے نئی تاریخ لکھ کر واپس جاسکتا تھا۔ پہلا موقع 2001 میں جب طالبان ذہنی طور پر شکست تسلیم کرنے پر تیار ہو گئے تھے دوسرا اس کے دس سال بعد 2011 میں جب امریکہ نے ایبٹ آباد کے احاطے میں اسامہ بن لادن کو شھید کرنے کا دعوی کیا، لیکن یہ دونوں مواقع اپنی طاقت پر زعم کی وجہ سے ضائع کردیے گئے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی افواج نے 20 سال تک بعد خرابی بسیار کھربوں ڈالر ضائع کر کے، لاکھوں افغانوں کی شھادت اور ہزاروں امریکی و اتحادی فوجیوں کی اموات کے بعد “بلّی” کے پنجوں سے مجروح ہو کر بعد جس طرح رات کی تاریکی میں جس شرمناک طریقے سے پسپائی اختیار کی اسے بجا طور پر شکست سمجھا جا رہا ہے جس نے سُپر پاور کا سارا رعب و دبدبہ خاک میں ملا دیا۔
یہ بھی قدرت کا عجب کرشمہ ہے، کہ اس مہم کے معمار ڈونلڈ رمسفیلڈ کو اللہ نے اس کی موت سے پہلے امریکی شکست کا یہ نظارہ دکھا ہی دیا اوروہ گذشتہ ماہ 29 جون 2021 کو 88 سال کی عمر میں جب امریکہ شکست تسلیم کرتے ہوئے دیکھ کر۔ افغانستان عراق میں لاکھوں بے گناہوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ لیکر منتقم حقیقی کے حضور میں حساب دینے کے لیے پیش ہو گیا۔
دوسری دلچسپ بات، جس کا بہت زیادہ احساس ہوا وہ یہ کہ ملا عمر کی اس ۱۲ سالہ روپوشی کے دور میں اوّل چار سال تو وہ مکمل طور پر استاذ کے گھر میں مکمل روپوش رہے ، لیکن روپوشی کے دوسرے دور میں جب عوام امریکی قابضین اور ان کے گماشتوں کے ظلم و ستم کے ہاتھوں بیزار ہو گئے ، اور مجایدین کی جدو جہد شروع ہو گئی تھی اس وقت بھی مُلا عمر کی وہاں موجودگی سے ناواقف ہونے کے باوجود اہل علاقہ ان جھونپڑی میں قیام پذیر کے طالبان ہونے کی حیثیت سے واقف تھے اور غذا و لباس کی صورت میں امداد بھی فراہم کرتے رہے ۔
اس کے باوجود علاقے میں موجود امریکہ کے حامی و مدد گاروں کو آٹھ سال تک اس علاقے میں رہائش پذیر “مشکوک” افراد کی بھنک بھی نہ پڑ سکی۔ایک حدتک ناقابل یقین ہونے کے باوجود یہ افغان قوم پرستی اور قوم کی بیرونی قابضین اور ان کے گماشتوں سے نفرت کی انتہا ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اور اس کے افغان حواریوں کا مخبری کا نظام بڑی حدتک عوام میں جڑیں بنانے میں ناکام رہا۔
ایسا صرف آزاد فطرت اقوام ہی میں ممکن ہے ورنہ ہمارے میر جعفر و میر صادق تو عوام میں بھی اپنے گُماشتے پیدا کرکے کسی بھی مزاحمت کا با آسانی گلا گھونٹ سکتے ہیں۔ یادرہے 1857 کی جنگ آزادی سے لیکر پورے دور غلامی میں انگریزوں کی مٹھی بھر تعداد ہی باقی ساری خدمات میرجعفروں کے گماشتے اور ان کی نسل ہی انجام دیتے تھے۔اسی لیے آج جبکہ انگریز کو نکلے ہوئے ۷۳ سال گذر چُکے ہیں لیکن کسی نہ کسی طرح سے وہ یا انکا طرز بادشاہی اب بھی جاری و ساری ہے۔
جبکہ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء کے چند دن ہی گذرے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے نظام کا ڈہانچہ تلپٹ ہو گیا ، امریکہ نے جس فوج کو بیس سال میں تیار کیا وہ دو دن کے بعد ہی طالبان کی نفسیاتی کامیابی کے تاثر کی تیز دھوپ میں تحلیل ہو گئی ۔
کہیں ہتھیار ڈالنا ۔۔کہیں بغیر مقابلے پیچھے ہٹ جانا۔۔ یہ آنے والے وقتوں کے اشارے ہیں آنکھوں والوں کے لیے۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
کشور محبوبانی کے حالیہ مضمون میں طالبان کے لئے بھی ایک سبق ہے۔ اس کا متعلقہ حصہ :-
“دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جب امریکہ کا جرمنی پر قبضہ تھا تو امریکی فوجی کمان نے محسوس کر لیا تھا کہ جرمن معاشرے کو افراتفری سے بچانے کے لئے انتظامی ڈہانچے کو جوں کا توں رکھنے کی ضرورت ہے ، چونکہ ہٹلر کے زمانے میں نازی پارٹی کی ممبرشپ تمام سرکاری ملازمین کے لیے لازمی تھی اور نازی جماعت سے باہر انتظامی تجربے کے لوگ ناکافی تھے۔ اس لئے سرکاری اداروں کو نازی پارٹئ کے ممبران سے صفائی عمل ترک کردیا گیا”۔
یہی مشورہ افغانستان کی نئی حکومت کے لئے ہوگا کہ اگر ملک چلانا ہے تو نیاڈھانچہ کھڑے کرنے سے پہلے موجودہ نظام کو استعمال کیا جائے رفتہ رفتہ اس کی کمزوریاں دور کی جائیں تاکہ کاروبار حکومت چلتا رہے۔
ختم شد