دورِحاضرمیں لوگوں کی مصروفیات زیادہ اورمطالعے کاوقت کم ہے۔ایسے میں ستارطاہرمرحوم کی کتاب”دنیاکی سوعظیم کتابیں” مصروف لوگو ں کوایک ہی کتاب میں سوکتابوں کے مطالعے کاموقع دیتی ہے۔اس ایک کتاب کوپڑھنے والے دنیاکی سوبہترین کتب کے بارے میں اتنا کچھ جان سکتے ہیں کہ ان کی علم وادب کی پیاس کی بھی تسکین ہوجائے گی اوروہ کسی بھی اچھی محفل میں اپنی کتب بینی کی دھاک بھی بٹھاسکیں گے۔
ستارطاہراردوکے اہم محقق،مترجم،مدیر،صحافی اورڈھائی سوسے زیادہ کتابوں کے مصنف ،مولف اورمترجم تھے۔ان میں سے سوکے قریب کتابیں بچوں کے لیے لکھیں۔ستارطاہریکم مئی 1940ء کوضلع گورداس پورمیں پیداہوئے۔خاندان لائل پورمنتقل ہوگیاتوبی اے تک تعلیم وہیں حاصل کی۔1959ء میں صحافت کاآغازکیا۔ابن فتح،س ط اورابوعدیل جیسے مختلف قلمی ناموں سے بھی لکھا۔ماہنامہ کتاب،ماہنامہ معلومات،ہفت روزہ ممتاز،سیارہ ڈائجسٹ،حکایت،اردوڈائجسٹ،سپوتنگ،قافلہ اورقومی ڈائجسٹ میں ادارتی ذمہ داریاں انجام دیں۔ سیاست ،ادب ،فنونِ لطیفہ،عمرانیات،فلم غرض ہرموضوع پرلکھا۔ستارطاہرجمہوریت پرپختہ ایمان رکھتے تھے۔ضیاالحق کے مارشل لاکے زما نے میں جوکچھ انہوں نے لکھا،اس کی بہت کم لوگوں کوہمت ہوئی۔اس پرانہیں جیل بھی جاناپڑا۔پندرہ روزہ ”قافلہ” کے مدیرکی حیثیت سے انھوں نے ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کے خلاف کئی یادگارتحریریں لکھیں ۔جوبعدازاںیہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں۔ان میں ”زندہ بھٹومردہ بھٹو”،”سورج بکف شب گزیدہ” اور”مارشل لاکاوائٹ پیپر”خصوصیت سے قابلِ ذکرہیںستارطاہرکوبعدازوفات صدرِ پاکستا ن نے تمغہ حسنِ کارکردگی اورپیپلزپارٹی کی حکومت نے جمہوریت ایوارڈدیا۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے بچوں کے ادب میں کنٹری بیو شن کے اعتراف میں نشانِ اعزازدیا۔انھوں نے کئی فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں جن میں ”وعدے کی زنجیر”،”انسان اورگدھا” اور”میرانام ہے محبت” شامل ہیں۔ستارطاہرکی قلم کی یہ مزدوری1993ء میں عیدالفطرکے دن تک جاری رہی۔جب آخری سانس لیا ، اس دن مارچ کی پچیس تاریخ تھی۔
ستارطاہرکی تحریراورترجمہ کردہ کچھ اہم کتابوں میں”ایک عالم ہے ثناخواں آپ کا”،”دنیاکی سوعظیم کتابیں”،”مسلم فاتحین”،”اپناقائداعظم ایک”،” پاکستان کامستقبل”،”تحریک ِ پاکستان”غریب کی جورو”،”اندراگاندھی کاقتل”،”عورت کی حکمرانی ”،”حسن زرگر” ،”مجبورآواز یں”،”بے وطن”،”پھولوں کاجزیرہ”،”ممنوعہ علاقہ”،”مذہب ،خدااورانسان”،”ری پبلک”،”دوشہروںکی کہانی”،”رومیوجولیٹ”،” کبڑاعاشق”،”تارس بلبا”،”عذرا”،”مونٹی کرسٹوکانواب”،”الوداع مسٹرچپس” ،”روبنسن کروسو” اورگلیورکی سیاحتیں” چندکتب ہیں۔
”دنیاکی سوعظیم کتابیں” کتابوں کی کتاب ہے۔کتاب کے بیک پیچ پراس کا تعارف کرایاگیاہے۔ جس میں”القرآن الحکیم”سے ”گرنتھ صاحب ”تک بنی نوع انسان کی مذہبی رہنمائی کر نے والی کتابیں۔۔افلاطون کی ”ریاست”سے کارل مارکس کی”داس کیپٹل” تک انسانی فکروفلسفہ کی داستان۔۔ہیروڈوٹس کی ”تواریخ” سے ابنِ خلدون کے ”مقدمہ”تک تاریخ کی سرگزشت۔۔”کلیہ ودمنہ”سے دانتے کی ”ڈیوائن کامیڈی”تک داستان گوئی کے عظیم سنگ میل۔۔ہومرکی ایلیڈسے علامہ اقبال کے ”جاویدنامہ” تک دنیاکی عظیم شعری تخلیقات۔۔کالی داس کی ”شکنتلا” سے ولیم شیکسپیئرکے ”ہیلمٹ” تک عالمی ڈرامے کے فن پارے۔۔سروانٹیزکے ”ڈان کیخوتے” سے دوستوئیفسکی کے”کرامازوف برادران”تک شاہکار ناول۔۔ایک ایسی کتاب جوآپ کے لیے علم کی بے کراںکائنات کے بھرپور مشاہدے کے لیے ایک ایسادریچہ واکرتی ہے جس سے آپ ہزاروںبرسوں پرمحیط انسانی دانش،فکر،شاعری،ادب،فلسفہ اورمذہب پرمبنی لازوال کتابوں کی دنیامیں داخل ہوجاتے ہیں۔یہ ایک کتاب آپ کوان گنت کتابوں سے بے نیازکرکے ان کتابوں سے بھرپوراندازمیں متعارف کرائے گی جنھوںاس دنیاپرحکمرانی کی اوراسے بدل کر رکھ دیا۔یہ کتاب تمام شائقین ِ کتب کی لائبریریوں کے لیے ایک ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔
”ایڈیٹرکانوٹ”میں سلمان خالدلکھتے ہیں۔چندمعروضات بحیثیت ایڈیٹرپیش کرناچاہتاہوں۔”دنیاکی سوعظیم کتابیں”کی پہلی اشاعت 1985ء میں ہوئی تھی اوریہ کاتب کے ہاتھ کالکھاہوامسودہ تھا۔بدقسمتی سے کاتب حضرات کی چُوک سے کئی مقامات پردرآنے والی اغلاط سے یہ کتاب بھی دوچارہوئی۔ان میں سرفہرست انگریزی کی اغلاط تھیں جن کے باعث پورے پورے جملے اوراکثرنام مہمل سے ہوگئے۔ کتاب کی نئی کمپوزنگ وپروف ریڈنگ میں اس بات کاخاص خیال رکھاگیاکہ انگریزی جملے درست کیے جائیں اورسارے ناموں( بشمول کتابوں ،مشاہیر اورمقامات وغیرہ) کوجانچ کے بعدانگریزی اورمروجہ اردومیں درج کیاجائے۔کئی مقامات پرسنین کے فرق کوبھی درست کر دیاگیاہے۔اول اشاعت کے بعداب تک بہت ساپانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکاہے اورکتاب میں مذکورکئی غیرملکی کتب کے تراجم اردو زبان میں ہوچکے ہیں۔ان اردوتراجم کاذکرکیے بغیرادھوری رہتی ،لہٰذااس کمی کوکتاب میں جابجاحواشی لکھ کرپوراکیاگیا،تاکہ جہاں ستار طاہر کی لکھی تحریرکی سالمیت قائم رہے،وہیں قارئین کواردوتراجم کی معلومات بھی فراہم ہوجائے۔اس حوالے سے احتیاط مکمل طورپرکی گئی کہ ستارصاحب کے اصل متن میں کسی قسم کی تبدیلی پیدانہ ہو۔کتاب مذکورمیں کئی کتب کے تراجم ادارہ’بک کارنر’اپنے روایتی دیدہ زیب انداز میں شائع کرچکاہے،ایسی کتب کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے۔کتاب کی فہرست کامطالعہ کریں توستارصاحب کی ترتیب میں ایک باریک سا ربط اورارتباط محسوس کریں گے۔ابتدامیںآٹھ مذہبی کتب ہیں۔ان کے بعدزمانہ ماقبل ازمسیح سے چلتاآرہاادب ہے،جوزیادہ ترحکایات اور یونانی ادب پرمشتمل ہے۔پھریورپ کے قرون وسطیٰ اورنشاط ثانیہ کے دورکی کتب ہیں جن میں سے اکثریتی کتابوں کی صنف ڈراماہے ۔ یورپی دانش کے بعدمشرقی دانش کی شاہکارکتب کورکھاگیاہے جوزیادہ ترصوفیانہ حکایت وصوفی شاعری پرمشتمل ہیں۔سائنس کی بنیادی کتب کوشامل ترتیب کرنے بعدعلم التاریخ کی مشرق ومغرب کی اہم ترین کتب شامل کی گئی ہیں جس کے بعد بیس کے قریب فلسفے کی اہم کتب ہیں۔فلسفے کی کتابوں پرلکھے گئے مضامین کی سب سے دلچسپ بات تحریرکی سادگی اورآسان فہمی ہے،جس سے مشکل سمجھاجانے والا موضوع نہ صرف پڑھنے والے کودلچسپ نظرآنے لگتاہے بلکہ تشنگی کااحساس جگاکرقاری کو’ہل من مزید’کہنے پربھی اکساتاہے۔فلسفے کے بعد لٹریچرکی کتب(ناول،شاعری،کہانیاں،انشائیہ) تقریباً کتاب کے نصف پرمحیط ہیں۔ادبی کتابوں پرلکھے گئے مضامین میں ستارطاہر کا اندازِ تحریرجامع اختصاریت کی بہترین مثال ہے۔ستارطاہرنے بیشترمضامین کے عنوانات انگریزی نام پررکھے تھے۔اس میں خفیف سی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اردومیں ترجمہ شدہ کتاب کے مضمون کاعنوان ،انگریزی سے اردومیں بدل دیاگیاہے۔ان میں”فادرزاینڈسنز”کو” باپ اوربیٹے”،”ریڈاینڈوائٹ” کو”سرخ وسیاہ”،”برادرزکراموزوف” کو”کرامازوف برادران” اور”وار اینڈپیس”کو”جنگ اورامن” قابلِ ذکرہیں۔اس سلسلے میں یہ اصول بھی پیش نظررکھاگیاہے کہ وہ کتابیں جواپنے اصل یاانگریزی نام سے زیادہ پہچانی جاتی ہیں،ان کے مضامین کاعنوان اصل نام سے ہی رہنے دیاگیا،جیسے کہ کارل مارکس کی ”داس کیپیٹل”مکیاولی کی ”دی پرنس” وکٹرہیوگوکی ”لامزرایبلز” اور ایملی برونٹے کی ”ودرنگ ہائٹس” وغیرہ۔بک کارنرکی شائع کردہ کتابوں کی خوبصورتی اورمعیارکے متعلق کچھ کہناسورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے۔”دنیاکی سوعظیم کتابیں ” بھی ادارے کی تمام خصوصیات سے مزین ہے۔اغلاط سے پاک متن،نمایاں لکھائی،بڑاسائز، معیاری کاغذ،عمدہ چھپائی،مضبوط جلدبندی اورخوبصورت سرورق ،جس پرسجی کتابوں کی کیلی گرافی کامونٹاج اپنی جگہ پیس آف آرٹ ہے۔ ابتدا اوراختتام پرکتابوں کے سرورق اپنی رنگارنگی میں سونے پرسہاگہ ہیں۔یوں کتاب کی تیاری کے سلسلے میں کی گئی محنت،برادران گگن شاہداورامرشاہدکی سلیقہ مندی سے باذوق قارئین کی خدمت میں پہنچ رہی ہے۔”
بطورمبصرمیں سلمان خالدکے الفاظ میں یہ اضافہ کروں گاکہ بڑے سائزکے چھ سوپچپن صفحات کی کتاب کی پندرہ سوروپے قیمت موجودہ دور میں بہت کم ہے۔اس قیمت میں اتنی گراں قدرکتاب بک کارنرہی پیش کرسکتاہے۔
کتاب کے پہلے ایڈیشن میں ستارطاہرنے ”چندباتیں” میں لکھاجوہے،اس میں ان اعتراضات کاجواب بھی موجودہے کہ کتاب ترجمہ ہے تخلیق نہیں کیونکہ انگریزی میں سومشہورلوگ،کتابیں ایجادات اوردیگرمضوعات پربہت سی کتب موجودہیں۔”اس کتاب میں شامل ہرکتاب پرایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے اوربلاشبہ ان کتابوں پراتناکچھ لکھاگیا ہے جس کاشمارممکن نہیں ۔میں نے اس کتاب کامنصوبہ بنایا توچنداہم نکات اورامورکوسامنے رکھنے اور ان پرعمل کرنے کی کوشش کی۔غیرملکی زبانوںمیں کتنی ہی ایسی کتابیں ملتی ہیں ہیں جن میں ان کتابوں کاتعارف کروایاگیاہے جن کاشماردنیا کی اہم ترین کتابوں میں ہوتاہے اورجنھوں نے انسانی افکار،تہذیب،تمدن اورمعاشرت کوتبدیل کرنے میں انقلابی کرداراداکیاہے،لیکن ایسے تمام مجموعوں اورتعارفی کتب میں دنیاکی آبادی کے ایک بڑے حصے کوہمیشہ نظراندازکیاجاتارہاہے،بڑی کتابیں،جنھوں نے انسانی ذہن اورفکرکوتبدیل کیا،صرف یورپ اورسفیدفام دنیامیں ہی نہیں لکھی گئیں بلکہ ایشیااورافریقامیں ایسی کتابوں کی تخلیق ہوئی جنھوں نے پوری دنیاکے انسانوں کومتاثرکیاہے۔اس اعتبارسے جن کتابوں کومیں نے دنیاکی سوبہترین کتابوں میں شامل کیا،ان میں انگریزی،روسی ،فرانسیسی اورجرمن کے علاوہ فارسی،عربی اورپنجابی کی کتابوں کوبھی شامل کیاگیاہے۔کتابوں کے انتخاب میں دوآراہوسکتی ہیں۔بعض ذہین قاری اعتراض کرسکتے ہیں کہ فلاں کتاب جواس اہمیت کی حامل تھی کوشامل کیوں نہیں کیاگیا؟ اس ضمن میں میں نے یہ اصول سامنے رکھاکہ ان کتابوں کوشامل کیاجائے جواپنے موضوع اوراسلوب اور پھر اپنے ہمہ گیراثرات کی وجہ سے بنیادی اہمیت کی حامل ہوں۔بعض کتابیں جنھوں نے ایک دورکے انسانوں کی کئی نسلوں کے ذہنوں پر حکمرانی کی،آج ان کے اثرات ختم ہوچکے ہیں۔اس لیے صرف ان کتابوں کو شریک کیاگیاجوعام معنوں میں سدابہارکہلاتی ہیں۔یہ سوکتابیں وہ ہیں جنھوں نے انسانی فکرکوبدلاہے،اختلافات اوردائمی مباحث کاسر چشمہ ٹھہری ہیں لیکن کی ہمہ گیری اوراہمیت سے انکارممکن
نہیں ۔”
”دنیاکی سوعظیم کتابیں” کاترمیم واضافے شدہ ایڈیشن1989ء میں شائع ہوا۔ جس میں ستارطاہر نے پہلے ایڈیشن میں موجود گیارہ کتب کونکال کرگیارہ دوسری کتب کوشامل کیااس بارے میں ”دیباچہ” میں ستارطاہرنے لکھا۔”میں عالمی ادب کاطالب علم ہوں ایک طالبعلم کی حیثیت سے اپنی کوتاہیوں کوتسلیم کرنے میں کوئی ندامت محسوس نہیں کرتا۔پہلے ایڈیشن میں شامل جن کتابوں کونئے ایڈیشن میں شامل نہیں کیا رہاان کے بارے میں میری رائے میں جوتبدیلی پیداہوئی،اس سے ان کتابوں کی عظمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جوکتابیں نکال کرنئی کتابیں شامل کی گئی ہیں،ان کی اہمیت ان کتابوں سے کہیں زیادہ ہے جوپہلے ایڈیشن میںموجودتھیں۔ جوکتب نکالی گئیں۔چندرا۔جان راسین،نیواٹلانٹس۔فرانسس بیکن،کونسیپٹ آف ڈریڈ۔سورکیگارڈ، رائٹس آف مین۔تھامس پین،ڈاکٹر جیکل اینڈمسٹرہائیڈ۔رابرٹ اسٹیونس،فرام دی ارتھ ٹودی مون۔ورن،نیٹوسن۔رچرڈرائٹ،ویسٹ لینڈ۔ٹی ایس ایلیٹ،منتخب کہانیاں ۔ اوہنری،سینچریز۔ٹوسٹراڈیمس،شاخِ زریں۔جیمس جارج فریزر۔ دنیائے ادب وفکرمیں ان کتابوں کی اہمیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا، لیکن ان میں تمام ترادبی اہمیت کے باوجود میں سمجھتاہوں کہ ان کے انتخاب کے وقت بہت سی دوسری کتابیں نظراندازہوگئی تھیں جوان کتابو ں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔جوان کی جگہ شامل کی گئی ہیں۔تواریخ۔ہیروڈوٹس،اینیڈ۔ورجل، نہج البلاغہ۔حضرت علی المرتضیٰ ، ہیر۔وارث شاہ، دی ایڈونچرآف ٹام سائر۔مارک ٹوین، مانوں لاکاؤ۔ایبے پروست، دی برٹروتھیڈ۔ایساندرومنیزونی،ایسے اون پرنسپل آف پاپولیشن۔مالیتھوس،ایسیز۔مونیتن،دی فال۔کامیو اور ڈاکٹرفاؤسٹس۔ تھامس مان۔مجھے اپنی کوتاہی کااحساس ہے کہ ان کتب کوہرصورت میں پہلے ایڈیشن میں شامل ہوناچاہیے تھا۔بہرحال اب ”دنیاکی سوعظیم کتابیں”کاانتخاب پہلے سے زیادہ بہتراورمستندہے۔”
”دنیاکی سوعظیم کتابوں”کی ابتداآٹھ مذہبی کتب سے کی گئی ہے۔جن میں ”القرآن الحکیم” احادیث مبارکہ کامستندترین مجموعہ”صحیح بخاری” عیسائیوں کی مذہبی کتب”عہدنامہ عتیق”،”عہدنامہ جدید”ہندؤں کی مقدس”بھگوت گیتا”چینی دانشورکی”کنفیوشس کے اقوال” مہاتما بدھ کی تعلمیات کامجموعہ”دھماپد”اورسکھوں کی ”گرنتھ صاحب” شامل ہیں۔
ان کتابوں کے تعارفی مضامین مختصراورجامع ہیں۔”القرآن الحکیم”کے بارے میں لکھاہے۔القرآن الحکیم دنیاکی واحدکتاب ہے جس کا ہر دعویٰ سچاہے۔یہ دنیاکی سب سے آخری الہامی کتاب ہے۔یہ وہ کتاب ہے جس میں آج تک کوئی تحریف نہیں ہوئی۔نہ اس میں کوئی اضافہ ہوا نہ ترمیم نہ کمی۔قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود مالک ارض وسمااورکتاب کواتارنے والے نے لی ہے۔آج بھی اس کاایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک نقطہ اسی طرح محفوظ اورموجود ہے،جس طرح اسے آج سے چودہ سوبرس پہلے اتاراگیااورصدیوں پہلے نا معلوم وقت میں ،کائنات کی تخلیق سے پہلے لوح محفوظ پرتحریرکیاگیاتھا۔مولاناعبیداللہ سندھی کے مطا بق قرآن پاک دنیاکی تمام اقوام کے درمیان محبت ویگانگت قائم کرنے کے لیے نازل ہوااوراس کے نزول کامقصدیہ ہے کہ تمام اقوام عالم ایک رشتہ وحدت میں منسلک ہوجائیں۔
قرآن پاک کادعویٰ ہے کہ یہ دنیاکی آخری مکمل ترین کتاب ہے۔یہ وہ دعویٰ ہے کہ جس پرکوئی شک نہیں کیاجاسکتا۔دنیاکی کوئی الہامی یاغیر الہامی کتاب نہ تویہ دعویٰ کرسکتی ہے اورنہ ہی اس کادعویٰ سچاہوسکتاہے۔لاریب ،یہ صفت خاص قرآن پاک سے ہی مخصوص ہے کہ دنیاکی آخری الہامی اورمکمل ترین کتاب کارتبہ بلندحاصل ہے جودنیاکی کسی کتاب کوحاصل نہیں۔کتاب میں قرآن کریم کے الفاظ ،پارے،مکی اور مدنی صورتوں،آیات،کلمات،نقطے،رکوع،حروف ِ مقطعات،ز بر،سجدوں کی تفاصیل موجود ہیں۔گوئٹے کاقول”قرآن پاک کی تعلیم کبھی ناکامی کاسامنانہیں کرسکتی اپنے تمام نظامِ ِ تعلیم کے ساتھ اگرہم چاہیںبھی توقرآن کی تعلیم سے آگے نہیں بڑھ سکتے اورنہ کسی انسان میں یہ طاقت ہے کہ وہ قرآن سے بہترنظام پیش کرسکے۔قرآن پاک نے انسانوں کوایک رب،ایک رسولۖ،ایک کتاب پرعقیدے اور ایمان کی تعلیم دی۔قرآن پاک پوری انسانیت کے لیے ہمیشہ کے لیے ہے،قرآن دنیاکاسب سے بڑامعجزہ ہے اورجواس معجزے سے انکارکرتا ہے وہ روشنی سے محروم رہے گا۔قرآن پاک دنیاکی سب سے بڑی،سب سے آخری اورسب سے مکمل کتاب ہے۔
قرآن پاک کے بعدمسلمانوں میںسب سے زیادہ پڑھی جانے والی اورمقدس کتاب صحیح بخاری ہے۔جوکئی حوالوں اورپہلوؤں سے دنیاکی عظیم اورسب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں شمارہوتی ہے۔صحیح بخاری کے حوالے سے ہی مسلمانوں کی فقہ کے بارے میں بنیادی گفتگوکاآغازہوتاہے۔وحی الہٰی کے بعدحدیث کی قدریں اس طرح متعین کی گئی ہیں کہ جواحکامات حضورنبی کریمۖ نے اپنی طرف سے ہماری خارجی اورداخلی زندگی جن میں ہمارامکمل معاشرہ شامل ہے کے لیے عنایت فرمائے،وہ تمام احادیث میں شامل ہیں ۔نبی آخرالزماں اورانسانِ کامل کی زندگی کاایک ایک نقش احادیث میں موجود ہے۔بعض علمائے اسلام کاکہناہے کہ ثقافت ِ اسلام میں احادیث کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اگرحدیث کونظراندازکردیاجائے تومسلمانوں کاکلچرتباہ ہوکررہ جائے گا۔رسول کریم ۖ کی رحلت کے بعداحادیث جمع کرنایقیناً ایک مشکل کام تھا۔اگرچہ بعثت سے رحلت تک کے زمانے میں صحابہ کرام ،حضورنبی کریم ۖ کے ہرارشاد،کلمے، طرزِ زیست کے ہراطوارکوعقیدت ومحبت کے ساتھ ذہن نشین کرلینے کی کوشش کرتے تھے۔اس سلسلے میں اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کافر مان بھی دھیان میں رکھیے۔”حضورنبی کریمۖ چلتاپھرتاقرآن تھے۔”
”عہدنامہ عتیق ”اور”عہدنامہ جدید ”کے بارے میں تفصیلی معلومات بھی درج ہیں ۔ہندوؤں کی مذہبی کتاب ”بھگوت گیتا” کے مختصرجائزے کے ساتھ اس کی تلخیص بھی ستار طاہرنے دی ہے۔
قبل ازمسیح کی کتب میں ہومرکی ”ایلیڈ”،ورجل کی ”اینیڈ”،ہندوستان کی ”کلیہ ودمنہ”،ایسوپ کی” کہانیاں”،”الف لیلیٰ”،جیفری چاسرکی ”کنٹر بری ٹیلز”،سفوکلیزکی ”ایڈی پس”،یوری پیڈیزکی”الیکٹرا” اورکالی داس کی ”شکنتلا” کوشامل کیاگیاہے۔ان میں سے ہرکتاب اپنی جگہ بیحداہم ہے۔”ایلیڈ” اور”اوڈیسی” دنیائے ادب کے دوقدیم ترین رزمیے ہومرکے نام سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ہومرکون تھا؟ اس کے بارے میں حتمی طورپرکہیں معلومات نہیں ملتی ہیں۔ہومرنے کتنی عمرپائی؟وہ کہاں کہاں رہا؟ ایسے سوالوں کاکوئی جواب نہیں ملتا۔قد یم یونان کے پانچ قدیم شہریہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہومران شہروں میں پیداہواتھا۔ہومرکے بارے میں یہ بھی مشہورہے کہ وہ اندھاتھا۔ہومر ایک رومانی اورداستانی کردارلگتاہے۔پورے وثوق سے یہ بھی نہیں کہاجاسکتاکہ ایلیڈ اوراوڈیسی کاخالق ہومرہی تھا۔ایک عرصے تک تویہ بحث بھی چلتی رہی کہ کیارزمیہ شاعری کے ان عظیم لافانی شہ پاروں کوکسی ایک شاعرنے لکھاتھایادونے یازیادہ نے۔پورے وثوق سے یہ بھی علم نہیں کہ ہومرنے پہلے ایلیڈلکھی تھی یااوڈیسی۔ان تمام پراسرارباتوں کے باوجود”ایلیڈ” اور”اوڈیسی ”دنیائے ادب کے دولافانی شاہکارہیں۔صدیوں سے انھیں پڑھاجارہاہے۔متعددباران کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے ہیں۔ایلیڈ،اوڈیسی اورہومرساری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔
اگریونانی زبان نے ہومرکوجنم دیاجس کی رزمیہ شاعری عالمی ادب کاعظیم اورلازوال سرمایہ اورورثہ ہے تولاطینی زبان نے وِرجل کوجنم دیا جس نے ”اینیڈ” لکھ کرجہاں دنیاکی رزمیہ شاعری میں لازوال اضافہ کیا،وہاں لاطینی زبان کونئی وسعت اورشعریت سے مالامال کیا۔ ورجل کی اینیڈکاوہاں سے آغازہوتاہے جہاں ہومرکی رزمیہ داستان کااختتام ۔ایک عظیم تہذیب اورسلطنت کاخاتمہ ہوتاہے،ایک نئی سلطنت اورتہذیب جنم لیتی ہے۔ایک دنیاموت کے دہانے پرکھڑی ہے اوردوسری اپناوجودآشکارکررہی ہے۔”اینیڈ” کی تخلیق دراصل عظیم ترین شعری امکانات ،زبان کی گہرائی،قوت متخلیہ کی بے پناہ وسعت کامظہراورایک ایسے فن پارے کی تخلیق ہے جواپنی مثال آپ ہے۔عظیم وبرتراورمنفرد،اوراس تخلیق کاخالق وہ شاعرہے جسے دانتے،طربیہ خداوندی کااپنارہنمابناتاہے۔
”کلیہ ودمنہ” کے بارے میں ملک الشعراء بہارنے لکھاہے۔”دنیائے ادب میں کوئی کتاب ایسی نہیں کہ اتنی مدت تک مقبول اورمحبوب ومر غو ب رہی ہواورجس کے متعلق یہ یقین ہوکہ رہتی دنیاتک اس کی ہردل عزیزی کایہی عالم رہے گا۔کسی قوم کی تخصیص نہیں،کسی زمانے کی قید نہیں،کسی عہدکی شرط نہیں۔ہرجگہ ہروقت مختلف معاشرتی اداروں میں اورثقافتی مرکزوں میںیہ تالیف دل پذیراورمقبول رہی ہے بادشاہو ںنے اسے سبقاً سبقاً پڑھاہے۔رات کوخوش رو اورخوش گلوغلاموں اورکنیزوں سے اس کی کہانیاں سنی ہیں۔امرانے حل مشکلات میں اس کو پیش نظررکھااورعام لوگوں نے دستورحیات سمجھاہے۔صوفیوں نے اورنجات کے طالبوں نے اس کے مندرجات میں عالمگیرصداقتوں کی جھلک دیکھی ہے۔اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس کتاب کامولف یامولفین علم حیات اورعلم نفس کے ماہرتھے اورمشکلات پرپریشان نہیں ہو تے تھے۔مختصریہ کہ یہ تالیف ہندوستان کی فکری اورذہنی تاریخ کانقطہ ء عروج ہے۔وہاں دانشوروں اورمفکروںکے تجربات کاماحصل ہے۔
اسی طرح ایسوپ کی ”کہانیاں” ہیں۔معلوم دنیاکی کوئی ایسی زبان اورخطہ نہیں ہے جہاں کسی نہ کسی صورت میں ایسوپ کی حکایتیں نہ پہنچیں ہوں۔دنیاکی ہرچھوٹی بڑی زبان میں ان حکایتوں کاترجمہ ہوچکاہے۔ان حکایتوں نے دنیابھرکے ادب کومتاثرکیاہے۔اس سرچشمے سے کئی سوتے پھوٹے ہیں صدیوں پرانی ہونے کے باوجودیہ حکایتیں آج بھی تازہ،معنی خیزاورنئی ہیں۔گہری معنویت اوربنیادی صداقت کی وجہ سے ان حکایتوں کی دل کشی ہردورمیں بڑھتی رہی ۔ان میں ایسی صلاحیت اورسکت موجود ہے کہ بدلے ہوئے زمانوں میں یہ حکایتیں نئے معنی سے روشناس کراتی ہیں جواس دورکے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ان حکایتوںکے حوالے سے جواخلاقی درس ہمیں دیاجاتاہے بلا شبہ اس سے انسانی زندگیوں کوبہتراندازمیں بسرکرنے کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔
”الف لیلیٰ”کے بارے میں انتظارحسین نے لکھاہے۔”الف لیلیٰ کوجس نے تخلیق کارنے جنم دیاہے آج ہم اس کے خالق یاخالقوں کے نام بھی صحیح طورپرنہیں بتاسکتے۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ سارے عربوں نے یاایک پوری تہذیب نے اسے تصنیف کیاہے۔”ایک پوری تہذیب کی یہ تصنیف الیف لیلیٰ،دنیاکی ان معدودے چندکتابوںمیں سے ایک ہے جس نے ایک وطن میں بھی اس طرح جنم لیاکہ عالمگیریت اور بین الاقوامیت سے خمیراٹھاتھااورمکمل ہونے کے بعدبھی اس کاگھراوروطن ساری دنیاہے۔
غرض ستارطاہرکی اس بے مثال تصنیف”دنیاکی سوعظیم کتابیں”میں تہذیب انسانی کی سوبہترین کتب کواس طرح متعارف کرایاگیاہے کہ عا م قاری کی مطالعے کی تمام ضروریات اس کے ذریعے بخوبی پوری ہوجاتی ہیں۔ہردوراورہرموضوع کی منتخب کتابوں سے آشناہوجاتاہے اور وہ کسی بھی محفل میں گفتگوکرسکتاہے۔
”دنیاکی سوعظیم کتابیں” میں جہاںسوفوکلیزکی”ایڈی پس”،یوری پیڈیزکی”الیکٹرا”کالی داس کی ”شکنتلا”ولیم شیکسپیئرکی”ہیلمٹ” اور گوئٹے کی”فاؤسٹ”،ہنرک ابسن کی ”ڈیکمرون”،دانتے کی”ڈیوائن کامیڈی” شامل ہیں۔وہیں مشرقی دانش کی غیرمعمولی کتب حضر ت علی کی ہمیشہ زندہ رہنے والی”نہج البلاغہ”،ابن عربی کی تصوف کی ”فصوص الحکم”،سیدعلی بن عثمان ہجویری کی ”کشف المحجوب”،فردوسی کا مشہورِعالم”شاہنامہ”،سعدی شیرازی کی ”گلستان”، رومی کی ہست قرآں درزبانِ پہلوی ”مثنوی” ،حافظ شیرازی کا”دیوانِ حافظ” ، وارث شاہ کی”ہیر”کے بارے میں مضامین بھی موجودہیں۔جنہوں نے کتاب کی وقعت میں اضافہ کیاہے۔
”نہج البلاغہ”کے مضمون میں ستارطاہر نے لکھاہے۔”میری نظرمیں حضرت علی کاکلام تین بنیادی سمتوں میں دائرہے۔اول خطبات واحکام ، دوسرے مکتوبات ورسائل،تیسرے حکم ونصائح بتوفیق ایزدی پہلے خطبات پھرحکم وآداب کے انتخاب کاارادہ ہے ۔بے ربطی اوربے ترتیبی کے باوجودیہ حضرت علیکاکلام ہے جن کے بارے میں خود رسول اکرمۖ نے فرمایاتھا۔”میں علم کاشہرہوںاورعلی اس کادروازہ۔”
ہردورکی تاریخ وتحقیق کی کتب میں تھامس مورکی ”یوٹوپیا”کے بارے میں لکھاہے۔”مفکروں،علما،شاعروں،ادیبوں،مصلحوں،رہنما ؤں ،فلسفیوںاوردانشوروں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ انسان جس دنیامیں جنت سے نکالے جانے کے بعدآبادہواہے یہ ایک مثالی دنیا بن جائے۔ایک ایسی دنیاجہاں انسان ایک دوسرے کے ساتھ صلح وآشتی کے ساتھ بسرکرسکیں۔ایک دوسرے کادکھ بانٹ سکیںاوردنیامیں ایک ایسی حکومت ،ایک ایسانظام قائم ہوجائے جوانسانوں کی فلاح وبہبودکے تمام تقاضوںاورضرورتوں کوپوراکرتاہو۔انسانی دنیاکوجنت بنانے کاخواب جن لوگوں نے دیکھاان میں سے ایک تھامس موربھی تھاجس کی کتاب ”یوٹوپیا” کوعالمگیرشہرت حاصل ہوئی۔”
دیگرکتب میں آئزک نیوٹن کی ”پرنسپیا”، چارلس ڈارون کی مشہورِ زمانہ”اصل الانواع” ،ہیروڈوٹس کی”تواریخ”، ابن خلدون کا”مقدمہ” ،ایڈورڈگبن کی ”انحطاط وزوال سلطنت روما”، آرنلڈجے ٹائن بی کی ”اے سٹڈی آف ہسٹری”،تھامس ہابزکی ”لیویاتھن” باروک اسپنوزا ”ٹریکیٹس تھیالوجیکو۔پولیٹکس” ،افلاطون کی”ریاست” ،ارسطوکی”سیاست”،ڈیکارٹ کی ”میڈی ٹیشنز”،امانویل کانٹ کی”تنقیدعقلِ محض”،والٹیئرکی ”فلاسفیکل ڈکشنری”،نکولومکیاولی کی”دی پرنس”،روسوکی ”معاہدہ عمرانی”،آرتھرشوپنہارکی”دی ورلڈایزول اینڈآئیڈیا ” اورژاں پال سارترکی ”بینگ دینڈنتھنگ نس”جیسی کتب پرتفصیلی مضامین بھی شامل ہیں۔کارل مارکس کی تاریخ سازکتاب”داس کیپیٹل” ، سگمنڈفرائڈکی ”سائیکواینالائیسز”،کارل ژونگ کی”میموریز،ڈریمز،رفلیکشنز”اورجان بینن کی”پلگرمزپراگریس” کاتعارف بھی پیش کیا گیاہے۔
عالمی ادب کی مشہورِزمانہ کتابوں میں وکٹرہیوگوکی ”لامزرایبل”، نکولائی گوگول کی ”ڈیڈسولز” ،ہیریٹ اسٹووکی ”انکل ٹام کیبن”، مارک ٹوین کی”دی ایڈونچرآف ٹام سائر”،ایمیلی برونٹے کی ”ودرنگ ہائٹس”،ایوان ترگنیف کی ”باپ اوربیٹے”،ستاں دال کی”سیاہ وسفید”،گستاف فلابیرکی”مادام بواری”،میکسم گورکی کی”ماں”فیودوردوستوئیفسکی کی”کرامازوف برادران”،چارلس ڈکنزکی”ڈیوڈ کاپرفیلڈ”، ڈییئل ڈیفو کی”رابنسن کروسو”،ہرمن میلول کی”موبی ڈک”الیگزنڈرڈوماکی”کونٹ آف مونٹی کرسٹو”اورلیوٹالسٹائی کی”جنگ اورامن”کوبھی ستار طاہرنے عمدگی سے متعارف کرایاہے۔جیمس جوائس کی”یولیسز”،البیرکامیوکی ”دی فال”،عمرخیام کی ”رباعیات”،علامہ اقبال کے”جاوید نامہ”موپساں کی ”کہانیاں ” پربھی مضامین موجود ہیں۔غرض یہ عالمی ادب کاایک ایساگلدستہ ہے،جس میں ہرموضوع،شعبے اوردلچسپی کی بہترین کتابوں کامختصراورجامع تعارف کرایاگیاہے۔اس شاندارکتاب کی اشاعت پربک کارنرجہلم،گگن شاہداورامرشاہد کوبھرپورمبارک باد۔