ADVERTISEMENT
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر آنے والی آفت ومصیبت، جابر حکمرانوں کا دباؤ، ناانصافی، ظلم وجور، جبر واستبداد، حق و صداقت کی حمایت اور حق گوئی، یہ سب ایسے اقدار ہیں جو کسی بھی معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔
عربی شاعری میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بڑی اہمیت حاصل ہیں۔ عربی شعرا حسین رضی اللہ عنہ اور عظمت حسین رضی اللہ عنہ پر محدود مذہبی نقطہء نظر سے نہیں بلکہ تاریخی، سیاسی اور سماجی نقطہء نظر سے غور وفکر کرتے ہیں۔ ان کے یہاں امام حسین رضی اللہ عنہ، ان لوگوں کا ایک بہترین نمونہ ہیں جو ظالم حکمرانوں کے مقابلے میں کھڑے ہوتے تھے اور غلط کاموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ کفار اور فوجِ یزید کے مقابلے میں کھڑے ہوئے تھے۔ عربی شعرا بھی حسین رضی اللہ عنہ کو عصری تناظر میں دیکھنے پر زور دیا جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر عراقی شاعر مظفر النواب عرب حکمرانوں پر تنقید کر کے یزیدی کردار کی یاد تازہ کرتے ہیں کیونکہ یہ کردار ایک ایسے تاریخی مرحلے کی عکاسی کرتا ہے جس میں ناانصافی اور بے حرمتی عام تھی ۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یہ انقلاب کا سر ہے
جو یزید کی پلیٹ میں اٹھایا جا رہا ہے
اور یہ جگہ تمہارے قیدیوں کے دن سے زیادہ
اوہ، میرے خدا
حکام کیسے ہیں!
اور انقلاب کا سر کیسا ہے!
کیا تم عرب ہو؟!
اور یزید بالکنی پر
تمہاری ننگی کی عزتوں کی نمائش کر رہا ہے
اور انہیں بھیڑ کے گوشت کی طرح
ارتداد کی فوج پر تقسیم کر رہا ہے
مصری شاعر فاروق جویدہ کے خیال میں امت عربیہ اور امت اسلامیہ کو مشکلات اور پریشانیوں کا اس لئے سامنا ہے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر نہیں رہی ہیں، چنانچہ اگر وہ پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات چاہتی ہیں تو انہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا طرزِ زندگی اختیار کرنا ہوگا۔ چند مصرعے یہاں دیکھیں:
ایک دن میرے والد نے مجھ سے کہا
اے میرے بیٹے! اگر تم اجنبی کی طرح شہر آؤ
اداس رات میں
اس کی خستہ حال مٹی کو چاٹنے لگو
اور شاید اس میں تمہیں کسی دوست یا محبوب کی تلاش ہو
میرے بیٹے! اگر تم بھیڑ میں اجنبی بن جاؤ
یا دنیا انتہائی حقیر و ذلیل بن جائے
یا بے عزتی کی دنیا میں آدمی کی عزت تلاش کرنے لگو
اگر زندگی تم پر تنگ ہو جائے
تو اپنے غموں کو اپنے ہاتھ میں لو
اور حسین رضی اللہ عنہ کی قبر جاؤ
اور وہاں دو رکعتیں پڑھو
عربی شاعر احمد مطر بھی کمزور حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان پر حملے چست کرتے ہیں اس لیے کہ ان کو ان میں حسین رضی اللہ عنہ کی طرح کوئی حکمران یا لیڈر نظر نہیں آ رہا ہے اور وہ حسین رضی اللہ عنہ کی طرح حکمران کی آمد سے مایوس ہو چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کے حکمران یزید بن گئے ہیں۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم آگ میں ہیں اور آپ برف میں ہیں
ہماری قسمتیں سیاہ ہیں
اور آپ سویڈن کے محلوں میں ہیں
موت ہماری گھات میں ہے
اور آپ بینک بیلنس بڑھانے کے لئے جان کی بازی لگا رہے ہیں
ہم نے بغاوت کی
ہم نے آپ میں سے کسی حسین رضی اللہ عنہ کے آنے کا انتظار کیا
تاکہ وہ ہماری قیادت کرے
لیکن انتہائی مشقت و پریشانی کے باوجود
ہمیں وہی یزید ملا
ہم اس دنیا سے رخصت ہو جائیں
اور ہمارے بعد آپ کو لمبی عمر نصیب ہو!
شاعر قاسم حداد اپنی نظم (غدار شہروں سے حسین رضی اللہ عنہ کے سر کا نکلنا) میں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر عصرِ حاضر کے اس انقلاب کی ایک علامت ہے جو ظلم و زیادتی اور غلامی کے خلاف برپا ہو رہا ہے اور واضح کر رہے ہیں کہ اس واقعے میں انقلابی حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو آگ کے شہروں تک لے گئے اور خلیج میں انقلاب شروع ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں:
ہم چل رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اس زمین کو کس طرح کھو دیں،
اور اس کے اندر کس طرح بیج بویں
ہم ہر زمانے میں سروں کو کاٹنا اور ان کو زمین دفن کرنا جانتے ہیں
کیونکہ ہم کربلا سے سفر کرنے والے حسین رضی اللہ عنہ ہیں
اور حسین رضی اللہ عنہ کا سر دمشق اور خلیج کے درمیان پاش پاش کر دیا گیا
ہم نے اس کا ممیہ کیا اور اسے اٹھا کر سکون محسوس کر رہے ہیں
امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی مصیبت کی گھڑی میں کس طرح ثابت قدم رہے اس سے شاعر مظفر النواب نے ثابت قدمی کا سبق لیا ہے۔ وہ آہنی نظم ( آسمانوں کے درمیان کھڑا ہونا اور حسین کا سر) میں کہتے ہیں:
میں نے اپنی ثابت قدمی آپ سے سیکھی ہے
اور تنہائی میں اپنے غم کی قوت بھی
طفوف کے دن، آپ کس قدر تنہا تھے
اور آپ سے اونچا کوئی نہیں تھا
آپ کو گھوڑے روند رہے تھے
اس نظم میں شاعر امام حسین رضی اللہ عنہ کی بلندی اور مظلومی و قربانی کی عمدہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو انقلابی ہیرو کی صورت میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے آہ وبکا کے بجائے تاسی حسین رضی اللہ عنہ کو مرکزیت دی ہے۔ وہ قوم کو حسین رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی کا درس دینا چاہتے ہیں اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات سے سبق لینے پر آمادہ کر رہے ہیں۔
مظفر النواب نے اپنی نظم ( سلیل کتاب سے) میں عراق کی حالت بیان کی ہے۔ اس میں شاعر ان نونہال بچوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے جسم عراق میں بمباری سے چیتھڑے ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ جب بچوں کے جسموں کے ٹکرے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔ یہ بند دیکھیں:
شاید اگر حسین بیروت کے سڑکوں پر کسی بچی کو دیکھیں
جس کے گوشت خواہشات نوچ رہی ہیں ۔۔
اور اس کے اندر بموں کے ٹکڑے دیکھیں، تو وہ اپنے المیے کو بھول جائیں
اور اس کے پھیپھڑوں پر زخموں کو رستا ہوا دیکھیں
معرکہء حق و باطل میں امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کے سامنے سر نہیں جھکایا اور شہادت کو ترجیح دی۔ جس میں بھی حسین رضی اللہ عنہ کے صبر اور یزیدیت کے جبر کی انتہا نظر آتی ہے۔ عربی شعرا چاہتے ہیں کہ ہمیں حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے سبق لینا چاہئیے اور اپنے اندر حق، عزت اور انصاف کی سربلندی کی خاطر جابر طاقتوں کے سامنے کلمہء حق کہنے کی ہمت پیدا کرنی چاہئیے۔ حق اور باطل کی اس جنگ میں شاعر احمد مطر یزیدیوں کی جماعت کا ساتھ دینے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے پر حسین رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھوک کی حالت میں نماز ادا کرنے کو دے رہے ہیں:
میں کسی پارٹی یا جماعت سے تعلق نہیں رکھتا
میں کوئی نعرہ نہیں ہوں
یا کسی دکان کا کوئی سامان نہیں ہوں
میں ایسی لہر ہوں جو سمندر کے بیچ میں پوری آزادی کے ساتھ بلند ہوتی ہے
اور ہمیشہ اپنی جان قربان کرتی ہے
تاکہ دونوں ساحلوں کی ریتوں کو سیراب کرے
اگر مجھے ان دونوں میں سے ایک کو چننے کے لئے کہا جائے:
کہ میں یزید کے ساتھ عیش و عشرت کے ساتھ گانے گاؤں
یا حسین کے پیچھے بھوکا نماز ادا کروں
تو میں حسین کے پیچھے بھوکا نماز ادا کرنے کو چنوں
شاعر مظفر النواب کے خیال میں جو حق کی گواہی دینے کی جد وجہد کرتا ہے۔ اور حق کی جیت کی خاطر اپنا سر قلم کرا دیتا ہے تو وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی مانند ہی ہے اور آخرکار اس کی جیت ہوگی اور اس کا بہا ہوا خون لافانی بن جائے گا۔ ملاحظہ کریں:
اور تم حسین کے اس سر سے کتنا عشق کرتے ہو
جو نیزے پر ہے اور آرام نہیں کرتا
جب سے خون نے گیسوؤں کو سنوارا ہے اس وقت سے وہ برہم ہونے کا نام نہیں لیتے اور جس چیز کو خون پختہ کر دیتا ہے اس کا ختم ہونا مشکل ہو جاتا ہے
عیسائی شاعر ادونیس حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور ان کے جنازے کی یوں منظر کشی کر رہے ہیں:
جب نیزے حسین کی آخری سانسوں میں پیوست ہو گئے
اور جسم حسین سے آراستہ وہیراستہ ہو گئے
اور گھوڑوں نے حسین کے جسم کے
ہر حصہ کو رونا ڈالا
اور حسین کا گریباں چاک کر کے اسے تقسیم کر ڈالا
تو میں نے دیکھا کہ ہر پتھر حسین کے ساتھ شفقت و مہربانی کا معاملہ کر رہا ہے
اور ہر پھول ان کے کندھے کے پاس سو رہا ہے
میں نے دیکھا کہ ہر دریا
حسین کے جنازے کے پیچھے چل رہا ہے
یہ اشعار اندرونی کرب اور بے چینی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن اس بے چینی میں نہ تو ناامیدی ہے اور نہ مایوسی بلکہ اس میں ایک قسم کا احتجاج اور اعتراض ہے۔ شاعر نے امام حسین کی تلمیحات سے اپنے عہد کی صورتحال بیان کی ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان چیزوں کی ہمدردی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حق کی راہ میں ہوئی تھی اور یہ باطل کے خلاف آواز اٹھانے کی علامت ہے۔
عربی شعرا کا خیال ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں امام حسین اور ان کے جانثاروں کی قربانیوں سے سبق سیکھ کر مظلوم افراد اور اقوام کو پامال کرنے کی ضد سے باز آنا چاہئیے۔ ہم سب کو حسینی راستے پر چلنا چاہئیے تاکہ اللہ ہمیں راہ قربانی کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشے۔
عربی شعرا نے اپنی شاعری میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آئندہ اور موجودہ نسل کے لئے ایک نمونہ بن جائیں، ان کے اندر بیداری اور مزاحمت کا جذبہ پیدا ہو اور وہ اس مثالی کردار کی روشنی میں ظالمانہ نظامِ حکومت کے سامنے حق کی سربلندی کا فریضہ ادا کر سکیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا انقلاب اس لئے پیش کیا ہے کہ لوگ اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں، اور حق تلاش کرنے والے افراد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔