ارشدعلی ایک استاد،شاعراورنثرنگارہیں۔ان کے نثرپاروں کی دومجموعے”منظرمجھ پرکھلتاہے” اور”قافلہ سفرمیں ہے” اور”آثارالصنادیدکا تحقیقی وتنقیدمطالعہ” شائع ہوچکی ہیں۔یہ ان کے ایم فل کامقالہ ہے۔ارشدعلی نثری نظمیں بھی کہتے ہیں۔ارشدعلی نے پروفیشنل کیریئرکا آغاز اپرڈویژن کلرک کی حیثیت سے کیا ، لیکن جلدہی بطورٹرینڈانڈرگریجویٹ ٹیچروفاقی وزارت تعلیم کینٹ وگیریژن میں ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ایم اے اردواورتاریخ کی ڈگریاں پرائیویٹ امیدوارکے طور پرحاصل کیں۔ایم فِل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا۔ جس کے بعدسرکاری کالجوں میں لیکچرراور پروفیسراردورہے۔2017ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج دینہ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔
”زمین زاد” پروفیسرارشدعلی کی خودنوشت ہے۔یہ ایک استاداورنثرنگارکی بہت خوبصورت یادوں پرمشتمل دلچسپ کتاب ہے۔”اپنی بات” میں ارشدعلی اپنی بعض کمیوں اورکوتاہیوں اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔”یکم دسمبردوہزارسترہ کوگورنمنٹ ڈگری کالج دینہ ضلع جہلم کی پرنسپل شپ سے ریٹائرمنٹ کے بعدکچھ عرصہ توگھریلو کاموں نے ہی فرصت نہ دی۔تھوڑاسکون بحال ہواتومیں نے اپنی منتشریادیں یکجا کرنا شروع کیں۔پھریادداشتی خاکے نے کچھ طول پکڑا تولکھنے لکھانے کاسلسلہ بھی شروع کردیا۔میں اپنی افتادطبع کی وجہ سے زیادہ دیرتک جم کرکام نہیں کرسکتا، اس لیے آپ کومیری ان منتشریادداشتوں میں جزئیات نگاری نہیں ملے گی۔البتہ ہوسکتاہے کہ آپ کاواسطہ نتیجہ خیز واقعاتی تنوع سے پڑے۔ یقینا سچائی اچھی چیزہے لیکن میں نے سارے سچ بیان نہیں کیے مگرجھوٹ بولنے سے حتیٰ الامکان گریزکیاہے ۔ کتاب کادوسراحصہ ہم عصرشخصیات پرمشتمل ہے۔یہ خاکے یا نیم خاکے بھی اپنے اندرمصنف کے بارے میں ایک سوانحی موادرکھتے ہیں کیونکہ دیکھنے والادوسروں کواپنی عینک سے دیکھتے ہوئے اپنے بارے میں بھی بہت کچھ بیان کردیتاہے۔بعض احباب کے حوالے سے قدرے شوخی کااندازدرآیاہے۔یہ دراصل ان کی جانداراورہفت رنگ شخصیت کااعجاز ہے۔بوڑھوں کی بات میں تکراربہت ہوتی ہے ۔ معافی چاہوں گااگرآپ کویہ عیب میری تحریر میں ملے۔دوسراعیب واقعاتی خلا کاہوسکتاہے،تاہم اس سلسلے میں فیصلہ پوری کتاب پڑھ کر کیجئے ۔ہوسکتاہے کہ ایک جگہ کاخلاکسی اورمقام کی تفصیل میں پوراہوتا ہوانظرآجائے۔”
”زمین زاد” محض ایک خودنوشت نہیں بلکہ اس میں جگ بیتی،تاریخ،شکار،سفرنامہ اورخاکہ نگاری کالطف بھی موجود ہے۔ارشدعلی نے ”اپنی بات” میں کتاب میں واقعاتی کمی کاذکرکیاہے۔اس کے برعکس آپ بیتی دلچسپ واقعات سے بھری ہے۔انھوں نے افرادِ خاندان ،ہم کاراحباب اوراہلِ قلم واہلِ علم ودانش کے جومختصراورطویل خاکے لکھے ہیں ۔وہ تمام بہت دلچسپ ہیں۔ان خاکوں میں ان شخصیات کے جیتے جاگتے مرقعے چندلفظوں میں پیش کیے ہیں۔
معروف ادیب ودانشورڈاکٹرغفورشاہ قاسم نے خودنوشت کے بارے میں لکھاہے۔” پروفیسرارشدعلی کی خودنوشت ”زمین زاد” ایک ڈاؤن ٹوارتھ اورخودسازشخصیت کی داستانِ حیات ہے جس کی سب سے بڑی خوبی اس کی ریڈایبلیٹی ہے۔ان کی نثرکوہم آسانی سے مرتکز،مربوط اورمبسوط نثرکہہ سکتے ہیں۔صاحبِ اسلوب نثرنگارمختارمسعودنے اچھی نثرکی شناخت اورمعیاریہ متعین کیاہے،”اچھی نثرکی اصل پہچان یہ ہے کہ اس میں حسن،زرخیزی اورخیرہو۔حسن عبارت کا،زرخیزی فکرکی اورخیرجوان دونوں کاحاصل ہے۔اچھی نثرکافیضان یہ ہے کہ وہ لکھنے والے کے لیے نعمت اورنیکی ہوتی ہے اورپڑھنے والے کے لیے انعام واکرام۔” پرفیسرارشدعلی کی نثراس اعلیٰ معیارکی بہترین مثال ہے۔ عبارت ایسی رواں دواں جیسے اونچے پہاڑکی ڈھلوان میں بہنے والاچشمہ۔یادش بخیر،احمدندیم قاسمی کے عہدسازادبی جریدے’فنون’ کے صفحات پرارشدعلی کے نثرپارے چھپتے رہے ہیں۔میرااُن سے پہلاغائبانہ تعارف انھیں نثرپاروںکے ذریعے ہوا۔ان نثرپاروں میں شعراورنثرکی ڈومین معدوم ہوتی نظرآتی ہے۔میرے نزدیک شاعری آنسوؤں اورنثرخونِ جگرسے کشید ہوتی ہے۔شاعری انسپائریشن اور نثرپرسپریشن کانتیجہ ہوتی ہے،لیکن ارشدعلی جیسے صاحبِ اسلوب تخلیق کارکی نثربیک وقت ان دونوں صفات سے متصف ہے۔انہوں نے ” زمین زاد” میں اپنی زندگی کے مدوجزرکااس طرح جائزہ لیاہے کہ ان کے قاری کوکہیں بوریت کااحساس نہیں ہوتابلکہ ان کی رواں دواں نثر اپنے بہاؤ میں بہائے لیے جاتی ہے۔پروفیسرارشدعلی نے حرف کی خوشبواوربیان کے ذائقے کوکاغذکی تہوں میں یوں گوندھ دیاہے کہ جب تک پڑھنے والاکتاب کامکمل مطالعہ نہ کرلے وہ کتاب کی سرحدوں سے باہرنکلنے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔”
محمدحقیق ساہی’ پیش لفظ’ میں لکھتے ہیں۔”جب سے شنیدملی کہ پروفیسرارشدعلی آپ بیتی لکھ رہے ہیں توسوچاکہ اب
بڑھاپے میں بیٹھ کران حسرتوں کویادکرنے لگے ہیں جوان کوابھی تک ترساتی رہی ہیں لیکن جب پڑھناشروع کیاتواندازہ لگانامشکل تھاکہ یہ تحریرہے کس کی؟ کبھی اردوادب توکبھی روسی یاانگریزی ادب یاکسی عالمی شہرت یافتہ شخصیت کے زورِقلم کانتیجہ معلوم ہوتا۔کبھی یوں لگتاکہ انتظارحسین کااساطیری اسلوب ہے یاچیخوف کامعمولی کوغیرمعمولی بنانے کااندازیاپھراوہنری کاساسادگی بھرافسانہ یاگاندھی کی”تلاش حق” میں اپنایاہوابے لاگ تبصرے کافن۔ابھی سوچ کے دھارے ادب کی بھول بھلیوںمیں بھٹک ہی رہے تھے کہ اگلی تحریرنے یہ سجھایاکہ یہ توچوپال کے حقے پہ بیٹھا بابا ہے جواگلی نسل کوفلسفہ زندگی سمجھارہاہے یاایک ریسرچ اسکالرجواپنی ہی لکھت میں چھپی خامیوں کوخود ہی واضح کررہاہے۔لیکن ہم کسی سنکی نقادکی طرح کیوں ارشدعلی کی ہمہ جہت سوچوںکوجدیدیت ،مابعدجدیدیت یاکولونیئل اورپوسٹ کولونیئل کے بنے بنائے چوکھٹوں میںزبرد ستی فکس کرکے محدودیت کی بھینٹ چڑھادیں۔ایساکرناان کے اسلوب کے ساتھ زیادتی ہوگی۔دراصل ان کوکوئی ٹیگ لگایاہی نہیں جاسکتا ۔نتیجتاً اس نقطے پرپہنچاکہ اگرادب اورسماجی علوم پڑھنے کے بعدایک ریسرچ اسکالرکی نظرسے معاشرے پرگہری نظرہوتونتیجہ ایسی ہی پہلو دارتحریرکی صورت نکلتاہے۔آپ بیتیوں میں کچھ توپاپ بیتیاں ہوتی ہیں اورکچھ لانڈری سے دھلائی کے بعدآنے والی سرگزشتیں۔دونوں ہی توازن سے ہٹی ہوئیں یاپھرشوخیوں اوربھرپورجھوٹ کاپلندہ کہی جاسکتی ہیں۔ارشدعلی کاکمال یہ ہے کہ جہاں اپنی غلطیوں کاادراک ہے وہیں کامیابیوں کادرست تجزیہ بھی۔دراصل انہوں نے اپنے آپ کوایک ہمدردانہ نظرکی بجائے ایک ناقدانہ نظرسے زیادہ دیکھاہے اور اپنی کوتا ہیوں پرکھل کرہنسے ہیں۔انہوں نے اپنے کلچرکی بنیادسے جڑے ہونے کے باوجودسوچ کوقدامت پرستی کے کنویں پڑے رہنے سے روکا ہے۔ وہ موجودہ گلوبلائزڈدنیاکے حالات اورتقاضوںکوسامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک مقامی واقعے کاتجزیہ ایسے کرتے ہیں کہ تھنک لوکلی ،ایکٹ لوکلی کی عملی تشریح ہوجاتی ہے۔”
ارشدعلی کی آپ بیتی کی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی ہے۔انھوں نے کہیں بھی واقعات کوبناسنوارکرپیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔عام آدمی کی زندگی میں پیش آنے والے سیدھے سادھے واقعات اسی اندازمیں بیان کردیے ہیں۔بک کارنرجہلم نے حسبِ روایت کتاب کو انتہائی عمدہ کتابت وطباعت سے آراستہ کیاہے،بہترین ٹائٹل اوربائیڈنگ کی گئی ہے۔ان سب خوبیوں کے ساتھ تین سوچوراسی صفحات کی کتاب کی قیمت آٹھ سوروپے بہت مناسب ہے۔
”زمین زاد”کودوحصوںمیں تقسیم کیاگیاہے۔پہلے حصے میں ”بچپن کی چندیادیں”،”لڑکپن”،”نوجوانی” ،”ملازمت”،”عمومی موضوعات ” اور”خیالات اورمشاہدات ” کے تحت دلچسپ ذیلی عنوانات سے واقعات کوبیان کیاہے۔اپنے خاندانی پس منظرکے بارے میں بتاتے ہیں ۔”میراآبائی گاؤں کھوجکی تحصیل دینہ ضلع جہلم میں دینہ شہرسے دس بارہ کلومیٹرجنوب مغرب میں واقع ہے۔گوجربرادری پر مشتمل اس گاؤں کواٹھارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں گاؤں کے مشترکہ جدِامجدخوزم خاں نے آبادکیا۔اس وقت پنجاب میں احمدشاہ ابدالی کی حکومت تھی۔گوجرافغانوں کے روایتی حلیف تھے۔اس بنیاد پرعلاقہ روہتاس کی مال گزاری کاکام ہمارے جدامجدخوزم خان کے سپرد کیا گیا ۔ ان کی اولادکی سیادت سکھوں کے عہدمیں بھی برقراررہی۔جب انگریزوں کادورآیاتوانھوں نے اس عہدے کوذیلداری میں تبدیل کردیا۔ہمارے خاندان میں تعلیم کاآغازمیرے دادا اورناناکے دورسے ہوا۔یہ دونوں حقیقی بھائی تھے۔ناناچودھری نورحسن روہتاس سے پرائمری پاس کرکے پہلی جنگ عظیم کے دورمیں برطانوی فوج میں چلے گئے اورداداچودھری نورالہٰی اسی اسکول سے مڈل کرکے محکمہ تعلیم میں شامل ہوئے اوربطورہیڈماسٹرریٹائرہوئے۔میرے والدصاحب کپتان محمدافضل نے زمیندارہ کالج گجرات سے سلسلہ تعلیم مکمل کیااور آرمی ایجوکیشن کورمیں خدمات انجام دیں جبکہ چھوٹے چچامسعوداحمد نے برطانوی شہری کی حیثیت سے چارٹرڈاکاؤنٹنٹ کاکورس مکمل کیا۔”
ارشدعلی نے اپنے بچپن کے بعض کھیلوں کاذکرکیا،جن سے بچپن کے کھیل ہرقاری کویادآجاتے ہیں اوربعض انوکھے کھیلوں کاپتہ چلتاہے۔ ان میںمقبول ترین توآنکھ مچولی تھا،جس سے ہرپڑھنے والاواقف ہے۔ایک کھیل ”کولڑاچھپاتی” ہوتاجس میں دائرے میں آنکھیں موند کے بیٹھے بچوں میں سے کسی ایک کے پیچھے کپڑے سے بٹاہواکوڑارکھ دیاجاتا۔اگرتومتعلقہ بچہ ہاتھوں سے ٹٹول کرکوڑے کاپتاچلالیتاتواس کی بچت ہوجاتی اوروہ اسی کوڑے سے دائرے کے گرد چکرلگانے والے لڑکے کی پٹائی کرسکتاتھا۔دوسری صورت میں اگلے چکرکے دوران دائرے کے گردگھومنے والالڑکااسی کوڑے سے اس کی خوب خبرلیتا۔یہی کھیل ہم ”کوڑاجمال شاہی” کے نام سے کھیلتے تھے۔ایسے ہی ایک کھیل ‘چدی چاپہ’ تھا۔چدی ٹوٹے ہوئے گھڑے کاچھوٹاساگول تراشیدہ ٹکڑاہوتا اورچاپہ خانوں میں منقسم ایک مستطیل جس کے ہرخانے میں باری باری کامیابی سے چدی پھینک کرمستطیل کے تمام خانوں کوایک ٹانگ کے جمپ پرطے کرکے اس چدی کواٹھاکرواپس لاناہوتاتھا ۔یہ کھیل ہمارے ہاں ”پہل دوج”کہلاتاتھا۔بیساکھ کے بعدکھلیانوں سے گندم کی فصل اٹھالی جاتی تویہ ہموارکھلیان نئے کھیلوں کے اچھے گراؤنڈفراہم کرتے۔ان میں مقبول ترین کھیل ‘اُوربُور’تھا۔کھلیان کے درمیان ایک گول گڑھے کے گرددائرہ نمانشان پرلڑکے اپنے اپنے ڈنڈے اٹھاکرمتعین ہوجاتے اورباؤلرکھلیان کے سرے سے گیندلے کراس طرف آتا۔اس کی کوشش ہوتی کہ دائرے پرمتعین دفاعی کھلاڑ یوں سے بچ بچاکرگیندگڑھے میں پھینک دے۔اگروہ کامیاب ہوجتاتووہ گیندجس دفاعی کھلاڑی کومارتاباؤلنگ کے فرائض اس کی طرف منتقل ہوجاتے۔کرکٹ سے ملتاجلتایہ دیہاتی کھیل شہری قارئین کوکافی دلچسپ محسوس ہوتاہے۔
ابتدائی تعلیم کاذکرکرتے ہوئے ارشدعلی لکھتے ہیں۔” میرے بچپن میں ابھی مذہبی تنگ نظری کادورشروع نہیں ہواتھااس لیے میں نے اپنی ابتدائی اردوکی کتابوں میں گوتم بدھ اوررام چندرجی کے بارے میں بھی مضامین پڑھے۔اس وقت معاشرتی علوم کے بجائے تاریخ،جغرافیہ اورشہریت کے الگ الگ مضامین رائج تھے۔پرائمری اسکول کے چودھری محمداکرام صاحب تاریخ پڑھاتے ہوئے ہمیں زبانی بھی بہت سی تاریخی روایات سے آگاہ کرتے۔مجھے اعتراف ہے کہ میرے اندرتاریخ کے ذوق کی آبیاری میں ان کی تدریس کابھی دخل ہے۔ہمارے گھرمیں ایک کتابوں والی الماری ہوتی تھی۔اس الماری میں سب سے زیادہ جس چیزنے مجھے متاثرکیاوہ میرے والد اورچچاکی انگریزی کے نصاب کااحاطہ کرنے والی امدادی کتب تھیں۔ان کتابوں کے ذریعے مجھے غیرمحسوس طور پرانگریزی ادب کے تراجم پڑھنے کاموقع ملا۔ میں سمجھتاہوں کہ ایک نثری شاعرکی حیثیت سے میری پرداخت میں ان تراجم کاخاصہ رول ہے۔دراصل یہ ان تراجم کی ماورائیت ہے جس نے مجھے بچپن ہی سے اپنے کلچرکے مخصوص سے چوکٹھے سے نکل کرسوچنے کااندازسکھایا۔”
ارشدعلی اپنی خوبیوںاورخامیوں کی وجوہ اسی طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔جس سے قاری کو بھی سبق ملتاہے۔ایک دلچسپ واقعے سے اس دورکے لوگوں کی سادگی کااندازہ کریں۔”ان دنوں دینہ میں خان محل نام کاایک سینمابھی تھا۔اس پرخانہ خدا نام کی ایک فلم لگی ہوئی تھی۔ اس فلم میں حج کے مناظردکھائے گئے تھے۔کہتے کہ یہ فلم لگنے سے پہلے سینماکے مالکان نے فلم کے تقدس کے پیش نظرسکرین کوخاص طورپر دھلوایااورپاک کرایاتھاتاکہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ جس سکرین پرآئے روزناچ گانے کے مناظردکھائے جاتے ہیں اسی پرخانہ کعبہ کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ایک دن جب ہم پرچہ دے کرآئے توچچاجان اورولایت صاحب تھوڑاپڑھاکرکہیں چلے گئے اورتین چارگھنٹے کے بعد آئے۔ہمارے باورچی نے ایک دولڑکوں کورازداری سے بتایاکہ تمہارے استاد صاحبان خان محل پرفلم خانہ خدادیکھنے گئے تھے۔تاہم اس نے سختی سے تاکید کی یہ بات باقی لڑکوں کونہ بتانا۔ اس سے تمہارے اساتذہ کی توہین ہوگی اورلوگوں کوپتہ چل جائے گاکہ وہ توفلم بھی دیکھتے ہیں۔”
پروفیسرارشدعلی نے صرف اپنی کامیابیوں کی ڈینگیں نہیں ماری ہیں بلکہ اپنے دوبارانٹرمیں فیل ہونے اوراس پروالدکی ناراضی اورلوگوں کا مذاق اڑانے کابھی ذکرکیاہے ۔”یہ میرادورابتلاتھا۔میں ایف اے کے امتحان میں دوسری بارفیل ہوچکاتھا۔انگلش میں پچھلی بارکی طرح اب بھی ساٹھ نمبرتھے جبکہ چھیاسٹھ والاپاس تھا۔اس طرح شماریات کے عملی امتحان میں بھی ناکام ہوگیاتھا۔انگلش تووالدصاحب نے چند دن میںسیدھی کرادی البتہ شماریات والامعاملہ اللہ پرچھوڑدیا۔بہرحال اب جونتیجہ آیاتومیں انگلش میںتوخاصے مارجن سے اورشماریات میں رعایتی نمبروں والااسٹارلگواکرپاس ہوگیا ۔”
کتاب میں جگہ جگہ انہوں بعض دلچسپ معلومات بھی پیش کی ہیں۔”لالہ موسیٰ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس علاقے نے برصغیرپاک وہندکو دو صدورِمملکت عطاکیے۔ایک چودھری فضل الہٰی اوردوسرے صدرجمہوریہ ہندفخرالدین علی احمدجن کے آباؤاجدادلالہ موسیٰ کے نواحی گاؤں پنجن کسانہ سے آسام منتقل ہوئے تھے۔یہ امربھی باعث ِ دلچسپی ہے کہ ان دونوں صدورکاتعلق گوجربرادری سے ہے۔”
پی ٹی وی پرنشرہونے والی ”کرتارسنگھ” ان کی زندگی کی پہلی فلم تھی۔جس نے تمام ترحواس کے ساتھ انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔انہوں نے تصوربھی نہیں کیاتھا کہ زندگی کی تمام تررنگینیوں اورمتاثرکن کرداروں کے ساتھ اس طرح بھرپورکہانی پیش جاسکتی ہے،وہ تخیل زدگی کاشکارتوبچپن سے تھے۔اس کے بعدبرسوں ان کی تخیل زدگی کاخلااس فلم کے کرداروں نے پُرکیا۔
ارشدعلی انٹرمیں ریاضی میں ناکام ہونے کی وجہ سے فیل ہوگئے۔لیکن انہوں نے گورنمنٹ کالج سے بہت کچھ حاصل کیا۔ایک تومشکور حسین یاد صاحب کی بے مثل تدریس جس کی بدولت انھیں نصاب میں شامل ن م راشدکی آزادنظم اورانتظارحسین کاعلامتی افسانہ تک زبانی یاد ہو گئے،دوسرے اوپن ایئرتھیٹرکے انتخابی جلسے اوربخاری آڈیٹوریم کے مباحثے اوردیگرادبی تقریبات نے ان کے ذوق کوجلادی۔
ہمارے ملک میں استادکاکیامقام ہے۔اس بارے میں ارشدعلی کایہ واقعہ عبرت ناک ہی کہلائے گا۔”میرے خاندان میں انسانی زندگی کی معراج یورپ میں جاکرآباد ہونایاآرمی میں کمیشن حاصل کرناتھی اس لیے پرائیویٹ بی اے کرنے تک مجھے وفاقی حکومت کے تحت سول سرو س کے مقابلے کے امتحان کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔جن دنوں پی اے ایف بیس سکیسرکے پرسکون ماحول میں اوپر تلے ایم اے کررہاتھامیرے بعض سینئرزنے مجھے اس طرف راغب کیا۔آخرتاریخ میں ایم اے کرنے کے بعدمیں نے سی ایس ایس کی ابتدا ئی تیاری شروع کردی۔کورہیڈکوارٹرہونے کی وجہ سے ایف جی پبلک اسکول منگلا کاماحول بڑاسخت تھااورمجھے سی ایس ایس کی خاطرخواہ تیار ی کاموقع نہ مل سکا۔بمشکل پرچکے دینے کے لیے دوہفتے کی چھٹی ملی۔اس زمانے میں انگریزی مضمون پچاس نمبرکاہوتاتھا۔اس میں تومیں نے پینتیس نمبرحاصل کرلیے لیکن انگریزی کے دوسرے پرچے میں فیل ہوگیا۔دوسال بعدجب میں پھرسی ایس ایس کاامتحان دیاتواردو، تاریخ ،تاریخ اسلام اورتاریخ پاک وہندمیرے اختیاری مضمون تھے۔تاریخ کے چاروں پرچوں میں میرے نمبرسترفیصدسے اوپر ہی تھے البتہ اپنے پسندیدہ مضمون اردومیں صرف پچاس فیصد نمبرحاصل کرسکا۔اس مرتبہ مجھے تحریری امتحان میں کامیاب قراردیاگیا۔انٹرویوبورڈ کے چیئرمین پاک بحریہ کاسابق سربراہ ایڈمرل کرامت رحمٰن نیازی تھے۔جب فائنل امتحان میں کامیاب امیدواروں کی فہرست جاری کی گئی تواس میں میرانام بھی شامل تھا۔مجھے پتہ تھاکہ میں کامیاب ہونے کے باوجودسیٹوں کی کم تعدادکی وجہ سے میرٹ پرنہیں آسکتا۔چند ہفتے تولوگ پوچھتے رہے کہ سیٹ کس محکمہ میں مل رہی ہے۔آخرجب بیزارہوکرلوگوں نے پوچھناچھوڑدیاتواتفاق سے حکومتِ پنجاب کے تحت بطورلیکچررمیری سلیکشن ہوگئی۔اس پرایک بزرگ نے تبصرہ کیاکہ ہم نے توسناتھاکہ اے سی یااے ایس پی بنے گالیکن گورنمنٹ نے اسے بڑاتھرڈ کلاس محکمہ دیاہے۔آخر وہاں بھی بڑے بڑے افسربیٹھے ہوئے ہیں۔وہ بھی بندہ دیکھ کرفیصلہ کرتے ہیں۔”
یہ سی ایس ایس کرنے والے استاد کی تقرری پرتبصرہ ہے۔جس سے لوگوں ذہنیت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔فرنٹیئرورکس آرگنائزیشن میں ارشدعلی کی پہلی ملازمت ٹائپنگ نہ جاننے کی وجہ سے چھ ماہ ہی چل سکی۔لالہ موسیٰ ٹیچرٹریننگ کالج سے اکتوبر1978ء میں سی ٹی کرنے کے بعدانہوں نے اسی سال جی ایچ کیوکے زیرِاہتمام وفاقی حکومت کے اسکولوں میں انٹرویودیاتواگلے ہی ماہ انھیں تقررنامہ مل گیا۔مارچ 1979ء کے اوائل میں جب وہ بطورٹیچرپی اے ایف بیس سکیسرپہنچے توکوہستان نمک کایہ پانچ ہزارفٹ بلندپہاڑبرف باری کی زدمیں تھا ۔یہ ان کی زندگی کی پہلی برف باری تھی ۔سکیسرمیں دولائبریریاں تھیں۔ایک اسکول کی اوردوسری ایئرفورس بیس کی۔ارشدعلی نے ساڑھے تین سالہ قیام میں ان دونوں سے جی بھرکراستفادہ کیا۔یہی انہیں سنیئرکولیگ سلیمان صاحب کی تربیت اوررہنمائی میسرہوئی۔ سلیمان در حقیقت انگلش اوراردودونوں زبانوں اورتاریخ وسیاسیات اوردیگرسماجی علوم کے ماسٹرتھے۔ارشدعلی کہتے ہیں میں نے اپنی اڑتیس سالہ تعلیمی ملازمت میں ان کے علمی پائے کے بہت کم افراد دیکھے ہیں۔مئی 1987ء میں رمضان کے دنوں میں ارشدعلی کابطورلیکچرر تقرر گورنمنٹ کالج کٹاس ضلع چکوال میں ہوگیا۔
1988ء میں ارشدعلی نے ایم فل اردوکے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ان دنوں ڈاکٹرنثارقریشی صدرشعبہ اردو اورڈاکٹر صدیق شبلی دین فیکلٹی آف سوشل سائنسزتھے۔کوس کے اختتام پرطلباسے اپنی اپنی پسندکے تین تحقیقی مقالہ جات کے ابتدائی خاکے فراہم کر نے کوکہاگیا۔ارشدعلی نے تینوں خاکے سرسیداحمدخان سے متعلق فراہم کیے۔اس پرڈاکٹرخواجہ محمدذکریانے جویونیورسٹی کی معاونت کے لیے لاہورآئے ہوئے تھے مشورہ دیاکہ اگراس طالب علم کوسرسیدسے اتنی ہی دلچسپی ہے تواسے دہلی کے آثارقدیمہ سے متعلق سرسیدکی معروف کتاب’آثارالصنادید’ پرکام کرنے کوکہاجائے کیونکہ اس پراب تک کوئی قابلِ ذکرکام نہیں ہوا۔اس طرح پروفیسرارشدعلی بہت محنت سے ایم فل کامقابلہ ‘آثارالصنادید ‘ پرمکمل کیا۔
پنجاب حکومت نے نوماہ کے لیے تیس ہزارماہانہ پراساتذہ کی خالی آسامیوں پرتقرری کی اسکیم جاری کی۔یہ اسکیم بڑی کامیاب رہی۔اس کے تحت جب ارشدعلی نوجوان پوسٹ گریجویٹس کے انٹرویوزلینے لگے توپتہ چلاکہ پرائیویٹ سیکٹرمیں یونیورسٹیوں کی بھرمارکی وجہ سے نمبروں کاگراف جتنااوپرجارہاہے ،قابلیت کاگراف اتناہی پست ہوگیاہے۔درسِ نظامیہ کوبھی ایم اے اسلامیات کے برابرقراردیاگیا اس لیے وہ لوگ بھی انٹرویودینے آتے۔تاریخ اسلام سے متعلق ان کی معلومات بہت ناقص تھیں۔
”زمین زاد” میں مختلف عنوانات کے تحت بے شماردلچسپ اورسبق آموزواقعات درج ہیں۔”کسی زمانے میں اسلام پاکستان کی قوت تھالیکن جب سے مذہبی شدت پسندی اورتنگ نظری میں اضافہ ہواہے یہی قوت اب اس ملک کی کمزوری بنتی جارہی ہے۔کتنے ستم کی بات ہے کہ اب ہربستی میں ہرفرقے اورہرمسلک کی مساجدجداجداہیں اوروہ عبادت گاہ جوقوم میں اتحاد پیداکرنے کاباعث ہوتی تھی اب اسی کی بنیاد پرلوگ تقسیم ہورہے ہیں۔عبادت گاہوں اورمذہبی جلسوں میںتوفرقہ پرستی کاعمل کافی عرصے سے جاری تھالیکن کچھ عرصہ قبل اس کا مظاہرہ جنازہ گاہ میں دیکھنے میں آیا۔باالعموم جنازے کے ٹائم سے چندمنٹ پہلے صفیں آراستہ ہوجاتی ہیں۔اگرگنجائش ہوتوجنازہ پڑھانے والے امام صاحب دینی حوالے سے دوچاراہم باتیں لوگوں تک پہنچادیتے ہیں۔اس روزبھی ایساہی ہواتاہم ایک بات اضافی تھی۔امام صاحب اپنابیان ختم کرنے بعد گویاہوئے،’جنازے کاٹائم ہوگیاہے۔اہلِ سنت جوتے اتاردیں۔’ اگرچہ موقع کی نزاکت کودیکھتے ہوئے کسی شخص نے حرفِ احتجاج توبلندنہیں کیالیکن نہ جانے اس دن امام صاحب کی اس بات سے میری طرح کتنے لوگوں کوصدمہ پہنچا۔مشہور فلسفی قاضی جاویدنے مزاج کے لحاظ سے سے مذہبی مسالک کودوگروہوں میں تقسیم کیاہے۔ایک ترکیبی اوردوسرے تحلیلی۔ترکیبی مسالک دوسرے نظریات سے اپنے مشترک نکات پرزوردے کرانسانوں کے درمیان امن ویک جہتی کوفروغ دینے کاباعث بنتے ہیں اورتحلیلی مسالک کاسارازوراس بات پرصرف ہوتاہے کہ کن کن باتوں میں وہ دوسروں سے مختلف ہیں۔”
ایک سبق آموزواقعہ یوں ہے۔”میرے ایک کولیگ اپنی زندگی سے بڑے غیرمطمئن تھے۔آپ کے پاس گھربھی تھاگاڑی بھی اورکالج میں اچھی ملازمت بھی لیکن پھربھی آپ کوخوب سے خوب ترکی جستجورہتی تھی۔اسی مقصدکے لیے آپ ٹیوشن پڑھاتے تھے۔اس اضافی آمدنی سے آپ نے اپنامعیارِ زندگی خاصابہترکرلیاتھا۔انھوں نے مجھ سے کہاآپ کاکیابنے گا؟آپ گاؤں میں رہتے ہیں۔آپ کاکوئی معیارِ زندگی نہیں اورآپ کے بچے بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔اس پرمیں نے نہایت عاجزی سے جواب دیاکہ جوکچھ آپ کان کوالٹی طرف سے پکڑکررہے ہیں وہی کچھ میں سیدھے طریقے سے کرنے کی کوشش کررہاہوں۔آپ نے اپنے بچوں کی معیاری تعلیم کی خاطراپنی شاموں کاسکون غارت کیااورٹیوشن اکیڈمیزمیں جاکرپڑھاتے رہے میں یہی کام اپنے بچوں کوخود پڑھاکرکرتاہوں اوراس طرح انھیں سرکا ری اسکولوں میں بھیج کربھی ان کے معیارِ تعلیم سے مطمئن ہوں۔”
یہ واقعہ قناعت کی اچھی مثال ہے۔یہاں ان کے بچوں کی قابلیت بھی ملاحظہ کریں۔بڑابیٹاکامران ارشدنے کارپوریٹ لاء میں ایل ایل ایم کیاہے اوراسلام آبادبارسے وابستہ ہے۔بیٹی شفق ارشدگورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج جہلم میں انگلش کی لیکچررہیں اورچھوٹابیٹاسعد ارشدبی ایس سی سول انجیئرنگ ہے۔
”زمین زاد” کاحصہ دوم شخصیات سے متعلق ہے۔جس میں انہوں نے بے شمارلوگوں کے خاکے تحریرکیے ہیں۔”افرادِ خاندان ” میں دادا جان،میرے نانا،اباجی،میری امی،بریگیڈیئرمقصود بھائی،چچاجان،مجذوب، میری نانی،لیفٹیننٹ کرنل عبدالقیوم، چچامسعود،کامران ارشد ، سعدارشد اورمحمدشہبازاحمدمفتی کے خاکے ہیں۔”ہم کار” میں سیدباقرحسین شاہ،رفیق چوہان،باباخلیل،انکل نذر،پروفیسرمحبوب احمد چودھری،عباس انورقریشی،چودھری محمدنذیر،ڈاکٹرسجاد،حافظ عبدالخالق، پروفیسررؤف احمدشاہ،پروفیسرضیاء اللہ ،مسعوداحمدنیئر،فیاض بخار ی، پروفیسرعابدحسین،پروفیسرمحمدندیم احمدپال،پروفیسربرکات،رضوان ظفر،گورنمنٹ کالج کٹاس کے کولیگ،راجہ لیاقت اورحاجی غلام رسول کاذکرکیاگیاہے۔”اہل ِ قلم اوراہلِ علم ودانش” کے تحت اقبال کوثر،نصیرکوی،ڈاکٹرغفورشاہ قاسم،ڈاکٹرصابرآفاقی،اقتدارجاوید،رانا فضل حسین،ڈاکٹرغافرشہزاد،انجم سلطان شہباز،صدیق سورج،شہزادقمر،امداد آکاش،انورگوہر،عبدالقادی قادری، نسیم تقی جعفری،مرزا سکند ربیگ ،جاویداخترچودھری،زمان اختر، اقبال ناظر،محمدعباس اورعمراحسن کے تذکرے کیے ہیں۔”دوست احباب” میں میرے اساتذہ، الطاف نظامی،مولوی عبدالرحمان سلیم،چودھری حبیب، بیرسٹرمحمدافضل،راجہ ظفراقبال ایڈوکیٹ،چودھری بشیراحمد،سعیدعثمانی،مولوی محمد اشرف، راؤجلیل،چودھری عبدالمناف، پروفیسرحامدشاہ، چودھری عاشق حسین، چودھری اعجاز،شریف بٹ،اکرام چوہان، حقیق ساہی، شاگردانِ عزیز اورمیرے کچھ پرابلم چائلڈکے بارے میں ارشدعلی نے لکھاہے۔آخری حصہ”سیاسی اورسماجی شخصیات” کے تحت لیفٹننٹ جنرل اسلم مرزا، بریگڈیئرگلزار، چودھری الطاف حسین،راجہ محمدافضل،راجہ محمدخالدخاں، ڈاکٹرانورنسیم،چودھری شہبازحسین،منظورجنجوعہ، کرنل تاج، ملک انوارالحق، مہرمحمدفیاض،چودھری ظفراقبال، چودھری فضل حسین اورچودھری واسب حسین کے مختصراورطویل خاکے ہیں۔
مجموعی طور پرپروفیسرارشدعلی کی ”زمین زاد” ایک انتہائی دلچسپ اورقابلِ مطالعہ خودنوشت ہے۔جس میں دیہی اورشہری زندگی کاامتراج ایک استاد کی نظرسے پیش کیاگیاہے۔جس کے لیے پروفیسرارشدعلی بھرپورمبارک باد کے مستحق ہیں۔