یونس جاویداردوکے صفِ اول کے افسانہ،ناول، خاکہ وڈرامہ نگارہیں اور”صرف ایک آنسو” ان کی خون ِ جگرسے لکھی آپ بیتی ہے۔اس مختصرآپ بیتی میں یونس جاویدنے اپنی زندگی کی چندتلخ حقیقتوں کوآشکارکیاہے۔ایسے تلخ حقائق جوکسی نے بیان کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اس کے ساتھ کچھ تقدس مآب چہروںپرپڑے عقیدت کے نقاب اتارکران کے حقیقی چہرے قارئین کے سامنے پیش کیے ہیں۔بہت بڑی ادبی شخصیات”صرف ایک آنسو” کے آئینے میں بونی دکھائی دیتی ہیں اورپڑھنے والاان شخصیات کے چھوٹے پن پرحیران رہ جاتاہے۔
یونس جاویدکے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔”اس کتاب کانام پہلے پورٹریٹ رکھاتھا۔پورٹریٹ ۔کس کا؟۔اپنا؟۔ کسی گاڈفادرکایااس گندگی سے اٹے معاشرے کا؟۔ معاشرہ ہے کہاں۔یہ گناہوںکامنبع اورغلاظتوں کامذبح خانہ ہے جہاں ہرروزپھول جیسی معصوم بچیوں کاریپ کر کے قتل کردیاجاتاہے۔جہاں باحیاخواتین کوان کے بچوں اوربعض اوقات شوہروں کے سامنے بے عزت کردیاجاتاہے۔معاشرہ منہ پھیر کر دیکھتاہے نہ دردمحسوس کرتاہے۔یہ بے ضمیرلوگوں کاجم ِ غفیرہے جوظلم اورگناہوںکی خبروں سے حظ اٹھانے لگاہے۔عشق اورتخلیق جیسی اعلیٰ ترین اقداربے سایہ درختوں تلے رونددی گئیں۔لالچ،طمع اورلوبھ آج کاخداٹھہرا۔تُف ہے اس معاشرے پرجس کے برابرکے ذمہ دارہم بھی ہیں۔جی ہاں،ہم بھی مجرم ہیں۔ہم نے خودکوایجوکیٹ کیا،رویے بدلے نہ اولادکی تربیت کی۔رزقِ حلال کانوالہ ہمیں ہضم ہی نہ ہوتا تھا۔سوہم زوال میں اترتے چلے جارہے ہیں اورزوال ا ب آخری پاتال تک آپہنچاہے۔ہرشخص اپنے پندارکے صنم کدے کوجگمگاتاہی دیکھنا چاہتاہے زیادہ روشنی،اندھیرے میں بدل جاتی ہے۔کسی نے یہ نہیں سوچا۔ہم نے کبھی پندارکے اس صنم کدے کی لوکودھیماکرکے دیکھاہے نہ اس کی آنچ ہی مدھم کی ہے۔پندارکے صنم کدے کوویران نہ سہی،پھرکہتاہوں ویران نہ سہی،مگرلواورآنچ کودھمیاتک نہیں کیا۔ایساکرتے، تواپنے باطن کی سیڑھی کھل جاتی اوراپنے باطن میں اترکرہی خودشناسی کاعمل شروع ہوسکتاتھا۔نہ ہم اپنے باطن میں اترے،نہ مشاہدہ کیا نہ وجدان سے آشنائی حاصل کی۔اب صرف ماتم ہے۔میں نے اپنے تئیں،صرف دس فیصدسچ لکھاہے،نوے فیصد گندگی پرپردہ ڈال دیاہے کہ غلاظت نگاری میراشیوہ نہیں۔نہ ہی گندگی سے دوسروں کے لیے حظ کاسامان کیاہے۔اس ساری صورت حال پرمیراصرف ایک آنسو ٹپکاہے۔یہی میرے پاس بچاتھا۔یہی پیش ہے۔جی ہاں۔صرف ایک آنسو۔”
کتاب پڑھ کرقاری ایک سناٹے میں آجاتاہے،اگریہ حقیقت کاصرف دس فیصد ہے ۔ توسوفیصدسچائی کتنی دلدوز،دل شکن اور زہرناک ہو گی۔کیاپڑھنے والے اس کی تاب بھی لاسکیں گے؟
یونس جاویدحافظ قرآن ہیں اورانہوں نے اپنے حافظ بننے کی عبرت انگیزرودادبھی ”صرف ایک آنسو” میں تحریرکی ہے۔یونس جاویدہمہ جہت ادیب ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے لکھے تو ”رگوں میں اندھیرا” اور ”کانچ کا پل”جیسے شاہکارجنم دیے۔ان کاڈرامہ ”کانچ کا پل ” چین میں بطورنصاب پڑھایااوردکھایاجاتارہاہے۔ طویل دورانیے کے ڈرامے”رگوں میں اندھیرا” کو ”اندھیرا اجالا ”جیسی پی ٹی وی کی بے مثال اور یادگار سیریزکی صورت میں لکھا۔جس نے مقبولیت کے ریکارڈقائم کیے۔ ”رنجش” سیریل تحریر کی۔ان کے یہ تمام ٹی وی ڈرامے آج بھی ذوق و شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔یوٹیوب پربھی لاکھوں ناظرین انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔ کئی اور عمدہ ڈرامے بھی یونس جاوید کے کریڈٹ پر ہیں۔ افسانوں کے پانچ مجموعے ”تیز ہوا کا شور”، ”میں ایک زندہ عورت ہوں”، ”ربا سچیا ربِ قدیر”، ”آوازیں”، ”آخر جینا بھی تو ہے” ناول ”کنجری کا پل”، ”دل کا دروازہ کھلا ہے” اور ”ستونت سنگھ کا کالا دن” لکھے۔ شخصی خاکوں کا پہلا مجموعہ ”ایک چہرہ یہ بھی ہے” اور”ذکراس پری وش کا”سب اپنی جگہ بے مثال ہیں۔ ان کے علاوہ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں کا احوال، تین جلدوں میں کلیاتِ ناسخ مرتب کی۔ صحیفہء اقبال، اقبالیات کی مختلف جہتیں ان کے مختلف کاموں میں شامل ہیں۔انہوں نے حلقہ ارباب ذوق پرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔لیکن نام کے ساتھ ڈاکٹرکاسابقہ استعمال نہیں کرتے۔2013ء میں حکومت پاکستان نے یونس جاوید کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا اورقومی ایوارڈ کی وقعت میں گراں قدراضافہ کیا۔
یونس جاوید23اکتوبر1944ء کوپیداہوئے۔قیامِ پاکستان کے وقت وہ صرف تین سال کے تھے۔”صرف ایک آنسو” کے آغازمیں ان یادوں کوتازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔”دن اچھے ہوں یابرے ۔یاد تواس لیے آتے ہیں کہ یادیں ہمیں ہمارے وجود کااحساس دلاتی ہیں۔ سوبچپن کے کچے ذہن میں،پُرجوش اورفساداتی نعروں نے ذراسے بچے کومجسم سہم میں بدل دیاتھا۔بڑوں کی اونچی آوازمیں تبصرے ،ڈرکی علامت تھے۔کرپانوں کاذکر،لہولہان اعضاکاتذکرہ،لاشیں،ریل گاڑیوں میںلہومیں ڈوباسفراوران کی کہانیاں،ماتم۔کرفیواورآزادی ، سب گڈمڈتھا۔بچہ ،تحیرمیں لپٹاتھا۔آنکھ حیران تھی۔کہ آوازآئی ۔”یہ ریڈیوپاکستان ہے” میری ماں اس لیے خوش تھیں کہ لاہورپاکستان میں آگیاتھامگروہ روپڑی تھیں میرے اباجی کاروبارکے سلسلے میں دلی گئے تھے۔اورابھی تک ان کااتہ پتہ نہ تھا۔وہ لاپرواتھے اورمطمئن۔مگر طلوع پاکستان کے کئی دن بعداباجی خیریت سے گھرآگئے،تاہم بے چین تھے۔جس لہوکے دریاکوپارکرکے آئے تھے وہ کہانی سب کوسنا رہے تھے۔ان کے گاؤں یارپورہ میں بھارت جاتے جاتے فسادی جتھوں نے یلغارکردی تھی،نوجوان لڑکیاںالگ کرکے نیم برہنہ کردی گئیں اوربوڑھی عورتوں کے ٹوٹے۔الگ۔گھروں کوآگ لگاکرکونوں کھدروں میں چھپے لوگوں کوخاکسترکردیاگیا۔جولڑکی اشاروں پرچل دی، اس پرکرپانوں نے سایہ کردیا۔جواَڑگئی اس کے ٹکڑے دریاؤں نے نگل لیے۔اباجی کاوہ غصہ،انتقام اورجوش عمربھران کے لہومیں سر سراتارہا۔پھرگردچھٹی۔”
چھ سال کی عمرمیں انگلش اسکول میں نیکروالی یونیفارم پہن کراچھلتے کودتے ،شورمچاتے بچے یونس جاوید کواسکول جانے پرنہ سمجھتے ہوئے بھی خوشی اورخوبصورتی کے معنی کچھ کچھ سمجھ آنے لگے تھے کہ اچانک قاری مقبول انارکلی میں ان کے اباجی کی دکان پرآئے اورانہوں نے یونس کے والدکواپناوعدہ یاددلایاکہ بچے کوراہ خدامیں وقف کردیں گے۔اس وعدے کی یاد دہانی نے یونس جاویدکی زندگی بدل دی۔انہیں اسی دن اسکول سے بلواکرقاری صاحب کے سامنے پیش کردیاگیا۔خاندانی حجام کوبلواکران کے ریشمی بال صاف کردیے گئے۔سینے میںجلن اور ہچکی نے براحال کررکھاتھامگرآوازگلے سے نکالنے کی اجازت نہ تھی۔جبرکی یہ پہلی صورت تھی ۔جویونس جاوید کے کچے ذہن کوسمجھائی گئی۔یہ تلخ حقیقت سمجھ آگئی کہ بچے کے لاکھ فطری تقاضے ہوں،ملکیت انہیں کی ہیں جوروزی روٹی کاسامان کرتے ہیں۔
یہ کہانی بھی یونس جاویدکی زبانی ہی سنیں۔” دوسرے دن شلوارقمیض،پھندنے والی ٹوپی اورچپل پہناکروالدصاحب بہ نفس نفیس چینیانوالی مسجدکوچہ چابک سواراں چھوڑنے گئے۔قاری مقبول کے استادقاری فضل کریم منتظرتھے۔جنہوں نے کشمیری بازارسے الٹاچھپاتیسواںپارہ منگوارکھاتھا۔سب سے پہلے سورة الناس پھرفلق پھرباقی سورتیں۔فضل کریم صاحب نے نابیناتھے میں حیرت سے انہیں دیکھ رہاتھا،انہوں نے زیر،زبر،پیش،جزم اورتشدیدسمجھادی۔مٹھائی کاٹوکرہ تقسیم ہوااوراباجی فرض سے سبکدوش ہوکرمجھے چھوڑ کرچلے آئے اورآتے آتے بھی یہ کیا”اللہ کامال ہے اب آپ کے حوالے” دوپہرکوسب بچے گھرچلے جاتے ،میں تنہائی اورخوف سے منجمدرہتا۔پہلے دن وضوکرتے ہوئے میں بہت رویا۔میرے آنسوکئی دن تک وضوکے پانی کونمکین کرتے چلے گئے۔”
اس مدرسہ میں جوشخص بھی اپنابچہ داخل کرانے آتا،وہ قاری فضل کریم سے یہ ضرورکہتا۔”حضرت جی۔گوشت آپ کاہڈیاں ہماری” ۔ایک روزسینئرلڑکے کوسبق یادنہ ہونے پرجس سنگدلانہ انداز سے پیٹاگیااورباربارمرغابناکرلاتیں ماری گئیں،یونس جاویدگنگ ہوگئے اوریعقوب نامی لڑکے کی مارکادردانہوں نے محسوس کیا۔کچھ روزبعدایک قصائی اپنے پھول جیسے بچے کوقاری صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے وہی جملہ دوہرایا۔یونس جاویدلکھتے ہیں۔”میں تودوسرے بچوں کوپٹتے دیکھ کراس قدرسیدھاہوچکاتھاکہ دن رات ایک کرکے اپناسبق تیار کرنے میں جتارہتاتھا۔مگرلال کھوہ سے آنے والامتین ،ان پابندیوں کوخاطرمیں نہ لایا۔ایک ہفتے بعدہی وہ مدرسے بھاگ گیا۔گھروالے زبردستی پھرچھوڑ گئے۔وہ تیسرے دن پھرنکل گیااوراب وہ گھربھی نہیں گیا۔ایک رات اوردودن گزرنے کے بعد وہ لاہورریلوے اسٹیشن کے ایک بنچ پرسوتاہوامل گیا۔گھرلاکرپہلے توباپ نے پیٹا۔پھرباری باری مدرسے کے تمام اساتذہ نے طرح طرح کی ایذائیں اس کودے کرہلکان کردیا۔مجھے لگتاہے کہ آج ہم جوطالبان کاروپ دیکھ رہے ہیں اس کابیج اسی بے رحم زمانے میں بویاجارہاتھا۔جب متین کامختلف سزاؤں سے براحال ہوگیاتواس کاوالدبیس فٹ لمبی زنجیربنواکرلے آیا۔اورکہا’حضرت جی،اس کاعلاج اورآپ کی پریشانی کامداوالایا ہوں۔ایک سراہتھکڑی میں فٹ ہوگااوردوسراآخری ستون سے۔دونوں تالابندہوں گے،یہ غسل خانے بھی جاسکے گااورآپ کے پاس آ کردرس بھی لے لے گا۔’ تین ماہ دس دن کے بعد وہ گوراچٹاخوبصورت کم گولڑکامتین۔زنجیرکاٹ کرنکل گیا،اوریہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پھرلاکھ کوشش اورمزاروں پرچڑھاوے چڑھانے اورمنتیں مانگنے کے باوجودان سات برسوں میں تونہ مل سکاجومیں نے اس کے بعد وہاں گزارے۔”
حفظ قرآن کے لیے مدرسوں میں معصوم بچوں کے ساتھ روارکھے جانے والے سلوک انتہائی المناک ہے۔مائیں ان دنوں زیادہ ہی مجبور تھیں۔انہیں صرف آہ بھرنے کی اجازت تھی۔عورت سے مشورہ ،مردحاوی معاشرے میںتوہین تھا،انہیں صرف فیصلوں سے مطلع کیاجاتا تھا۔اس لیے کہ حافظ کے والدین کوقیادت کے روزایسے تاج پہنائے جائیں گے جن میں جڑے ہیروں کی چمک میلوںدورسے جگمگائے گی اوران نیکیوں سے ،حافظ کی بھی نجات ہوگی اوروالدین کی بھی۔اسی لیے بچے کوحفظِ قرآن کے لیے داخل کراکے اس کی خبرگیری بھی نہیں کی جاتی ۔لیکن اس صورت حال کایونس جاوید کواس طرح فائدہ ہواکہ دوپہرکے دکھ،تنہائی اورگھرسے اتنی دوررہنے کے کر ب کوکم کرنے کے لیے آنہ لائبریری نے بڑاسہارادیا۔اس سے پہلے توکتاب کاداخلہ ان کے گھرمیں ممنوع تھا۔کچھ کتابیں پلے پڑیں،کچھ سرسے گزرجاتیں مگر انہوں نے باربارکوشش سے انہیں پڑھ لیا۔بڑوں کے جبرکے خلاف جوغباراندرجمع ہوگیاتھا۔ اس احتجاج کوکاپی میں لکھنے لگے۔یہی ان کے لکھنے کی ابتداتھی۔پھرایک ایک جملہ جوڑکر”آخرشب” کے نام سے ایک ناول لکھاجوچھپ بھی گیا۔
اسلامیہ کالج ریلوے روڈکے اندرمبارک مسجدمیں پہلی مرتبہ رمضان کی تراویح پڑھائیں۔صبح مسجدچینیانوالی۔دوپہردکان پہ رات کوپرائیو یٹ کالج میں جاناشروع کردیا۔تعلیم کے حصول کے لیے یونس جاویدنے بہت محنت کی۔لکھنے کاسلسلہ توحفظ ِ قرآن کے دوران ہی شروع ہو گیاتھا۔ان کے افسانے ادبی جرائدمیں چھپنے لگے،جن کامعاوضہ بھی مل جاتاتھا۔میٹرک کے بعد مکتبہ جدیدکے امان عاصم مجلس ترقی ادب میں سیدامتیا زعلی تاج کے پاس لے گئے اوران سے کہاکہ ‘یہ زبردست لکھاری اورضرورت مندہے۔’ تاج صاحب نے کچھ پروف پڑھنے کو دیے،وہ اس امتحان میں پاس ہوگئے۔دوسرے دن ڈاکٹروحیدقریشی نے بھی یونس جاویدکے بہترین اوردیانت دارورکرہونے کی گواہی دی۔تاج صاحب نے پچھہترروپے تنخواہ مقررکی۔توانہوں نے بے دھڑک تاج صاحب سے کہا۔’سرمجھے ماہنامہ شمع سے پچاس روپے ایک کہانی کے ملتے ہیں۔’لیل ونہار’اور’امروز’بھی اچھامعاوضہ دیتے ہیں۔دوکہانیاں بھی لکھوں توپچھہترروپے سے زیادہ بنتے ہیں۔ مگر مجلس ترقی ادب جو وجود ہی میں اس لیے لایاگیاتھاکہ جوادیب ریٹائریابیروزگارہوں انہیں کام اورملازمت دیکرفیڈکرے گا۔مجھے آپ نے عزت دی ہے جس کے لیے میں آپ کاشکرگزارہوں مگرتنخواہ پچھہترروپے۔؟ تاج صاحب کوان کی جسارت بری نہ لگی،وہ مسکرائے اوران کی تنخواہ الاؤ نسوں سمیت ایک سوساٹھ روپے کردی گئی۔
ملازمت ملنے پریونس جاویدنے ایجوکیشن پرتوجہ مرکوزکردی۔یہ کام انہیں چھپ کرکرناتھاکیونکہ مجلس ترقی ادب میں تاج صاحب اورعابد صاحب کوچھوڑکرباقی انتظامی افرادگئے گزرے تھے۔ ان کاایف اے کرنابحران پیداکرسکتاتھا۔بی اے کرنے کے لیے زیادہ وقت اورپیسہ درکارتھا۔یونس جاویدنے مناسب ٹیوٹرکابندوبست کیا،ان کی تنخواہ اس وقت دوسوچالیس روپے تھی۔اس میں مزیددس روپے کااضافہ کر کے ٹیوٹرکوپیش کردیتے۔انہوں نے اپنی ہرخواہش کاگلہ گھونٹ دیا۔جب امتحان میں صرف ایک مہینہ رہ گیاتوچھٹی کی ضرورت محسوس ہوئی ۔یہ درخواست انہیں یوسف قریشی کوپیش کرناتھی۔جوپیش کارتھا اوراس کی سفارش اورقانونی موشگافیوںکے بعدہی چھٹی منظورہوسکتی تھی۔ یونس جاویدکی چھٹی بھی منظورہوئی اورانہوں نے گریجویشن بھی کرلی۔اس دوران امتیازعلی تاج قتل ہوگئے اورپروفیسرحمیداحمدخان مجلس ترقی ادب کے ناظم مقررہوگئے۔تیسرے دن یونس جاویدان کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا۔’سرمیں ایم کرناچاہتاہوں،ریگولر۔ پنجاب یونیورسٹی سے۔’ بورڈآف گورنرسے اجازت نہ ملنے کے باوجودپروفیسرصاحب نے یونس جاویدکوایم اے کرنے اورپنجاب یونیورسٹی جا نے کی ذاتی حیثیت میںاجازت دیدی۔یونیورسٹی میں انہیں پرنسپل عبادت بریلوی، تبسم کاشمیری اورخواجہ ذکریا جیسے اساتذہ ملے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”تیزہواکاشور” چھپ چکاتھا۔یونس جاوید نے ایم اے فرسٹ ڈویژن میں کیااورپنجاب بھرکے لڑکوں میں ان کی دوسری پوزیشن آئی۔پروفیسرحمیداحمدخان نے نتیجہ جان کرگلے لگایااورمجلس ترقی ادب کی وہ تمام کتابیں جوان کے پاس تھیں،انعام میں عطیہ کردیں اورمجلس میں آئندہ ایڈیٹرآف بکس بنانے کے لیے بنیادفراہم کردی۔
یونس جاویدکی مختصردل گدازروداد”صرف ایک آنسو” بہت دلچسپ اوردل کوچھولینے والے واقعات سے بھرپورہے۔انہوں نے کسی غیرضرو ری جزئیات اورواقعات کے نتائج اخذکرنے سے گریزکیاہے۔عام آپ بیتوں کی طرح اس میں افرادکے شخصی خاکے،ماحول ،معاشرے کا بھی زیادہ ذکرنہیں ہے۔اپنی بے پناہ دلچسپی کے باعث اسے ایک ہی نشست میں پڑھاجاسکتاہے۔ماسٹرزکے بعدیونس جاویدنے پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لی۔پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے انہیں پی ایچ ڈی تھیسس کے لیے سنوپسزبھجوائے گئے،عنوان تھا”حلقہ ارباب ذوق” پتہ نہیں کون صاحب تھے،جنہوں نے یونس جاویدکے ایم اے کے مقابلے سے استفادہ بلکہ بعض جگہ ہوبہونقل کردیاتھا۔چونکہ اس میں کسی حوالے کے بغیربعض شائع شدہ کتابوں کامواد شامل کیاگیاتھالہٰذااپنی رائے تعصبات سے آلودہ ہونے کااندیشہ تھا۔انہوں نے جانچ سے معذرت کرلی۔بعد میں خواجہ ذکریاکے اصرارپرانہوں نے کئی برس کی ریاضت کے بعداپناپی ایچ ڈی کامقالہ مکمل کرلیا۔”حلقہ ارباب ذوق۔تنظیم،تحریک،نظریہ” مگرافسوس،اب حمیداحمدخان نہیں توجوگلے لگاکرمبارک باددیتے۔اب مجلس کے ناظم احمدندیم قاسمی تھے ۔جوشروع میں اسٹاف کے ساتھ نرم خواورنرم دل تھے۔لیکن ایک خاتون منصورہ حبیب آئیں۔وہ برقع پہنتی تھیں۔پھرانہوں نے برقع چھوڑ دیا اورسال بھرکے اندرہی وہ قاسمی صاحب کی ناظم والی کرسی پربراجمان ہوگئیں۔قاسمی صاحب انہیں بالکل منع نہیں کرتے تھے بلکہ مسکراکرانجوائے کرتے تھے۔منصورہ حبیب نے اپنانام بھی منصورہ احمدکرلیا۔پی ایچ ڈی کرنے پریونس جاویدنے مٹھائی منگوائی۔قاسمی صاحب کی خدمت بطورخاص بنوایاکیک لیکرحاضرہوئے۔منصورہ کے اصرارپرپی ایچ ڈی کانوٹیفیکیشن پیش کردیا۔جس پروہ بیزارہوگئے۔ حالانکہ یونس جاوید نے دفترسے نہ پی ایچ ڈی الاؤنس کی درخواست دی اورنہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹرلکھنے کاارادہ کیا۔منصورہ کاخیال تھا کہ یونس جاوید کی تنخواہ قاسمی صاحب سے بڑھ جائے گی۔
منصورہ کوہروہ شخص ناپسندتھا،جوقاسمی صاحب کے قریب ہوتا۔برعظیم کی معروف اورہردلعزیزشاعرہ پروین شاکرنے قاسمی صاحب کوعمو کا بلندمرتبہ دیاہواتھا۔مگریہ مقام بھی منصورہ کی برداشت سے باہرتھا۔حتیٰ کہ انہوں نے بھی برملاکہناشروع کردیاتھاکہ ”پروین کوبھی میں ہی لایاتھامگراب سربرآوردہ شاعرہ منصورہ ہے۔’فنون’ میں منصورہ کے مجموعہ کلام’طلوع’ پردوسوصفحات لکھوائے۔
مجلس ترقی ادب میں یونس جاوید کوتیس برس سے زیادہ ہوچکے تھے۔ وہ گریڈانیس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ان کے افسانے،ناول،ٹی وی ڈرامے مشہورہورہے تھے۔پی ایچ ڈی کے بعد ان کی تنخواہ قاسمی صاحب سے زیادہ ہونے کاامکان تھا۔چوتھائی صدی قبل حمیداحمدخان کی تنخواہ اٹھارہ سوروپے تھی۔مگران کی جگہ آنے والے احمدندیم قاسمی کی سیلری فتح محمدملک نے بغیرٹیکس کٹوتی بارہ ہزارلگوائی۔تیس برس میں یونس جاوید کی تنخواہ ان سے کچھ اوپرنکل گئی۔اس لیے ان کے خلاف نت نئی سازشوںکے جال بنے جانے لگے۔یونس جاویدپربہت سی گھریلوذمہ داریاں تھیں اوروہ نوکری جانے سے پریشان تھے۔انہیں کے الفاظ ملاحظہ کریں۔” میں ایک ایسے ملک کافرد تھاجہاں ایم اے،پی ایچ ڈی کے علاوہ ایک ڈرامہ نگار،کہانی کاراورکہلانے کوادیب،دانشورکے لیے ایسی سہولیات دوردورتک دکھائی نہ دیتی تھی جہاں کوئی بے روزگارہونے کے بعدروزی،روٹی کے لیے دستک ددے سکے۔اپنے اوربچو ںکے سانس بحال رکھ سکے۔”
بیوروکریٹ فرزانہ قریشی نے ایڈیشنل سیکریٹری سے بات کرکے یونس جاوید کوبتایا۔”دفترکے اخراجات کم کرنے کے لیے انہیں فارغ کیاجا رہاہے۔”ایڈیشنل سیکریٹری منصورسہیل نے تحقیقات کے بعدیونس جاویدکی مددکرتے ہوئے صورت حال کوبہتربنانے کی کوشش کی۔اس دوران احمدندیم قاسمی اورمنصورہ احمدبہ پریشان دکھائی دیے۔یونس جاویدکے بقول۔”ایک دن میں کمرے میں داخل ہواتوخلاف توقع قاسمی صاحب خوشی سے کھل رہے تھے،منصورہ بھی بے حدخوش تھی۔انہوںنے پوچھا۔آج کااخبارپڑھا؟ میں نے کہا۔ابھی نہیں۔انہوں نے بتایا۔آج کی خبریہ ہے کہ وہ نکماآدمی ٹرانسفرہوگاہے۔پوچھا۔کون سر؟ ۔جواب ملا۔وہی ایڈیشنل سیکریٹری،یونس جاوید صاحب ،معلوم کیجئے کہ ،اس کی جگہ کون چارج لے رہاہے۔یہ کام آج ہی ہوجاناچاہیے ،ہمارے دفترکے کام روک رکھے تھے اس نے۔کس اعتماد اوربے بسی سے میں واپس مڑاتھا۔وہ میری بیروزگاری کے وارنٹ کے لیے مجھے ہی بھیج رہے تھے۔فرزانہ صاحبہ کوفون کیاتوانہوں نے بتایاکہ منصور سہیل ٹرانسفرنہیں ہوئے۔انہیں میوزیم کااضافی چارج دیاگیاہے۔میں نے دکھی صورت بنائی اورصاحب جی کویہ دکھ بھری خبرسنائی۔باہر آکرمیں نے لمباسانس لیا۔محسوس ہوا۔آنکھیں روشن ہوگئی ہیں۔نیلاآسمان زیادہ چمکدارتھا۔”
مشہورادیب جمیلہ ہاشمی کے انتقال کے موقع پران کی بیٹی عائشہ صدیقہ پرقیامت ٹوٹ پڑی۔”عین اسی وقت قاسمی صاحب لاش کے قریب ہوئے توعائشہ روتے روتے نڈھال ہوکران کے قریب چلی گئی،جیسے کوئی پناہ میں آناچاہے۔قاسمی صاحب فوراً ہٹ گئے۔بعدانہوں نے منصورہ کوباقاعدہ ایکٹ کرکے سمجھایا۔میں یہاں کھڑاتھاکہ عائشہ چل کرمیری طرف بڑھی۔اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے لپٹ جائے میں تیزی سے ہٹ گیا۔میں نے سوچایہ بڈاواکہیں مجھے دبوچ ہی نہ لے۔منصورہ کاچہرہ گلنارتھا۔یہ منظرمیرے اورکاظم صاحب دونوں کیلئے دردناک تھا۔بڑے ظرف کے بڑے لوگ بھی اپنی من پسندعورتوں کوخوش کرنے کے لیے کس پاتال میں اترجاتے ہیں۔وہ عزت جوقاسمی صاحب نے ہمیشہ کی طرح حسن سلوک اورمحبت اورایثارسے کمارکھی تھی۔وہ لمحے بھرمیں بکھرکرمٹی میں مل گئی۔”
یونس جاوید نے مجلس ترقی ادب کے جریدے”صحیفہ”کواکتیس سال تک ایڈٹ کیا۔شروع میں چارمنتخب کہانیاں،چاراعلیٰ ترین غزلیں،چار نظمیں،چارمضامین،چارتبصرے اوراس کے علاوہ سندھی،پنجابی ،بلوچی،پشتو،براہوی کی نظموںکااصل متن کے ساتھ اردوترجمہ،افریقی شاعری کے تراجم،عربی نظموںکے تراجم شائع کیے۔جن کی بدولت دوماہی’صحیفہ’ چاربرس میں مستندجریدہ کہلایا۔’فنون’ کاسال میں ایک
شما رہ جبکہ صحیفہ کے چھ شمارے شائع ہوتے تھے۔تخلیق کاربھی اسے اہمیت دینے لگے۔اگلے برس ناظم صاحب نے بورڈکے ایجنڈے میں یہ شق شامل اورپھرمنظورکرالی کہ صحیفہ آئندہ صرف مضامین اورمقالات کے لیے محدود اورمخصوص رکھاجائے گا۔سوایک خوبصورت جریدہ جو اپنی اٹھان سے ہی گہرانقش چھوڑرہاتھااورمجلس ترقی ادب کے لیے ناموری کاسبب تھاسسک کررہ گیا۔
”صرف ایک آنسو” میں ایسے بے شمارواقعات ہیں۔یونس جاوید کوبالآخرمجلس ترقی ادب سے فارغ کردیاگیا۔لیکن خدامسبب الاسباب ہے۔انہیں نیشنل کالج آف آرٹس میں فلم اورٹیلی ویژن ڈیپارٹمنٹ میںبہترین جگہ مل گئی۔یہاں وزیٹنگ پروفیسرک طورپرکام کرتے ہوئے انہیں احساس ہواکہ علم اورفن کی جوقدرومنزلت اس سواسوسال پرانے ادارے میں ہے،وہ یقینا ان جیسے آزاداداروں بھی ہوگی مگر میرا تجربہ پہلاتھا۔استادکی عزت،اس کامعاوضہ اورپڑھنے والوں کی پیاس نے انہیں یکجاکردیاتھا۔
”صرف ایک آنسو” انتہائی چشم کشا،دلچسپ اورقابل مطالعہ آپ بیتی ہے۔یونس جاویدسے شخصی خاکوںکی دوکتابوں کی شکل میں بھی اپنے دوست احباب کااحوال بیان کرچکے ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کی بہت سی ان کہی بیان کی ہے۔