17 سے 21 جون 2021ء تک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ممتاز قوم پرست رہنما و سابق سینیٹر جناب عثمان خان کاکڑ بالآخر کراچی میں علاج و تشخیص کے تلاش میں زندگی کی بازی ہارگئے اور اپنے اھل خانہ و خاندان اور پارٹی و قوم سے جدا ہو کر رب العالمین کے پاس اپنے سینے پر مظلومیت اور شہادت کا تمغہ سجا کر حاضر ہوگئے. رب العالمین آسانی فرمائیں مغفرت کاملہ عطا ء فرمائیں ۔
ان کی موت بے وقت اور تشویشناک ہے اور اب ان کے حادثے کے بارے میں بھی تشویشناک اطلاعات و افواہیں گردش میں ہیں۔ جناب عثمان خان کاکڑ انتہائی دلیرانہ قیادت و رہنمائی اور صاف ستھرے سخت موقف کے باعث عوام میں خاصے مقبول ہوئے ہیں جس کا اندازہ ان کی حادثے کی صورت میں عوام وخواص اور تمام سیاسی جماعتوں و کارکنان کی ان سے اظہار ہمدردی اور محبت و عیادت کی والہانہ اظہار و صحت مندانہ دعاؤں کے بعد ان کے جنازے و میت کے ساتھ ہزاروں لاکھوں افراد مرد و خواتین کی والہانہ استقبال اور خدمت بین ثبوت ہے۔
جناب عثمان خان کاکڑ شھید سے اختلاف و اتفاق دونوں موجود ہیں مگر اس نازک موقع پر سب نے ہمدردی اور محبت کا اظہار عیادت و دعاؤں اور نیک تمناؤں کا اظہار سوشل میڈیا اور خاندان و پارٹی سے رابطوں میں کیا گیا ہے جو ہمارے معاشرے کے زندگی اور یکجہتی کے اچھے علامات میں سے ہیں۔
بلوچستان کے تناظر میں خاص کر بلوچ علاقوں میں عوام الناس اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کے کارکنان اور جمعیت علمائے اسلام ف گروپ و عوامی نیشنل پارٹی نے بھرپور انداز میں پیش پیش رہے اور انسانی ہمدردی اور سیاسی رفاقت کا حق ادا کیا جو مستقبل بینی اور سیاسی جماعتوں کی قربت میں اہم کردار ادا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ آمریت اور جمہوریت کی سنگین لڑائی میں عثمان خان کاکڑ جیسے جی دار اور بلند آہنگ لیڈرشپ کی کمی نمایاں رہے گی۔ عثمان خان کاکڑ شھید کے متعلق ان کی پارٹی کا ابتدائی بیانیہ یہ تھا کہ وہ اپنے کوئٹہ میں واقع شھباز ٹاؤن میں اپنے بھائی کے گھر میں حادثے کے نتیجے میں برین ہیمرج اور گرنے کے باعث سر پر شدید چھوٹوں سے نڈھال اور بے ہوش ہیں۔ تب انھیں کوئٹہ کے تین پرائیوٹ ہسپتالوں میں یک بعد دیگرے تشویشناک حالت میں منتقل کرتے رہے اور ممکنہ طور پر لا علاج و تشخیص نہ کرنے کے بعد کراچی منتقل کیا گیا۔ کوئٹہ کے دو بڑے سرکاری ہسپتالوں اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال سی ایم ایچ کوئٹہ پر عدم اعتماد کس کا فیصلہ تھا؟ اس کی جانکاری ضروری ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان اور محکمہ صحت نے دو تین دن جس غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا وہ آزاد معاشروں میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ہے کویٹہ کے جن ڈاکٹروں نے ابتدائی تشخیص اور علاج کرنے کی کوشش کی، ان میں سے ایک ڈاکٹر نے بعد ازاں صوبائی وزیر داخلہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ ابتدائی دو تین دن اسی گومگو اور سخت تشویش میں مبتلا پارٹی کارکنان اور عوام الناس نے رفتہ رفتہ سوشل میڈیا اور غصیلے و ناراض نوجوانوں کے ساتھ ان کے پارٹی کے دو سنئیر راہنماؤں سابق سینیٹر و مرکزی سیکرٹری اطلاعات جناب رضاء محمد رضاء اور سابق صوبائی وزیر و صوبائی سیکرٹری پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی جناب عبدالرحیم زیارت وال کےبیانات اور گفتگو سے تلخ حقائق اور منصوبہ بند حملے کی صورت ظاہر ہونا شروع ہو گیا مگر ابھی شاید یہ سارے اندازے اور غصے سے آگ بگولا ہو کر نفسیاتی کیفیات کا اظہار ہی تھا مگر کراچی میں انتقال کے بعد جناب عثمان خان کاکڑ کے نوجوان صاحب زادے خوشحال خان کاکڑ نے براہ راست اپنے والد محترم پر حملے اور ان کے وحشیانہ قتل کی گفتگو نے معاملات کا رخ ہی تبدیل کردیا۔
عثمان خان کاکڑ شھید کے جنازے سے لے کر ان کی تعزیت تک حقائق تلخ اور سنگین نوعیت کے ظاہر ہونے سے پشتون قوم پرست جماعتوں اور مجموعی سیاست کے لئے بہت زیادہ نئے اور مشکل ترین مسائل کھڑے ہو گئے ہیں اس لئے یہ سوال بہت کھل کر شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے کہ جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کی حادثاتی المیہ فطری اور طبعی طور پر ہے یا ہمارے تیسری دنیا کے المناک کہانیوں کی طرح ایک اور خوفناک اور مشکل گھڑی ثابت ہورہی ہیں گزشتہ دنوں مسلم باغ میں واقع ان کے گھر پہنچ کر تعزیت کیلئے جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جام کمال خان عالیانی صاحب اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی جناب قاسم خان سوری بھی تعزیت کے لئے تشریف لائے اور دعاء کے بعد گفتگو کی ناصحانہ انداز میں عثمان خان کاکڑ کے خدمات اور سچ و حق گوئی کی تعریف کرنے لگے۔ میں نے بھری مجلس میں جناب وزیر اعلیٰ بلوچستان سے پوچھا کہ جناب وزیر اعلیٰ صاحب!!! ہمارے معاشرے اور ریاست کب اس درجے و مقام پر پہنچ پائیں گے جہاں انسان اپنے طبعی موت ہی مرے گا اور حادثوں و سازشوں کا شکار نہیں ہوگا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان اس سانحے کے حوالے سے انتہائی کمزور و ناتواں کردار کے باعث جواب نہیں دے پائے تھے کہ جناب محمود خان اچکزئی صاحب نے کہا کہ اخونزادہ صاحب! وزیر اعلیٰ کے پاس پورا اختیار نہیں ہے اس لئے مزید سوالات نہ کریں۔ ظاہر ہے کہ میزبان مجلس اور پارٹی سربراہ کے طور پر جناب محمود خان اچکزئی صاحب کی رائے معتبر و معنی خیز ہے مگر یہ سوال بہت کھل کر سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور برمحل استدلال و دانش مندی سے اس جیسے غیر فطری اموات اور حادثوں کی ممکنہ روک تھام ممکن ہو سکے۔ بعد ازاں میں نے اپنی تعزیتی گفتگو کرتے ہوئے اسی بنیادی تصور و نکتے کی وضاحت کی کہ حضرت عمر فاروق رض کے نزدیک اسلام کی روح انسان کی زندگی و موت میں زندگی کی حفاظت و تکریم بنیادی تصور اسلام ہے بدقسمتی سے مسلمان معاشروں میں خون ناحق کا رواج چل پڑا ہے جب تک انسانی احترام اور تکریم کی ضمانت نہیں دی جاتی ہے تب تک معاشروں میں الہامی راہنمائی و دانش مندی کا فروغ ممکن نہیں ہے بلکہ صلاحیت و ظرفیت اور استعداد و توان کے قتل عام کے راستے کھلے رہتے ہیں جس طرح جناب عثمان خان کاکڑ کی الم ناک موت اور واقعات کے بارے میں سوال اٹھائے جاسکتے ہیں اور تفتیش و تحقیق کے تمام موجود ذرائع استعمال کرنے چاہیے تاکہ ممکنہ طور پر اس خون ناحق کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ یہ ذمہ داری خاندان اور پارٹی دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہیں۔ جناب سردار آصف خان سرگڑھ جو عثمان خان کاکڑ شھید کے چچا زاد اور ان کے جوانی کے دوست اور فعال سیاسی و قبائلی رہنما ہیں نے فاتحہ خوانی کے تیسرے روز بڑے واضح انداز میں درست طور پر کہا کہ ہم خاندان اور قبیلے سے پہلے پارٹی پر اعتماد کرتے ہوئے تفتیش و تحقیق اور پورے واضح سمت کے تعین کے لئے انتظار میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ قبائلی روایات میں دو باتیں واضح ہیں پہلے یہ کہ قتل چھپ نہیں سکتا اور دوسرے یہ کہ بدلہ لینے کے لیے وقت کی قید نہیں ہوتی اس لیے سردست جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کے خاندان،ان کی پارٹی اور ان کے تمام بہی خواہوں اور ہر طرح کے دوستوں کے لئے نہایت اہم اور ضروری مرحلہ ان کی فاتحہ خوانی کے مراسم اور بنیادی نوعیت کے تفتیش و تحقیق پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور برمحل استدلال و دانش مندی سے استفادہ کرتے ہوئے اس اہم ترین مقدمے کی سماعت و فیصلے کے لئے ضروری شواہد اور ثبوتوں کی حفاظت و پاسبانی کیلئے مددگار لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکے اور ممکنہ طور پر مفید اور تعمیری ماحول میں ایسا نظام زندگی و سیاست اور حکومت و ریاست تشکیل دیا جاسکے جس میں انسانیت کی رہبری اور رہنمائی کے لئے فطری نشوونما سے درآمد ہونے والے لیڈرشپ کی ممکنہ طور پر جان بچانے میں سوسائٹی کامیاب ہوسکے خاص کر اس دین کے ماننے والوں کے درمیان جہاں مذہب و ملت کھل کر سنجیدگی سے ایک انسان کی زندگی کے حفاظت و تکریم کو پورے انسانیت کی خدمت و حفاظت سے جوڑتے ہیں کیا جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کی المناک موت کے موقع پر یہ بحث و مباحثہ کھل کر سنجیدگی سے معاشرے اور ریاست و سیاست کے سامنے پیش کرنے کا موقع مل پائے گا کہ اسلام اور دین فطرت میں انسانی زندگی کی حفاظت و پاسبانی سب سے معتبر و معروف الہامی حکم ہے یا جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کے الفاظ میں ان کی اپنی موت کی طرح ہر لاتعلق اور بے گناہ انسان کی موت گھم خاتے میں شمار ہوجایا کرتے ہیں،،
ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ عوام الناس اور سیاسی جماعتوں نے پیش قدمی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناب محمود خان اچکزئی اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ساتھ بھرپور یکجہتی اور انسانی ہمدردی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی و نگہبانی کرتے ہوئے بھرپور توانائی و دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ اب پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اسے کس انداز میں سیاست و معاشرے کو لوٹاتی ہیں یہ مذکورہ پارٹی کا امتحان ہے۔
پشتون خواہ میپ اس وقت عوام کے دباؤ اور کارکنوں کے سخت سوالات کا سامنا صبر و تحمل سے برداشت کررہی ہے اور بلاشبہ پشتون سیاست میں در آنے والی شدت پسندی اور سخت گیری انتہائی سنگین تشویشناک امر ہے، عثمان خان کاکڑ صاحب کی اپنی پارٹی،اپوزیشن جماعتیں صوبائی حکومت اور خود وزیر اعلیٰ بلوچستان بجٹ سازی کے گورکھ دھندے میں بری طرح پھنسے رہے اور تشدد و بے جاء ماحول کی تشکیل و تعبیر نو جیسے انتہائی غیر معقول اور لا جواز ماحول بھی کوئٹہ میں حکومت اور اپوزیشن ہی کا پیدا کردہ ہیں اور جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کے اتنے دردناک واقعے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں اپنے آپ کو نارمل اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کے ساتھ ساتھ صحت و تندرستی کو زیادہ ترجیح دینے کے قابل نہیں بنا سکتے یوں لمحوں میں خوبصورت اور جاندار سیاسی شخصیت کو اذیت ناک صورتحال میں دھکیلنے والی بھیانک خاموشی بہت کچھہ بیان کر رہی ہیں، رب العالمین ہم سب کے وسوسے اور غلط فہمیاں اپنے قدرت کاملہ سے دور ہوسکتے ہیں دیکھیں قدرت کا کرشمہ اور زندگی و موت کے بنیادی اصولوں و فلسفے کی روشنی میں جناب عثمان خان کاکڑ صاحب جیسے گرجدار مقرر اور عالم باعمل کے خون ناحق کا بدلہ لینے کے لئے کیا اھتمام کرتی ہے اور گئے گزرے کمزور معاشرے میں نئے اور درد ناک المیے دوبارہ کیسے توانائی و ترقی عطاء فرماتے ہیں؟