”جیون دھارا“ ہدیہ ظفرکی خودنوشت ہے،جوانہوں نے پچیاسی سال کی عمرمیں تحریرکی ہے۔ان کااسلوب تحریرسادہ،پراثر اوردل میں اتر جانے والاہے۔انوکھے اورمنفردواقعات اورہدیہ ظفرکے الف لیلوی اندازِ بیان نے خودنوشت کودلچسپ ترین بنادیاہے اورقاری ہرواقعہ پڑھ کر آگے کیاہوگا؟ کے تجسس میں مبتلاہوجاتاہے اورکتاب ختم ہونے پراسے جلداختتام کاافسوس ہوتاہے۔حالیہ برسوں میں کئی عمررسیدہ خواتین وحضرات نے قلم سے ناطہ جوڑا،اورپہلی ہی کتاب سے قارئین کے دل میں گھرکرلیا۔حمیدہ اخترحسین نے سترسال سے زائد عمر میں مرحوم جمیل جالبی کے کہنے پرانتہائی دلچسپ آپ بیتی”ہم سفر“ تحریرکی۔جس کی مقبولیت کے بعد حمیدہ اخترنے کئی اورکتابیں بھی لکھیں،یہ کتابیں زبان وبیان اوربرصغیرکے جانے پہچانے لوگوں کے ذکرسے بھری ہونے کے باعث بیحدپسندکی گئیں۔قیصری بیگم نے بھی سترسال کی عمرمیں آپ بیتی”کتابِ زندگی“ لکھی۔جس میں خواتین کی مخصوص زبان اورمحاورے،روزمرہ بول چال کے علاوہ کپڑوں کھانے پینے کی اشیا،دلچسپ اورمفیدگھریلوٹوٹکے دیے گئے ہیں۔کتاب بے حدمقبول ہوئی اوراس کے ایک سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے۔تنویررؤف کی آپ بیتی”زندگی خوبصورت ہے“ ایک استاد کی داستانِ زیست بھی بہت دلچسپ ہے۔جوانہوں نے ریٹائرہونے کے بعد تحریرکی۔ محمداقبال دیوان نے بیوروکریسی کے الوداعی دورمیں لکھنا شروع کیا۔ان کی اب تک تین کتابوں کے کئی ایڈیشنزشائع ہوچکے ہیں اورقارئین چوتھی کتاب کے منتظرہیں۔محمدخان قلندرنے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد”بادبان“ تحریرکی،اور پہلی ہی کتاب سے قلم کی دھاک بٹھادی۔ ان کی مزیدکتب زیرطبع ہیں۔
ہم عموماً ایسی شخصیات کے زندگی نامے پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جنھوں نے بڑے بڑے معرکے سرکیے ہوں،معاشرے میں انقلا ب برپاکیاہویاجنگ کاپانسہ پلٹ دیاہو۔ایسی آپ بیتی ہمارے ان آدرشوں کی تکمیل کاالتباس پیداکرتی ہے جوکسی وجہ سے ہم خود پورے نہ کرسکے ہوں۔لیکن سچ تویہ ہے کہ ہم میں سے ہرایک کے بطون ذات میں ہروقت ایک جنگ برپارہتی ہے۔یہ جنگ اپنے اندر بھی لڑی جاتی ہے اورباہربھی۔اندرکی جنگ،اپنی خواہشات،ترجیحات اورارادی فیصلوں کے درمیان برپاہوتی ہے اورباہرکی جنگ نامسا عدماحول، دنیااوراس کی کمینگی،اورغیرمتوقع حالات کے خلاف ہوتی ہے۔ہرایک اپنے طریقے سے یہ جنگ لڑتاہے۔ہرایک کی جنگ نہ صرف خوداس کے لیے اہم ہوتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اس میں کئی امکانات کے جگنو،کئی بصیرت بھری روشنیاں اورکئی نئے راستوں کے اشارے ہوتے ہیں۔”جیون دھارا“ایک عورت کی ایسی ہی جدوجہدکی داستان ہے جواس نے اپنی عمرکے چھیاسی ویں برس میں رقم کی ہے۔ ایک عام عورت جسے زندگی کے کئی محاذوں پرلڑناپڑا۔معاشی تگ ودو،علمی جستجو،حقوق وفرائض کی بجاآوری،خدمتِ خلق،رشتے اور ان کی پیچیدگیاں،غیرمعمولی ذہانت وفطانت اوراسے بروئے کارلانے کے محدود مواقع۔ایک پس ماندہ معاشرے کے متوسط طبقے کی ذہین اورپرعزم عورت جب اپنے خوابوں کاتعاقب کرنے نکلتی ہے تواس کے راستے میں کیسے کیسے مشکل مقام آتے ہیں،قدم قدم پرایک نیا امتحان،ہرسانس کے ساتھ ایک نئی آزمائش،مگرعورت اپناراستہ بناناچاہے توکوئی چیزاس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔سادہ،اورہموار اسلوب میں لکھی ہوئی یہ خود نوشت،ایک زندہ وجودکی توانائی،ایک متحرک ذہن کی ہلچل اورایک بیدار روح کی قوت سے مملوہے جس میں پون صدی کے سماجی ومعاشرتی ماحول کے بدلتے ہوئے رنگ ہرطرف بکھرے ہوئے ہیں۔بیانیہ رواں دوں ہے،کردارجیتے جاگتے اور مانوس معلوم ہوتے ہیں۔عراق،تھائی لینڈ،بحرین،سعودی عرب اورامریکاکے اسفار،قیام پاکستان کے زمانے کاکراچی اوراس کی کثیرقومی آبادی کی ثقافتی رنگارنگی،پنجاب کے دل لاہورسے لے کروادی سون سکیسر تک کئی شہروں،قصبوں اوردیہات میں رہن سہن کے تجربات، پاکستان کی تاریخ کے اولین عہدمیں تعلیم وتدریس کے اعلیٰ معیارکی جھلکیاں،اعلیٰ اخلاقی اقداروکردارکانمونہ بننے والے عام آدمی کی زندگی کی دھوپ چھاؤں۔یہ خود نوشت ثابت کرتی ہے کہ زندگی کسی داستان سے کم ہوشربانہیں ہوتی۔
ہدیہ ظفرکی پیدائش بغدادشہر میں عیدالفطرکی صبح حضرت عبدالقادرجیلانیؒ کے مزارمبارک کے قریب ہوئی۔عربی میں تحفے کوہدیہ کہاجاتاہے۔ اسی اعتبارسے عیدکاتحفہ قراردیتے ہوئے والدین نے ان کانام ہدیہ رکھا۔”جیون دھارا“ محض آپ بیتی نہیں،اس میں جگ بیتی،سفرنامے، خاکے اورافسانے کابھی امتزاج ہے۔واقعے سے واقعہ نکلتاچلاجاتاہے اورقاری ان کے ساتھ چلتارہتاہے۔عکس پبلی کیشنزنے دوسوباہتر صفحات اورآفسٹ پیپرپرسولہ رنگین تصاویرسے مزین اس خود نوشت کوبہت خوبصورتی سے شائع کیاہے،جس کی چھ سوروپے قیمت بھی مناسب ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی دنوں ہدیہ ظفرکی بیٹی نامورمصنفہ،استاداورکالم نگارنجیبہ عارف کی آپ بیتی ”راگنی کے کھوج میں“ اورداماد محمدجمیل عارف کادلچسپ اورمعلوماتی سفرنامہ عمرہ”حاضرسائیں“ بھی شائع ہوئے ہیں۔تینوں ہی بہت دلچسپ اورقابلِ مطالعہ ہیں۔ ”جیون دھارا“ کے نام سے ہی ناموربیوروکریٹ جیون خان نے بھی اپنی دلچسپ آپ بیتی دوجلدوں میں تحریرکی ہے۔پہلی جلد میں اقتدار کے ایوانوں میں گزرے ایام کا بیان ہے اورددسری جلداحباب،رجال،اہل خانہ اورجگ بیتی پرمبنی ہے۔
حرفِ اول کے عنوان سے ہدیہ ظفردیباچہ میں لکھتی ہیں۔”میں عمرکے چھیاسیویں زینے پرکھڑی ہوں۔کتاب اورقلم سے رشتہ توبہت پرانا ہے مگرکبھی کتاب لکھنے کانہیں سوچاتھا۔میرے بچے اکثرکہتے کہ’امی اب آپ فارغ ہیں،کچھ لکھ ہی ڈالیں اورکچھ نہیں تواپنی سوانح حیات ہی لکھ لیں۔‘،میراجواب ہوتاکہ اگراپنی سوانح حیات لکھوں گی توپھریہ کتاب سوفی صدحقیقت پرمبنی ہوگی۔جوکچھ بیتاہے،سب صاف صاف لکھوں گی۔آخراپریل 2020ء میں،نجیبہ کے اصرار پرلکھنے کے شوق اورارادے کوعملی جامہ پہنانے کی ٹھان لی۔اب جولکھنے بیٹھی توجیسے خیالات منہ زورموج کی طرح امڈے چلے آتے تھے۔بیتی ہوئی باتئیں،یادیں،لوگ اورواقعات،ان سب نے دل ودماغ پپرایساہلہ بولا کہ ایک فلم سی چل پڑی۔قلم بھی اس موج کے ساتھ بہناشروع ہوگیاجیسے وقت کادھارابن گیاہوجورکنے کانم ہی نہیں لے رہاتھا۔میں نے اپنی چھیاسی سالہ زندگی میں بہت کچھ دیکھاہے،کتنے ہی ملکوں،کتنے ہی شہروں،کئی طرح کے گھروں میں رہی۔ایک گیلری نماکمرے سے محل نمامکان تک رہنے کاتجربہ کیا۔مگرمحل ہویاجھونپڑا،میں نے اللہ پربھروسہ کرناکبھی نہیں چھوڑا۔کبھی مایوس نہیں ہوئی۔خوشی اوراطمینان کے دن تھوڑے تھے اوردکھ بھرے لمحے بے شمار۔مگرکبھی صبراوراستقامت کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ہمیشہ بچوں کے روشن مستقبل کاخواب پیش نظررکھا۔ہرطرح کی سختی،نرمی،گرمی جھیلی مگربرداشت سے کام لیا۔میں اس قادرِ مطلق کی شکرگزارہوں کہ میری مرادبرآئی۔میرے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں،باکمال اورنیک سیرت ہیں،اعلیٰ عہدوں پراعلیٰ طریقے سے اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اوررزقِ حلال کما رہے ہیں۔میرے پوتے پوتیاں اورنواسے نواسیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں اورمیں نانی ہی نہیں پڑنانی بھی بن چکی ہوں۔صرف ایک غم ہے کہ کاش ظفرصاحب کوبھی اتنی مہلت ملتی کہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ ان سب خوشیوں کالطف اٹھاسکتے۔“
ہدیہ ظفرکی داستانِ زیست کسی الف لیلہ سے کم نہیں۔خاندانی پس منظر،والدین کے اہل خانہ کابیان اوران کاایک ہونا۔کسی کہانی سے کم نہیں۔پہلاباب ”کہیں کی اینٹ،کہیں کاروڑا“ ہے۔جس میں ’آغازِسفرسے پہلے‘ کاذکرکرتے ہوئے لکھتی ہیں،اوراندازِبیان ملاحظہ کریں۔ ”یہ قصہ،قصّہ چہاردرویش نہیں،اس میں کئی درویشوں کی کہانیاں ہیں۔اس کاآغازایک ایسے ابن آدم کی داستان سے ہوتاہے جس کی آنکھیں بندہونے کی دیرتھی کہ بچوں نے اپنے گھونسلے سے اڑان بھرلی۔کوئی یہاں اڑا،کوئی وہاں اڑا۔ سب بکھرکررہ گئے۔اس ابن آدم کا نام سیدغلام نبی شاہ تھااورمسکن ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیارپورکاگاؤں کاری۔کاری ہوشیارپوری کی بارہ بسیوں میں سے ایک بسّی تھی۔یہ لفظ کسی زمانے میں بستی ہوتاہوگا۔مشرقی پنجاب کے لہجے میں بسّی ہوگیاتھا۔غلام نبی شاہ ایک بسّی کے سیدگھرانے کافرد تھا۔گزراوقات کے لیے اپنی زمینیں تھیں،چاربیٹے اورایک بیٹی تھی۔بیٹوں کے نام علی الترتیب سیدنورمحمدشاہ،سیدشاہ محمدشاہ،سیدولی محمدشاہ اورسیدعلی محمدشاہ تھے۔بیٹی کانام محمدبی بی تھا۔بڑے بچے توتعلیم سے بے بہرہ رہے اورچھوٹے دونوں بھائی بمشکل پرائمری تک تعلیم حاصل کرپائے۔ اس زمانے کادستورہی ایساتھا۔زمیندارگھرانے اپنے بچوں کوتعلیم دلوانے کے بجائے انہیں کھیتی باڑی میں مصروف کردینابہتر سمجھتے تھے۔وقت کاپہیہ چلتارہااوریہ بچے بڑے ہوکراپنی اپنی راہ پرنکلتے گئے۔بڑے بیٹے نورمحمدکی اپنی خالہ زادعصمت سے شادی ہوگئی۔ دوسرے بیٹے سید شاہ محمدکے دل میں بارہ بسّیوں سے باہرکی دنیاکی دھن سماگئی۔گھرسے نکل کھڑے ہوئے اورمعاش کی تلاش میں نجانے کہا ں کہاں کی خاک چھانتے رہے۔سیدشاہ محمدشاہ میرے والد تھے۔وہ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں پیداہوئے تھے۔پیدائش کاسن 1894ء ہے۔یہ انگریزوں کازمانہ تھا۔سیدشاہ محمدبھی انگریزفوج میں بھرتی ہوگئے۔افریقاکے شہردارالسلام میں کافی عرصہ رہے۔نجانے کب فوج چھوڑدی اورادھرادھرمختلف ہنرسیکھتے رہے۔گوتعلیم سے بے بہرہ تھے مگرذہنی طور پرمستعدتھے اس لیے مختلف قسم کی مکینکی سیکھ لیے تھے۔ڈرائیوری بھی سیکھی اورگاڑیاں ٹھیک کرنابھی۔سائیکلوں اورموٹرسائیکلوں کی مرمت کاکام بھی خوب اچھی طرح سیکھ لیا۔پھرایک دن پھرتے پھراتے عراق پہنچ گئے۔عراق انہیں پسندآیااورانھوں نے اس ملک کورہائش کے لیے منتخب کرلیا۔کچھ عرصہ گزراتواپنے بڑے بھائی نورمحمداورایک چھوٹے بھائی ولی محمدکوبھی اپنے پاس بلالیا۔اسی دوران ہندوستان کے بھی ایک دوچکرلگاآئے اورانہی میں سے ایک چکر میں اپنی خالہ زادسے شادی کرکے اسے بھی اپنے ساتھ عراق لے گئے۔بصرہ شہر میں عائلی زندگی کاآغازکیایکے بعددیگرے تین بچے پیداہوئے مگرتینوں بچے پیداہوتے ہی راہی ملک عدم ہوگئے۔چوتھے بچے کی پیدائش ہوئی تونومولود بچی توبچ گئی مگربچی ماں کادوران پیدا ئش انتقال ہوگیا۔اس بچی کوکن ہاتھوں میں پناہ ملی،کسی نے اسے پالنے پوسنے کی ذمہ داری قبول کی،یہ جاننے کے لیے ایک اورکہانی سننا ہوگی۔
کس خوبصورتی سے مصنفہ نے کہانی سے کہانی نکالی ہے۔”وادی سون سکیسرمیں نوشہرہ سے آٹھ میل آگے ایک پہاڑی پرانگہ نام کاایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔آئیے انگہ چلتے ہیں۔اس گاؤں میں تین بڑے گھرانے تھے۔جوممدال،خیرممدال اورقسمال کہلاتے تھے۔یہ ملکوں کے گھر تھے۔ان گھرانوں سے کئی نامی گرامی شخصیات بعد میں پاکستان کی تاریخ کاحصہ بنیں۔جن میں احمدندیم قاسمی جیسی ادبی ہستی نے جنم لیا۔ اب چلتے ہیں اس خاندان کی طرف جس کاذکراس کہانی کی ضرورت ہے۔انگہ کے ممدال قبیلے کے ایک خاندان کے سربراہ نورحسین تھے۔ جودرمیانے درجے کے زمین دارتھے۔ان کے آباؤاجدادمیں بزرگی پائی جاتی تھی جس کااثراولادمیں بھی آیاہوگامگرکوئی گدی نشینی والی بات نہیں تھی۔نورحسین کے چاربیٹے تھے۔یہ سب نیک ضرور تھے مگرایک کے سوا،باقی کے سب دنیاداری سے لاتعلق۔نہ ڈھنگ سے شادیاں رچائیں نہ صاحبِ اولاد ہوئے۔فیض محمدکے علاوہ باقی بھائیوں کی زندگی اورحالات کے بارے میں مزیدعلم ندارم۔ہاں فیض محمدکے حالات وواقعات سے میری زندگی وابستہ ہے۔اس لیے ان کاذکرکرناضروری ہے۔فیض محمدکی زندگی ایک طویل اوردلچسپ داستان ہے۔ دس بارہ سال کی عمرمیں دوستوں کی ہمراہی میں گھرسے نکل کھڑے ہوئے،تین دوست شہرکراچی پہنچ گئے۔جہاں دونوں دوست بھی بچھڑ گئے۔اس تنہائی کے عالم میں کسی شٹربند دکان کی تھڑی پرسورہے۔صبح دکان دارجوایک بزازتھا،گھرسے آیاتودروازے پرایک نوعمربچے کوسوتا دیکھ کرحیران ہوا۔پوچھنے پرفیض محمدنے جواب دیاہم گھرسے بھاگے تھے دوست بچھڑ گئے۔میں اکیلاتھاواپس بھی جانانہیں چاہتا۔حسن ِ اتفاق سے اس بزازکے ہاں اولاد نہیں تھی۔اسے ہمدردی ہوگئی اوراپنابیٹابنانے کاارادہ کرلیا۔یہ بزاز کابیٹابنارہا۔اسی کے گھرجوانی میں قدم رکھا۔ایک دن بزازاوراس کی بیوی نے حج پرجانے کاپروگرام بنایابیٹابھی ہمراہ، تینوں عازم سفرہوئے۔حج کی ادائی کی۔اوروہاں سے زیارتوں میں مصروف ہوگئے۔یہ وہ وقت تھاجب لوگ قافلوں کی صورت حج اورعمرے کے لیے جایاکرتے تھے۔اسی طرح کاایک قافلہ جو عراق سے وہاں آیاہواتھا۔فیض محمدکونہ جانے کیاسوجھی کہ منھ بولے والدین کوبتائے بغیراس قافلے میں شامل ہوگیااوران کے ساتھ عراق چلاگیا۔عراق میں نہ جانے کن کن شہروں میں کسبِ معاش کی چکی پیسی،جوانی جب منھ زورہو جاتی ہے تواسے لگام دینے کے لیے ازدواج کی زنجیرکی ضرورت پڑتی ہے۔فیض محمدبھی گھمشہ نامی عراقی لڑکی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔پھرکیاتھاگویاآبادی میں اضا فے کاٹھیکہ انھیں مل گیا۔سولہ بچوں کے ادھورے اور پورے جنم کاباعث بنے،مگرصرف تین بیٹے اوردوبیٹیاں صحیح سلامت پروان چڑھے۔ بیٹوں کے نام اسماعیل،ابراہیم اورخلیل رکھے۔بیٹیوں کے نام غلام زہرہ اورغلام فاطمہ تھے۔فیض محمدواپس وطن بھی گئے،لیکن جوان بیتے خلیل کے مرنے پرپھرعراق چلے گئے۔اس وقت ان کی بڑی بیٹی غلام زہرہ تیرہ سال کی ہوچکی تھی۔آپ کویاد ہوگاکہ ہوشیارپورسے عراق جانے والے سیدشاہ محمدشاہ کاذکرکرچکی ہوں۔بصرہ میں شاہ محمد اورانگہ کے فیض محمدکی ملاقات ہوگئی۔دونوں چونکہ ہندی کہلاتے تھے لہٰذاہم وطن ہونے کے ناتے اچھے دوست بن گئے۔شاہ محمدکاذکریہاں چھوڑاتھاکہ کی ان کی بیوی کازچگی کے دوران انتقال ہوگیااورنومولود بچی زندہ رہی۔اب سوال یہ تھاکہ اس بچی کوکس طرح پالاجائے جبکہ گھر میں کوئی خاتون نہ تھی۔شاہ محمدنے چاہاکہ ولی محمدکی شادی کردی جائے۔ بھابی کی شکل میں گھرمیں ایک عورت کاوجود توہوگاجوامورِ خانہ داری سنبھال لے گی۔اسی خیال سے انہوں نے فیض محمدکی بیٹی غلام زہرہ کا رشتہ چھوٹے بھائی کے لیے مانگ لیا،فیض محمدنے انکارنہیں کیابلکہ ایک اورستم ڈھایا۔کہنے لگے کہ تمہارابھائی ابھی سنجیدہ نہیں ہے،ناسمجھ ہے، اسی بیٹی نہیں دوں گا۔اگرتم دوسری شادی کرناچاہوتومیں تیارہوں،کہاں پینتیس برس کاپختہ کارمرداورکہاں چودہ برس کی نمانی لڑکی! یہ سراسر زیادتی تھی۔مگرنوشتہ تقدیر یہی تھاکہ پلک جھپکتے میں غلام زہرہ زوجہ سیدشاہ محمدمیں بدل گئی۔“
دوخاندانوں کے ملاپ کی یہ انوکھی داستان ہے۔یہ غالباً سن انتیس تیس کادورتھا۔عورتیں چھوٹی ہوں یابڑی رفتہ رفتہ اپنی زندگی کی عادی ہو ہی جاتی ہیں۔شاہ محمدغلام زہرہ کے پہلے بیٹے سیدعبدالہادی شاہ نے جنم لیا۔وارث مل جانے پرشاہ جی بہت خوش تھے۔1935ء جنوری کا ساتواں دن اورشوال کی پہلی تاریخ یعنی عیدالفطرکادن تھا۔صبح اذان کے وقت غلام زہرہ نے بیٹی کوجنم دیا۔عیدکے تحفے کی مناسبت سے اس کانام ہدیہ رکھاگیا۔ہدیہ ظفرلکھتی ہیں۔”اب تک جوکچھ لکھایہ میرے جنم سے پہلے کی رودادتھی۔کوشش یہی ہے کہ صداقت قائم رہے۔ مگر پھر بھی کہاجاتاہے کہ سناہوادیکھے ہوئے کی مانند کب ہوتاہے۔قصہ مختصراب اگلی داستان داستانم است۔“
آپ بیتی کاپس منظرایسے الف لیلوی انداز میں کس نے بیان کیاہے۔تجسس ہدیہ ظفرکی اپنی کہانی سننے کوبے تاب ہوجاتاہے۔جس میں دلچسی کاعنصرکبھی کم نہیں ہوتا۔ بغداد میں پیداہونے والی ہدیہ ظفرکراچی،گوجرہ،انگہ،ہوشیارپور،خوشاب کہاں کہاں نہیں رہیں۔پھرانہوں نے شوہرکے ساتھ حج بیت اللہ کیا۔امریکا،انگلینڈاوردیگرکئی ممالک گھومنے کاموقع ملا۔طرح طرح کے لوگوں سے پالاپڑا۔درس وتدریس سے وابستہ رہیں اوراپنے بچوں کوبھی اعلیٰ تعلیم دلائی۔قیام پاکستان سے پہلے کاکراچی کیساتھاپھرکیاتبدیلیاں آئیں۔تحریکِ پاکستان بھی ہدیہ نے یہی دیکھی۔ہرطرف ’لے کے رہیں گے پاکستان،بن کے رہے گاپاکستان‘ کے نعرے سنائی دینے لگے۔گھرکے قریب پارک میں سیاسی قائد جمع ہوتے اوراپنے خیالات کااظہارکرتے۔یہاں اکثرقائداعظم محمدعلی جناح بھی تشریف لاتے اوراپنامافی الضمیربیان کرتے۔ ہدیہ ظفرلکھتی ہیں۔”مجھے فخرہوتاہے جب میں سوچتی ہوں کہ قائداعظم جیسی ہستی کومیں نے بہت قریب سے دیکھاہے۔بہت اچھالگتاتھاجب میں بہت دیرتک محمدعلی جناح کی ٹھہری ٹھہری آوازسنتی رہتی۔مقصدسمجھ میں آئے نہ آئے یہ ضرورجانتی تھی کہ یہ کوئی اہم شخصیت ہے اورمسلمانوں کے لیے اپناملک بنانے کے لیے کوشاں ہے۔پاکستان بننے کے فوراً بعدپاکستا ن گرل گائیڈایسوسی ایشن کاقیام عمل میں آگیاتھا۔محترمہ فاطمہ جناح،اس کی سرپرست اعلیٰ قرارپائیں۔اب وہ اکثروبیشترگاندھی گارڈن میں تشریف لاتیں اوربچیوں کو گرل گائیڈ میں شامل ہونے کی ترغیب دیتیں۔میں اس وقت بارہ سال کی تھی۔میں بھی اپنانام گرل گائیڈکے طورپرلکھوادیا۔محترمہ فاطمہ جناح جب وہاں آتیں توایک بنچ پربیٹھ جاتیں اورہم سب بچیاں ان کے اردگردگھاس پرگھنٹے ٹیک کرانتہائی قریب بیٹھ کران کی باتیں سنتیں۔اس وقت تواس بات کی اہمیت کااندازہ نہ تھا۔مگرآج احساس ہوتاہے کہ ہماری کتنی خوش نصیبی تھی کہ ایسی شخصیت کے اتنے قریب بیٹھتے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔ایسی ہستیاں روزروزپیدانہیں ہوتیں۔“
والدہ جنہیں سب بی بی کہتے تھے۔تمامترمشکلات کے باوجود اپنی بیٹیوں کوتعلیم کے زیورسے مالامال کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی اورتمام بیٹیاں درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں۔جبکہ تین بیٹوں میں سب سے بڑاعبدالہادی امریکاجاکروہیں کاہورہا،عبدالخالق کسی فیکٹری میں ویلڈرتھا۔چھوٹابھائی فوج میں سپاہی تھامگرذہن کچھ ٹھیک نہ تھا۔فوجی دماغی اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہا۔آخرکارفارغ کردیا گیا۔یہ ہے وہ نرینہ اولادجس کی باپ کوبے انتہاطلب تھی۔جڑواں بہنوں رضیہ اورفوزیہ کے بعدعبدالقادرشاہ پیداہوئے توخوشی سنبھالی نہیں جاتی تھی۔میلاد کرایاگیا۔خسرے نچوائے۔آج وہی بیٹے ہیں لیکن ایک بھی دکھ سکھ میں کام نہیں آیابلکہ کوئی سکھ دینا،مالی معاونت کرنا، کسی قسم کی خدمت کرناتودورکی بات ہے دونوں بھائی سداتکالیف کاباعث ہی بنے رہے۔عبدالہادی شاہ موجودتھے مگرنظروں سے دور۔
یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ لوگ بیٹوں کی خواہش میں کیاکچھ نہیں کرتے،لیکن والدین کااحساس بیٹیاں ہی کرتی ہیں۔
ہدیہ کی شادی کے موقع پران کی والدہ کی کہانی دوہرائی گئی۔ایک ٹیچرنسیم باجی نے ان کی عمرسے کہیں بڑے ظفرکارشتہ ان کے والدین کوپیش کیا۔جنہوں نے کسی تحقیق کے بغیرقبول کرلیا۔ظفرصاحب مالی طور پربھی کمزورتھے اورکسی ایسی خاتون سے شادی کرناچاہتے توجوخودبرسرِ روزگارہو۔ان کے اہلِ خانہ بھائی کی شادی نہیں کرناچاہتے تھے کہ پھران کاگھرکون چلاتا۔اسی لیے ایک بھائی کے سواکوئی بھی شادی میں شریک نہ ہوا۔سرگودھاسے سترہ افرادکی بارات آئی،مسافربس میں باراتیوں کے ساتھ عام مسافرتھے۔لوگوں نے محسوس کیاکہ دولہاکے والدین اوربہن بھائی شامل نہیں ہوئے۔مگروقت کی مصلحت کے پیشِ نظرکسی نے زبان نہ کھولی۔بارات والی بس کاکرایہ چونتیس روپے ایک دوست سے لیاگیاتھا۔جس کی ادائی ہدیہ نے سلامی کی رقم سے کی۔ شادی کے بعد ہدیہ ظفرکوایک بے حدمشکل زندگی بسرکرنا پڑی۔لیکن انہوں نے صبروشکرسے ہرمشکل کاسامناکیا۔یہ سب کچھ کسی طلسم ہوشرباسے کم نہیں ہے۔ایک عورت کی ہمت،جرأت کی کہانی قاری کی توجہ یوں خود میں جذب کرلیتی ہے کہ وہ کتاب ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ہدیہ ظفرکی زندگی میں ٹھہراؤ اس وقت آیاجب ظفرصاحب بحرین اسٹینوگرافربن کرگئے۔وہ اپنے کام میں بہت ایمانداراورمحنتی تھے۔عرب شیخ کادل جیت لیا اوربہت طویل مدت بحرین میں گھرسے دور رہے اورہدیہ صاحبہ نے گھرباربخوبی سنبھالے رکھا۔ بیٹیوں نجیبہ عارف اورنوشابہ اوربیٹے حیدرعلی نے پی ایچ ڈی کیا۔اچھی جگہ شادیاں ہوئیں۔غرض ہدیہ ظفرکی”جیون دھارا“ ایک عام خاتون کے انتہائی دلچسپ اورسبق آموز خودنوشت ہے اورجومحنت کی عزمت کی ترغیب دیتی ہے۔اس میں خاکے،آپ بیتی،سفرنامے ہرقسم کالطف ملتاہے۔