”عمررفتہ“ خان بہادرنقی محمدخان خورجوی کی آپ بیتی ہے۔جسے بلامبالغہ اردوزبان کی سب سے زیادہ دلچسپ اورمعلومات افزاآپ بیتی کہا جاسکتاہے۔کتاب میں ایک صدی کی یادیں، ثقافت،تہذیب،روزمرہ گفتگوکے آداب اورگزشتہ لکھنؤ کی یادیں انتہائی دلچسپ انداز میں تازہ کی گئی ہیں اوراس دورکی شخصیات کوبھی مصنف نے اپنے اندازِ بیان سے زندہ جاویدبنادیا۔
”عمررفتہ“ مشہورادیب شاہداحمددہلوی کے کہنے پرلکھی گئی اوران کے ادبی رسالے”ساقی“ کے اپریل 1958ء کے خاص نمبرکے طورپرشائع ہوئی۔سالنامہ ساقی میں اس خودنوشت کے شائع ہوتے ہی ہندوپاکستان میں اس کی دھوم مچ گئی۔ادیبوں اورشائقین نے اسے بے پناہ پسندکیا۔اخبارات ورسائل میں تبصرے شائع ہوئے۔ اس داستانِ لذیذکوکتابی صورت میں شائع کرنے کامطالبہ کیاجانے لگا۔
نقی محمدخان صاحب نے بھی اس مقبولیت کودیکھتے ہوئے ”عمررفتہ“ پر نظرثانی کی،اکثرمقامات پرترمیم وتنسیخ بھی کی گئی،بعض نئے واقعات بھی یادآنے پرشامل کیے اوردس ابواب قائم کرکے کتابی شکل دیدی۔ ٹائمس پریس نے پہلاکتابی ایڈیشن شائع کیا۔جس کے بعدکئی ایڈیشنزشائع ہوئے۔آپ بیتی کاتازہ ایڈیشن فضلی سنز کراچی نے مصنف کے صاحبزادے سمیع محمدخان کی تحریری اجازت سے کمپیوٹر کمپوزنگ میں انتہائی آب وتاب کے ساتھ شائع کی ہے۔ اعلیٰ سفید کاغذ پر چار سو بتیس صفحات کی کتاب کی قیمت چھ روپے بہت مناسب ہے۔
خان بہادرنقی محمدخان یوپی بھارت کے ایک بڑے قصبے خورجہ میں 1880ء میں پیداہوئے اورتقریباً نوے سال کی بھرپورزندگی گزارنے کے بعد1969ء میں جہانِ فانی سے عالم ِ جاودانی کورخصت ہوئے۔ انہوں نے پینتیس سال پولیس میں ملازمت کی لیکن پولیس میں رہنے کے باوجود روایتی تہذیب کادامن کبھی نہ چھوڑا۔کئی کتابیں تصنیف کیں۔موسیقی سے بھی بہت دلچسپی تھی۔
شاہداحمددہلوی”عمررفتہ“ کے تعارف میں لکھتے ہیں۔”اللہ بھلاکرے سنہ سینتالیس کے ہنگامے کا، اس کی بدولت ایسے ایسے لوگوں سے ملنا ہو گیا جن سے شایدکبھی ملنانصیب نہ ہوتا۔ اِنہی میں ایک خان بہادرنقی محمدخان صاحب ہیں جن کی بزرگانہ شفقت ومحبت نے میرے بہت سے غم غلط کردیئے۔نقی محمدخان صاحب کے اسم گرامی سے میں بچپن ہی سے واقف تھا۔ ان کے دلچسپ مضامین رسالوں میں چھپتے رہتے تھے۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے دہرہ دون میں اپنی کوٹھی بنالی تھی۔مولوی عنایت اللہ مرحوم سے جب میں ملنے دہرہ دون جاتاتونقی محمدخان کی کوٹھی کے سامنے سے اکثرگزرتا۔ان سے ملنے کوجی چاہتا،مگردنوں قیام کے باوجود کوئی موقع نہ نکلا۔دہرہ دون ایک خواب ہوگیا۔پندرہ سال بیت گئے۔ایک دن صبح ہی صبح ایک صاحب تشریف لائے۔لمبے لہکارے،اجلارنگ،کتابی چہرہ،کترواں مونچھیں،ڈاڑھی گھٹی ہوئی،سرپرترکی ٹوپی، پاؤں میں نیوکٹ،دروازے سے کڑک کرپوچھا۔‘شاہدصاحب ہیں؟‘ میں نے دل میں کہا ’خدا خیر کرے بھلا ان بزرگ نے اس ویرانے میں آنے کی زحمت کیوں کی ہوگی؟دروازے سے اندرآئے توجالبی صاحب کامسکراتا چہرہ نمودار ہوا”خان بہادرنقی محمدخان صاحب خلیل خورجوی“ اس کے بعد جودلچسپ باتوں کاسلسلہ شروع ہواتوکئی گھنٹے گزرگئے۔
خیرسے اسی کے قریب عمرہے۔مگر ایسے زندہ دل کہ روتوں کوہنسائیں۔ خوب ہنستے ہیں اورخوب ہنساتے ہیں،ورنہ اس عمر میں تواچھابھلا آدمی کاٹنے کو دوڑنے لگتاہے سب سے بیزارہوجاتے ہیں۔اس ارذل العمرسے توپیغمبروں نے بھی پناہ مانگی ہے۔اب اگر کوئی ایسابڈھا مل جائے جس کے پہلومیں دلِ زندہ دم نہ توڑچکاہوتواسے عجوبہ ہی سمجھناچاہئے۔نقی محمدخان صاحب ادب کے توپرانے مریض تھے ہی،موسیقی کے بھی کہنہ مریض نکلے۔اس مرض وعرض کی ابتلانے فوراً ہی یگانگت کی بنیاد ڈال دی۔پولیس جیسے محکمے میں کم وبیش پینتیس سال رہنے کے بعد بھی ان کی شرافت نفس زائل نہیں ہوئی۔شرافت ووضع داری کے علاوہ خوش گفتاری بھی ان کاایک بڑا وصف ہے۔گھنٹوں عجیب وغریب واقعات سناتے رہتے ہیں اوربارِ خاطرنہیں ہوتے۔اتنی چاق وچوبندزندگی گزارنے کے بعد بے کاری ان کے لیے ایک عذاب بن گئی۔ پرانے ساتھی یابچھڑگئے یامرگھپ گئے۔اسی بے کاری میں کئی کتابیں لکھ ڈالیں۔پھرپریشان کے اب کیاکریں؟ ہمزاد کی طرح انہیں بھی ہروقت کام چاہیے۔میں نے کہا’آپ اپنی سوانح عمری لکھ ڈالئے۔آپ کی زندگی عجیب وغریب واقعات کامرقع ہے۔اس میں ایک صدی کی ثقافتی جھلکیاں بھی آجائیں گی۔‘ یہ تجویزسن کرپھڑک گئے اوراسی وقت سے اس کام پرجٹ گئے۔تین مہینے بھی شاید پورے نہ ہونے پائے تھے کہ سوانح عمری مکمل ہوگئی۔میں نے اس مسودے کودیکھناشروع کیاتواسے اس قدردلچسپ پایاکہ گھنٹوں اسے پڑھتارہتاتھا۔لہٰذا اسے ساقی کے خاص نمبرکی شکل میں پیش کرنامناسب سمجھا۔خان موصوف نے بھی تجویزکوپسندفرمایااوراس کانام تجویز کرنے کوکہا۔میں نے کہاکہ یہ سوانح عمری آپ کی زندگی کی غزل ہے
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
بولے بس توعمررفتہ سے بہتراس کانام نہیں ہوسکتا۔چنانچہ ”عمررفتہ“ کاخاص نمبراپریل 1958ء میں شائع ہوا۔“
شاہداحمددہلوی جیسے ادیب اورمدیرکی اس تعریف وتوصیف ”عمررفتہ“ کی اہمیت اوردلچسپی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔نقی محمدخان نے ”گزارش“ کے عنوان سے دیباچہ لکھاہے،جس میں آپ بیتی کی اہمیت واضح کی ہے۔”مثل مشہورہے کہ ”کڑواکریلااورنیم چڑھا“ لیکن میں کہاکرتاہوں کہ ”بڑھاپااوربیکاری“ یہ دو چیزیں بھی دوآتشے کاکام دیتی ہیں۔خدابھلاکرے شاہداحمدصاحب دہلوی کاکہ انہوں نے مجھے میرے حالات زندگی لکھنے کی صلاح دی۔اس عارضی مشغلے نے بیکاری کاتوعلاج کردیالیکن دوسرامرض بدستورقائم ہے۔یہ ساقی کا سالنامہ نہیں بلکہ میراخودنوشت اعمال نامہ ہے۔ہرشخص کی زندگی دلچسپ اورتجربے کے لحاظ سے سبق آموزہوتی ہے مگرمیری زندگی کچھ عجیب وغریب واقعات کامجموعہ ہے۔ایشیا کے باشندے اپنے واقعات کواپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔اگران کی اولادوں کوکچھ علم ہوتابھی ہے تواس کااثرایک دوپشت کے بعد زائل ہوجاتا ہے۔لیکن یورپ والے کچھ نہ کچھ لکھ کرچھوڑ جاتے ہیں۔یہ واقعات محض قصہ کہانی نہیں ہو تے بلکہ ان سے زمانے کی تاریخ مرتب کرنے میں امداد ملتی ہے۔مختلف زمانوں کے عادات واطوارکاموازنہ کیاجاتاہے۔طریقہ تعلیم،رسم و رواج،لباس،بودوباش،سب ہی حالات زمانہ ماضی محفوظ ہوجاتے ہیں۔مجھے جوکچھ یاد رہ سکاوہ آپ کے سامنے ہے۔البتہ ذاتی واقعات پیش کرنے میں مجھے دشواری پیش آئی کہ اپنے منہ میاں مٹھوبنناپڑاہے۔لیکن سوائے اس کے کوئی چارہ کار بھی نہ تھا۔اگرانکساری سے کام لیتا تو واقعات کاخون ہوتا۔اسی سال کے واقعات آپ بیتی اورباقی جگ بیتی ہیں جن کوبزرگوں سے سناہے۔زمانہ ماضی اورحال میں زمین آسمان کافرق پاتاہوں۔زمانہ لاکھ ترقی کررہاہواگرسائنس کی ترقی ہے تومجھے تسلیم ہے لیکن محض سائنس ہی ہماری زندگی کے ہرشعبے میں رہبر کامل نہیں بن سکتی۔اخلاق اورروحانیت بھی انسانی زندگی کے کے لازمی اجزاء ہیں جن پر ہمیں کبھی فخر ونازتھااورجسے ہمارے اجداد اپنے ساتھ لے گئے۔کاش ہرشخص اپنی عمرکوبجائے،دن،مہینے اورسال کے اعمال کی ڈوری سے ناپتا۔اگرپڑھنے والے بھی اس نکتہ کوسمجھ لیں تو آخر عمرمیں میری طرح اُن کوبھی پشیمان نہ ہوناپڑے۔“
آخرمیں کیاکمال بات نقی محمدخان نے کہی ہے۔انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔جن میں ”حیات امیرخسرومع ایجادموسیقی“اور”اعجوبہ اسرار“بہت اہم اورمشہور ہیں۔”اعجوبہ اسرار“کی تحریرکاواقعہ مصنف نے بیان کیاہے۔”میرے گھرلڑکی پیداہوئی اورمیری بیوی مرضِ دق میں مبتلاہوگئیں۔مقدوربھرعلاج کرایا،لیکن ”مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی‘،بیس فروری 1910ء جمعرات کی رات میں اپنے پلنگ پر لیٹ گیا۔کچھ ہی دیرگزری تھی کہ ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچ گیا۔کیادیکھتاہوں کہ ایک قدسی صفت بزرگ عجیب خوش الحانی سے ایک شعر حالتِ وجدمیں پڑھتے ہوئے سنگ مرمرکی خوبصورت چھوٹی سی مسجدسے برآمد ہوئے۔اس شعرنے جوبیدارہونے کے بعدیاد نہیں رہا،مجھ پرعجیب کیفیت طاری کردی۔وہ بزرگ میرے قریب آئے اورفرمایاکہ اگر”مَن عَرَفَ نَفسَہ فَقَدعَرَفَ رَبَّہ“کے معانی اورمطالب پرغورکیا کروتوفکردین اوردنیاسے بے نیازہوجاؤگے۔اس ارشاد کے بعد کچھ کہناچاہتاتھاکہ آنکھ کھل گئی۔اس خواب نے مجھے ہمیشہ کے واسطے بیدار کردیا۔میں اکثراپنے نفس کوپہچاننے میں غلطاں وپیچاں رہاکرتاتھا۔چونکہ سرکاری کام کے سلسلے میں اکثردیگراضلاع اورصوبجات میں جاناہوتاتھا۔میں علماء صوفی ومشائخ کامتلاشی رہتا،اورمعلومات حاصل کیاکرتا۔جب ہرلحاظ سے مطمئن ہوگیاتوکتاب کامسودہ تیارکیا۔ اس نام ’اعجوبہ اسرار‘ رکھاگیاسودوسوصفحات کی کتاب تیارہوگئی۔روح بلندی کی طرف اپنے پرکھولتی ہے جبکہ جسم نے زمین میں پنجے گاڑ رکھے ہیں روح توبلندی رکھتی تھی،جب کہ جسم پستی کی طرف مائل تھا۔ہوایہ کہ پست خاک اورروح پاک ایک جگہ جمع ہوگئیں۔جب پست و بلندایک دوسرے کے دوست بن گئے توآدمی ایک انوکھی چیزبن گیا۔یہی کتاب کی جان اوراس کاخلاصہ ہے۔“
اس کتاب کے موضوع اورموادکامزیداندازہ اس اقتباس سے بخوبی کیاجاسکتاہے۔”روح جسم سے کنارہ کش ہوتی ہے توجسم کے ذرات گل سڑ کرمنتشرہوجاتے ہیں۔ لیکن جسم سے باہرنکلنے کے عین بعدروح میں کثافت باقی رہتی ہے،اس لیے اس کااول مقام اعراف کہلاتا ہے جہاں قدرت کی طرف سے کثافتوں کودور کرنے کاموقع دیاجاتاہے اورجوارواح ان کثافتوں سے پاک صاف ہوکرجاتی ہیں وہ براہِ راست مقام ِ اعلیٰ پرپہنچ جاتی ہیں۔“
نقی محمدخان کی زبان،اسلوب اورواقعات اتنے دلچسپ ہیں کہ قاری کے لیے کتاب کوچھوڑنامشکل ہوجاتاہے۔ذرا ارزانی کاحال ملاحظہ کریں۔”ارزانی کاوہ عالم تھاکہ راج کی مزدوری چارچھ آنے اورمزدرکی چھ پیسے۔غلہ ایک روپیہ من اورگھی روپیہ کاڈھائی سیرآتاتھا۔کھانا پکانے والے کی تنخواہ ایک دوروپیہ ماہوار اورکھاناتھی۔اسی لحاظ سے کپڑااوردیگراجناس ارزاں تھیں۔بوجہ ارزانی پیسے کی قیمت زیادہ تھی۔ اس لیے پیسے کوکوڑیوں میں تقسیم کیاگیاتھا یعنی ادھی،دمڑی،چھدام،گنڈا،دھیلا،پون پیسہ،اس کے بعدپیسہ ہوتاتھا۔“
آج کے دور میں جب چونی اٹھنی توکیاروپیہ دوروپیہ کی بھی کوئی قدرنہیں،اسی لیے قاری کے لیے اس صورتحال کاتصوربھی محال ہوگا۔اس دور کی سواریاں بھی حیران کن تھیں۔جن میں دوپہیہ اورشکرم تھیں۔دوپہیہ ایک صندوق نماسواری تھی جس میں دوپہیے لگے ہوتے تھے اور ایک گھوڑااسے کھینچتاتھا۔ شکرم کے چارپہیے ہوتے اوردوگھوڑے کھینچتے تھے۔سستازمانہ ہونے کی وجہ سے شادیوں میں کھانے کی ایسی افراط ہوتی کہ دعوتوں میں تمام برادری کے گھرگھرتقسیم کیاجاتااوراس میں نوکروں کابھی پوراحصہ ہوتا۔سادہ چلن تھا،زمین اورمکان باپ دادا چھوڑجاتے تھے،لوگ خودملازمت کرکے عیش اوراطمینان کی زندگی گزاردیتے تھے۔
”عمررفتہ“میں کردارنگاری اورخاکہ نگاری بھی بے مثال ہے۔بے شماردلچسپ کرداروں کاذکرمختصریاطویل کیاہے۔جوقاری کے ذہن میں گھر کرلیتے ہیں۔جن میں نقی خان کے چچاعاشق محمدخان اورچھوٹے چچاعلی محمدخان،مولانانصراللہ خان،خدابخش عرف بخشااورایک نقال منگوابھانڈجیسے بے شمار کردارہیں۔اردوکے مشہورشاعرداغ دہلوی خورجہ کے ایک صاحب مولوی عبدالرحمٰن سے ملاقات کے لیے آتے۔ اردوکے نامورمزاحیہ شاعراکبرالہ آبادی کابھی خورجہ آناجانارہتا۔کچھ عرصہ نقی محمدخان،اکبرالہ آبادی کے گھربھی رہے۔
نقی محمدخاں کے والد براہِ راست انسپکٹرپولیس مقررہوئے جوہندوستانی افراد کے لیے پولیس کاسب سے بڑا عہدہ تھا۔اس سے اوپرسب انگریز ہوتے تھے۔”تقرری کے وقت شرط یہ تھی کہ وہ ایک سال میں قوانین پولیس اورفوجداری کاپاس حاصل کریں لیکن جس کوزباندانی اور علمیت کاغرہ ہو،اس کے لیے قانون کی دفعات کورٹناایک مصیبت تھی۔قصہ کہانی کی طرح دوچارمرتبہ کتابیں پڑھ کرالماری میں رکھ دیں۔ امتحان کے لیے لکھنؤ طلبی ہوئی۔کمیٹی ممبرزمیں انسپکٹرجنرل پولیس،کمشنرضلع اورمولوی نذیراحمد(جنہوں نے تعزیرات ہند کالاجواب ترجمہ کیا تھا)شامل تھے۔آئی جی صاحب نے خیانتِ مجرمانہ کی تعریف کرنے کوکہا۔جوشخص بددیانتی سے کسی سونپے ہوئے مال کولے کرواپس نہ کرے تو کہاجائے گاکہ اس نے خیانتِ مجرمانہ کاارتکاب کیا۔پوچھا’سونپا‘ کس زبان کالفظ ہے،ہم نے نہیں سنا؟ والدصاحب سے جواب نہ بن پڑا۔توڈپٹی نذیراحمد نے کہا حضورِ والایہ دامنِ دہلی کے رہنے والے ہیں،اوران کی زبان مستندہے۔سندکے طور پرغالب کامصرعہ پیش کیا۔ ”وہ کافرجوخداکوبھی نہ سونپاجائے ہے مجھ سے“ دیوان منگایا،دیکھ کراطمینان کیا۔توصاحب اتنی سی بات پرامتحان ختم ہوگیا اور والد صاحب پاس ہوکرچلے آئے۔“
نقی محمدخان خورجہ کے ایک معززخاندان میں پیداہوئے۔والدین کی اولادزندہ نہ رہتی تھی۔نانااحمدخاں صاحب نے ایک بزرگ سے دعاکی خواہش کی۔بزرگ نے دعادی اورفرمایاکہ خدانے چاہاتوتمہارا نواسا پیدا ہوگا۔ اس کومحلہ کی مسجدمیں لے جاکرچٹائی پرلٹا دینا اور کہنا کہ اللہ یہ تیری چیزہے اورتوہی اس کانگہبان ہے۔ نام نقی محمدخان رکھنا۔دس سال تک اس کی دسوند یعنی سالگرہ کی جائے، کوئی جنازہ یامردہ نہ دیکھنے دیاجائے، گائے کاگوشت نہ کھلایاجائے۔17مئی 1880ء کوپیدائش ہوئی توتمام ہدایات پرعمل کیاگیا۔سالگرہ پرچاندی کی ہنسلی بنوا کر پہنائی جاتی تھی۔ماں باپ اورنانا نانی کے لاڈلے تھے،بہت نازونعم میں پرورش ہوئی۔ہرسال سالگرہ پرچاندی کی نئی ہنسلی پہنائی جاتی تھی جوننہال سے آتی تھی۔دس سال پورے ہوئے توان دس ہنسلیوں کوفروخت کرکے فقراء اورمساکین کوکھاناکھلایاگیا۔
میٹرک کے امتحان سے قبل نقی محمدخان انسپکٹرجنرل پولیس کے دورے کے موقع پربھرتی کے لیے پہنچ گئے۔پوچھنے پربتایاکہ عربی،فارسی، اردو اورانگلش جانتے ہیں۔انگلش میں میٹرک کاامتحان دینے والے ہیں،عمراٹھارہ سال ہے۔انہوں نے کہابہتریہی ہے کہ تم میٹرک پاس کرلو،تاکہ تم کوٹریننگ اسکول بھیج دیاجائے ورنہ تم ہیڈکانسٹیبل بھرتی کئے جاؤگے۔علی گڑھ رہ کرقواعدپریڈاورقوانین وغیرہ کاامتحان پاس کر نا ہوگا۔انہوں نے بخوشی شرائط منظورکرلیں۔انہوں نے اپنے پرنسپل مسٹرہامسکن سے سپرنٹنڈنٹ پولیس علی گڑھ کے نام چٹھی لکھواکردی جو لفافے میں بندکرکے نقی صاحب کے حوالے کی گئی۔والدصاحب بہت ناراض ہوئے کہ توننگِ خاندان ہے کچھ نہ پڑھا نہیں اورملازمت بھی کی توایسی حقیر۔بہترحال نقی محمدخان پولیس ٹریننگ کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔
علی گڑھ میں نقی محمدخان کی موجودگی کے زمانے میں سرسیدکے صاحبزادے سیدمحموداپنی کوٹھی میں رہاکرتے تھے۔وہ تقریباً ہروقت مخموررہتے اوراس حالت میں عجیب حرکتیں کرتے،اکثرنوکروں کومارتے۔رات کوتنہاسڑک پرنکل جاتے۔ان کی حفاظت کے لیے کلکٹرضلع کوایک ہوشیارہیڈکانسٹیبل کی ضرورت پیش آئی،منشی انواراحمدمنتخب ہوئے۔وہ بھی اس کام سے خوش تھے۔نہ پریڈنہ قواعد،نہ حاضری نہ چھٹی۔اچھا کھانا،آرام دہ کوٹھی،نوکرچاکر،جب معلوم ہوامسٹرمحمودکسی طرف چل دیے،یہ ڈنڈا لے کرپیچھے پیچھے ہوجاتے۔مسٹرمحمودبھی ان سے خوش تھے۔منشی انوارایسے وقت سامنے جاتے جب وہ مخمورنہ ہوں۔ایک روزشامت اعمال والامضمون ہوا۔ناوقت جاپہنچے۔مسٹرمحمود نے حافظ شیرازی کے آسان شعرکامطلب پوچھا۔جس کاجواب ایسے پیرایے میں بیان کیاکہ وہ خوش ہوگئے۔کہادعائے قنوت یادہے؟ منشی انوار نے کہاپوری تویاد نہیں ہے۔سیدمحمودکرسی سے اٹھے،دونوں دروازے بندکیے اورڈنڈالے کرآئے اورماراماری شروع ہوگئی۔خداخداکرکے نکل پائے سیدھے نقی صاحب کے پاس آئے۔پھردوبارہ وہاں نہیں گئے۔
سیدمحمودکی ذہانت اورقابلیت کے بھی بہت واقعات مشہورہیں۔جب ہائیکورٹ کے جج تھے توایک اہم مقدمے کی سماعت انگریزبیرسٹرملزم کی صفائی پیش کررہاتھا۔گرمی کازمانہ،خس کی ٹٹیاں اورپنکھوں کی سردہوا،سیدمحمود پرغنودگی طاری ہوگئی اورانہوں نے آنکھیں بندکرلیں۔ بیرسٹرنے خراٹے کی آوازسنی توخاموش ہوگیا۔اس کے خاموش ہوتے ہی آنکھ کھل گئی۔پوچھاکہ خاموش کیوں ہوگئے؟اس نے جواب دیا جب عدالت سوجائے توبحث کس کوسناؤں؟ مسٹرمحمود نے اپنی ذہانت کے باعث وہ باتیں بتلادیں جوان کے سونے کی حالت میں بیرسٹر نے بیان کی تھیں۔
ایک واقعہ سرسید کابھی سن لیجیے۔”ایک مرتبہ سرسیدعلی گڑھ ریلوے اسٹیشن پرٹرین کے منتظرتھے۔سوامی دیانندبھی پلیٹ فارم پرموجود تھے۔وہ قرآن شریف کے معانی اورمطالب سے بھی آگاہ تھا۔اس نے سرسیدسے اعتراضاً کہاکہ آپ کا اورقرآن کادعویٰ ہے کہ باوجود اختصار کے اس میں ہر رطب ویابس موجود ہے۔بتلائیے ریل کاذکرکہاں ہے؟ سرسید نے فوراً وہ آیت سنادی جس کے معنی ہیں کہ’ہم نے تمہارے آرام کے واسطے طرح طرح کی سواریاں پیداکی ہیں مثلاً خچر،گھوڑے اونٹ اوربھی سواریاں ہیں جن کاتمہیں علم نہیں ہے۔“
نقی محمدخان صاحب کہتے ہیں۔”جوکچھ میں لکھ رہاہوں،ایک ایسے سینماکی طویل فلم ہے کہ جس کی بعض لطافتوں میں میں خود گم ہوجاتاہوں اوربے ساختہ کہہ گزرتاہوں کہ ہائے گزری ہوئی عمراورگزرے ہوئے زمانے تجھے کہاں پاؤں؟“
”عمررفتہ“ کے ہرصفحے پرنت نئے واقعات جن کاتعلق عام زندگی،خارق العادات سانحات،جن وانس،شکاریات،مہم جوئی، نامورشخصیات سے ہے جن کامطالعہ ہرصاحب ِ ذوق کے لیے انتہائی دلچسپ ثابت ہوگا۔
کیا۔عمدہ کتاب ہے اور کیا ہی عمدہ تبصرہ۔