ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھا شکاری۔ اس کے پاس ایک خوب سِدھایا ہوا شکاری کتّا بھی تھا جو اس کا خدمت گزار تھا۔ شکاری کتّے کی کمر باریک اورہاتھ پاؤں پتلے پتلے اور لمبے تھے۔ وہ ہر جانور سے زیادہ پھرتیلا تھا اور تیز دوڑتا تھا۔ جونہی شکاری اسے ہشکارتا وہ خرگوشوں اور ہرنوں کے پیچھے بھاگتا، انھیں اپنی گرفت میں لاتا اور اپنے مالک کے پاس لے آتا۔ جب کبھی شکاری تیر سے کسی پرندے کو نشانہ بناتا تو کتّا تیزی سے دوڑتا اور اس سے پہلے کہ شکار مر جائے، اسے زندہ حالت میں شکاری کے قدموں میں ڈال دیتا۔
ایک روز شکاری، کتّے کو ساتھ لیے شکار کی غرض سے نکلا اور ایک ہرن کا پیچھا کرتے کرتے ان کا گزر ایک سرسبز و شاداب پہاڑی علاقے سے ہوا۔ اس کے نشیب و فراز میں طرح طرح کے درخت، پھول اور سبزہ بہار دکھا رہے تھے۔ جلد ہی وہ اس پہاڑی علاقے کے ایک غار تک جاپہنچے۔
شکاری نے دیکھا کہ غار کے آس پاس شہد کی مکھیاں پرواز کررہی تھیں اور ایک پتھر کے سوراخ سے شہد قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ مکھیوں نے پتھروں کے سوراخوں میں چھتے بنا رکھے ہیں اور جیسا کہ آثار سے پتا چلتا ہے کسی انسان کا ایک عرصے سے اُدھر سے گزر نہیں ہوا چنانچہ وہاں شہد بڑی مقدار میں جمع ہوچکا ہے، پتھروں کی تہیں شہد سے بھر چکی ہیں اور ان کے شگافوں سے شہد بہہ نکلا ہے اور زمین پر گر گر کر خشک ہورہا ہے۔
شکاری یہ سب کُچھ دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور اپنے آپ سے کہنے لگا: اگر کوئی دوسرا شخص کبھی یہاں تک نہ پہنچ پایا تو میں ایک مدت تک شکار کی زحمت سے بچ جاؤں گا۔ میں ہر روز یہاں آیا کروں گا، تھوڑا سا شہد یہاں سے شہر لے جاکر بیچ دیا کروں گا اور اس آمدنی سے اپنی گزر بسر کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ شہد کا یہ ذخیرہ مدتوں تک ختم نہیں ہوگا کیونکہ پہاڑ اور جنگل کا بڑا حصہ سبزہ و گل سے بھرا ہوا ہے اور شہد کی مکھیاں جن کا یہ ٹھکانا ہے، بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ان کا کام ہی شہد بنانا ہے۔
شکاری کو صرف ایک مشکل درپیش تھی یعنی مکھیّوں کا ہجوم مگر دنیا میں کوئی کام بھی مشقت اور تکلیف اٹھائے بغیر ممکن نہیں۔ شکاری نے اپنے لباس کو خوب کس لیا اور اپنے چہرے کو ایک رومال سے ڈھانپ کر، اپنے پینے کے پیالے کو جسے وہ اپنے ساتھ رکھتا تھا، شہد سے بھرلیا اور شہر کا رخ کیا تاکہ بازار میں اسے بیچ دے۔ اس کا کتّا اس کے ساتھ تھا۔
شکاری ایک کریانہ فروش کے پاس گیا اور کہا: میرے پاس تھوڑا سا خالص شہد ہے، اسے بیچنا چاہتا ہوں۔ کریانہ فروش نے شہد کا پیالہ تھاما، تھوڑا سا شہد لے کر چکھا اور کہا: اس شہد کے کیا کہنے اور آپ پر آفرین! میرے پاس ہمیشہ کئی قسم کا شہد رہتا ہے جسے میں خود دیہاتوں سے لاتا ہوں۔ اسے صاف کرتا ہوں اور اس سے موم الگ کرتا ہوں اور پھر خالص شہد بیچتا ہوں۔ ایک اور قسم کا شہد بھی میرے پاس ہوتا ہے جسے لوگ موم کے ساتھ چھتے سے نکالتے ہیں، میرے پاس لے آتے ہیں اور میں اسے خرید لیتا ہوں اور اسے موم سمیت بیچتا ہوں۔ ایک اور قسم کا شہد بھی ہے جسے لوگ صاف کرکے میرے پاس لاتے ہیں اور میں اس کی الگ سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ شہد میں چینی اور مربے کی چاشنی کی ملاوٹ کردیتے ہیں اور شہد کی پہچان رکھنے والے ایسے شہد کو ناپسند کرتے ہیں۔ جو خالص شہد جس علاقے سے آتا ہے، اپنا ایک مخصوص ذائقہ رکھتا ہے۔ لیکن یہ شہد تو ان تمام سے بہتر ہے۔ اس کی خوشبو اور ذائقے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل خالص ہے اور کسی ایسے علاقے سے آیا ہے جہاں کے پھول اور پودے بہت خوشبودار ہوتے ہیں۔ میں انصاف پسند آدمی ہوں اور اپنے ہاں کے بہترین شہد کی قیمتِ فروخت سے بڑھ کر قیمت ادا کروں گا ہاں تم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ تمھارے پاس جتنا بھی شہد ہو، میرے لیے لاتے رہنا۔
شکاری یہ سن کر خوش ہوا اور کہا: بہت اچھا، میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں کسی دوسرے خریدار سے نہیں ملا اور میرے پاس شہد بھی کافی مقدار میں ہے۔ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ تم نے شہد صحیح قیمت پر خریدا ہے اور میرے ساتھ دھوکا نہیں کیا تو میں ہر روز تمھارے لیے خالص شہد کا ایک کوزہ لایا کروں گا۔
کریانہ فروش کو یہ سن کر خوشی ہوئی۔ اس نے شہد کا کوزہ ترازو پر رکھا اور اس کا وزن کیا۔ پھر اس نے چاہا کہ شہد کو کسی دوسرے برتن میں انڈیل کر خالی کوزے کا بھی وزن کرے تاکہ اسے شہد کا خالص وزن معلوم ہوسکے۔
کریانہ فروش کی دکان میں ایک نیولا بھی تھا جسے اس نے ایک بلّی کی جگہ پال رکھا تھا تاکہ وہ دکان میں موجود چوہوں کا خاتمہ کرسکے۔ جس وقت کریانہ فروش شہد دوسرے برتن میں انڈیل رہا تھا، شہد کی ایک بوند زمین پر گری۔ نیولا جو کریانہ فروش کے کاموں کی نگہداشت کرتا تھا، فوراً آگے لپکا تاکہ زمین پر گرے شہد کے قطرے کو چاٹ لے۔ اسی وقت شکاری کتّے نے، جو اُس شکاری کے ساتھ تھا اور شروع ہی سے نیولے کو دیکھ کر ناخوش تھا، بڑھ کر نیولے پر حملہ کردیا اور اس کی گردن پر کاٹ لیا جس سے اس کی گردن سے خون جاری ہوگیا۔
کریانہ فروش نیولے سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ نیولے پر شکاری کتے کے حملے سے سخت طیش میں آگیا اور اس نے بُرا بھلا کہتے ہوئے ترازو کی ڈنڈی ہاتھ میں لے کر کتّے کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ چکرایا اور بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ میاں شکاری، جسے اپنا کتّا بہت عزیز تھا، نہایت غصّے میں آیا۔ اس نے وہی شہد سے خالی کوزہ اٹھایا اور کریانہ فروش کے سر پر پٹخ دیا۔ کریانہ فروش ایک چیخ مار کر بے ہوش ہوگیا۔ کریانہ فروش کی دکان کے بالمقابل اس کے ہمسائے نے جو اس تمام جھگڑے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، اہلِ بازار کو اطلاع کر دی اور شکاری کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم آن اکٹھا ہوا اوراسے گالیاں دیتے ہوئے، لاٹھیوں سے پیٹنے لگا۔ شکاری نے جب اتنے ہجوم کے مقابل خود کو اکیلا پایا تو اپنا شکاری چاقو اپنی کمر سے کھینچا اور کئی لوگوں پر وار کرکے انھیں زخمی کردیا۔ اب ہر طرف داد فریاد کا عالم تھا۔ اسی اثناء میں پولیس کے سپاہی آن پہنچے۔ انھوں نے شکاری میاں اور بازار کے چند لوگوں کو گرفتار کیا اور داروغہئ شہر کے پاس لے گئے اور کہنے لگے: اس شکاری نے بازار میں ہنگامہ کیا اور یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوگئے۔
داروغہ نے ایک ایک سے تفتیش کی اور کہا: جاؤ، دیکھو، کریانہ فروش زندہ ہے یا گزر گیا؟ لوگوں نے آکر اطلاع دی کہ کریانہ فروش زندہ ہے۔ اسے صرف سر پر چوٹ آئی ہے، باقی خیریت ہے۔ داروغہ نے سب زیرِحراست لوگوں کو قاضی کے حضور بھیج دیا اور لکھا: عالی رُتبہ قاضی جو فیصلہ بھی دیں گے، اس پر عمل ہوگا۔
قاضی نے کریانہ فروش، میاں شکاری، کریانہ فروش کے ہمسایے اور اس کے ساتھیوں سے جھگڑے کی تفصیل چاہی۔ اس کے بعد گویا ہوا: نیولا، جانور ہے، وہ ایک بُوند شہد چاٹنے کا خواہشمند تھا۔ سو اُس بیچارے کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ کتّا بھی جانور ہے۔ مانا کہ وہ نیولے پر حملہ آور ہوا مگر اسے بھی سزا نہیں دی جاسکتی۔ البتہ اگر کریانہ فروش ذرا درگزر اور صبر و تحمّل سے کام لیتا، تو اس کے ہاتھوں کتّا ہلاک نہ ہوتا اور اگر شکاری تھوڑے سے صبر و تحمل اور درگزر سے کام لیتا تو کریانہ فروش پر حملہ نہ کرتا کیونکہ یہ اسی کی غلطی تھی کہ وہ شکاری کتّے کو اپنے ساتھ بازار لے آیا تھا۔ لوگ بھی اپنے ہمسایے کی طرف داری کی خاطر جمع ہوگئے تھے اور اگر انھوں نے شکاری کو زد و کوب کیا تو دراصل اپنی دانست میں اپنے آشنا ہمسایے کے دفاع کی خاطر کیا۔ ہمارے خیال میں سب لوگوں کو جرمانہ بھی ہونا چاہیے اور سزا بھی کیونکہ ان میں سے جس کسی پر بھی دوسرے کی طرف سے زیادتی ہوئی تو اس پر لازم تھا کہ داروغہ اور حاکم سے رابطہ کرتا۔ انھیں نہیں چاہیے تھا کہ وہ بات کا بتنگڑ بنا دیتے۔ اب کہو، کسی کو کوئی شکایت ہے؟
تمام حاضرین خاموش رہے۔ قاضی نے کہا: تم سب لوگوں کا دراصل ایک ہی گناہ ہے اور وہ ہے نادانی اور بے علمی۔ جب تک لوگ ان پڑھ اور نادان رہیں گے، روزانہ اس طرح کے مسئلے پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر لوگ پوری طرح تعلیم یافتہ اور فرض شناس ہوں تو کوئی شکاری اپنے شکاری کتّے کو ہمراہ لیے بازار میں نہ آئے اور کوئی کریانہ فروش بلّی کے بجائے کسی بے تربیت نیولے کو اپنی دکان میں نہ رکھے اور اگر کتّا نیولے پر حملہ کردے تو کتّے کے سر پر ترازو کی ڈنڈی مار کر اسے ہلاک نہ کرے بلکہ قاضی سے رجوع کیا جائے، ہرجانہ لیا جائے اور جھگڑا ختم اور اگر کتّا مارا جائے تو کوئی شخص کوزہ کسی کے سر پر نہ دے مارے بلکہ قاضی سے رجوع کرے اور کتّے کی موت پر ہرجانہ طلب کرے۔ جب شہر میں داروغہ، محتسب، حاکم اور قاضی موجود ہیں تو یہ چھوٹے موٹے جھگڑے حل ہو جاتے ہیں، بڑا عیب تو جہالت اور بے علمی ہے۔ ساری جنگیں اور جھگڑے ابتداء میں معمولی ہوتے ہیں اور نادان اور بے علم لوگ انھیں بڑھا کر بڑا بنا دیتے ہیں۔ یہ جھگڑا بھی تو شہد کی ایک بوند سے شروع ہوا۔ اب چونکہ شکاری ہی اس فتنے کا باعث ہوا اور اس کا کتّا ہلاک ہوچکا اور کسی کو کوئی شکایت بھی نہیں رہی لہٰذا میں سب لوگوں کو بری کرتا ہوں۔