کہوٹہ روڈ پر چند سال پہلے ہی تو گئے تھے کہوٹہ کی طرف۔۔۔کہوٹہ کے آس پاس کا علاقہ اور خصوصا کہوٹہ کی طرف جانے والی سڑک جب پہاڑوں کے بیچ و بیچ بل کھاتی گزرتی ہے تو سرسبز درختوں سے سجا اونچا نیچا منظر بہت ہی دلفریب لگتا ہے۔
ہم اکثر یہ راستہ اور منظر دیکھنے جایا کرتے تھے۔۔اب بہت سالوں بعد پھر دل چاہا ان علاقوں کی سیر کی جائے۔۔اکثر علاقہ تو رہائشی کالونیوں کی ذد میں آگیا۔۔۔چھوٹے چھوٹے گاؤں اب نہیں رہے۔
اس دفعہ ماجو کے پاس سے گزرتی ہوئی سڑک کو دیکھ کر بہت بہت دکھ اور مایوسی ہوئی۔
اس سڑک پر روزانہ ان گنت ٹریفک چلتی ہے سہالہ پولیس اکیڈمی اور کہوٹہ کی ٹریفک کے علاوہ مقامی گاڑیاں۔۔۔۔۔ اگر کوئی تصدیق کرنا چاہے تو اس طرف جاکر دیکھ لے سڑک کا ٹوٹنا تو ایک طرف سڑک کی بنیادبھی بری طرح اکھڑ رہی ہے۔۔۔لوگوں کو روزانہ کس دقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا یہ تو وہی جانیں۔۔ہم اس سڑک پر سیر کی خواہش میں گئے تھے ۔۔واپس آئے تو کیچڑ سے بھری ہماری گاڑی خود ہم سے نہیں پہچانی جا رہی تھی۔
ارباب اختیار کہاں ہیں ؟
دل و دماغ میں یہ سوال بارہا گونجتا رہا۔
پوش علاقوں میں رہائش پذیر اشرافیہ قانون بنانے والی مقننہ ۔۔۔ان کا غریب کے علاقوں سے گزر ہو تو وہ ان کے دکھ درد کو جانیں۔ٹیکس دینے والی قوم کا احتجاجی جذبہ ،قومیت اور ضمیر بھی خواب غفلت کی چادر اوڑھ کر سو چکے ہیں۔۔
کسی مظلوم کا کوئ پرسان حال نہیں۔۔۔۔۔شاید مظلوم کو بھی ظلم کا احساس نہیں رہا ؎
احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے اک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی