رات کے 9 بجے تھے میں لیاقت باغ کے گیٹ پر بے نظیر بھٹو شہید کی مسکراتی ہوئی تصویر دیکھ رہا تھا سردی اپنے عروج پر تھی سڑکیں سنسان تھیں ہو کا عالم تھا لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لائٹیں بند تھیں، مگر لیاقت باغ کے گیٹ کا یہ حصہ موم بتییوں کی جھلمل کرتی روشنی سے منور بھی تھا اور عقیدت مندوں کی آمد و رفت کی وجہ سے آباد بھی ان کے محبت بھرے جزبات کی حدت نے سردی کی شدت کو محسوس نہیں ہونے دیا یہاں ہر طرح کے لوگ آرہے تھے جن میں بچے بوڑھے جوان مرد خواتین سب شامل تھے اور یہ صرف پپپلز پارٹی کے وابستگان نہیں تھے بلکہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ جو کسی بھی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ایک ایسی ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے آئے تھے جس بے اپنی زندگی کے ہر لمحے اپنے جسم و جان کی تمام توانائیوں کو بروئے کار لا کر اپنے وطن کے عوام کی خدمت کی اور پاکستان کے تمام صوبوں میں مقبولیت بھی حاصل کی اور ان کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے کے لیے ہر قربانی دی.
یہ ایثار نہیں تو کیا ہے کہ جس حکمران کے دور میں انکے والد کو پھانسی دی گئی انہیں کے زیر انتظام اپنے تمام غصے اور غم اور نفرت کے باوجود الیکشن میں حصہ لینے صرف اس لئے تشریف لائیں کہ پاکستان کے عوام کو آمریت سے چھٹکارا مل سکے جمہوریت کی بحالی عمل میں لائی جائے ملک کو آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر انسانی حقوق کی فراہمی اور اور عام آدمی کو مکمل ریلیف دینے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے انکی اپنے وطن میں آمد در حقیقت شہادت کی راہ میں قدم رکھنے کے کے مترادف تھی وہ نڈر بے باک اور بے خوف باپ کی بیٹی تھیں انہیں پاکستان کے غریب اور مقہور عوام کی محبت کھینچ لائی جنرل ضیاء کے دور حکومت میں میں واپس آنا ایک ایسا قدم تھا جس سے یہ بات ثابت ہو گئ کہ بے نظیر اپنی ذات، انا اور خواہش کو ایک طرف رکھ کر صرف پاکستان کے لئیے سب کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار تھیں۔
8 سالہ جلا وطنی کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک متوازن شخصیت balanced personality کی مالک تھیں جو جذبات سے زیادہ دماغ سے کام لیتی تھیں، زمینی حقائق کو سمجھ کر عمل کرنے کا فن بے نظیر بھٹو کو کمال کی حد تک حاصل تھا، اسی لیے انہوں نے اس بات کو مکمل طور پر پر جان لیا تھا کہ پاکستان کی خاطر ذاتی انا اور خواہش کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ لیاقت باغ کے اس کونے پر ہر قسم کے لوگوں کی موجودگی اس بات کا اظہار ہے کہ ان کی شہادت نے انہیں ہر دل میں بسا دیا ہے 27 دسمبر کو صرف pp کے کارکن نہیں رو رہے تھے بلکہ ہر آنکھ اشکبار تھی اس دن سیاست نہیں تھی صرف محبت تھی عوام تو عوام ان کے قائدین بھی آبدیدہ تھے اور سب نے محترمہ کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی ہم سے جدائی کو ایک عظیم نقصان مانا اور pp کے ساتھ مکمل یکجہتی کا پیغام دیا، بے نظیر بھٹو کے خون کا ایک ایک قطرہ بلاول آصفہ اور بختاور کی آنکھ سے بہنے والا ایک ایک آنسو قوم سے ایک التجا کر رہا ہے کہ خدا کے واسطے ایک ہو جائیں لڑائی جھگڑے بھول کر اپنی ہر انا کو کچل کر ملک کی ترقی کے لئے کام کریں 27 دسمبر کو بے نظیر اور دیگر شہدا نے اپنی جان کے نذرانے پیش کر کے اس ملک کو جمہوریت کا تحفہ دیا ہے اور ہم سب کا فرض ہے کہ پاکستان کے تمام لوگ تمام ادارے تمام جماعتیں ایک پیج پر آکر اس کو دوام بخشیں پاکستان کی ترقی اور فلاح کے مقصد کو سامنے رکھ کر کر غریب عوام جن کی خوشحالی بے نظیر کا خواب تھی اسکو پورا کریں ورنہ شہید ہم سے یہ شکوہ کریں گی
ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اب بھی نہ کھلیں گے تو شکایت ہوگی