اہرام مصر اپنے ہیبت ناکی، تمام تر عبرت ناکی سمیت میرے مقابل تھے۔ گائڈ بتا رہا تھا، کہ فرعون کسی ایک بادشاہ کا نام نہیں تھا، بل کہ یہ مسند اعلا پر بیٹھنے والے کا خطاب تھا۔ ’’ہم حضرت موسا کے حوالے سے جس فرعون کا ذکر کرتے ہیں، وہ ططمس دوم تھا‘‘۔ وہ اور بھی بہت کچھ بتا رہا تھا، لیکن میرا دھیان کہیں اور تھا۔ فرعونوں نے ہر دور میں جنم لیا ہے، ایک مصر ہی کیا، جا بہ جا ان کی حکومتیں رہی ہیں۔ آئین کو لپیٹ کے خود کو مسند کا اہل سمجھنے والے کہیں بھی جنم لے لیتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے، کہ وہ خود کو سلطنت کے لیے نا گزیر سمجھنے لگتے ہیں؛ خدائی کا دعوا کر بیٹھتے ہیں۔ تبھی موسا کا ظہور ہوتا ہے۔ قدرت جانے مذاق کرنے کے واسطے، یا فرعون کی بے بسی پر ہنسنے کے لیے موسا کی پرورش بھی اسی کے دربار میں اسی کے ہاتھوں کرواتی ہے۔
مصری اپنے پیاروں کو حنوط کر کے مقبروں میں رکھ دیتے تھے۔ جب کہ موسا رعایا کہ قلب میں حنوط ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ موسا کا پیچھا کرنے والا فرعون غرق آب ہوا، تو اس کی مسند خالی رہ گئی۔ اس تخت پر اگلا فرعون بیٹھ گیا۔ فرعونوں کے متبادل آسانی سے مل جاتے ہیں، موسا کے وارث ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
؎ ہزاوں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارے یہاں بھی کئی فرعون گزرے ہیں۔ تاریخ میں کسی ایک فرعون کا نام بھی عزت سے نہیں لیا جاتا۔ یہ بالکل عجیب بات نہیں ہے کہ فرعون وقت کو اپنے گیت گانے والے مل جاتے ہیں۔ اس المیے کو کسی نے انتہائی اختصار اور جامعیت سے یوں بیان کیا ہے۔ ’’بادشاہ مر گیا؛ بادشاہ ہمیشہ سلامت رہے‘‘۔ ذکر فراعنہ کا ہے، تو ایک فرعون وہ تھا، جس نے عوام کے منتخب نمایندے کو سولی پر چڑھایا۔ ایک روز یہ فرعون بادلوں کے رتھ پہ سوار چلا جاتا تھا، کہ بادلوں میں شگاف پڑ گیا، اور وہ زمین بوس ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں، کہ آج اس کا اہرام ویران پڑا ہے۔ سچ ہے کہ فرعونوں کے مقبرے ویران ہو جاتے ہیں۔ سیاحوں کو سنانے کے لیے بس داستانیں باقی رہتی ہیں۔ اس کے بعد تخت پر دوسرا فرعون بیٹھا، تو اس نے بھی جوڑ توڑ کر کے وقت کے موسا کا راستہ روکنا چاہا۔ کسی عوامی نمایندے کو موسا کہنے سے کچھ پیشانیوں پر بل پڑتے ہوں، تو جان لیجیے، کہ یہ بنی اسرائیل کا قصہ ہے۔ اس بنی اسرائیل کا جس پر خدا نے بے شمار نعمتیں اتاریں، لیکن اس نے اپنی طرف بھیجے گئے انبیا ہی پر شک کیا؛ قوم بار بار ان انبیا کی نا فرمانی کرتی رہی۔ اپنے نمایندوں کو چھوڑ کے فرعون کے گن گانے والی بنی اسرائیل صدیوں سکھ چین کو، صدیوں زمین کے ٹکڑے کو ترسی ہے۔
ایک فرعون وہ تھا، جس نے عوامی نمایندے کو پہلے زنداں میں ڈالا، پھر دس سالہ جلا وطنی کی سزا دی۔ کچھ عجب نہیں ہے کہ عدالتیں فرعونوں کا ساتھ دیتی آئی ہیں۔ ان کے اکثر فیصلے فرعون کے ہاتھ کے لکھے ہوتے ہیں؛ عدلیہ کو فیصلہ لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، وہاں فیصلہ پڑھے جاتے ہیں؛ فیصلہ پڑھنے والا قاضی کہلاتا ہے۔ اس فرعون کے سامری، سو بار اسے وردی میں منتخب کرنے کا عہد کرتے تھے۔ حق یہ ہے کہ جادو سامری کی زبان میں نہیں تھا، غرور اس فرعون کی وردی میں تھا۔ وردی اتری تو جلا وطنی اس کا نصیب ٹھیری۔ ہر فرعون کو اپنے انجام سے دو چار ہونا ہوتا ہے۔ جلا وطنی کی سزا دینے والا فرعون چہارم، آج خود جلا وطنوں کی زندگی بسر کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ فرعون زمانہ پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے اور خود کو نا گزیر سمجھتے ہیں، خدائی کا دعوا لے کر آ جاتے ہیں۔
بنی اسرائیل کا کیا ہے، ان پر خدا کی بے شمار نعمتیں اترتی ہیں، یہ پھر بھی بار بار موسا کا ساتھ چھوڑ کر کبھی ہامون کبھی سامری کی باتوں میں آ جاتے ہیں، کہ فراعنہ نے سامری اور ہامون اسی خاطر پیدا کیے ہیں۔