ADVERTISEMENT
پاکستان میں فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ پاکستان کی تاریک جتنی ہی پرانی ہے، ضابطہ ہائے اخلاق بھی اتنے ہی پرانے ہیں مگر مسئلہ بالکل ویسے کا ویسا ہی ہے۔ فرقہ واریت ختم ہوتی ہے نہ فرقہ وارانہ تشدد۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ ایک خاص سوچ اور حکمت عملی کے ساتھ کروایا جاتا ہے تاکہ لڑاؤ اور حکومت کرو کے بہترین اصول پر عمل بھی ہوجائے اور حکومت اور ان تمام اسٹیک ہولڈرز کو لاحق خطرہ بھی ٹل جائے جو چند مخصوص بیانیوں کے زور پر اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں۔
ہمارے اکابر حکومت سے خصوصی اعزازات کے حصول کے لیے جب لائینوں میں کھڑے نظر آتے ہیں، اسی دوران پاکستان کی پارلیمان وقف بل پاس کروا کے اپنے بہت سے مقاصد کے صول میں مصروف ہوتی ہے ۔ کیا یہ محض حسن اتفاق ہے یا محض ریکارڈ درست کرنے کی ایک نیم دلانہ سی ایک کوشش کہ بعد میں یہی اکابر اور ہمارے یہی علما بعد میں اسے غیر شرعی قرار دے دینے سے آپ کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے ایسے حساس معاملات سے لاتعلق ہو جاتے ہیں؟
پاکستان میں ضابطہ اخلاقوں کی پہلے ہی کمی نہیں اور مزید اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، اس لیے کہ موجودہ ضابطہ اخلاق تو ایک غیر سنجیدہ دستاویز ہے، اس لیے بالکل ایک مذاق ہے جو بظاہر کسی کی نوکری بچانے، کسی کی وزارت کو مضبوط کرنے اور کسی کی ممبر شپ کے حصول کے لیے سامنے آیا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بعض بزرگ اور اساتذہ جیسی شخصیات بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی ہیں۔
ہمیں ضابطہ اخلاق کی نہیں اخلاقی اقدار کو اپنانے کی ضرورت ہے جو ہمیں سچی بات کہنے سے کسی صورت نہ روک سکے۔ ہمارا سچ اپنی نوکری کے تابع نہ ہو بلکہ اسلام کی بلند اخلاقیات کے تابع ہو۔