ADVERTISEMENT
سائنس کے دیگر شعبوں میں بھی،(نشاۃ ثانیہ علوم اور عربی نسخوں کے علوم میں)ڈرامائی مماثلتوں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں،، جیسا کہ کئی صدیوں بعد لاطینی متون میں پھر سے ابھرنے والے عربی سائنسی اصول اور نظریات ہیں۔ پھیپھڑوں کے ذریعہ جسم میں خون کی گردش کا نظریہ سب سے پہلے ابن نفیس نے 1243کے آس پاس کسی وقت(عربی میں) پیش کیا تھا، بعد میں Michael Servetus نے سن 1553میں اسپین میں اسے پیش کیا، کریمونا اٹلی میں کولومبو نے یہی اصول 1559میں بیان کیا، اور بالآخر 1657کے انگلینڈ میں ولیم ہاروے نے بھی اسے پیش کیا۔
ایک اور مثال DECIMAL POINTنقطہ اعشاریہ کی ہے، سن 1450سے1500کے درمیان فرانسسکو پیلوزکے لاطینی ادب میں اسے نوٹ کیا گیا، بعد ازاں 1600کے آس پاس Simon Stevinنے کسرِ اعشاریہ Decimal Fractionکا پورا نظام استوار کیا، مگررشدی راشدکی نئی تحقیق میں واضح ہوا، کہ DECIMAL POINTنقطہ اعشاریہ سن 952میں، یعنی کئی صدیوں پہلے عرب حسابی متون میں استعمال کیا جارہا تھا، اور اسی صدی کے اواخر تک کسرِ اعشاریہ Decimal Fractionکا پورا نظام ابوبکر الکرجی نے متعارف کروادیا تھا، جسے بارہویں صدی میں اُس کے جانشین السموال بن یحٰیی المغربی نے مزید ترقی دی۔ سن 1420کی دہائی میں غیاث الدین جمشید کاشانی نے بھی کسرِ اعشاریہ Decimal Fractionکا بھرپور اور مؤثر استعمال کیا۔ یورپی نشاۃ ثانیہ سے پہلے اوراس کے دوران، اسلامی دنیا اور لاطینی مغرب کے مابین عالمانہ تعلقات پرتحقیقی مطالعہ جات The Rise of Humanism in Classical Islam and the Christian West میں جارج ابراہم مکدیسی نے زبردست مشاہدات شامل کیے ہیں۔ ادب میں، مصنفین نے Dante Alighieri اور Giovanni Boccaccio کے کارناموں اورعربی ادب میں مماثلتوں پرکئی بحثیں کی ہیں۔
مختصرا، کئی علمی میدانوں میں، تیرہویں صدی کے بعدکے لاطینی ادب میں اس طرح کی بہت زیادہ مماثلتیں ملتی ہیں۔ یہ یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران اور فوری بعد کا زمانہ بنتا ہے۔ یہ ساری ادبی مماثلتیں قدیم عربی ذرائع سے مستعار معلوم ہوتی ہیں۔ پریشان کُن بات یہ ہے کہ، ایسا نہیں لگتا کہ اس دورانیہ میں کسی وقت یہ لاطینی میں منتقل کیے گئے ہوں۔ کیونکہ قبل از نشاۃ ثانیہ یورپی علماء میں یہ روایتی خیال عام تھا کہ عربی سائنس زوال پذیرہورہی ہے اور مغربی سائنس فروغ پارہی ہے۔ اس خیال کے تحت، یہ دلیل استوار کی گئی، کہ تیرہویں صدی کے بعد عرب دنیا سے لاطینی دنیا میں علوم کی منتقلی رک چکی تھی، اور اسلامی دنیا کی علمی اہمیٹ گھٹ رہی تھی، اصل کام بند ہوچکے تھے۔ اس لیے یورپی نشاۃ ثانیہ کے سائنس دانوں کو اسلامی دنیا سے علم کی مزید تلاش نہیں رہی تھی۔ میری تحقیق کہتی ہے کہ یہ خیال درست نہیں۔
اس تحقیق کا سانچہ اُس وقت کی یورپی اور مشرقی بحر روم کی سیاسی صورتحال کے تناظرمیں تشکیل دیا گیا ہے۔ یورپی نشاۃ ثانیہ سے پہلے، یورپی تہذیب بالعموم اورکیتھولک چرچ بالخصوص مسلسل سانحات کے سبب صدمہ سے گزررہے تھے، گیارہویں صدی میں بازنطینی چرچ اور روم کے چرچ میں علیحدگی ہوگئی تھی، گیارہویں سے تیرہویں صدی تک مسلسل صلیبی جنگیں جاری رہیں، جن کا اختتام صلاح الدین ایوبی اور اُس کے جانشینوں کی فتوحات پر ہوا، یہاں تک کہ 1453میں سقوط قسطنطنیہ ہوا۔ نتیجہ یہ ہواکہ یورپ اپنی روح کے کھوج میں نکل پڑا، تشخیص نو ہوئی، کاؤنسلز وجود میں ٓئیں، جنھوں نے کیتھولک چرچ کی تشکیل نو کی، سن 1431-1448میں باسل اور 1438میں فیرارا کے چرچ نمایاں مثالیں ہیں۔ ان مشاورتی مجالس نے مشرقی کلیساؤں سے تعلقات کی بحالی کی ضرورت کوشدت سے محسوس کیا، اوراس کا اظہار کیا، صلیبی جنگوں سے خستہ حال مشرقی چرچ خود بھی روم کی مدد کا طالب تھا۔یورپی مشاورتی مجالس نے اسلام کے خطرے کوزائل کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی، کہ جوسقوط قسطنطنیہ کے بعد علامتی طورپرپھرعروج پارہا تھا۔
یورپ میں عربی قلمی نسخے
جیسا کہ دیکھا گیا ہے، جدید مغربی علماء سمجھتے ہیں کہ یونانی متون اسلامی دنیا سے براہ راست یورپ منتقل ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں جوتحقیق ہوئی، انھیں چند دریافتوں سے تقویت دینے کی کوششیں کی گئیں، ان دریافتوں میں سے ایک ویٹیکن کا یونانی نسخہ بھی ہے، جس میں کوپرینکس کا استعمال کردہ ایک تھیورم موجود ہے۔ اس تحقیق کا محرک جس قیاس میں مضمرتھا، وہ یہ تھا کہ کوپرینکس یونانی پڑھ سکتا تھا مگر عربی زبان سے ناواقف تھا۔ذرا وسیع دائرے میں یہ قیافہ تاثر دیتا ہے، کہ نشاۃ ثانیہ کے دانشور عربی نسخوں کا مطالعہ کرہی نہیں رہے تھے، اس لیے ان مخطوطات کا لاطینی مغرب میں میسر آنا محال تھا۔ بہرکیف، یہ فرض کرلیا گیاکہ اسلامی تہذیب اور لاطینی مغرب میں روابط تیسرہویں صدی تک بالکل ختم ہوچکے تھے۔
تاہم میری تحقیق کہتی ہے، کہ اٹلی اور یورپ کے دیگرعلمی مراکز میں بہت سارے عربی نسخے نہ صرف دستیاب تھے بلکہ بہت سارے علماء ان کے تراجم کررہے تھے، اور یہ سلسلہ سولہویں اور سترہویں صدی تک یوں ہی چلا آتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے، کہ اسلامی سائنس میں دلچسپی زندہ رہی تھی، اور کم از کم اطالوی علماء اور اسلامی مشرقی سرزمینوں میں تعلقات تیرہویں صدی کے بعد بھی طویل عرصہ قائم رہے تھے۔ میری یہ تحقیق مجھے ایک عربی نسخے تک لے گئی، جوفلورینس کے لاؤرنٹیانا کتب خانے میں موجود ہے، جس کا ذکر اٹھارہویں صدی کے کیٹالاگ میں کیا گیا ہے۔ یہ علم فلکیات پر الفارابی کا وہ رسالہ ہے جودسویں صدی میں لکھا گیا تھا۔ جب میں نے اُس کا مطالعہ کیا، مجھے شک گزرا، کہ آیا یہ اُسی الافارابی کی تحریر ہے کہ جس کے عربی متون سے میں بخوبی واقف تھا! چنانچہ اس نتیجہ پرپہنچا کہ اس نسخہ سے متعلق کیٹالاگ میں یقینا کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی، اور میں یہ سوچ کر حیران ہورہا تھا کہ نہ جانے ایسی اور کتنی غلطیاں ایسے کیٹالاگ میں ہوسکتی ہیں!
میں نے فیصلہ کیا کہ اس کتب خانے کی ساری سائنسی کتب کا جائزہ لوں گا، میرا ارتکاز ریاضیاتی سائنس پرتھا۔ مجھ پر منکشف ہوا کہ یہاں اُن اطالوی مستشرقین کے ناموں کی بھرمار تھی، جو سولہویں صدی سے تعلق رکھتے تھے، عربی نسخوں کے لاطینی اور اطالوی ترجموں میں بھرپور مسابقت کررہے تھے، اور لاطینی مغرب کے لیے بہت بڑا مواد تیار کررہے تھے، وہ ان نسخوں پرمکمل ترجمہ کیے بغیرتبصرے بھی کررہے تھے، اور ان کی شرحیں بھی لکھ رہے تھے۔
لاؤرینتیانا کتب خانہ: مزید اکتشافات
جس شخص نے سن 1742میں Laurentiana Oriental Collectionکا کیٹالاگ مرتب کرکے شایع کیا تھا، وہ ایک پادری تھا، نام اُس کاStephanos Evodivus Assemanus تھا۔ اُسے ریاضی اور علم فلکیات کی کچھ بھی شد بد نہ تھی، اور نہ ہی وہ اسلامی دنیا سے لاطینی دنیا منتقل ہونے والے علم فلکیات کے نظریات کا کوئی درک رکھتا تھا۔ اُس کے نام سے اشارہ ملتا ہے، کہ وہ لبنان میں آباد شامی عیسائی فرقہ مارونیہ کا ایک فرد تھا، یہ وہ فرقہ تھا کہ جس کے بیشتر لوگ پندرہویں صدی کے وسط میں اُس وقت روم منتقل ہوگئے تھے، کہ جب اُن کا چرچ پھر سے پاپائے روم کے ماتحت آگیا تھا۔ 1567تک، فرقہ Maronites Eastern Christiansکا اپنا تعلیمی ادارہ روم کے مذہبی دفتر کے تعاون سے قائم کیا جاچکا تھا۔ Assemanus کا نام لاطینی بنائے جانے سے پہلے، اواد السمانی (1711-1782)تھا۔ اُس کا ماموں Giuseppe Simone Assemaniکا عربی نام یوسف بن السمعان السمعانی تھا، جواٹھارہویں صدی کے اوائل میں ویٹکین کتب خانہ کے مہتمم تھا۔ یوسف السمعانی خود بھی ایک پادری تھا۔ اُسے آٹھ سال کی عمر میں ہی دینی تعلیم کے لیے روم بھیج دیا گیا تھا، جس کے بعد اُسے لبنان لوٹنا تھا، اورمقامی پاپائیت کا دست وبازو بننا تھا۔ دونوں مختلف وقتوں میں ویٹیکن کی Apostolic Libraryکے ناظم رہے۔ یہی وہ حالات تھے، کہ جن میں بھانجے سے لاؤرینتیانا کتب خانہ کے استشراقی ذخیرے کی کیٹالاگ تیار کرنے کا کام لیا گیا۔ اس کیٹالاگ کا آغاز Petrus Benedictus(1663-1742)نے کیا تھا، یہ شامی عیسائی فرقہ مارونیہ کا ایک اور فرد تھا، اس کا عربی نام بطرس مبارک تھا۔ تاہم یہ کام السمعانی نے بطرس کو کوئی کریڈٹ دیے بغیر مکمل کیا۔
اس علمی ذخیرے میں ریاضی کی چھان بین سے مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ اٹھارہویں صدی کا یہ کیٹالاگ اپنے وقتوں کے حساب سے پچاس ساٹھ فیصد ہی درست تھا۔ میں نے اس امید میں چالیس پچاس فیصد کیٹالاگ کی جانچ پڑتال کی، آیا کہیں نایاب عربی نسخوں کا کوئی سرا ہاتھ آجائے۔ ایک نسخہ جو ایلمنٹری پریکٹیکل جیومیٹری پرتھا، اس میں آگے ایک نوٹ درج تھا، ”میں نے اتوار کو ان مسائل کا حل ڈھونڈ لیا، یہ اکیس اکتوبر1577کا دن تھا۔میں، ایک بدحال بطریق، ایک بحری جہازپر عازم سفر تھاکہ جب وہ سمندر کی موجوں پر ہچکولے کھارہا تھا، وینس میری منزل تھی“۔
یہ ”بدحال بطریق“ دراصل شامی فرقہ یعقوبیہ کا بطریق نیمہ تھا۔ اُس کا قدیم شہر جدید ترکی کے مشرقی علاقہ دیاربکرکے قریب کہیں واقع تھا۔ اپنے دور میں، اُس کا مسلم حکام سے تنازع تھا، اُس پرلادینیت کا الزام تھا۔ جان خطرے میں نظرآئی، تواُس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اُس کے اس اعلان پر عیسائی مقلدین بپھر گئے تھے۔ بطریق نیمہ نے اپنی مسند بھانجے کے حوالے کی، اوروینس فرار ہوگیا، اور وہاں سے روم پہنچا۔ ابھی جب کہ اُس کے چرچ نے روم کی ماتحتی اختیار نہیں کی تھی، اُس کا وہاں پرتپاک استقبال ہوا۔ وہ ایک تائب گناہ گار کے طورپر پچھتاوے کا اظہار کررہا تھا، اور پاپائے روم سے وعدہ کررہا تھا کہ اپنے چرچ کوروم کے جھنڈے تلے لائے گا۔
یہ بطریق نمایاں طورپرایک دانشور تھا۔ ایک اور نسخہ ہے، جس میں اُس نے ایسٹر کی تاریخوں اور کلیسائی تقویم کے تہوار کا حساب کتاب مرتب کیاتھا۔ ایک اور نسخہ ہے، جس میں اُس نے اساسی علم فلکیات پراپنے کام کا اثر چھوڑا ہے۔
ایک اور مخطوطہ ہے، Euclid’s Elements اقلیدس کی مبادیات، جو اس دوران ہی کسی وقت نقل کیا گیا تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بطریق نیمہ نے خود کو شاید مکمل طورپر کتب خانہ کے لیے وقف کردیا تھا۔ ہماری تحقیق کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے، کہ آخر سولہویں صدی کے اٹلی میں اُس کے عربی نسخوں کی مانگ کہاں تھی؟یقینا وہاں کہیں نہ کہیں اس کی بڑی مانگ تھی۔
یہاں (لاؤرینتیانا کتب خانہ) نسخوں کے مجموعہ میں جن لوگوں کے دستخط موجود تھے، ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اطالوی نژادتھے۔ مگر مسابقت عربی زبان میں کررہے تھے۔ فولیو114vمیں وہ نسخہ، جو الفارابی سے منسوب ہے، وہاں مجھے Carlo San Giorgioکے دستخط ملے، جویا تو اس مخطوطہ کا مالک تھا یا قاری۔ میرا قیاس ہے کہ وہ اس کا قاری تھا۔ کیونکہ ہم اس نسخہ سے باہر Carlo San Giorgioکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ علم فلکیات پریہ عربی نسخے نشاۃ ثانیہ کے اٹلی میں بڑے ذوق شوق سے پڑھے جارہے تھے۔
لاؤرینتیانا لائبریری کا ایک اور نسخہ ہے، جس میں نصیر الدین طوسی کا علم فلکیات پرکام موجود ہے۔ مگر اس میں اسپین کے بدنام زمانہ Raymond ofLullکے علم نجوم پر کام کا عربی ترجمہ بھی شامل ہے، جواپنی مشنری سرگرمیوں کے سبب تیونس میں مارا گیا تھا۔ یہ سریانی حروف تہجی میں لکھی گئی وہ عربی(کرشونی) ہے، جس میں اُن شامی عیسائیوں کو مخاطب کیا گیا ہے، کہ جنہیں پاپائے روم اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔ اس نسخہ پریعقوب الحسرونی اور جبرئیل القلائی کے دستخط موجود ہیں، یہ عربی بولنے والے وہ عیسائی علماء تھے جوروم سے عالم فاضل تھے۔ القلائی کا نام بعد ازاں لاطینی یا جرمن میں ڈھال کر Klahusبنادیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر Raymond of Lullکے علم نجوم کا مشرقی عیسائیوں میں کیا مصرف تھا؟ اوراس نسخہ کا لاؤرنتیانا کتب خانہ میں کیا کام تھا؟
ایک اور نسخہ، علم نجوم پر زیادہ سنجیدہ کام، اس کے پہلے صفحہ پر نسخہ کے مالک Giovanni Batista Raimondiکے دستخط موجود ہیں۔ ریمنڈی نیپولی میں پیدا ہوا، اور1575کے آس پاس مشرق وسطٰی کے سفر پر گیا، وہ مشرقی زبانوں اور ریاضی میں دلچسپی لے رہا تھا، سولہویں صدی کے اواخر میں وہ روم میں عربی زبان کی تعلیم دے رہا تھا،اور1584 سے 1614تک Medici Oriental Pressکا ڈائیرکٹررہا۔ یہ پریس کارڈینل Ferdinans de Mediciنے قائم کیا تھا، جسے ریمنڈی نے پچیس ہزار لاگت سے خرید لیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ ریمنڈی کی عربی پرکافی دسترس تھی، وہ اس قابل تھا کہ مشرق کا سفر کرے اوروہاں نہ صرف عربی زبان کی تعلیم دے بلکہ اُسے بخوبی استعمال بھی کرسکے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سولہویں صدی کے اٹلی میں اُسے یہ زبان کس نے سکھائی تھی؟ ہم یہ جانتے ہیں کہ ریمنڈی کوعربی زبان اور ریاضی میں گہری دلچسپی تھی۔ عربی اور سائنس میں اُس کا یہ گہرا لگاؤ Medici Oriental Pressکے اُن متون میں منعکس کرتا ہے، جو شایع ہوئے۔
عربی نسخہ نمبر116، کہ جس میں نظری علم فلکیات کا متن موجود ہے، نہ صرف بطلیموسی کونیات پرشدید تنقید پائی جاتی ہے بلکہ وہ دو تھیورم بھی موجود ہیں، جنھیں کوپرینکس نے استعمال کیا تھا۔ اس نسخہ پر ریمنڈی کے دستخط موجود ہیں۔ اس میں ایک نوٹ درج ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ نسخہ Camilo Rinocciniنے عطیہ کیا تھا۔ یقینا یہ خوش کُن خیال ہوگا کہ جانا جائے Camilo Rinocciniکون تھا؟ اور ریمنڈی کے حوالے کرنے سے پہلے، یہ نسخہ کتنا عرصہ اُس کی ملکیت میں رہا، اور کیسے حاصل ہوا؟ خاص طورپران سوالوں سے یہ جاننا آسان ہوگا کہ یہ نسخہ کب سے اٹلی میں موجود تھا، اور یہ کہ کیا کوپرینکس کی زندگی میں یہ یہاں موجود تھا! یہ نسخہ اُس قسم سے تعلق رکھتا تھا، کہ جو غیر بطلیموسی علوم کی کوپرینکس تک منتقلی ثابت کرتے ہیں۔
نسخہ218، جس کا سن 1581بنتا ہے۔ اس میں نہ صرف Conics of Apollonius پرعربی شرح موجود ہے بلکہ لفظ بہ لفظ اطالوی تراجم اور بین السطور تفسیر لکھی گئی ہے۔ اس کی اصل عربی شرح ِترکیبی اصفہان کے ابولفتح نے کی ہے۔ جسے معروف ماہر علم فلکیات نصیر الدین طوسی کے شاگرد قطب الدین شیرازی نے بعد میں نقل بھی کیا ہے۔ یقینا سولہویں صدی کے اٹلی میں جوکوئی بھی ابوالفتح کی اس شرح کا مطالعہ کررہا تھا، وہ کسی یونانی کلاسیک متن کی بازیابی کی کوشش نہیں کررہا تھا، وہ عربی شرح کی مدد سے استاد کی سرپرستی میں مطالعہ و تحقیق کررہا تھا۔ یہاں تعلیمی زبان واضح طورپراطالوی ہے۔
تصور کیجیے کہ مذکورہ صورتحال اگر کوپرینکس کے اٹلی کی بھی رہی ہو! شاید اُسے بطلیموسی کونیات پر عربی تنقید کا مطالعہ میسر آیا ہو! یہ وہ عربی متون تھے، جو تیرہویں صدی سے آج تک اطالوی کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔
نسخہ نمبر 375، یہ PHYSIOGNOMY(علم قیافہ) کی بابت ہے۔ اسے Gerolamo Vaccheitti نے ریمنڈی کے لیے مصر سے خریدا تھا، اور اس کی شرح بھی لکھی تھی۔ ہمارے پاس خریداری کی کوئی تاریخ نہیں ہے، تاہم دیگر تاریخی ذرائع کہتے ہیں کہ یہ کام Giovanni Nencioniکی مدد سے ہوا تھا، جو فلورینس کی Accademia della Crulaکا صدرتھا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وہی Vaccheittiہے جوعلم الٰہیات اور جدول کی اصلاح میں دلچسپی لے رہا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اُس نے اپنے بھائی Giambatista Vaccheitti (1552-1619)کے ہمراہ طویل سفر کیا تھا، جس کے خطوط ہمیں فارسی شہر ہرمز سے 1587 اور بھارت کے شہر گوا سے 1588کی تاریخوں میں درج ملے ہیں۔
نسخہ نمبر 450، یہ سائنسی آلہ اصطرلاب کے بارے میں ہے۔ یہ Monsignor Pat.ca کی ملکیت میں تھا۔ یہ شخص نامعلوم ہے۔ تاہم اصطرلاب علم کونیات کا انتہائی کارآمد سائنسی آلہ تھا، اور نمایاں طورپر اٹلی میں استعمال کیا جارہا تھا۔ یہ آلہ اصطرلاب سن 850عیسوی کے بغداد میں ایجاد کیا گیا تھا۔ Monsignor Pat.caکی ملکیت میں ایک اور نسخہ تھا، اُس کا نمبر 416تھا۔ یہ quadrantsکے بارے میں تھا۔ یہ اصطرلاب کی ترقی یافتہ شکل تھی۔ ان دونوں نسخوں سے ظاہر ہے کہ اس اطالوی کی عربی آلات علم فلکیات میں گہری دلچسپی تھی۔
نسخہ نمبر 106، یہ کونیاتی جدولTables پر مشتمل ہے، جوسیاروں کے مقامات کے تعین میں کام آتی ہیں۔ اس پر بھی Vaccheittiکے دستخط موجود ہیں۔ یہ غالبا وہی Gerolamo Vaccheittiہے جوکیلنڈر کی تشکیل نو میں دلچسپی لے رہا تھا۔
مخطوطہ نمبر22، اس میں وہ متون شامل ہیں، جو حتمی طورپر یونانی زبان سے اخذ کیے گئے ہیں۔ تاہم اس میں نصیر الدین طوسی کے عربی تراجم موجود ہیں، جن پرنظر ثانی کی گئی ہے، اورعرق ریزی سے انھیں مدون کیا گیا ہے۔ یہ وہی طوسی ہے کہ جس نے 1247میں وہ دو ریاضیاتی قضیےTheorems تشکیل دیے تھے، کہ جن میں سے ایک کوپرینکس نے استعمال کیاہے۔ اسی زمانہ میں ایک کلیسا منتظم نے یہ نسخہ نقل بھی کیا تھا، اور اسے اُس کتب خانہ کا حصہ بنایا تھا، کہ جس کا ذکر بطریق نیمہ کرچکا ہے۔ ایک اور نسخہ، 27نمبرہے۔ اس پربطریق نیمہ کے دستخط موجود ہیں۔ یہ اُن نئے کیلنڈرز پر مبنی ہے، جس میں ایسٹر اور کلیسائی تقویم کے اُس تہوار کی معلومات ہے، جوہرسال مختلف تاریخ پرمنایا جاتا ہے۔ یہ نسخہ غالبا شہر وینس میں لکھا گیا، جس کی وجہ اس میں موجود شہر کے طول البلدکے حوالہ جات ہیں۔
نسخہ نمبر 20، اس میں اقلیدس کی مبادیات Euclid’s Elements کی سولہویں صدی کی نقل، اورConics of Apollonius موجود ہے، جو واضح طورپرپریس کے لیے تیار کی گئی تھی۔ یہ غالبا وہی کاپی تھی، جوMedici Oriental Pressکی اشاعت کے لیے بھیجی گئی تھی۔ نسخہ نمبر 38بھی Conics کے لیے مختص کیا گیاتھا، اسے Cardinal Leopoldo de Medici سے مُعَنوَن کیا گیا تھا۔ یہ نسخہ Abrahamo Ecchellensisنے نقل کیا تھا۔ یہ Ecchellensis دراصل لبنان کا ابراہیم الحقلانی(1605-1665) تھا، جو روم میں اپنے بھتیجے Giovanni Mattrei Naironiکے ساتھ مقیم تھا۔ Ecchellensis سریانی اور عربی زبان کا معلم تھا۔ پہلے پیرس اور پھر روم میں تدریس کی ذمے داری نبھائی۔ اس نے Conics of Apolloniusکی عربی شرح سے لاطینی ترجمہ میں Giovanni Alfonso Borelliکی معاونت بھی کی تھی۔
دو دیگر نسخے ہیں، جن میں ایک361 پر Gerolamo Vaccheittiکے دستخط موجود ہیں،اور دوسرے 450 پرMonsignor Pat.caکے دستخط ثبت ہیں۔ یہ دونوں علم الحساب سے متعلق ہیں۔ یہ سارے قلمی نسخے اس بات کا ثبوت ہیں، کہ اطالوی علماء عربی کتابیں اٹلی منتقل کررہے تھے۔
(جاری ہے)